روئی کے مانند گرتی برف سڑک کے دونوں اطراف لگے لیمپ پوسٹ کی روشنی کو قدرے دھندلا کر رہی تھی۔محکمہ موسمیات کی پیش گوئی نے لوگوں کو قبل از وقت گھروں میں بند ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔جو اکا دکا لوگ سڑک پر دکھائی دے رہے تھے انہیں بھی اپنی قیام گاہ میں پہنچنے کی جلدی تھی ۔
سردی جیسے ہڈیوں میں گھسی جا رہی تھی ۔مگر اس سردی سے بے نیاز وہ چار لڑکے خوش گپیاں کرتے ہوئے چہل قدمی کے انداز میں چل رہے تھے ۔انکے ہاتھ میں بئیر کے کین تھے جس سے وہ وقفے وقفے سے گھونٹ بھر رہے تھے۔یکدم ان میں سے ایک لڑکے کے جوتے کے فیتے اسکے پیر سے دبے اور وہ لڑکھڑایا۔
“ایلن! تم ٹھیک ہو؟” جیک نے رکتے ہوئے کہا۔
“تم لوگ آگے بڑھو۔میں آ رہا ہوں۔” وہ فٹ پاتھ پر بیٹھتا بولا۔
وہ تینوں آگے بڑھ گئے ۔اسی وقت ڈیوڈ کی نظر مخالف سمت سے آتی ایک لڑکی پر پڑی تھی۔اپنا سر جھکائے مدھم قدموں سے چلتی اپنے اوور کوٹ کی جیب میں ایک ہاتھ ڈالے اور دوسرے ہاتھ میں ایک شاپر پکڑے وہ انکی ہی جانب آ رہی تھی ۔
وہ تینوں رک گئے ۔انکے رکنے کا باعث اسکا لڑکی ہونا نہیں تھا بلکہ اسکی گندمی رنگت اور سیاہ آنکھوں نے انہیں رکنے پر مجبور کر دیا تھا۔اور اس سے بھی زیادہ جس چیز نے انہیں اسکی جانب متوجہ کیا تھا وہ اسکے سر پر لگایا گیا اسکارف تھا۔
“ہیلو بیوٹی!” وہ کترا کر نکلنا چاہتی تھی مگر انہوں نے اسکی راہ مسدود کر دی۔
بین نے اپنا سگریٹ سلگا کر اسکا دھواں بالکل اسکے منہ پر چھوڑا تھا۔
“یہ کیا بد تمیزی ہے۔” وہ کھانسی۔
“واقعی؟ یہ تمہیں بد تمیزی لگ رہی ہے ۔” وہ بے ہنگم طریقے سے ہنسے۔
“میرے راستے سے ہٹو۔”اسنے غصے سے کہا ۔
“اوہ! اب تمہیں غصہ آ رہا ہے ۔چلو ہم تمہیں جانے دیتے ہیں ۔مگر اس سے پہلے اپنے سر سے یہ اسکارف ہٹاؤ۔” جیک نے یہ کہتے ہوئے اسکے حجاب کی جانب اپنا ہاتھ بڑھایا۔
مگر اس سے پہلے کہ وہ اسکے اسکارف کو چھو پاتا اسکا ہاتھ تیزی سے گھوما تھا اور جیک کی آنکھوں کے سامنے صحیح معنوں میں تارے ناچ گئے۔یہ دیکھ کر ڈیوڈ طیش کی حالت میں اسکی جانب بڑھا۔
” خبردار آگے مت بڑھنا۔میری جیب میں پسٹل ہے اور میرا نشانہ بھی برا نہیں ہے۔” اس لڑکی نے اپنا ہاتھ اپنی جیب میں ڈالا تھا اور انہیں جیب کے اندر سے ابھری ہوئی پسٹل کی نوک صاف نظر آ رہی تھی ۔
“شش ہاتھ اوپر!” اسنے انہیں للکارا۔
انکی ساری بہادری اور اکڑ ہوا ہو چکی تھی۔انہوں نے اپنے ہاتھ کھڑے کر لئے۔
” جیک، بین، ڈیوڈ کیا ہو رہا ہے وہاں؟” ایلن اس صورتحال کو حیرانی سے دیکھتا انکی طرف آ رہا تھا ۔
“ایلن! اپنے ہاتھ اوپر کر لو۔اس لڑکی کے پاس گن ہے۔” جیک نے سرگوشی کرنے والے انداز میں کہا ۔
“واقعی! میں نے کبھی گن نہیں دیکھی ہے۔کیا میں دیکھ سکتا ہوں؟” اسکے لہجے میں خوف کا کوئی عنصر نہیں تھا۔وہ اسکی طرف دلچسپی سے دیکھتا آگے بڑھا۔
“اپنی جگہ سے مت ہلو۔میں شوٹ کر دونگی۔”اسنے اپنے لہجے میں مضبوطی پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ۔
“کم آن شوٹ کرو۔میں نے کبھی لائیو شوٹ آؤٹ بھی نہیں دیکھا ۔”وہ مسکراتا اسکی جانب بڑھ رہا تھا ۔
اُس لڑکی کے قدم آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنے لگے۔
“ایلن کیا کر رہے ہو؟” جیک نے اسے باز رکھنا چاہا۔
یکدم وہ تیزی سے آگے بڑھا اور اس لڑکی کا بازو اپنی گرفت میں لے لیا ۔
“چلو اب شوٹ کرو۔اتنے قریب سے نشانہ تو اور بہتر لگیگا۔”
وہ خاموشی سے لب بھینچے اسکی طرف دیکھ رہی تھی۔ ایلن نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اسکی جیب میں ہاتھ ڈالا اور فیس واش ٹیوب باہر نکال کر اپنے دوستوں کی جانب پھینکا۔
“یہ ہے وہ گن!”
ہونقوں کی طرح اپنا منہ کھولے انہیں اپنے ہاتھ گرانے کا بھی خیال نہیں آیا ۔انکے لئے جیسے یہ یقین کرنا مشکل تھا کہ وہ ایک لڑکی کے ہاتھوں بیوقوف بن چکے تھے ۔
“ڈفرز اپنے ہاتھ تو نیچے کرو۔” وہ انکی جانب مڑتا ہوا بولا۔
اسنے بس لمحے کو گردن موڑی تھی اور اس موقع کو غنیمت جان کر لڑکی نے پوری قوت سے اپنا ہاتھ اسے تھپڑ مارنے کے لئے گھمایا۔وہ برق رفتاری سے پیچھے ہٹا اور اسکی کلائی اپنی سخت گرفت میں لے لی۔
وہ چند لمحے اپنی کلائی چھڑانے کی ناکام کوشش کرتی رہی تھی۔پھر اسنے اپنے دوسرے ہاتھ میں پکڑا شاپر چھوڑا اور دوسرا ہاتھ بھی اسکی جانب چلایا تھا۔مگر ایلن نے اس دفعہ بھی اسکا وار ناکام کر دیا ۔اب وہ اسکے دونوں ہاتھ کلائیوں سے پکڑے اسکی سیاہ آنکھوں میں جھانک رہا تھا ۔
“بہت بہادر ہو تم۔” اسنے ستائشی انداز میں کہا ۔
“ایلن اسے جانے مت دینا۔اس نے اتنی آسانی سے ہمیں بیوقوف بنا دیا ۔اب میں اسے اچھا سبق سکھانا چاہتا ہوں ۔” ڈیوڈ اور جیک آگے بڑھے تھے۔
“خبردار آگے مت آنا۔” اسنے مڑے بغیر سخت لہجے میں کہا ۔
“مگر ایلن! اسنے مجھ پر ہاتھ بھی اٹھایا تھا۔” جیک نے کہا۔
“تم اسی قابل تھے۔اسکے ہاتھوں بیوقوف بنتے وقت تو تم لوگوں کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں ۔اور اب اسے بے بس دیکھ کر اس پر زور آزمائی کرنا چاہتے ہو۔”اسنے تلخ لہجے میں کہا ۔
ان تینوں نے شرمندگی سے اپنا سر جھکا دیا ۔
” پلیز! تمہیں خدا کا واسطہ مجھے جانے دو۔”زنیرہ نے اس سے منت کی تھی۔
ایلن ہنوز اسکی کلائیوں کو پکڑا ہوا تھا ۔وہ اپنی نیلی آنکھیں اس پر جمائے مسکرایا۔
” جس غیر مرئی مخلوق کا تم نے مجھے واسطہ دیا ہے ۔اس پر تو میں یقین ہی نہیں کرتا۔کوئی دوسری وجہ بتاؤ تاکہ میں تمہیں جانے دوں ۔”
اسکی سیاہ آنکھوں میں اضطراب تھا۔لبوں کو بار بار کچلتی وہ بہت پریشان لگ رہی تھی ۔مگر جانے کیوں ایلن چاہتا تھا کہ وہ تھوڑی دیر اور اسی طرح اسے روکے رکھے ۔
“میرا بیٹا بیمار ہے ۔وہ رو رہا ہوگا۔مجھے اسکے پاس جلدی پہنچ کر اسے دوا دینی ہے ۔اسلئے پلیز مجھے جانے دو ۔” وہ بہت ضبط سے کہہ رہی تھی۔
ایلن کے ہاتھ اسکی کلائیوں سے ہٹ گئے۔اسنے جھک کر دوا کا شاپر اٹھایا اور اسے پکڑا دیا۔
“شکریہ۔” وہ شاپر پکڑتی ہوئی بولی۔
“” یو آر آلویز ویلکم! “وہ کہتا ہوا مڑ گیا تھا ۔
_________
برفباری شروع ہو چکی تھی۔ وہ تیزی سے چلتی اپنے اپارٹمنٹ میں داخل ہوئی۔پارکنگ ایریا میں جبران کی کار کھڑی نہ دیکھ کر اسے اسکی فکر ہوئی ۔موبائل پر جبران کا نمبر ڈائل کرتی وہ لفٹ کے اندر داخل ہوئی اور ‘3’ کے ہندسے پر انگلی رکھ دی۔جبران کا نمبر سوئچ آف جا رہا تھا ۔اسکے چہرے پر پریشانی نظر آنے لگی۔احنف دوبارہ بیمار تھا۔اسکے لئے دوا لینے کے لئے نکلنے سے پہلے اس نے جبران کو کال کی تھی ۔اس نے کہا تھا کہ وہ کھانا گھر پر ہی کھائیگا۔اور اب موسم بہت خراب ہو گیا تھا اور وہ اب تک نہیں آیا تھا ۔
لفٹ تیسری منزل پر پہنچ گئی۔وہ پہلے اپنے پڑوس کے فلیٹ میں گئی ۔وہاں ایک آسٹریلین فیملی رہتی تھی جنکے پاس وہ احنف کو چھوڑ کر باہر نکلی تھی۔احنف کو اپنی گود میں لیتے ہوئے اس نے انکا شکریہ ادا کیا اور اپنے فلیٹ میں آ گئی۔
مسلسل روتے ہوئے احنف کو بازوؤں میں لے کر ٹہلتے، اسے تھپکتے ہوئے اسکی نظریں بار بار گھڑی کی طرف اٹھ رہی تھیں ۔برفیلا طوفان پورے زور و شور سے جاری تھا ۔ہر دس منٹ کے بعد وہ جبران کا نمبر ملاتی پھر جواب نہ ملنے پر تھک کر موبائل رکھ دیتی ۔
احنف کا جسم بری طرح تپ رہا تھا ۔دوا سے بھی کوئی خاص افاقہ نہیں ہوا تھا ۔اب اسے احنف کی بھی فکر ہونے لگی۔اسنے اب رونا بھی بند کر دیا تھا۔اسکی گہری گہری سانسیں تیزی سے چل رہی تھیں ۔اسنے اپنا موبائل اٹھایا۔اسے ڈاکٹر کو کال کرنی تھی۔مگر طوفان نے موبائل کا نیٹ ورک ٹھپ کر دیا تھا۔زنیرہ کے چہرے پر وحشت چھانے لگی۔وہ پے در پے کبھی ایمبولینس کو کال لگاتی جب اس سے تھک جاتی تو وہ جبران کا نمبر ملانے لگتی۔احنف کی پیشانی چومتی، بے قراری سے ٹہلتی ہوئی وہ موبائل پر بد حواسی کی حالت میں ان دو نمبروں کے ملانے کے علاوہ کچھ نہیں کر رہی تھی۔لبوں پر دعاؤں کا ورد کر کے احنف پر پھونک مارتے اسے کچھ اور سوجھ ہی نہیں رہا تھا ۔کمرے میں ہیٹنگ سسٹم موجود ہونے کے باوجود اسے اپنے ہاتھ پیر برف کے بنے محسوس ہو رہے تھے ۔
ٹہلتے ہوئے جب اسکے پیر شل ہو گئے تو وہ فرش پر ہی بیٹھ گئی ۔احنف کا چہرہ پھیکا پڑتا جا رہا تھا ۔وہ اسے اپنی گود میں لئے اسے بے بسی سے تک رہی تھی۔آٹھ ماہ کا معصوم احنف بے سدھ ہو چکا تھا ۔”یا اللہ میری زندگی کی واحد خوشی مجھ سے دور نہ کر۔تو جانتا ہے کہ احنف کے بغیر زنیرہ مر جائیگی۔اگر میں نے اپنی زندگی میں کوئی بھی نیکی کی ہے تو اسکے عوض مجھے میرا بیٹا دے دے۔” اسکے سر کو سہلاتے ہوئے، اسکے چہرے کو چومتے ہوئے زنیرہ کے لبوں پر اسکے علاوہ کوئی دوسری دعا نہیں تھی۔
تھوڑی دیر کے بعد اسے احنف بے حد پر سکون نظر آنے لگا تھا ۔یوں جیسے اسے کوئی تکلیف نہ ہو، کوئی درد، کوئی اذیت نہ ہو ۔بے حد پر سکون اور مطمئن ۔اسنے جھک کر اسکے لبوں کو نرمی سے چھوا۔باہر طوفان کا زور اب کم ہو چکا تھا ۔
اسنے گھڑی دیکھی۔فجر کا وقت ہو گیا تھا اسلئے احنف کو کاٹ میں لٹا کر اسنے نماز کی نیت باندھ لی۔نماز اسنے پورے اطمینان سے ادا کی۔
پھر ایمبولینس منگوانے کی کال کرنے کے بعد اوور کوٹ پہن کر سر پر اسکارف لپیٹتی وہ کاٹ کے قریب آئی۔وہ اب بھی بیحد سکون سے سو رہا تھا ۔یوں لگ رہا تھا جیسے وہ سوتے میں مسکرا بھی رہا ہو۔ایک ممتا بھری مسکراہٹ اسکے چہرے پر بھی آئی۔اسنے جھک کر اسے اٹھایا ۔اور اسے اٹھاتے ہوئے یہی محسوس ہوا کہ اس نے اپنے ہاتھ میں بے جان گوشت کے لوتھڑے کو اٹھایا ہوا ہے ۔اسکا نرم جسم بے حد سرد اور یخ تھا۔زنیرہ کے چہرے کی مسکراہٹ سمٹی۔اسنے اپنی کپکپاتی انگلیاں احنف کی گردن پر رکھیں ۔زندگی کی کوئی ہلچل، امید کی کوئی رمق باقی نہیں رہی تھی ۔زنیرہ نے اپنی سانسیں بھی اٹکتی محسوس کیں۔اپنا کان اسکے سینے کے قریب کر کے اسنے اسکی دھڑکن محسوس کرنا چاہی۔مگر وہ بھی معدوم ہو چکی تھی ۔اسکے بے جان وجود کو اپنی گود میں لئے وہ بھی ساکت ہو گئی تھی ۔کیا اسکی ساری دعائیں اکارت ہو گئیں؟ اسکے لبوں میں لرزش ہوئی اور اسکا سکتہ ٹوٹا تھا۔وہ فرش پر بیٹھتی چلی گئی ۔گرم گرم آنسوؤں کے قطرے احنف کے سرد وجود پر گرتے رہے۔اپنے بازوؤں میں اسے بھینچے ہوئے اپنے سینے سے لگائے اسکے لب آہستہ آہستہ ہل رہے تھے ۔”یا اللہ میں راضی ہوں ۔۔۔یا اللہ میں راضی ہوں۔۔۔” کسی تسبیح کی طرح ان الفاظ کا ورد کرتے وہ بے آواز رو رہی تھی ۔
“بے شک دل غمگین ہے اور آنکھ آنسو بہاتی ہے مگر ہم زبان سے وہی الفاظ کہینگے جو اللہ کو منظور ہیں۔”
________
یونیورسٹی کیمپس میں وہ گھاس پر اپنے ہاتھوں میں گٹار لئے بیٹھا تھا۔اسکے سامنے کاغذ پر ایک گانا لکھا ہوا تھا ۔گٹار کے تاروں کو چھیڑتا وہ اُس پر دھن بنا رہا تھا ۔یونیورسٹی میں ہونے کی وجہ سے وہ قدرے غنیمت حلیے میں تھا۔شرٹ اور جینز پر جیکٹ پہنے اسنے اپنے سرخ ڈائی کئے بالوں کو سلیقے سے جیل کی مدد جمایا ہوا تھا ۔
جب وہ وہاں آ کر بیٹھا تو اس وقت تنہا تھا اور اس تنہائی کے لئے ہی اسنے خالی گوشے کا انتخاب کیا تھا۔مگر رفتہ رفتہ تنہائی سمٹنے لگی اور اسکے آس پاس اچھی خاصی تعداد میں اسٹوڈنٹس جمع ہو گئے تھے ۔اور بھیڑ آخر کیوں نا ہوتی وہ یونیورسٹی کا اسٹار تھا اور یہ ممکن نہیں تھا کہ اسکے ہاتھ میں گٹار ہوتا اور تالیاں بجانے کے لئے ہجوم اسکے گرد نہ ہوتا۔اپنے نئے گانے You are my whole life کی دھن پر اسکی انگلیاں برق رفتاری سے گٹار کے تاروں پر دوڑ رہی تھیں ۔اس دوران وہ کئی بار اپنی دھن پر اٹکتا، یا کسی لائن پر ٹھہرتا، غلط ٹیون کی تصیح کرتا رہا تھا۔مگر اسکے گرد موجود لڑکے اور لڑکیوں کو اس بات کا احساس بھی نہیں تھا۔وہ اسکی غلطیوں پر بھی تالی بجاتے اسکی حوصلہ افزائی کرتے رہے تھے۔
اختتامی لائن Stay by my side پر اسنے گٹار پر بیحد اونچی اسٹرائک لگائی اور کاغد کو تہہ کر کے اپنی جیب میں ڈالتے ہوئے اسنے بجنے والی تالیوں کا شکریہ ادا کیا۔
“ایلن! مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ تمہارا یہ نیا گانا کسی کے لئے مخصوص ہے ۔” بین نے اسکے پاس بیٹھتے ہوئے کہا ۔
“ہاں اسکے لئے جو میری زندگی میں بہت خاص ہے۔” اسنے ایک دلکش مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
سب کی نظریں غیر اختیاری طور پر روژا پارک کی طرف اٹھ گئیں تھیں ۔روژا نے ایک ادا کے ساتھ اپنے بالوں کو جھٹکا دیا جیسے کہہ رہی ہو کہ ایلن ہنری کی زندگی میں وہی تو خاص ہے۔
“نہیں دوستو! روژا کے لئے یہ بالکل نہیں ہے ۔”اسنے گویا سب کا تجسس بھڑکا دیا۔
“کہیں وہ اس گن والی لڑکی کے لئے تو نہیں ہے ۔” جیک کو شک ہوا۔
ایک معنی خیز اوہو فضا میں گونجی تھی۔
“کم آن! ایلن کی موسیقی اتنی سستی نہیں ہے کہ کسی بھی لڑکی کے لئے وہ آواز بن جائے ۔”اسنے ہاتھ ہلا کر ناگواری ظاہر کی ۔
” تو پھر کس کے لیے ہے؟” ان کا تجسس اور بڑھا۔
” اندازے لگاتے رہے تم لوگ۔مجھے کلاس میں جانا ہے ۔” اپنے گٹار کو پشت پر لٹکاتا وہ کھڑا ہو گیا ۔
_______
وہ بالکونی میں بچھے میٹرس پر گھٹنوں میں سر دئیے بیٹھی تھی ۔سرد ہوا اسکے جسم سے ٹکرا کر لوٹ رہی تھی ۔اسے وہاں بیٹھے دو گھنٹے گزر گئے تھے۔مگر اسے اپنے سن ہوتے ہاتھ پیروں کا کوئی احساس نہیں تھا۔
کسی نے اسکے ساتھ بیٹھتے ہوئے اسکے گرد شال لپیٹی اور نرمی سے اسے خود سے لگایا۔
“زنیرہ! اب اندر چلو۔تمہیں ٹھنڈ لگ جائیگی۔” جبران اپنی عادت کے خلاف احنف کی موت کے بعد اس کے لیے بہت نرم ہو گیا تھا ۔
اسنے اپنا بھیگا چہرہ اٹھایا اور اسکی طرف دیکھا۔
“میں کمرے میں جاتی ہوں تو مجھے ہر طرف احنف کا چہرہ نظر آتا ہے ۔اسکے رونے کی آواز میرے کان میں کانچ کی طرح چبھتی ہے۔مجھے لگتا ہے کہ میں پاگل ہو جاؤنگی ۔” وہ بہت بے بسی سے کہہ رہی تھی ۔
“اوکے تم سٹنگ روم میں چلی جانا۔لیکن خدا کے لئے یہاں سے اٹھ جاؤ۔” اسنے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھانے کی کوشش کی ۔
وہ خاموشی سے اٹھ گئی تھی ۔
” زنیرہ تم کب تک اس حالت میں رہنا چاہتی ہو۔مرنے والوں کے ساتھ زندہ لوگ قبروں میں نہیں اترتے۔انہیں تو جینا ہوتا ہے ۔اپنی زندگی معمول کے مطابق گزارنی ہوتی ہے ۔تمہیں بھی اب اپنی روٹین شروع کرنی چاہئے ۔گھر کے کاموں میں دھیان دو۔اس طرح تمہارا دل بھی بہلا رہیگا اور کب تک مسز جان ہمارے لئے کھانا پکاتی رہینگی ۔ہاں۔۔۔”اسے اندر لے جاتا وہ اسے دھیرے دھیرے سمجھا رہا تھا ۔
___________
اسنے کھڑکی کھول کر نیچے سڑک پر جھانکا۔کیٹ اور ہنری کو دو الگ الگ ٹیکسیوں سے اترتا دیکھ کر اسکا ماتھا ٹھنکا۔مگر پھر اپنے خیال کو جھٹک کر اس نے اسپارک کو گود میں اٹھا لیا ۔وہ اب تیز رفتاری سے سیڑھیاں اتر رہا تھا ۔
نیچے باہری کمرے میں پہنچ کر اس نے آخری تنقیدی نظروں سے کمرے کا جائزہ لیا ۔دیواروں پر سجی پھولوں کی لڑیاں، چھت پر لگی تیز لائٹس، مرکزی میز پر رکھا دو منزلہ کیک، غرض ہر چیز کامل تھی۔گٹار گلے میں لٹکاتے ہوئے اسنے ساری روشنیاں بجھا دیں ۔اور سرگوشی میں الٹی گنتی شروع کر دی ۔فائیو۔۔۔فور۔۔۔تھری۔۔ٹو۔۔۔ون کے ساتھ دروازہ کھلا تھا۔کیٹ نے اندر داخل ہوتے ہوئے اسے آوازیں دیں ۔زیرِ لب مسکراتے ہوئے اسنے لائٹ آن کی۔کمرا روشنی میں نہا گیا تھا ۔
“ویلکم! مسٹر اینڈ مسز ہنری!” اپنا ایک ہاتھ سینے پر رکھتا وہ تھوڑا سا جھکا۔پھر سیٹی بجا کر اسنے اسپارک کو اشارہ کیا ۔اسکا اشارہ ملتے ہی اسنے اپنے پنجوں سے ایک ڈور کھینچی۔ڈور کھینچتے ہی کیٹ اور ہنری کے اوپر رنگ برنگی چمکیلی ربنز اور اسپارکلز گرنے لگے تھے۔وہ دونوں حیرت سے کھڑے ایلن کو دیکھ رہے تھے ۔انکی حیرانی کی وجہ یہ جشن نہیں تھا۔وہ ہر سال یونہی اپنے والدین کی اینیورسری پورے جوش و جذبہ سے مناتا تھا۔مگر اس سال بہت کچھ بدل گیا تھا ۔یہ انکی غلطی تھی کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو ہر چیز سے لا علم رکھا تھا۔
اسنے گٹار پر دھن چھیڑی۔ You are my whole life اور دھیمی آواز میں گنگنایا۔ہلکے سروں میں گاتا وہ ان دونوں کے قریب آیا۔اپنے دونوں بازوؤں کے حلقے میں انہیں لئے وہ اب قدرے بلند سروں میں گا رہا تھا ۔اسکے گرد اچھلتا کودتا اسپارک اسکا بھر پور ساتھ نبھا رہا تھا۔وہ اسی طرح انہیں لئے سینٹر ٹیبل تک لایا۔اختتامی دھن بجا کر اسنے آخری سطر Please stay by my side گائی اور ان دونوں کے گالوں پر بیحد نرمی سے بوسہ دیا۔
“اوکے مام! اس بار کیک کاٹنے کی باری آپکی ہے۔” اسنے چھری کیٹ کی طرف بڑھائی۔میز پر دونوں ہاتھ رکھے کیٹ نے چھری نہیں پکڑی۔
“کم آن مسز ہنری! ہر بار تو ڈیڈ کیک کاٹتے ہی ہیں ۔” اسنے اسکے ہاتھ میں زبردستی چھری پکڑائی۔
“ایلن! بس کرو۔اب اس کیک کو کاٹنے کی ضرورت اور وجہ ختم ہو گئی ہے ۔”چھری میز پر پھینکنے کے انداز میں رکھتے ہوئے اس نے تیز لہجے میں کہا۔
اسنے نا سمجھنے والے انداز میں اسے دیکھا۔ان دونوں کے تاثرات بہت مبہم تھے۔
” مام! ڈیڈ! کیا کچھ ایسا ہے جو میں نہیں جانتا۔”
“میں نے تمہیں کہا تھا ہنری۔اسے بتادو مگر تم نے نہیں بتایا۔”وہ غصے سے کہہ رہی تھی ۔
“پلیز کوئی مجھے بتائیگا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے ۔” اسنے کہا ۔وہ اپنے والدین کے درمیان کی سرد مہری محسوس کر چکا تھا ۔
“تمہاری مام مجھ سے طلاق لے کر جا رہی ہے ۔کیونکہ اسے مجھ سے بہتر کوئی مل گیا ہے ۔”ہنری نے اپنے سینے پر بازو باندھے تلخی سے کہا۔
ایلن کی نیلی آنکھوں میں اچنبھا اترا۔حالانکہ امریکی معاشرے کے لحاظ سے کیٹ کا طلاق لینا کوئی معیوب بات نہیں تھی۔مگر اسے تکلیف ہوئی تھی ۔اسے اپنی ماں سے جتنی جذباتی وابستگی تھی تو اسے تکلیف تو ہونی تھی۔
” ڈیڈ مذاق کر رہے ہیں نا۔آپ مجھے چھوڑ کر تو نہیں جانے والی ہیں نا مام۔” اسکے لبوں میں لرزش ہوئی۔کیٹ نے اسکے چہرے کو دونوں ہاتھوں سے تھام کر اسکی پیشانی چومی۔
“ایلن! جوزف بہت اچھا انسان ہے۔اسکے اندر مجھے وہ کشش نظر آتی ہے جو تمہارے ڈیڈ کے اندر مجھے تئیس سالوں میں بھی نظر نہیں آئی۔”وہ اپنے اکیس سالہ بیٹے سے اپنے جذبات بیان کر رہی تھی۔
اسنے اپنے رخسار پر رکھے اسکے دائیں ہاتھ کو دونوں ہاتھوں سے تھاما۔نیلی آنکھوں میں بے اختیار ہی ڈھیروں پانی جمع ہونا شروع ہو گیا تھا ۔
” مام! ٹھیک ہے ۔۔۔آپ کو ڈیڈ سے زیادہ جوزف پسند ہے ۔کوئی بات نہیں ۔۔”وہ رکا۔ہتھیلی کی پشت سے آنکھیں رگڑ کر آنسو روکنے کی کوشش کی ۔”مگر ان سب میں میری کیا جگہ ہے؟ میں کہاں ہوں مام؟ اپنے بیٹے کو آپ نے کہاں کھڑا کیا ہے؟” وہ آنسوؤں سے گھلی آواز میں کہہ رہا تھا ۔نیلی آنکھیں جیسے پانی سے بھری جھیل بن گئیں تھیں ۔
” ایلن! تم اب بڑے ہو چکے ہو۔تمہیں میرے بغیر رہنے کی عادت ہونی چاہئے ۔اور میں تم سے کبھی کبھی ملنے کے لیے آتی رہونگی ۔”اسنے اس سے اپنا ہاتھ چھڑایا۔
” مام!پلیز!”اسنے جیسے منت کی ۔
“ایلن بچے مت بنو۔” وہ اپنے کمرے کی طرف جا رہی تھی ۔
وہ اسکے پیچھے لپکا۔کمرے تک آکر اسنے دروازہ اندر سے بند کر لیا تھا۔وہ باہر کھڑا دروازے پر پاگلوں کی طرح دستک دینے لگا۔
دونوں ہاتھوں سے دروازہ تھپتھپاتے ہوئے، بہتی آنکھوں کے ساتھ وہ ہر قیمت پر اسے روکنا چاہتا تھا ۔
تھوڑی دیر بعد دروازہ کھلا اور کیٹ دو سوٹ کیس لئے ہوئے باہر آئی ۔اسکے ساتھ ساتھ چلتا اسے نا جانے کے لئے کہتا وہ بے بسی کی انتہاؤں پر تھا۔اس وقت وہ کہیں سے اکیس سال کا لڑکا نہیں لگ رہا تھا ۔اس میں ایک چھوٹے بچے کا عکس نظر آ رہا تھا جو اپنی ماں کے دور جانے کے محض خیال سے ہی خوفزدہ ہو جاتا ہے ۔
وہ اسے اسی طرح روتا چھوڑ کر چلی گئی تھی ۔وہ گٹار گلے سے اتارتا فرش پر بیٹھ گیا ۔
“ایلن! اس خود غرض عورت کو جانے دو۔میں ہوں نا تمہارے ساتھ ۔” ہنری نے اسکے پاس بیٹھتے ہوئے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھے کہا ۔
“مجھے اکیلا چھوڑ دیں ۔آپ کی وجہ سے وہ مجھے تنہا چھوڑ کر گئی ہیں ۔” اسنے سختی سے اسکے ہاتھ کو اپنے کندھے سے جھٹکا۔
اسپارک اسکی گود میں چڑھا محبت سے اسکے چہرے پر اپنی ناک رگڑ رہا تھا ۔اسے اپنے بازوؤں میں جکڑ کر اسنے اسکے گھنے بالوں میں اپنا چہرہ چھپا لیا تھا۔
_________
بنگال کا لہو جو پنجاب کے دفاع میں گرا بیدیاں کے شہید
بہت لوگ نہیں جانتے کہ لاہور چھاوٴنی میں جو گنجِ شہیداں ہے، اس کی لہو پلا کر سینچی زمینوں میں...