شاہ بخت اس وقت آفس میں بیٹھا تھا۔اس کا ایک پرانا دوست اس سے ملنے کے لیئے آیا۔
“ارے احمر کیسے ہو تم۔”
“میں بلکل ٹھیک تم سنائو کیسی چل رہی ہے شادی شدہ زندگی۔”
“بہت اچھی۔بس تمہاری بھابھی بہت اچھی ہیں۔تم تو جانتے ہو تمہاری بھابھی کو پانے کے لیئے کتنا کچھ کرنا پڑا مجھے۔”
“مگر جہاں تک میں جانتا ہوں تم لوگوں کے خاندان میں تو شادیاں باہر نہیں ہوتی نہ اور بھابھی کے لیئے تمہارا ہی رشتہ سوٹ کرتا تھا پھر کیوں مشکل ہوئی تمہیں ۔”
“یار ہمارے خاندان میں وٹے سٹے کی شادی ہوتی ہے۔بڑی بہن کا بھی وٹہ سٹا ہی ہوا ہے۔ اس کی نند جو ہے وہ میری پھوپھو کے بیٹے کی بیوی ہے۔میری پھوپھو کا ایک اور بھی بیٹا ہے سب کہتے تھے کہ پھوپھو کی بیٹی سے میری شادی ہوگی اور اس کے بھائی سے آیت کی کیونکہ آیت کا شوہر اس سے چھ سال چھوٹا ہے۔وہ تو شکر ہے مہر نے گھر میں سب کو بہت زیادہ فورس لیا۔مہر نے یہاں تک کہا دیا تھا کہ وہ کچھ کر لیے گی اپنے آپ کو اگر میرے ساتھ شادی نہ ہوئی تو۔مجبورا بابا جانی کو عزت کی خاطر اس کی بات مانی پڑی ۔ولید بھی پھر مان ہی گیا۔”
“یہ تو غلط ہے نہ ہار تمہاری بہن کوئی بیل بکری تو نہیں تھی نہ۔تم نے اور مہر نے اپنی محبت کے لیئے آیت کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔کل کو اس کا شوہر کسی اور میں انٹرسٹ لیتا ہے تو۔”
“یار ایسی کوئی بات نہیں بہت اور سب سے اچھی چیز اس نے میری بہن کو خان بیگم بنایاہے۔ وہ ساری عمر اس کے بغیر کسی سے شادی نہیں کرے گا ۔”
“مگر وہ مرد ہے اگر گھر کے باہر کسی سے چکر چلا لیا تو۔”
“ایسا کچھ نہیں ہوگا ۔”
“خیر جو بھی ہے تم نے اپنی بہن کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔تم نے خود غرض دیکھائی ہے اور جو رشتے کسی کی خوشی کو ختم کر کے بنائیں جائیں وہ زیادہ چلتے نہیں ہیں ۔”
“احمر تم میرے دوست ہو یا کسی اور کے۔میں سب باتیں جانتا ہوں اور مجھے یہ بھی بھی پتا ہے میری بیوی مجھ سے بے انتہا محبت کرتی ہے۔مجھے اس بات کا بھی یقین ہے کہ مستقبل ہمارے لئے بہت اچھا ہوگا ۔تم سب باتوں کو چھوڑو میں تمہارے لئے کچھ کھانے کو مانگواتا ہوں بلکہ باہر چلتے ہیں کچھ کھائیں گے واپسی پر مجھے مہر کو اس کے اسپتال سے بھی پک کرنا ہے۔”
شاہ بخت شروع سے ہی بے حس تھا اور آج تو اس نے ظاہر کردیا تھا کہ یہ واقع ہی خود غرض ہے انسان کو جب محبت ہو جاتی ہے تو وہ کسی دوسرے کے بارے میں نہیں سوچتا۔ یہی محبت بعد میں جاکر اس کو برباد کر دیتی ہے اور جب وہ واپس اپنے دل کے کسی کونے میں اپنوں کو ڈھونڈتا ہے تو وہ اسے سوائے بنجر زمین کے کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔
____________________
ولید اور آیت مری گھومنے باہر آئے ہوئے تھے ۔آیت کا رویہ ولید سے بہت ٹھنڈا سا تھا۔یہ۔ولید کو ضرورت کے بغیر مخاطب ہی نہیں کرتی تھی اور ولید کا رویہ بھی کچھ مختلف نہیں تھا۔ایسا لگتا تھا وقت کے دو مسافر ہیں جو ایک ہی راہ میں چل رہےہیں ۔دونوں کی منزل ایک ہے مگر شاید دونوں نے اپنے راستے الگ کر لیئے ہیں ۔مال روڈ پر بہت رش تھا۔یہاں گاڑی آگے نہیں جاسکتی تھی اس لیئے ولید اور آیت دونوں گاڑی سے اتر گئے۔مال روڈ پر اس وقت بہت سے لوگ تھے۔آیت نے نیلے رنگ کی چادر سے خود کو چھپا رکھا تھا مگر پھر بھی نجانے کیوں اتنے لوگوں کا رش دیکھ کر ولید آیت کے پاس آیا اور اس کو اپنے ساتھ لگا لیا۔
“کیا ہو خان۔”
“مجھے تمہارا وہاں باہر آنا پسند نہیں آیا ۔دیکھو تو کتنے لوگ تمہیں دیکھ رہے ہیں ۔”
“ایسا کچھ نہیں ہے خان ۔لوگوں کی فطرت ہے یہ ایسے ہی دیکھتے ہیں ۔”
کوئی لڑکا جو دور کھڑا تھا اس کے ساتھ اس کے دوست بھی تھے وہ آیت اور ولید کو ساتھ دیکھ کر ہنسنے لگ گیا۔
“یار لگتا ہے دونوں کہیں سے ڈیٹ مارنے آئے ہیں ۔آج کل زمانہ بھی تو یہی ہے نہ ۔ اگر یہ پیش پسند نہ آئے تو ہم ہیں یہاں تم ہمارے ساتھ بھی آسکتی ہو۔”
ولید کے کان میں ان کی یہ گفتگو پڑی تو اس کا چہرہ غصے سے لال ہوگیا۔
“پلیز خان کچھ مت کرنا۔اس وقت ہم روڈ پر ہیں ۔سب ہماری طرف دیکھنے لگ جائیں گے۔”
“چلو واپس۔”
ولید کچھ کہے سنے بغیر آیت کو لیئے واپس گاڑی میں آیا ۔گاڑی کے سٹیرنگ پر ہاتھ رکھ کر ولید نے اپنا غصہ کم کرنا چاہا مگر اس کی آنکھیں لال ہوگئی تھی۔اگر اس بات پر یہ ان لڑکوں سے الجھ پڑتا تو یہ اکیلا نہیں تھا ساتھ میں آیت تھی اور یہ کسی بھی قسم کا رسک نہیں لینا چاہتا تھا۔آیت کو ولید کی آنکھوں سے خوف آرہا تھا۔
“خان میری بات۔۔۔۔۔۔۔”
“چپ بلکل چپ۔آج تم میرے ساتھ نہ ہوتی تو نجانے میں ان سب کا کیا حشر کرتا۔”
“خان ایسے لوگ تو ہر جگہ موجود ہوتے ہیں نہ۔”
“آیت مجھے نہیں پسند کہ تم میری باتوں کو کاٹو۔تم جانتی ہو میں ان کا حشر ابھی ہی بگاڑ سکتا تھا مگر تمہاری ذات پر سوال آتا جو مجھے برداشت نہیں ہوتا۔”
ولید اس وقت سخت جنونی ہو رہا تھا۔ولید نے آیت کی بازو کو دبوچ لیا۔
“آئندہ میں تمہیں باہر نہیں لائوں گا اور نہ میرے بغیر تم کہیں باہر جائو گی۔”
آیت نے اپنی آنکھوں سے آنسو صاف کیئے۔
“اب رونے کی آواز نہ آئے آیت۔”
ولید نے گاڑی سٹارٹ کی۔سارے رستے ولید اور آیت دونوں کا موٹ آف تھا۔کاٹیچ آکر ولید نے ہی آیت کی طرف کا دروازہ کھولا اور اسے باہر نکالا ۔آیت نے اس وقت نظریں جھکائی ہوئی تھی۔چادر کا ایک کونہ دوسرے ہاتھ سے پکڑا ہوا تھا۔ولید نے اس کا ہاتھ چادر سے ہٹایا ۔
“میں کچھ کھانے کو لاتا ہوں۔تم جائو اندر آریا ہوں تھوڑی دیر میں ۔”
ولید آیت کو دروازے تک چھوڑ کر چلا گیا . کافی دیر انتظار کے بعد جب ولید گھر نہ آیا تو آیت کو بہت زیادہ فکر ہونے لگی کہ نہ جانے وہ کہاں چلا گیا ہے. فضیلہ جو آیت کی پریشانی دیکھ رہی تھی یہ اس کے پاس آکر بیٹھ گئی۔ نہ جانے اسے ایسا کیوں لگنے لگا تھا کہ اس کی بی بی خوش نہیں ہیں کیونکہ آیت سارا دن زیادہ خاموش رہتی تھی ۔جن لڑکیوں کی نئی نئی شادی ہوئی تھی وہ بہت زیادہ ہنستی تھی مگر آیت میں ایسی کوئی بات نہیں تھی۔
” معاف کریئے گا بی بی صاحب مگر آپ بہت زیادہ پریشان لگ رہی ہیں کیا کچھ ہوا ہے۔”
” بس فضیلہ راستے میں کچھ لڑکوں نے عجیب باتیں کر دیں تو ولید کو بہت زیادہ غصہ آگیا. ہم سڑک پر تھے تو ولی کچھ کہا تو نہیں پایا مگر غصہ بہت زیادہ آ گیا تھا اسے ۔بہت دیر ہو گئی ہے گھر واپس نہیں آیا وہ اب تک مجھے اس کی بہت فکر ہو رہی ہے۔”
” بی بی جی یہ جوان خون ہوتا ہے نہ بہت زیادہ جوش مارتا ہے۔ اس عمر میں لڑکے زیادہ تر بہت جذباتی ہوتے ہیں اور اپنے فیصلے بہت جلدی کر دیتے ہیں. شاید خان بھی بہت زیادہ جذباتی ہیں اس لیے وہ بہت ساری چیزوں کو سمجھ نہیں پاتے۔ آپ تھوڑا تحمل کے ساتھ ان کے پاس رہیں تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔”
” تحمل کے علاوہ میرے پاس اب کوئی راستہ بھی تو نہیں ہے نہ فضیلہ۔ میرے سر کا سائیں ہے وہ اب۔ مجھے کہیں پناہ نہیں ملے گی اس کے گھر کے بغیر ۔ تم جانتی ہو ہمارے خاندان میں جب ماں باپ شادی کردیتے ہیں تو پھر وہ اپنی بیٹی کو کہہ دیتے ہیں تمہارا اب اپنے میکے سے کوئی تعلق نہیں۔ شوہر جیسے مرضی رکھے تمہیں اس کے ساتھ ہی رہنا ہے۔ اب تمہارا جنازہ ہیں وہاں سے اٹھے۔”
” ہائے بی بی کتنے برے لوگ ہوتے ہیں جو اپنی بیٹیوں کو ایسے کہتے ہیں۔ ہم غریب ہیں سہی دو وقت کی روٹی مشکل سے کھاتے ہیں مگر اپنی بیٹیوں کے معاملے میں ہرگز ایسی باتیں نہیں کرتے۔ ہمارے لئے تو بیٹیاں رحمت ہوتی ہیں۔ جس گھر میں ہمارے ہاں بیٹی پیدا ہو جائے اس کا باپ بہت خوش قسمت کہلاتا ہے کہ اس کے لئے کوئی دعا کرنے والی آگئی ہے۔”
” اب ہر انسان اپنی اپنی قسمت لے کر آتا ہےفضیلہ ۔تم نہیں جانتی ہماری حویلی بہت بڑی ہے وہاں زندگی کی ہر چیز میسر ہے مگر ایک چیز ہمیں نہیں دی جاتی عزت اور مان۔ عورت کیا چاہتی ہے سوائے مان کے اسے اور کچھ نہیں چاہیے ہوتا۔ جہاں ماں باپ کہتے ہیں خاموشی سے سر جھکا کر شادی کر لیتی ہے۔ مگر وہ صرف اگر اس سے اتنا ہی کہہ دیں کہ تم شادی کرنے کے بعد بھی ہماری ہی بیٹی ہو اس گھر پر تمہارا بھی اتنا ہی حق ہے تو شاید بیٹیاں کبھی اپنے ماں باپ سے بد گمان نہ ہوں۔”
” بس بی بی جتنے لوگوں کے بڑے گھر ہوتے ہیں نہ اتنے ہی ان کے دل چھوٹے ہوتے ہیں۔آپ کو شاید برا لگے مگر میں یہی کہوں گی کہ ہم چھوٹے گھروں میں رہنے والے لوگ بہت بڑے دل والے ہوتے ہیں۔ ہم بہتر ہیں ہمارے پاس اگر دو وقت کی روٹی کھانے کو نہیں ہے تو رشتے اور پیار تو ہے نہ۔”
“بس کیا کر سکتے ہیں فضیلہ۔ہماری حویلی کی بند دیواروں میں بہت سے لڑکیوں کی چیخیں دفن ہیں ۔میری اپنی بہن کی شادی خود سے 17 سال بڑے لڑکے سے ہوئی۔وہ تو شکر ہے اس کے میاں کا اتنا ظرف ہے کہ بیوی کی عزت کرتا ہے۔”
“بی بی جی آپ پریشان مت ہوں۔سب ٹھیک ہوگا۔آپ ایسا کرو کہ کچھ کھا پی لو۔”
“نہیں رہنے دو ولید کو آنے دو پتا نہیں کچھ کھایا ہوگا کے نہیں ۔”
_______________________________
ولید کاٹیچ واپس آگیا تھا۔کاٹیچ میں اس وقت خاموشی تھی۔فضیلہ کو آیت نے گھر بھیج دیا تھا۔ولید کاٹیچ کا دروازہ کھول کر اندر آیا ۔آیت اس وقت کمرے میں تھی۔ولید کمرے میں آیا۔آیت کھڑکی کے آگے کھڑی کافی پی رہی تھی۔ولید اس کے پاس گیا اور ایک جھٹکے سے اسے اپنی طرف کھینچا۔کافی کا کپ آیت کے ہاتھ سے گر گیا۔ولید نے آیت کو دیوار کے ساتھ لگایا ۔آیت سب کے لیئے تیار نہیں تھی۔ولید آیت کے لبوں پر جھکا۔آیت کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ولید یہ سب کیوں کر رہا تھا۔ولید اس وقت سخت جنونی روپ میں تھا۔ولید آیت سے الگ ہوا۔
“خان کیوں کیا آپ نے ایسے۔”
“بیوی ہو تم میری اور میرا حق ہے تم پر۔”
“حق ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ میرا ساتھ ایسا سلوک رواں رکھیں ۔”
ولید نے اپنے ہاتھ اوپر کیئے جن پر خون لگا ہوا تھا۔
“کیا کر گے آئے ہیں آپ خان۔”
“میں ان لڑکوں کو سبق سیکھا کر آیا ہوں کہ آئیندہ وہ کسی بھی لڑکی کی طرف آنکھ اٹھا کر مت دیکھیں ۔”
“ولی خان آپ نے ایسا کیوں کیا ہے۔کیا آپ نہیں جانتے وہ آپ کو نقصان پہنچا سکتے تھے۔”
ولید آیت کے قریب آیا اور اس کے بال پکڑ کر اس کا چہرہ اوپر لیا۔
“دیکھو میری آنکھوں ۔کیا تمہیں میں کوئی ایسا انسان نظر آتا ہوں کہ جس کی بیوی کے بارے میں وہ لوگ اتنی غلیظ باتیں کریں اور وہ چپ رہے۔بہت فکر ہے نہ تمہیں میری میں ہار نہیں سکتا۔بہت مضبوط ہوں میں اور تمہاری حفاظت بھی مجھے خوب کرنا آتی ہے۔آئیندہ تمہیں کہیں لے کر نہیں جائوں گا جہاں ایسا ہو۔”
“تو کیا ساری زندگی گھر میں قید رکھیں گے مجھے ۔”
“ہاں قید کر دوں گا اگر تمہیں اپنے کمرے تک ہی محدود کر دینا پڑا دو۔تم سے میں نے شادی کی ہے تو اب تم صرف میری ہو صرف میری۔”
ولید کی آنکھوں میں سرخی تھی۔
“پلیز خان میں بھی انسان ہوں میرا بھی خیال کریں ۔چھوڑ دیں مجھے۔”
“تم جانتی ہو آیت مجھے تم شروع سے بہت پسند تھی ۔میں نے اپنی بیوی کے بنائے ہوئے خاکے میں تمہاری جیسی ہی لڑکی کو سوچا تھا مگر تمہارے بھائی۔۔۔۔۔۔۔تمہارے بھائی نے میری بہن کو ۔۔۔۔۔۔وہ سب نوکروں کے سامنے اپنے ہاتھ میں چھڑی لے کر کھڑی تھی ایک نام نہاد محبت کی خاطر کہ وہ خود کو ختم کر لے گی اور میرے باپ دادا کی بنائی ہوئی سالوں کی عزت خراب کرے گی۔میرے دل میں آگ لگ گئی تھی اس دن۔اپنے بابا جانی اور ابو کا جھکا ہوا چہرہ دیکھ کر۔میں نے اس دن سوچا تھا کہ ایک بار تم میری دسترس میں آئو گی تو شاہ بخت دیکھے گا جب بہنیں بھائیوں کا مان توڑتی پیں تو کیا ہوتا ہے۔”
“جب بھائی بہنوں کا مان توڑتے ہیں تو ان کی بھی تو سزا ہونی چائیے نہ خان۔میرا بھی مان توڑا تھا شاہ بخت نے۔وہ میرا نام نہاد بھائی ہے۔”
بس۔۔۔۔۔۔کچھ نہیں سنوں گا میں۔تم اسی کی بہن ہو تمہاری رگوں میں اسی کا خون ہے ایک نہ ایک دن تو تمہاری حالت پر اسے دکھ ہوگا ہی نہ۔”
“میرا کیا قصور ہے سب میں ۔”
ولید نے آیت کے چہرے کو تھاما۔
“تمہارا قصور صرف اتنا ہے کہ تم شاہ بخت کی بہن ہو۔تمہیں شاہ بخت سے ہر رشتہ توڑنا ہے۔تمہیں میرا بننا ہے تم صرف میری ہو۔میری۔۔۔۔۔”
ولید غصے سے دیوار پر ہاتھ مار کر واش روم میں گھس گیا ۔آیت نے اپنی آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسو صاف کیئے۔اس وقت اس کی ہمت جواب دے گئی تھی۔یہ روتے ہوئے کانوں پر ہاتھ رکھے نیچے بیٹھ گئی۔
“میں تمہیں معاف نہیں کروں گی شاہ بخت کبھی نہیں ۔مجھے برباد کیا ہے تم نے اس سے بہتر ساری عمر میں حویلی کی دیواروں میں بند رہتی مگر ولید جیسے انسان کے ساتھ تو نہ رہتی۔میری فرار کا ہر راستہ بند ہے۔اپنے لوگوں کی خان بیگم ہوں میں ۔نہ میں ولید کو چھوڑ سکتی ہوں نہ حویلی کو تم نے بہت برا کیا میرے ساتھ بہت برا۔”
ولید واش روم سے نکلا تو آیت کو روتے ہوئے دیکھا۔
“اٹھو بیڈ پر آئو۔”
آیت کو شاید ولید کی آواز نہیں آئی تھی اس لیئے اس نے اوپر نہیں دیکھا۔
“آیت میں تمہیں بلا رہا ہوں۔”
آیت کو بازو سے اٹھا کر ولید بیڈ پر لایا۔
“سو جائو مجھے اب روتی ہوئی نظر مت آنا ۔”
ولید نے آیت کو لیٹا کر اس پر کمبل دیا۔آیت کی آنکھوں سے آنسو خشک ہوچکے تھے۔ہاں یہی تھی اس کی زندگی اور اس کے بھائی کی۔۔۔۔۔۔۔شاید خوشیوں سے بھری۔اسے ہی اپنے گھر کو اب جنت بننا تھا کیونکہ یہ ایک عورت تھی جس کا کوئی گھر نہیں تھا۔ماں باپ کے مطابق اس کا گھر اب شوہر کا تھا اور شوہر وہ جو ذرا ذرا سی بات پر اس کے ساتھ کیسا سلوک کرتا۔ہاں اسے ہی اب اس آشیانے کو بچانا تھا ورنہ باہر کی دنیا کیا تھی۔کہنا بہت آسان ہے کہ ہم ایک مضبوط فیصلہ لیتے ہیں مگر پھر دنیا کا کیا۔مضبوط سے مضبوط انسان ٹوٹ جاتا ہے یہ تو پھر ایک عام سی لڑکی تھی۔ہاں اسے اب اپنے ماں باپ کو بھول جانا تھا سب کچھ جو اس کا ماضی تھا۔۔۔۔۔
تنوع کے فقدان کا عذاب
لاہور ایئرپورٹ سے فلائی کرنے والا ہوموپاکیئن دو تین گھنٹے بعد دوبئی یا دوحہ میں اترتا ہے تو ایک مختلف...