(Last Updated On: دسمبر 22, 2022)
شریفان عرب کا قاعدہ تھا اس زمانے میں کہ بچے ان کے پلتے تھے کسی بدوی گھرانے میں اسی مقصد سے بدوی عورتیں ہر سال آتی تھیں بڑے شہروں سے نوزائیدہ بچے لے کے جاتی تھیں پلا کر دودھ اپنا پالتی تھیں نو نہالوں کو عوض دولت میں دینا پڑتا تھا اولاد والوں کو جو بچے اس طرح سے کاٹتے تھے دن رضاعت کے بڑے ہو کر نظر اآتے تھے وہ پتلے شجاعت کے يہ بچے سختيوں کو کھيل بچوں کا سمجھتے تھے يہ تلواروں کي جھنکوروں کو اک نغمہ سمجھتے تھے چنانچہ شہر ميں امسال بھي کچھ عورتيں آئيں بيابانوں سے اپنے ساتھ نہريں دودھ کي لائيں قريشي نسل کے اطفال کي ہر دل ميں خواہش تھي اميروں کا کوئي بچہ ملے يہ سخت کاہش تھي يہ دايہ عورتيں تھي سعد کے بدوي قبيلے کي انہيں ميں تھي حليمہ سعديہ اور اس کا شوہر بھي حليمہ قافلے بھر ميں غريب اور سب سے کم تر تھي پھر اس کي اونٹني بھي دُبلي پتلي اور لاغر تھي گھروں ميں مقدرت والوں کے پہنچيں عورتيں ساري حليمہ رہ گئي ڈيرے پہ بيٹھي شرم کي ماري وہ زرداروں کے بچے لے کے واپس لوٹ بھي آئيں حليمہ سعديہ نے دو کھجوريں بھي نہيں پائيں بالآخر قافلے کي واپسي کا روز آپہنچا بچاري کے لئے اِک ناوکِ دلدوز آپہنچا شکستہ خاطري سے اب دلِ مايوس بھر آيا مراديں سب نے پائيں ہائے مَيں نے کچھ نہيں پايا! اٹھي اس سوچ ميں جاکر طوافِ کعبہ آئوں وہاں سے آکے سوچوں گي کہ ٹھہروں يا چلي جائوں مري قسمت بھلي ہوتي تو کوئي طفل مل جاتا غريبي ہيں ميں اس کو پال ليتي مجھ سے ہل جاتا بلا سے دودھ کم ہے تو بھي وہ مجھ کو خوشي ديتا مرا بچہ بچارا اُنٹني کا دودھ پي ليتا! يہ باتيں سوچتي تھي دل ہي دل ميں روتي جاتي تھي کوئي بچہ نظر آئے تو بيکل ہوتي جاتي تھي اچانک اس کو اس کو عبدالمطلب نے دور سے ديکھا حليمہ کو بلايا رنج و غم کا ماجرا پوچھا کہا ميں سعديہ عورت ہوں يعني بدويہ دايا حليمہ نام ہے، ميں ے کوئي بچہ نہيں پايا قبيلے والياں لائي ہيں کيسے پھول سے لڑکے رہي جاتي ہوں ميں اور قافلے کا کوچ ہے تڑکے ہنسے يہ سُن کے عبدالمطلب اور ہنس کے فرمايا کہ ہاں اے نيک بي بي ! اے حليمہ سعديہ دايا حليمي اور سعادت خوبياں دوپاس ہيں تيرے انہي دونوں کے باعث کام سارے راس ہيں تيرے يرے پاس ايک بچہ ہے پدر جس کا نہيں زندہ مگر اک خاص جلوے سے ہے چہرہ اس کا تابندہ تمہارے ساتھ والي عورتيں بھي گھر ميں آئي تھيں زروانعام پانے کي اميديں ساتھ لائي تھيں يتيم اور بے سروساماںن بچہ تو اگر چاہے اسے لے جا اگر بدلہ چاہے اور نہ زر چاہے يہ کہہ کر ايک ہلکہ سا تبسم آگيا لب پر يہ معني تھے مرا بچہ ہے بالا مال و جاں سب پر حليمہ نے کہا دريافت کرلوں اپنے شوہر سے مبادا وہ خفا ہو اور ميري جان پر برسے يہ کہہ کر جلدي جلدي آئي حليمہ اپنے ڈيرے پر کہا قسمت سے بچہ مل گيا ہے مجھ کو اے شوہر! مگر اس کا پدر زندہ نہيں، کہہ دو تو لے آئوں يہاں سے قافلے ساتھ خالي گود کيا جائوں ہماري ساتھنيں بچوں کي دولت لے کے جائيں گي پنسيں گي مجھ پہ طعنے ديں گي سو باتيں بنائيں گي کہا شوہر نے ہاں لے آئوشايد کچھ بھلائي ہو ہماري بہتري اس طفل کي صورت ميں آئي ہو اگرچہ اُنٹني کا اور تمہارا دودھ بھي کم ہے مگر مالک کي رحمت پر بھروسہ ہے تو کيا غم ہے