(Last Updated On: )
میں کف دست کی اوٹ میں
سوچ کا پھڑ پھڑتا دیا لے کے چلتا ہوں
جذبوں کے جنگل میں، نعرے لگاتی ہواؤں کی یلغار میں
کیا خبر وہ تنا کی دیوی لب آب آئے نظر
غسل مہتاب کرتے ہوئے
اس کی عریانیاں
منکشف ہوں لہو کی مچلتی ہوئی لہر پر
روشنی کے کنول کی طرح
ہن لفظ پگھلا ہوا موم بن کے ٹپکنے لگے
اور بہری سماعت سنے ٹوٹتی جھاگ کی تھرتھری
اور مس ہوں مرے جسم کی روح سے
میرے امکان کی سرحدیں
جانتا ہوں کہ میں آج بھی لوٹ آؤں گا
کالک میں لپٹی ہوئی انگلیاں
بے افق، بے نشاں چاند کی سمت
تکتے ہوئے
٭٭٭