دروازے پر دستک دیتے وقت اسکی آنکھیں شدت غم اور ضبط کے مارے لہو ٹپکا رہی تھیں ۔۔۔ انتہائی طیش کے عالم میں دروازے کے لاک پر فائر برسانے شروع کردیئے ۔۔۔
منصور نے گھبرا کر آس پاس نگاہ دوڑائی ۔۔
دائم ٹھنڈے دماغ سے کام لو تم لوگوں کی نظروں میں آجائو گے ! وہ جو ایک منٹ کا صبر بھی نہیں کر سکتا تھا ان سنی کرتا دروازے پر ضربیں لگانے لگا ۔۔۔ جس سے لاک ٹوٹ گیا ۔۔ دروازہ کھل گیا ۔۔۔ اندر موجود شخص کھڑکی سے باہر کود گیا ۔۔۔ منصور فورا اسکے پیچھے لپکا ۔۔ اور دبوچ کر دائم کےسامنے لا کھڑا کیا ۔۔
جو اطراف میں نگاہ ڈال کر لیپ ٹاپ پر جھکا ہوا تھا ۔۔
پھر جو اس نے دیکھا ۔۔۔ اسکا دل کیا وہ اس شخص کو زندہ زمین میں گاڑھ دے ۔۔
کیا ہے یہ؟؟؟ ہیں ؟؟؟ یہ اتنی ساری ریکاڈڈ ریلس !
یہ ۔۔۔ فحش ویب سائٹس ؟؟؟ لڑکیوں کی برہنہ تصویریں ؟؟؟ کیا ہو رہا ہے یہاں ؟؟؟
اسکی سبز رنگی آنکھیں صدمے اور بے یقینی سے پھیل گئیں ۔۔۔ چہرہ خطرناک حد تک سرخ پڑا ۔۔
ان تصویروں میں ایک مسکراتی تصویر شفق کی بھی تھی ۔۔۔ وہ پل میں اصل حقیقت جان گیا ۔۔۔
شفق کی درگوں حالت اسے ازیت سے دوچار کر گئی ۔۔۔
نیچ کمینے انسان !
ٹیبل سے کانچ کا جگ اٹھایا اور ایکاایکی منصور کی گرفت میں مچلتے شخص کے سر پر بے دردی سے پھوڑ دیا ۔۔۔
کیا کیا تم نے شفق کے ساتھ ؟؟؟ بولو؟؟؟؟ وہ پے در پے مکے شخص پر برسانے لگا ۔۔۔
منصور نے اچھل کر کانچ ٹکڑوں سے اپنا بچائو کیا
دائم ۔۔۔ رکو یار ، صبر تو کرو ۔۔۔ ایسے وہ مر جائے گا ۔۔۔ منصور نے اسے بے قابو ہوتے دیکھ کر دبوچ کر پیچھے کیا
وہ شخص آدھ موا سا ہوکر زمین پر گر گیا ۔۔۔
اس شخص کے وجود کے زرے زرے کو نظروں سے چبانے لگا ۔۔۔
اب تم ہمہیں سب کچھ سچ سچ بتائو گے ؟؟؟
ویسے تو وہ شخص ہر لڑکی کے لئے جواب دہ تھا ۔۔
مگر ان میں سے کسی کو نہیں جانتے تھے ۔۔۔
سو شفق سے شروعات کی ۔۔۔
یہ ایسے نہیں مانے گا ، مجھے سمجھ نہیں آتا تم اس سے پوچھ ہی کیوں رہے ہو !
دائم کا ضبط پھر سے جواب دینے لگا ۔۔۔ الٹے ہاتھ جھاپڑ اس شخص کے چودہ طبق روشن کرگیا ۔۔۔
یار دائم ۔۔۔ ہوش کرو ۔۔میں بات کر رہا ہوں نا !
منصور غصے سے چیخا ۔۔۔
جلدی منصور ۔۔۔ جلدی اس کا منہ کھلوائو ورنہ میں کچھ کر دوں گا! اضطراری کیفیت میں کنپٹیاں مسلتا وہ بمشکل تحمل سے بولا ۔۔
بکو گے یا پھر کوئی طریقہ آزمانا پڑے گا تم پر !
بتاتا ہوں ۔۔۔بتاتا ہوں ۔۔ مجھے ایک غیر سناشا نمبر سے کال آئی تھی کہ اس لڑکی کے کمرے اور واشروم میں کیمرا فکس کر آئو ۔۔۔کام پورا ہونے پر تمہیں پیسے دیئے جائیں ۔۔۔
دائم کو لگا کسی نے کھولتا ہوا پانی اس پر گرا دیا ہو ۔۔۔ وہ موت کے دہانے تک یونہی نہیں پہنچی تھی ۔۔ اس کی عزت و آبرو کو روندنے کا باقاعدہ سامان پیدا کیا گیا تھا ۔۔۔
تیری نسلوں پہ لعنت ۔۔۔!!
اس کا ضبط جواب دے گیا ۔۔ بندوق نکالی اور فائر کھول دیا ۔۔ گولی سیدھا اس شخص کے کندھے پر جا لگی ۔۔۔ غصہ اسکے حواسوں پر چھا گیا تھا ۔۔ وہ یہ تک بھول گیا تھا کہ اس وقت کس حیثیت سے یہاں موجود ہے ۔۔
اور اسے اس عمل کے لئے جواب دہ بھی ہونا ہے !
تمہارا دماغ خراب ہوچکا ہے دائم ! یہ کیا کیا تم نے ؟؟؟؟
یہ اسی قابل تھا ۔۔
دائم کے چہرے پر ملال کا شائبہ تک نہ تھا ۔۔۔
اس نے اگہا نشانہ تانکا اور دوسری گولی اسکے سینے میں اتاردی ۔۔۔ منصور نے ضبط سے لب دانتوں تلے دبائی ۔۔ بے تاثر چہرے سے اس نے ساری تصویریں اٹھائیں اور کچن کے چولہے میں جھونک دیں ۔۔۔ ۔۔ لیپ ٹاپ اٹھا کر گاڑی کر میں رکھا ۔۔۔ گیس کا پائپ چولہے سے ہٹا کر زمین پر پھینکا دیا ، گیس کا سلینڈر اٹھایا اور لائونج کے بیچ و بیچ پھینک کر دروازے کی چوکھٹ عبور کر گیا ۔۔۔
منصور خاموش تماشائی بنا اسکی ساری کاروائی دیکھتا رہا ۔۔ پھر خاموشی سے اسکے برابر والی سیٹ سنبھالی ۔۔۔ اس نے گاڑی طوفانی رفتار سے آگے بڑھائی اور کچھ دور روک کر ونڈو سے باہر جھکا اور نشانہ تاک کر گولی چلا دی ۔۔۔ اس ایک لمحے کی دیر تھی ۔۔۔ ایک زور دار دھماکے کے ساتھ عمارت کے شیشے ٹوٹ کر ہوا سے باتیں کرنے لگے ۔۔۔ آگ کے مرغولوں سے دھواں اٹھنے لگا ۔۔۔
جنرل کو کیا جواب دوگے ؟؟؟؟
کچھ دور آکر منصور نے خاموشی توڑ دی آخر کار ۔۔۔
اگر میری جگہ تم ہوتے ، بحیثیت ، باپ ، بھائی ، یا شوہر تو تم کیا جواب دیتے ؟؟؟؟
سرد اور بے تاثر لہجے میں سوال پر سوال کیا ۔۔۔
منصور کے لبوں ٹھنڈی آہ بر آمد ہوئی تھی ۔۔
تم سہی ہو دائم، مگر ہم عام شہریوں سے مختلف ہیں ۔۔۔ بحیثیت ایک جاسوس ہونے کے ہمارا ہر قدم اور ہر عمل جنرل کی اجازت کا محتاج ہے ! جانتے ہونا یہ بات ؟ اب یہ مت کہنا جنرل کو پتا نہیں چلنا چاہیئے ، کیونکہ ان سے کچھ بھی چھپ نہیں سکتا ! اور تم اس وقت مشن پر ہو یہ بھی مت بھولو اب انکوائری ہونا تو لازم سی بات ہے
منصور نے تصویر کے دوسرے رخ کی جانب نظر ثانی کروائی ۔۔
میں سزا بھگتنے کے لئے تیار ہوں ، جب بھی انہیں خبر ہو ! ایک باپ ہونے کی حیثیت سے تم اندازہ نہیں لگا سکتے میرے جذبات کا ! میں اس وقت کس مقام پر ہوں !
اسٹیرنگ پر انگلیوں کی گرفت تنگ ہوگئی تھی لاشعوری طور پر۔۔ جبڑے بھینچ لیئے ۔۔۔
تجھے آرام کی ضرورت ہے میرے بھائی !
منصور نے اپنائیت سے اسکا کندھا تھپتھپایا ۔۔۔
اگر تم ہیڈکواٹر جارہے ہو تو یہ ایجنٹس کے حوالے کردینا ۔۔۔ اس لیپ ٹاپ اور ویب سائیٹس سے سارا مواد ہٹ جانا چاہیئے !
اس نے بیک سیٹ پر پڑے لیپ ٹاپ کی جانب اشارہ کیا ۔۔۔
____________________________________
گھر پہنچ کر سب سے پہلے شاور لے کر اعصاب پرسکون کیئے ۔۔ ڈاکٹر سے بات کی تو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔۔ شفق کی حالت میں کوئی سدھار نہیں آیا تھا ۔۔۔ اس نے دھیان بٹانے کی خاطر ٹی وی آن کیا تو افغانستان خبروں میں سرگرم تھا ۔۔ ط**بان مکمل قابض ہوچکے تھے ۔۔۔ عسکری جوانوں نے گھٹنے ٹیک کر فرار کی راہ اختیار کرلی تھی ۔۔۔ اس نے بے دلی سے اسکرین بجھادی ۔۔.
اسے اچانک سے شزانہ کا خیال آیا تھا۔۔.
جانے کیوں شفق ہو یا شزانہ ، اسے کہیں نہ کہیں اپنی زات زمہ دار لگنے لگی ۔۔۔
گھڑی پر نظر ڈالی تو رات کے کھانے کا وقت ہونے کو تھا ۔۔ اسے فراغت بلکل پسند نہیں تھی سو وہ اٹھا اور کچن کا رخ کرنے لگا ۔۔۔ اسکے اٹھنے کی دیر تھی بس ۔۔
ایزی ہوم ورک چھوڑ چھاڑ کر ٹی وی کے سامنے آبیٹھی ۔۔ ایزیییییییی ! میری نظر تم پر ہی ہے !
دائم آواز پر اس نے مڑ گیا دیکھا ۔۔گویا وہ تصدیق کرنا چاہتی تھی کہ واقعی دائم کی نظریں اس پر تھی یا نہیں ۔۔۔مگر وہ مگن انداز میں کام کر رہا تھا ۔۔۔
بے چاری کو کیا خبر کہ اسکا پالا ‘جاسوس باپ’ سے پڑا تھا ۔۔۔
ٹی وی بند کرو ایزی ، اپنا ہوم ورک کمپلیٹ کرو پہلے ،
اوکے پاپا ۔۔۔
دوسری وارننگ پر ایزی منہ بسورتی پینسل اور نوٹ بک لئے ڈائینگ پر آگئی ۔۔۔
آج آپ سائلنٹ موڈ پر کیوں ہیں ؟؟؟
وہ زرا سی گردن اوپر کرکے شرارت بھرے لہجے میں بولی ۔۔۔
مگر آج جس ازیت ناک حالات کا سامنا کرکے آیا تھا ۔۔۔ اسے رہ رہ کر شفق سے ہمدری ہو رہی تھی. ۔۔
پاپا ؟؟؟؟ پاپا؟؟؟
اسکے دوسری بار پکارنے پر بھی کوئی جواب نہ ملا تو وہ اپنی نشست پر کھڑی ہوکر اسکا کندھا تھپتپانے لگی ۔۔۔ ہاں ؟؟؟ کیا کہہ رہی تھی تم میں نے سنا نہیں ؟؟؟
وہ چونک کر پوچھنے لگا ۔۔۔
پاپا آپ سیڈ ہو؟؟؟؟
وہ تفکر لہجے میں سمیٹے معصومیت سے پوچھنے لگی ۔۔۔ دائم نے کسی احساس کے تحت اسے سینے میں سمیٹ لیا ۔۔۔ کئی لمحے یونہی اسے سینے سے لگائے آنکھیں موند لیں ۔۔۔ آج شفق پر بات آئی تو اسے احساس ہوا ۔۔۔ وہ دونوں اسکے لئے کتنا معنی رکھتی ہیں ۔۔۔ کبھی ایسا موقع آیا ہی نہیں جو اسے احساس دلاتا ۔۔ رشتوں کی اہمیت ،
محبت کی شدت ۔۔. آج اسے لگنے والا جھٹکا بہت شدید تھا ۔۔۔
شٹ ۔۔ پاپا ۔۔۔ ؟؟ کھانا جل رہا ہے !!!
وہ کرسی پر اچھلی تو دائم ہوش میں آکر تیزی سے پلٹا ۔۔ تاسف سے پین میں جلتی سبزیوں سے اٹھتے دھوئیں کو دیکھنے لگا ۔۔۔۔ پین اٹھا کر پانی سے گزارا تو شوووووووو کی آواز کے ساتھ جلنے کی بوو پورے کچن میں پھیل گئی ۔۔۔
پاپا ،،،، یار !! آپ بھی کتنے بھلکڑ ہو !
وہ دونوں ہاتھ کمر پر رکھے مایوسی کا اظہار کرنے لگی ۔۔ اسکے انداز پر دائم کے لبوں پر خوبصورت سا تبسم بکھرا ۔۔۔۔ سوری مادام ، غلطی ہوگئی نا چیز سے !
وہ سینے پر ہاتھ رکھ کر عقیدت سے بولا ۔۔
کھانا تو جل گیا کیوں نہ ہم پیزا آرڈر کردیں
ہرگز نہیں ۔۔۔
وہ سنجیدگی سے اسکی بات کاٹ کر دوبارہ کام کیجانب متوجہ ہوا ۔۔۔
پر پاپا ۔۔۔ اس نے کچھ کہنا چاہا ۔۔
بیٹھ جائو ایزی ۔۔
اسے ٹوکتے ہوئے فرج میں منہ گھسایا ۔۔۔
وہ برا سا منہ بنا کرسی پر دوبارہ بیٹھی اور نوٹ بک پر سر جما لیا ۔۔۔ دائم سے اسکی اداس صورت دیکھی نہیں گئی ۔۔ وہ کمرے میں گیا ۔۔ فون پر آراڈر بک کیا اور اسکے مقابل کرسی سنبھال لی ۔۔۔
ہوم ورک تو کرلو ؟؟ اسے مخاطب کرنا چاہا ۔۔۔
مجھے نہیں کرنا ۔۔ وہ خفگی سے رخ موڑ گئی.۔۔
کوئی بات نہیں میں کر دیتا ہوں ۔۔۔ اس نوٹ بک اٹھائی اور سیون کا ٹیبل لکھنے لگا ۔۔۔
سہی ہے لکھا نا؟چیک کرو؟
جب وہ لکھ چکا تو اس نے نوٹ بک اسکے سامنے رکھتے ہوئے ابرو اچکائے ۔۔۔
وہ نوٹ بک کو دیکھ کر دبی دبی ہنسی ہنسنے لگی. ۔۔۔
آپ نے اسٹارٹ والی لائن غلط لکھی ہے پاپا ۔۔
تمہیں پتا ہے میں نے غلط کیوں لکھا ۔۔۔ ؟؟؟
کیوں ؟ اسکی آنکھوں میں تجسس چھلکا ۔۔
اسلئے کیونکہ میرا مقصد تمہیں یہ بتانا تھا کہ دنیاوی لوگ تمہیں بلکل ایسے ٹریٹ کریں گے ، تم نے دیکھا نا میں ٹیبل کی نو لائنیں درست لکھی ۔۔۔ تم نے وہ نوٹ نہیں کیا ، تم نے صرف میری غلطی نوٹ کی ۔۔۔ دنیا تمہیں تمہارے سو اچھے کاموں کے لئے سراہے یا نہ سراہے ! لیکن تمہاری اس ایک غلطی پر تنقید ضرور کرے گی ۔۔۔ سمجھ گئی نا میری بات ۔۔۔؟؟؟ یہ سبق ہے تمہارے لئے ۔۔۔ !!
آئی انڈراسٹینڈ ۔۔۔ اس نے سمجھداری سے سر ہلایا ۔۔۔
ویری گڈ ۔۔۔ ڈور بیل کی آواز پر دونوں متوجہ ہوئے ۔۔۔
پیزا آگیا ۔۔وہ خوشی سے اچھلی تھی
میں جاتا ہوں ۔۔ اتنا کہنا تھا کہ وہ ۔۔۔
میں جائوں گی ۔۔میں جائوں گی
چلاتے ہوئے دروازے کی جانب دوڑی ۔۔۔
بڑے وثوق سے لارج پیزے کا ڈبہ اپنی جھولی رکھ کر رخ موڑ لیا ۔۔۔
تم چھوٹی ہو تمہیں چھوٹا ڈبہ لینا چاہیئے تھا
تو کوئی بات نہیں آپ لے لو ۔۔آپ تو بڑے ہو بڑوں کو ہمیشہ کومپرومائیز کرنا چائیے ۔۔ وہ ہاتھ جھلا کر بولی
آنہہ ایسا کس نے کہا؟ وہ حیران ہوا
علی نے ۔۔
علی کون؟ وہ بے توجہی سے پوچھنے لگا
He’s my boyfriend
وہ منہ پر ہاتھ جما کر راذداری سے بولی
Boyfriend ?
اس نے بھنویں سکیڑیں
ویسے ہی جیسے آپ اور شفق ہو ۔۔
ہم بوائے فرینڈ گرل فرینڈ تھوڑی نا ہیں بس دوست ہیں
دائم نے اسے زچ کرنا چاہا
فرینڈز کو ہی بوائے فرینڈ گرل فرینڈ کہتے ہیں
Be modern papa
وہ جھنجھلا کر بولی ۔۔ دائم اسکے انداز پر قہقہہ لگائے بغیر نہ رہ سکا۔۔
_________________________________
قدموں کی چاپوں کی آوازوں سن کر وہ سیدھا ہوکر دیوار سے لگ گیا ۔۔۔
درباس ؟؟؟ چلو ، جلدی کرو ۔۔۔ چلو چلو ۔۔
کمانڈر جھاڑیوں سے نمودار ہوتا خاصا عجلت میں لگ رہا تھا۔۔ درباس کو اپنی پوشیدہ سرگرمیوں میں ابھی تک ملوث نہیں کیا تھا ۔۔ اسلئے وہ کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تھا۔۔۔ خاصی الجھن آنکھوں میں سمیٹے وہ ہاسپٹل کی دیوار سے ہٹا اور جھاڑیوں میں کھڑی جیب کی ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی ۔۔۔
جلدی کرو ، وہ لوگ جارہے ہیں ، اس بس کے پیچھے لو گاڑی ۔۔۔
کمانڈر کی آواز پر اس نے سختی سے جبڑے بھینچے ۔۔
اور جیپ کی اسپیڈ بڑھا دی ۔۔۔
بیوقوف انسان ، اسپیڈ کم کرو ہم ان کی نظروں میں آجائیں گے ۔۔۔
کمانڈر پبھر کر بولا ۔۔۔
وہ کسی کی اکڑ سہنے کا عادی نہیں تھا ۔۔۔ اس نے طیش میں آکر چلتی گاڑی کو ایک دم سے اسپیڈ لگائی ۔۔
کمانڈر اچھل کر گرنے کو تھا ۔۔۔
اسکے فولادی ہاتھ نے کندھے سے دبوچ کر اندر کھینچا ۔۔۔ اب یہ گاڑی اسی وقت یہاں سے آگے جائے گی ! جب تم صاف اور سیدھے لفظوں میں مجھے یہ بتادو کہ تمہارے دماغ میں کیا چل رہا ہے کمانڈر ؟؟
اسکی رگیں تن گئیں ۔۔۔
میں تمہارا کمانڈر ہوں خبیس انسان ، نہ کہ تم ! اور میں تمہارے آگے جواب دہ نہیں ہوں ! چپ چاپ جیسا کہتا ہوں کرتے جائو….گاڑی چلائو ۔۔۔!!!
کمانڈر نے سخت طیش میں آکر ریوالور اسکی کنپٹی پر تانی ۔۔۔
گاڑی چلائو میں نے کہا ،
اسے اپنی جانب گھورتا پاکر حکم صادر کیا مگر بےسدھ درباس ہنوز بے باک نظروں سے اسے گھور رہا تھا۔۔
اب تو تمہاری بندوق کی گولی چلے گی کمانڈر ! نہیں تو پھر میری مرضی چلے گی !
وہ جبڑے بھینچ کر آنکھوں میں غصہ لئے حتمی انداز میں بولا ۔۔۔ کمانڈر کو فلحال اس سے مطلب تھا ۔۔ چونکہ حاکم اور قاسم دونوں پکڑے گئے تھے ۔۔ اُن کے حصول کے لئے درباس کی خدمات بہت ضروری تھی ۔۔۔
ورنہ زبان درازی کرنے والے طالب کا پہلی فرست میں سر کھول دیتا تھا۔۔
ہونہہہ ۔۔۔ ناگواری سے ہاتھ جھٹک کر رخ موڑا ۔۔۔
بتائو گے اب ؟؟؟ درباس کا تحکم بھرا لہجہ پھر سے کمانڈر کے کانوں میں زہر گھول گیا ۔۔۔
ہاسپٹل سے ڈاکٹروں سے بھری بس تھر کی جانب جارہی ہے ، غذائی قلت کا شکار بچوں کے میڈیکل کیمپ لگانے ۔۔۔!!! کمانڈر نے زبان کھولی ۔۔۔
درباس نے کنپٹیاں مسلتے ہوئے رخ موڑا ۔۔۔ جیسے اپنے تاثرات چھپانے چاہے ۔۔۔
اس *** کے بچے قاسم اور حاکم نے اور کوئی چارا نہیں چھوڑا ہمارے پاس، کتوں سے بھی بدتر حالت ہوگئی ہے ہماری ۔!!! وہ دونوں رہا ہوجائیں اس کے بعد تم شام واپس چلے جانا ہم ھانی سے نئے لوگ اور اسلحے کی درخواست کریں گے !
کمانڈر کے لہجے میں بے بسی اور لاچاری چھلکی ۔۔۔
درباس نے جواب دیئے بغیر جیپ اسٹارٹ کردی ۔۔۔
_________________________________
بس میں ان لوگوں نے اودھم مچا رکھی تھی۔۔ یونیورسٹی ختم ہونے کے بعد آج انہیں اکٹھے کسی پروجیکٹ پر کام کرنے کا موقع ملا تھا ۔۔
سب بہت پرخوش تھے اس ایڈونچر کے لئے…
فائقہ چلو تم سنائو اپنی آواز میں کچھ !
میزبان آخری نشست پر بیٹھی لڑکی سے مخاطب ہوا ۔
۔ نہیں یار میری آواز بہت بری ہے !
فائقہ کی باریک آواز بس میں گونجی تو لوگ تجسس سے مڑ مڑ کو فائقہ کا چہرہ دیکھنے کو مچلے ۔۔۔
رہنے دو تم ، اتنی باریک آواز بائی گاڈ کانوں کے پردے پھاڑ دوگی تم !
کسی نے پھل جھڑی چھوڑی تو سب کھلکھلا کر ہنس پڑے ۔۔۔ اسی اثنا میں بس کے ٹائر چراچرائے ۔۔۔
سوار جھٹکا کھاکر سنبھلے ۔۔۔
کیا ہوا ؟؟؟ ملیحہ مارے تجسس کے اپنی نشست سے اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔۔ جبکہ عمارا بھی ایک پل کو گھبرا کر ڈرائیور کی جانب متوجہ ہوئی
جو بیچ سڑک پر رستہ روکے آدمی سے محو گفتگو تھا ۔۔۔ آدمی کہہ رہا ہے کہ آگے رستہ بند ہے مگر ہمیں تو گائیڈ لائن دی گئی تھی کہ صرف یہی ایک سڑک جاتی ہے بستی کی طرف !
‘کیا ہوا انکل’ ؟؟؟؟
کی آوازویں اٹھنے پر ڈرائیور الجھن بھرے انداز میں بولا ۔۔۔ سب گڑبڑا کر کھسر پھسر کرنے لگے ۔۔۔
خاموش رہو سب !! ڈرائیور انکل آپ اس آدمی کی بات مان لیں ، ہم کونسا یہاں کے رہائشی ہیں وہ بہتر جانتا ہوگا راستوں کو !
انچارج پلس ڈاکٹر علی کی منگیتر ماہین نے حکم صادر کیا تو انکل سر ہلاتے عمل کرنے لگے
اچانک سب لوگ اپنی نشسوں پر دبک کر بیٹھ گئے ۔۔۔ ماحول میں ان دیکھی سی بے چینی اور خوف سرائیت کر گیا ۔۔۔ عمارا کچے راستے سے گزرتی جھاڑیوں کو دیکھنے لگی ۔۔۔ وہ لوگ زیادہ دور نہیں گئے تھے ۔۔ کہ ایک جیب دھول اڑاتی طوفانی رفتار سے گزر کر بس کی راہ میں حائل ہوگئی ۔۔۔ ڈرائیور انکل کے بریک لگانے پر سب بری طرح سے چونکے ۔۔۔ عمارا کے اعصاب بری طرح سے چٹخے ۔۔۔ اس نے سینے پر جھولتا لاکٹ مٹھی دبوچ لیا ۔۔۔
درباس اور کمانڈر لمحے ضایع کیئے نقاب چہروں پر کھینچتے بس میں سوار ہوگئے ۔۔۔ راستہ بتانے والا
نوجوان جیب راستے سے ہٹا کر آگے نکل گیا ۔۔۔ بس میں موجود ان سب کی چیخیں بلند ہونے لگیں ۔۔۔ ملیحہ نے خوفزدہ ہوکر اسکا کندھا دبوچ لیا ۔۔۔
چپ ، ایک دم چپپپپپپ ! کسی کی بھی آواز نکلی تو لمبی نیند سلا دوں گا سب کو۔۔
چلو سب باری باری اپنے فون جمع کروائو
کسی کی دھاڑ کانوں میں پڑتے ہی سب کو سانپ سونگھ گیا ۔۔۔
سن بوڑھئو ، گاڑی جیب کے پیچھے لے چل شاباش !
کمانڈر کے اگلے تحکمانہ لہجے پر ڈرائیور نے بے بسی اور لاچاری سے اسٹیرنگ گھمایا ۔۔۔ عمارا نے سر زرا سر بلند کرکے لمبے تڑنگے مرد کی پشت کو دیکھا اور خوف سے سر جھکا لیا ۔۔ ان سبھی کا یہی حال تھا ۔۔ حتی کے میل ڈاکٹرز نے بھی مزاحمت تک نہ کی ۔۔۔ شاید انہیں بھی موت کا خوف لاحق تھا ۔۔۔ کچھ دوری کا سفر طے کرنے بعد وہ لوگ انتہائی سفاکی سے ان سب کو نیچے کھنچنے لگے ۔۔ گرتے پڑتے وہ سب لوگ ریت میں گھٹنے ٹیک کر بیٹھ گئے ۔۔ سورج آگ اگل رہا تھا۔۔۔ جسم کو جھلسا دینے کی حد تک گرم ہوائیں چل رہی تھیں ۔۔۔ مگر وہاں پرواہ کسے تھی ۔۔۔ ان سب کی تو جان سولی پر لٹکی محسوس رہی تھی ۔۔۔ ملیحہ کے ناخن خوف سے اسکی نازک ہتھیلی میں دھنستے چلے جارہے تھے ۔۔۔
ملیحہ ۔۔۔ کیا کر رہی ہو یار ۔۔۔
اس نے انتہائی دکھ سے ملیحہ کو پکار کر اسکی توجہ دلائی ۔۔۔ وہ لب بھینچ کر آنسو پیتی رخ موڑ گئی ۔۔۔
تم لوگوں کا انچارج کون ہے ؟؟؟؟
رعبدار آواز پر سبھی کے جھکے سر مزید جھک گئے ۔۔۔
سنا نہیں تم لوگوں نے انچارج کون ہے تمہارا ؟؟
کمانڈر غصے سے پھبرا ۔۔صف میں بیٹھی لڑکی کو چوٹی سے پکڑ کر بلند کیا ۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ لڑکی جان بچانے کی خاطر ماہین کا نام لیتی ۔۔ ماہین نے انتہائی خودغرضی کا مظاہرہ کیا ۔۔اور سوچے سمجھے بغیر اپنے سے اگلی صف میں بیٹھی لڑکی کے کندھے پر ہاتھ کر چلائی ۔۔۔
یہ ہے ہماری انچارج ! بس پھر کیا تھا ۔۔
کمانڈر اس لڑکی کو کسی بیکار چیز کی طرح دور دھکیل کر عمارا کی جانب بڑھا۔۔۔
عمارا پر تو جیسے موت کا سکتہ طاری ہوگیا ۔۔۔
پلیززززز ! میری دوست کو چھوڑ دو !. ماہین تم جھوٹ کیوں بول رہی ہو ! یہ انچارج نہیں ہے
ملیحہ روتے روتے چلائی ۔۔۔
کسی نہ کسی کو تو قربانی دینی ہی پڑے گی !!
ماہین کی سفاکی پر ملیحہ نے تڑپ کر اسے دیکھا ۔۔۔
تف ہے تم جیسی لیڈر پر
وہ غصے اور بے بسی سے روپڑی ۔۔۔
بس کرو تم دونوں ! ورنہ کھوپڑی کھول دونگا !
نقاب پوش دانت پیس کر بولا ۔۔۔ کمانڈر اسے بالوں سے دبوچ کر اندر لے گیا ۔۔۔ وہ خود کو اتنا بے بس محسوس کررہی تھی کہ مزاحمت تک نہیں کر پائی ۔۔۔
درباس ؟؟؟؟ کمانڈر کی آواز پر وہ چونک کر مڑا تو نظر ہٹانا ہی بھول گیا ۔۔۔ آنکھیں بے یقینی سے اس اپسرا کا طواف کرنے لگیں ۔۔۔ یہ وہی ہاسپٹل والی لڑکی تھی۔۔۔ چوٹی سے نکلتی لٹھیں اسکی گالوں کے گرد جھول رہی تھی ۔۔۔ سرخ آنکھیں ،بھیگی پلکیں مہر بند لب ۔۔ چہرے پر تکلیف کے آثار نمایاں تھے ۔۔۔
درباسسسسس؟؟؟؟؟ کمانڈر کی دھاڑ پر وہ ہوش میں آیا تو نوٹس کیا لڑکی کے بال کمانڈر نے مٹھی میں جکڑ رکھے تھے ۔۔۔درباس نے بے ساختہ مٹھیاں بھنیچیں ۔۔۔
اسکا اسٹیٹ منٹ ریکاڑ کرکے زرا جنرل کو تو مزا چکھائیں! شاطر سی مسکان لبوں پر سجا کر بولا ۔۔۔ درباس نے ریکارڈنگ آن کرکے اسٹینڈ پر لگا کیمرہ دیوار کے سامنے رکھ دیا ۔۔۔
اگر چوبیس گھنٹے کے اندر قاسم اور حاکم ہمیں ہمارے مطلوبہ پتے پر نہ ملے تو تم اپنے پیارے اور قابل ڈاکٹروں سے ہاتھ دھو بیٹھو گے ! کیوں ڈاکٹر ؟؟؟؟
کمانڈر نے زہر خند لہجے میں کہتے ہوئے اسکے بالوں کو جھٹکا دیا تو کراہ کر سسکیاں اسکے لبوں سے برآمد ہونے لگیں. ۔۔۔
درباس نے آنکھیں اور مٹھیاں بیک وقت بھینچیں ۔۔۔بوووووول ؟؟؟؟ اگلی دھاڑ پر گرفت اتنی شدید تھی کہ وہ رو پڑی ۔۔۔
س۔۔سسسرر ۔۔ پلییزززززز ہمیں بچا لیں ۔۔۔۔
وہ سسک کر پڑی ۔۔۔ اس کچھ سیکنڈ کے وڈیو پیغام پر اسکی سانسوں کا دارومدار تھا اسے بولنا ہی پڑا
بہت خوب!!!
کمانڈر نے پرمسرت انداز میں کہتے ہوئے اسے دور دھکیلا ۔۔ وہ دیوار سے جا لگی ۔۔۔
یہ وڈیو پیغام آرمی چیف کو میری طرف سے بھیجو !
اپنی فتح پر مسرور سا ہوکر درباس کو حکم دیتا کمرے سے نکل گیا ۔۔۔ درباس اپنی کرسی دھکیل کر اٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔ عمارا خوفزدہ سی ہوکر دیوار کے کونے سے جا لگی۔۔۔ اگر اسکے چہرے پر نقاب نہ ہوتا تو وہ یقینا اسے پہچان لیتی ۔۔۔ اسکی بے قرار نگاہوں کی تپش عمارا اپنے چہرے پر محسوس کرتے ہوئے اندر تک لرزی گئی ۔۔۔ اسکی پیش قدمی پر اس نے سختی سے آنکھیں میچ لی ۔۔۔ درباس کی نگاہیں اسکے چہرے سے پھلستی ہوئی سینے پر جھولتےانگریزی حروف کے الفاظوں لاکٹ پر آرکیں ۔۔۔
کس کا ہے یہ؟؟؟
انتہائی سرد لہجہ اور بے تاثر آنکھیں ۔۔۔
عمارا نے آنکھیں کھول انتہائی تعجب سے اسکی نگاہوں کے تعقب دیکھا ۔۔۔
ا ا براہیم ! وہ ہکلائی ۔۔۔
باہر چلی جائو ! اس سے پہلے وہ ضبط کھو کر کچھ کر بیٹھتا۔۔ اس نے اسے جانے دیا ۔۔۔ وہ تو جیسے رہائی کی منتظر تھی۔۔۔ بھاگ کر باہر قطاروں میں بیٹھے ان کے سب کے بیچ چھپ گئی ۔۔۔
تم ٹھیک تو ہونا؟ کچھ کیا تو نہیں؟
ملیحہ کی جان سولی پر اٹکی رہ جب تک وہ اندر رہی ۔۔۔ ملیحہ وہ لوگ آرمی چیف کو بلیک میل کر رہے ہیں ہمارے ذریعے …اس نے تھوک نگلا ۔۔۔
ا..اگر آرمی چیف نے اگلے چوبیس گھنٹے تک ان کی ڈیمانڈ پوری نہیں کیں تو وہ ہم سب کو ماردیں گے
وہ بتاتے بتاتے روپڑی ۔۔ ملیحہ سناٹے میں رہ گئی
_________________________________
پچھلے دو دن منگنی کی تیاریوں میں گزر گئے تھے آج تیسرا دن تھا ۔۔۔رات کو اسکی منگنی تھی ۔۔ کیٹرنگ کا عملہ گھر میں پھولوں کی سجاوٹ میں مصروف رہا تھا ۔۔
ابراہیم اور ہبا کی شادی کے بعد اس گھر میں کئی سالوں کے بعد خوشیاں آئیں تھی نصیبہ پھپھو اپنی جگہ شاہین صاحب خود بھی منگنی کی تیاریوں میں پیش پیش تھے ۔۔۔ جبکے سب کی چہیتی تاشفین صاحبہ بوستور مطمئن تھی ۔۔۔ نوال کو وقتا فوقتا آنسو بہانے کا دورہ پڑ جاتا تھا۔۔۔ اب بھی وہ اپنی مخصوص جگہ ٹری ہائوس کی سیڑھیوں پر برجمان پیر ہلا رہی تھی ۔۔۔
جب فاتح کا صحن سے گزر ہوا ۔۔۔ اسکا پیر بری طرح پھولوں کی لڑی میں اٹکا وہ گرتے گرتے بچا ۔۔۔
کیا تماشہ لگا رکھا یہاں ، منگنی منگنی منگنی ! دس دن پہلے ہی منگنی کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع ہوگئے تم فارغ لوگ ۔۔۔ !! ہٹائو اسے یہاں سے !
وہ انتہائی بے دردی سے پھولوں پیر کی ٹھوکر مار کر تند و تیز لیجے میں کیٹرنگ کے عملے پر برس پڑا ۔۔۔
اووووووہ !!!! تو ہونے والی دلہن بھی بذات خود یہاں موجود ہیں ! اس نے کہا تم سے یہ سب پھول لگانے کو ؟؟؟ وہ تمسخرانہ لہجے میں نوال سے مخاطب ہوکر مڑا اور عملے سے پوچھنے لگا ۔۔۔
نوال کا چہرہ ضبط سے سرخ پڑنے لگا ۔۔۔ وہ اس شخص کا زہریلا لہجہ براداشت کرنے کے قطعی موڈ نہیں تھی ۔۔۔ سیڑھیاں اتر اپنے کمرے میں جانے لگی ۔۔۔
فاتح اسکی راہ میں حائل ہوا ۔۔
بھاگ کہاں رہی ہو ؟؟؟ دیکھو گی نہیں ! تمہاری خواہش کے مطابق سب ہو رہا ہے یا نہیں ۔۔۔ دلہن صاحبہ!!!
اسکا لہجہ انتہائی کڑوا تھا ۔۔۔
کمبخت آنسو پھر سے نکل پڑے تھے ۔۔۔
نہیں ، کچھ بھی میری خواہش کے مطابق نہیں ہورہا ۔۔۔ تم کیا جانو؟؟؟ اور تم جانو گے بھی کیوں.. تمہیں فرق کیا پڑتا ہے ! کوئی مرے یا جیئے تمہاری بلا سے…اب ہٹو میرے راستے سے !
وہ براہراست اسکی آنکھوں میں دیکھتی نم دیدہ لہجے میں کہتی آگے بڑھ گئی ۔۔۔
ہوگا بھی نہیں ! ناشکری کہیں کی
وہ دانت پیس کے پیچھے سے ہانکا ۔۔۔
خبردار خبردار اگر تم میں سے کسی نے میرے کمرے سامنے بالکونی میں پھول لگائے تو ، سو ڈسکسٹنگ !
وہ بلاوجہ ہی ان پر برس پڑا ۔۔۔
تن فن کرتا اپنے کمرے میں چلا گیا ۔۔۔
بوجھل دل سے بغل میں دبائی فٹبال دیوار پر دے ماری اور بیڈ پر گر سا گیا ۔۔ نوال کا بھیگا لہجہ روئی روئی سی آنکھیں زہن کے پردے پر لہرائیں تو وہ بے چین سا ہو کر اٹھ بیٹھا ۔۔۔ وہ پچھلے کئی دنوں سینے میں پنپنے والوں جذباتوں کے بعث بے سکونی کی زد میں تھا ۔۔۔
دل بار بار نوال کو دیکھنے کے لئے مچل پڑتا ۔۔
جب سامنے آتی تو فاتح اپنی شکست بری طرح سے یاد آتی ۔۔۔ وہ اپنے جذبات خود بھی سمجھنے سے قاصر تھا.۔۔
بے زاری سے اٹھا اور شاور لینے کے بعد نیچے آگیا ۔۔۔ اماں زیورات اور دنیا جہاں کے کپڑے پھیلائے بیٹھی تھی ۔۔۔
نوال بھی گم سم سی ان کے قریب ہی بیٹھی تھی ۔۔۔
روشن رومیشا ؟؟؟؟ اگر کوئی یہاں ہے تو مجھے اسٹرونگ سا چائے کپ بنا کر کمرے میں دے جائو !
ازلی تحکم اور لاپرواہ انداز میں وہ جیسے نیچے آیا تھا ویسے ہی واپس چلا گیا ۔۔۔
البتہ نوال کا اسے نظرانداز اس نے صاف نوٹ کیا تھا۔۔۔ اسکے ماتھے پر سلوٹیں ابھرنے لگیں ۔۔
پانچ منٹ کے بعد تاشا بڑا سا مگ لئے اسکے کمرے میں نمودار ہوئی. ۔۔
ارے تم ؟؟؟ کہاں غائب رہتی ہو آجکل نظر نہیں آتی !!
فاتح اسے دیکھ کر سیدھا ہو بیٹھا اور ٹی وی کا والیم سلو کردیا ۔۔۔
میں تو یہی رہتی ہوں بھائی، مصروف ہوں آجکل تھوڑا ! البتہ آپ ہمیشہ کی طرح غائب رہتے ہیں ! پھر الزام بھی ہم ہی کو دے دیتے ہیں ، بھئی کیا کہنے آپ کے !
تاشا کی چونچ کھلی۔۔۔
ہممم ، تمہاری چہیتی سہیلی کی شادی جو ہے !
فاتح نے کپ لبوں سے لگایا ۔۔۔
ظاہر سی بات ہے ، اب وہ تو اداس روح کچھ کر نہیں رہی مجھے ہی سب کچھ کرنا پڑ رہا ہے !
وہ بے چاری صورت بنا کر بولی جیسے ابھی ہل جوت کر آئی ۔۔۔
کیوں وہ خوش نہیں ہے کیا؟؟ وہ تھوڑا سا حیران ہوا ۔۔۔
خوش ہو یا نہہیں شادی تو ہونی ہی ہے ، ویسے آپ کیوں پوچھ رہے ہیں ،
وہ جھک رازداری سے پوچھنے لگی ۔۔۔
میں کیوں پوچھو گا ، مجھے کیا! وہ رخ موڑ گیا ۔۔
کچھ تو ہے بھائی ؟؟ میں نوٹ کررہی ہوں کافی دنوں سے، کہیں آپ کو محبت تو نہیں ہوگئی نوال سے ؟؟؟
اسکی آنکھوں میں شرارت ناچنے لگی ۔۔۔
ایک منٹ کے لئے تو فاتح بھی سٹپٹا گیا ۔۔۔
ہاہاہاہاہاہا ، مزاق کر رہی ہوں بھائی ، برا مت ماننا
اسکا سنجیدہ چہرہ دیکھ کر بھاگنے میں ہی عافیت سمجھی ۔۔۔
محبت؟؟؟؟ مجھے ! وہ بھی نوال سے! ہونہہہہ ،
اس نے تنفر سے سر جھٹکا اور کپ لبوں سے لگالیا ۔۔۔
محمد عارف کشمیری۔۔۔ ایک تعارف
خطہ کشمیر میں بہت سے ایسی قابل قدر شخصیات ہیں جنھوں نے کم وقت میں اپنی محنت اور خداداد صلاحیت...