آج بھی فرش شب دیر بز پر
آسمانوں کا بہشتی دھوپ کا چھڑکاؤ کرنے آئے گا
اور دوشیزہ ہوا کی نرم و نازک انگلیاں
کھول کر نظم مناظر کی کتاب
رنگ و خوشبو، نور و نغمہ کے ورق الٹائیں گی
جسم کے آنگن میں پھیلے گی شفق کی سنسنی
آج بھی اپنے دریچے سے اسے جاتے ہوئے دیکھوں گا
دفتر کی طرف
اور اس لمحے کے پس منظر میں آئیں گی نظر
لڑکیاں جو رات کے سپنوں کے گلدستے لیے
صبح دم آتی تھیں رود نیل پر
جب اجالا دل کے مندر میں بجاتا تھا سنہری گھنٹیاں
تو گلابوں کی لچکتی ٹہنیاں
عکس اندر عکس پانی میں بہاتی تھیں نیازیں
اپنے پیاروں کے معطر نام پر
اور چکنائے ہوئے تانبے کی رنگت کے بدن
گد گدی محسوس کرتے تھے کسی کے لمس کی
بھیجتے تھے ایک پیغام تصور۔۔ ۔۔
ایک سندیسا کرن کی لوچ سے لکھا ہوا
بادِ صبا کے ہاتھ کل کے وصل کا
اور میں دیکھوں گا اس کو آج بھی سہ پہر کے رستے سے گھر آتے ہوئے
ایک خالی پرس اپنے نیم جاں کندھے سے لٹکائے ہوئے
اس کی آنکھوں میں نظر آئے گا
بے اقرار لمحہ۔۔ ۔۔ جانے کتنی دیر سے ٹھہرا ہوا
اور چوبی انگلیاں تھامے ہوئے ہوں گی
کسی تقدیس کی خوشبو،
کسی بے نام سپنے کی کتاب
٭٭٭
اُردو افسانہ سیلاب
مٹیالے پانی کا غراتا ہوا ریلا سڑک پر چھوٹی سی گاڑی کوکھدیڑتا بپھری ندی کے کنارے تک لے گیا ۔...