وہ دو بھائی تھے ایک ہی عورت کی کوکھ سے جنم لینے والے دو حقیقی بھائی۔ وہ دونوں اپنی ماں سے یکساں شدّت سے پیار کرتے تھے۔ انھیں اپنی ماں کی پاکیزگی اور وسیع المشربی پر بے حد ناز تھا۔ وہ ہمیشہ اس کی عظمت کے گیت گایا کرتے۔ وہ اپنی ماں کو دنیا کی سب سے زیادہ پاکباز اور نیک خاتون سمجھتے تھے، اس کی خدمت ہی کو اپنا دین اور ایمان جانتے۔ انھیں ہمیشہ اس بات کی فکر ستایا کرتی تھی کہ کہیں ماں کی خدمت میں کوئی کسر نہ رہ جائے۔ وہ دنیا بھر کی ساری خوشیاں اس کے قدموں میں ڈھیر کر دینا چاہتے تھے، اور ویسا کرنے کی انھوں نے کوشش کی بھی۔ انھوں نے ماں کے رہنے کے لیے ایک عالیشان کوٹھی بنوا دی، کوٹھی کے اِرد گرد ایک طویل و عریض پائیں باغ بنوا دیا۔ باغ میں مختلف قسم کے درخت اور پھولوں کے پودے لگوادئیے۔ چھوٹے چھوٹے خوبصورت حوض اور رنگین پانی کے فوّارے نصب کروا دئیے۔ خدمت کے لیے ہمہ وقت نوکر اور باندیاں کمر بستہ رہتیں۔ بوڑھی ماں بھی اپنے جوان بیٹوں کی یہ خدمت گزاری اور سعادت مندی دیکھ دیکھ کر پھولی نہ سماتی۔ سچ مچ وہ اپنے آپ کو دنیا کی خوش قسمت ترین عورت سمجھتی تھی، وہ جانتی تھی کہ اس کے ایک اشارے پراس کے بیٹے اس کے لیے آسمان کے تارے تک توڑ کر لا سکتے ہیں۔
دونوں بھائی بستی میں سب سے زیادہ خوبصورت، جوان اور طاقتور سمجھے جاتے تھے ساری بستی پر دونوں کی دھاک تھی، کسی دشمن کی مجال نہیں تھی کہ ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ سکے۔ ان کی نیک نامی کی شہرت دُور دُور تک پھیل گئی تھی، اوردوسری بستیوں کے بڑے بڑے لوگ ان سے ملاقات کرنے کے متمنّی رہا کرتے۔ وہ اسی طرح بڑی شان و شوکت سے زندگی گزار رہے تھے۔ ان کی ماں بھی بیٹوں کی اس با وقار زندگی سے بہت مطمئن تھی۔ دن بیت رہے تھے، اچانک ماں نے بیٹوں کے رویّے میں کچھ تبدیلی محسوس کی۔ اس نے اندازہ لگایا کہ اس کے بیٹے گھر میں بظاہر جتنے متین اور پُر سکون نظر آتے ہیں، اصل میں باہر وہ ویسے نہیں ہیں۔ پہلے پہل اسے صرف شبہہ تھا، مگر دھیرے دھیرے اس کا شبہ یقین میں بدلتا گیا۔ وہ چپکے چپکے ان کی باہری سرگرمیوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے لگی۔ اس کی مخصوص باندیوں اور خاص ملازموں نے بیٹوں کے بارے میں جو اطلاعات دیں، انھیں سُن کر وہ فکر مند اور اداس ہو گئی۔ اسے بے حد دُکھ ہوا کہ اس کے بیٹے اصل میں ویسے نہیں ہیں جیسے وہ نظر آتے ہیں۔
اسے معلوم ہوا کہ وہ اس کے سامنے جتنے سعادت مند، رحم دل اور نرم مزاج دکھائی دیتے ہیں ،ا س کے پیچھے وہ اتنے ہی سرکش، سفّاک اور تُند خُو ہیں۔
اس نے انھیں خلوص، محبت، انسان دوستی اور ایثار و قربانی کا درس دیا تھا۔ مگر اسے معلوم ہوا کہ وہ اس کی ساری ہدایات کو پسِ پشت ڈال کر اپنے خود ساختہ اصولوں کے غلام بن گئے تھے۔ جب وہ اس کے سامنے ہوتے تو بظاہر ایک اور نیک نظر آتے، مگر گھر سے باہر نکلتے ہی دونوں کے راستے جدا ہو جاتے، دونوں ایک دوسرے کے کٹّر دشمن بن جاتے۔ باہر ہر ایک کے مصاحبوں اور ہمنواؤں کا الگ الگ گروہ تھا، وہ سب دن رات سر جوڑ کر اپنے اپنے حریف کو زَک پہچانے کی ترکیبیں سوچا کرتے۔ ایک دوسرے کے خلاف زہر اگلنے والی تقریریں کرتے اور مضامین لکھتے۔ سڑکوں، گلیوں اور چوراہوں پر ایک دوسرے کے نظریات کے خلاف زہریلا پروپگنڈہ کرتے۔ سبھاؤں اور جلوسوں میں ایک دوسرے کے خلاف نعرے لگاتے، گالیاں دیتے اور جی کھول کر بُرا بھلا کہتے۔ اب وہ بوڑھی اور نیک عورت بہت زیادہ دُکھی رہنے لگی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ آخر اس کے بیٹوں کو کیا ہو گیا ہے۔ اس سے ان کی تربیت اور پرورِش میں ایسی کون سی لغزش ہو گئی تھی کہ دہ دونوں اِس قدر گمراہ ہو گئے تھے۔ اس کے دودھ میں ایسا کون سا زہر گھُل گیا تھا کہ اب وہ دونوں زہریلے ناگوں کی طرح ایک دوسرے پر پھنکارنے لگے تھے۔ ا س نے بہت غور کیا، بہت سوچا، مگر اسے کہیں بھی اپنے فرض کی ادائیگی میں کسی قسم کی غفلت دکھائی نہ دی۔ اس نے دونوں کوا چھا انسان بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ اس نے سوچا، وہ اپنے بیٹوں کو سمجھائے گی۔ وہ لوگ اب بھی اس کا احترام کرتے ہیں۔ یقیناًاس کے حکم کو نہیں ٹالیں گے۔ آخر اس کی چھاتیوں کا دودھ ان کی رگوں میں خون بن کر دَوڑ رہا ہے۔ وہ اس کے حکم کے خلاف کیوں کر جا سکتے ہیں۔ یہ سوچ کراس نے ایک دن دونوں بیٹوں کو اپنے پاس بُلایا، پیار سے ان کے ماتھے چومے اور کہنے لگی ’ ’میرے لاڈلو! تم دونوں میری آنکھوں کا نور ہو، میرے دست و بازو ہو، مجھے تم دونوں اپنی جان سے زیادہ عزیز ہو۔ مجھے تمہاری نیک چلنی، ذہانت، اور قوّت پر پورا پورا بھروسہ ہے۔ میں یہ بھی جانتی ہوں کہ تم دونوں مجھے بے حد چاہتے ہو، میرے لیے اپنی جان تک قربان کر سکتے ہو، مگر۔۔۔ اتنا کہہ کر وہ دُکھی خاتون ایک لمحے کے لیے رُک گئی،ا س نے اپنی بوڑھی پلکیں اٹھا کر دیکھا۔ ا س کے دونوں بیٹے گردن جھکائے چپ چاپ کھڑے تھے۔ پتھر کے مجسّمے کی طرح سخت اور بے حِس، ان کے چہرے اس وقت سارے احساسات سے عاری تھے۔ یہ بے حِسی دیکھ کر اس نیک عورت کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، اس نے بھرّائے گلے سے کہا۔
’ ’میرے جگر کے ٹکڑو! آخر تمھیں کیا ہو گیا ہے، نہ تمھارے ہونٹوں پر مُسکراہٹ کے پھول کھِل رہے ہیں، نہ آنکھوں سے پیار اور محبت کا رس ٹپک رہا ہے۔ تم لوگ اچانک اتنے کٹھور کیوں ہو گئے ہو؟‘‘
دونوں بیٹوں نے دھیرے دھیرے نظریں اوپر اٹھائیں، ماں کے چہرے پر نظر پڑتے ہی ایک لمحے کے لیے ان کی آنکھوں میں نرمی اور پیا رکی جھلکیاں دکھائی دیں، پھر دونوں نے گردنیں موڑ کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ اور دوسرے ہی لمحے ان کے چہروں پر چھائی ہوئی ملائمت یکلخت غائب ہو گئی اور آنکھوں سے شعلے برسنے لگے۔
تب پہلے نے دھیرے دھیرے کہنا شروع کیا ’ ’ماں آج بھی تم پر میری جان قربان ہے، آج بھی تمھارے چرنوں کی دھول سے میں اپنے ماتھے پر تلک لگاتا ہوں، مگر ماں۔۔۔؟‘‘
اس نے دوسرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’ ’یہ میرا دشمن ہے، میرا جانی دشمن، میرا ا س کے ساتھ نباہ نہیں ہو سکتا۔ اس کا لہجہ فیصلہ کن تھا۔
نیک عورت نے گھبرا کر پہلے کی طرف دیکھا، پھر اس نے دوسرے بیٹے پر نظر ڈالی، دوسرے نے پہلے کو خونخوار نظروں سے گھورتے ہوئے کہا ’ ’ماں تمھارے قدموں تلے میری جنّت ہے ،۔ میں تمھارے لیے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا سکتا ہوں، مگر میں اپنے اِس دشمن کے ساتھ نہیں رہ سکتا۔ یہ میرے وجود کو پیس کر رکھ دینا چاہتا ہے۔ یہ میرا سب سے بڑا دشمن ہے۔‘‘
اب نیک عورت بالکل ہی سِٹپٹا گئی تھی۔ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کے دھارے بہتے رہے، وہ تھوڑی دیر تک اِسی طرح روتی رہی، پھر اپنے لہجہ کو انتہائی نرم بناتی ہوئی بولی۔
’’مگر میرے جگر پارو! آخر ایسی کون سی بات ہو گئی جس کے لیے تم دونوں ایک دوسرے سے اس قدر ناراض ہو؟‘‘
پہلے نے اسی سخت لہجے میں کہا ’’ماں اب ان سب باتوں کو دُہرانے سے کوئی فائدہ نہیں، میں اتنا جانتا ہوں کہ اس کے اور میرے راستے بالکل الگ الگ ہیں۔ اب اس گھر میں یا تو یہ رہ سکتا ہے یا میں، آج سے ہم دونوں ساتھ ساتھ نہیں رہ سکتے۔‘‘
دوسرے نے بھی اسی کڑے لہجے میں کہا ’ ’ہاں ماں! آج تمھیں بھی فیصلہ کرنا ہو گا کہ تماس کے ساتھ رہو گی یا میرے ساتھ۔ کیوں کہ یہ میرا دشمن ہے اور میں اس دشمن کے ساتھ نہیں رہ سکتا۔‘‘
بے چاری نیک خاتون اِس دو طرفہ غم کی چوٹوں سے نِڈھال ہو گئی، اس نے اپنے بیٹوں کو سمجھانے کی پوری کوشش کی کہ وہ دونوں کی ماں ہے، وہ دونوں ہی اس کے بیٹے ہیں۔ انھیں اِس طرح سے ایک دوسرے کو بُرا بھلا نہیں کہنا چاہئیے۔ مگر ان پر اس نصیحت کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ وہ اپنی بات پر اَڑے رہے، وہ نیک عورت انھیں سمجھاتی رہی۔ سمجھاتے سمجھاتے اس کا گلا رُندھ گیا۔ آنکھیں پتھرا گئیں اور سارا جسم ربڑ کی طرح تن گیا، وہ بے جان ہو کر فرش پر لڑھک گئی۔ دونوں بیٹے گھبرا کر اس کے پاس بیٹھ گئے۔ پہلے نے نبض دیکھی، نبض بند ہو چکی تھی۔ دوسرے نے منہ کے پاس ہتھیلی رکھی، سانس پہلے ہی رُک گئی تھی، دونوں کچھ دیر تک اسی طرح ماں کے سرہانے بیٹھے رہے۔ دونوں کے چہرے دُکھ اور غم سے پیلے پڑ گئے تھے۔ دونوں کی آنکھوں سے آنسو ٹپک ٹپک کر ماں کی لاش کو بھِگو رہے تھے۔ وہ لوگ بہت دیر تک اِسی طرح بیٹھے روتے رہے۔ تھوڑی دیر بعد اچانک دونوں کی نظریں چار ہوئیں۔ دونوں کے بہتے آنسو ایک دم رُک گئے۔ انھوں نے دوبارہ اپنے چہروں کو سخت بنا لیا۔ آنکھوں سے چنگاریاں برسنے لگیں۔ مُٹھّیاں بھنج گئیں، منہ سے کف جاری ہو گیا۔ پہلا کسی سانپ کی طرح پھنکارتا ہوا بولا۔ ’ ’غدّار، حرام خور،! نکل جا یہاں سے، نکل جا، اب اپنے ناپاک ہاتھ لگا کر ماں کی لاش کو گندہ مت کر، چلا جا، چلا جا۔‘‘
دوسرے نے بھی اسی طرح اکڑتے ہوئے جواب دیا ’ ’خود غرض کُتّے، تو خود نکل جا یہاں سے، یہ میری ماں ہے۔ اب اس پر تیرا کوئی حق نہیں ہے۔‘‘
پہلا بولا ’ ’ارے جا ناپاک کتّے میں اس پوِترّ لاش پر تیرا سایہ تک پڑنے نہیں دوں گا، میں اپنی ماں کو چندن کی لکڑی میں جلاؤں گا، اوراس کی راکھ سے اپنے ماتھے پر تلک کروں گا۔‘‘
دوسرا مارے غصّے کے سُرخ ہو چکا تھا، پوری قوّت سے گرج کر بولا۔ ’ ’تو ایسا نہیں کر سکتا، میں تجھے اس لاش کی بے حرمتی کرنے نہیں دوں گا۔ میں اس مقدّس لاش کو پورے عزم و احترام کے ساتھ دفن کروں گا، میں اپنی ماں کی قبر پر ایک بہت عالیشان مقبرہ بناؤں گا اور اس پر ایک کتبہ کندہ کراؤں گا، یہ دنیا کی مقدّس ترین ہستی کی قبر ہے۔‘‘
’ ’تم ایسا نہیں کر سکتے۔‘‘
’ ’تم بھی ویسا نہیں کر سکتے۔‘‘
’’میں اِسے جلاؤں گا۔‘‘
’ ’میں اِسے دفن کروں گا۔‘‘
پھر دونوں ایک دوسرے پر بِل پڑے، اپنی ساری قوّت صرف کر کے دونوں ایک دوسرے کو مار ڈالنا چاہتے تھے۔ لڑتے لڑتے دونوں زخموں سے چور ہو گئے، زخموں سے خون ٹپکنے لگا، آخر دونوں نِڈھال ہو کر فرش پر گر پڑے، دونوں لاش کے دائیں بائیں پڑے لمبی لمبی سانسیں لے رہے تھے تھوڑے وقفہ کے بعد دونوں پھر اٹھے، مگر اب ان میں لڑنے کی سکت باقی نہ تھی۔
پہلے نے کہا ’ ’چلو ہم کسی تیسرے آدمی سے اپنے مقدمے کا فیصلہ کرائیں، دوسرا بھی راضی ہو گیا۔ دونوں لڑکھڑاتے ہوئے گھر سے باہر نکلے، ان کے زخموں سے اب بھی خون رِس رہا تھا اور کپڑے چیتھڑوں کی شکل میں بدن پر جھول رہے تھے، انھوں نے باہر نکل کر دُور تک نظر دوڑائی، سڑک سنسان تھی۔ دونوں بے چینی سے کسی تیسرے آدمی کا انتظار کر رہے تھے۔ آخر دور سے ایک اجنبی آتا دکھائی دیا۔ دھیرے دھیرے اجنبی قریب آتا گیا، جب وہ بالکل قریب آ گیا تو دونوں لپک کر اس کے پاس پہنچے، اجنبی دونوں کو اس بگڑے حلئے میں دیکھ کر گھبرا گیا۔ مگر دونوں نے اس کے پیر پکڑ لیے اور اس سے گڑگڑا کر کہا ’ ’ہمیں اس مشکل سے نجات دلاؤ ہم تمھیں منصف بناتے ہیں۔‘‘
دونوں گھسیٹ کر اسے اپنے گھر لے آئے پھر پہلے نے نیک عورت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’ ’یہ میری ماں ہے، میں اِسے اپنے اصولوں کے مطابق جلا کر اِس کی راکھ سے ماتھے پر تلک کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
دوسرے نے کہا ’ ’نہیں یہ میری ماں ہے، میں اِسے دفن کر کے اس کی قبر پر ایک عالیشان مقبرہ بنانا چاہتا ہوں۔‘‘
اجنبی کی سمجھ میں کچھ نہ آیا، اس نے کہا ’ ’یہ تم دونوں کی ماں ہے، تم دونوں بھائی بھائی ہو پھر دونوں مل کر اس کا کِریا کرم کیوں نہیں کرتے۔‘‘
پہلے نے کہا ’ ’نہیں یہ میرا بھائی نہیں ہے، البتہ یہ میری ماں ہے۔‘‘
دوسرے نے کہا ’ ’نہیں یہ جھوٹا ہے، ، یہ میری ماں ہے اور یہ میرا دشمن ہے۔
اجنبی نے دونوں کو غور سے دیکھا، اس کی سمجھ میں سب کچھ آ گیا تھا۔ اس کے ہونٹوں پر ایک چالاک مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’ ’تم دونوں بیوقوف ہو، اتنی آسان بات تمھاری سمجھ میں نہ آئی۔‘‘ دونوں اس کی طرف دیکھنے لگے۔
اجنبی نے آگے کہا ’ ’تم لوگ اس لاش کو دو حصوں میں تقسیم کر لو، اور اپنی اپنی رسم کے مطابق اس کا کِریا کرم کر ڈالو۔‘‘
اتنا کہہ کر اجنبی گھرسے باہر نکل گیا، اور دونوں چپ چاپ کھڑے لاش کی طرف دیکھنے لگے۔ تھوڑی دیر تک اجنبی کے فیصلے پر غور کر تے رہے۔ پھر دونوں نے کہیں سے ایک آری لی اور لاش کو درمیان سے چیر دیا۔ دونوں نے اپنے اپنے حصّے کی لاش کو اپنے قبضہ میں کر لیا۔ اب دونوں مطمئن تھے، مگر ان کا یہ اطمینان زیادہ دیر تک برقرار نہ رہ سکا، دونوں نے دیکھا کہ لاش کے کٹے ہوئے حصّوں سے خون کے قطرے ٹپک رہے ہیں۔ سُرخ اور گرم گرم خون کے زندہ قطرے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے ان قطروں نے لا تعداد انسانوں کی شکلیں اختیار کر لیں، اور وہ نوزائیدہ انسان ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑے۔ وہ سب شکل و صورت کے اعتبار سے انسان نظر آ رہے تھے، مگر بھیڑ یوں کی طرح ایک دوسرے کو بھنبھوڑ رہے تھے۔ دونوں بھائی حیرت اور خوف سے تھر تھر کانپتے ہوئے کمرے کے ایک کونے میں دبک گئے۔ لاش سے برابر قطرے ٹپک رہے تھے۔ قطروں سے نئے نئے انسان جنم لے رہے تھے، اور پھر ایک دوسرے کو قتل کر دیتے تھے۔ صبح سے شام ہو گئی، شام سے پھر صبح ہو گئی۔ دن مہینے اور سال بیت گئے، مگر قتل و خون کا یہ بھیانک سلسلہ آج بھی جاری ہے اور اب وہ دونوں بھائی بوڑھے ہو گئے ہیں۔ پچھتاوے، غم اور افسوس سے ان کی کمریں جھُک گئی ہیں۔ چہروں پر جھرّیاں پڑ گئی ہیں۔ وہ آج بھی کمرے کے کونوں میں دُبکے ہوئے اپنے رعشہ زدہ ہاتھوں سے اس انوکھی لڑائی میں مرنے والوں کی لاشیں گنتے رہتے ہیں۔ لاشوں کے اعداد و شمار جوڑنے کے سوا اب ان کے پاس کوئی کام نہیں رہ گیا ہے۔
٭٭٭
اچھا مطلع کیسے لکھیں؟
(پہلا حصہ) میں پہلے ہی اس موضوع پر لکھنے کا سوچ رہا تھا اب "بزمِ شاذ" میں بھی ایک دوست...