صبح جب اس کی آنکھ کھلی وہ کمرے میں نہیں تھی۔وہ ایک جست میں بیڈ سے اترا اور واش روم میں گھس گیا۔آج کا دن بے حد خاص تھا۔وہ روز کی نسبت قدرے اچھے گیٹ اپ میں اس کے سامنے جانا چاہتا تھا۔فریش ہوکر وہ کمرے سے باہر آیا تھا۔
“واؤ! آج زرمین کو امپریس کرنے کا ارادہ لگتا ہے۔کوئ اورلڑکی ہوتی تو میں یقین کے ساتھ کہہ سکتی تھی کے وہ آپ کو دیکھتے ہی بری طرح امپریس ہوجاتی مگر زرمین کی گارنٹی میں نہیں دے سکتی۔”
جونہی مزنی اپنے کمرے سے نکلی ڈارک ریڈ ٹی شرٹ پر بلاک کوٹ اور بلاک جینس میں ملبوس شاہ زر کو دیکھ کر چہکی۔
“خیر کوشش تو یہی ہے کہ آج تمھاری بھابھی کے سامنے اظہار محبت کردیا جائے۔دعا کرنا خدا کامیابی عطا فرمائے۔آج اسے Date پر لے جانے کا ارادہ ہے۔”
وہ مسکرا کر گویا ہوا۔
“اب آیا اونٹ پہاڑ کے نیچے ۔ کوشش کیجیے گا کہ آج وہ آپ کے چارم سے نہ بچ پائے۔
Best of luck.”
اس سے قبل کہ مزنی سیڑھیاں اتر جاتی وہ گویا ہوا۔
“زرمین کہاں ہے؟دکھائ نہیں دے رہی۔”
اس کے استفسار پر مزنی نے اطراف میں نظر دوڑائی۔
“کچن میں ہوگی۔میں دیکھتی ہوں۔”
اسی وقت دعا ایک خط ہاتھ میں تھامے دوڑتی ہوئی اس کے قریب آئی تھی۔
“یہ لیں آنٹی یہ لیٹر آپ کے نام ہے ۔آپ کے دروازے کے ہینڈل سے نتھی کیا ہوا تھا۔”
دعا ہانپتی ہوئی گویا ہوئ۔
“یہ صبح سویرے کون میرے ساتھ مذاق کر رہا ہے۔ٹیکنالوجی کے اس دور میں لیٹر ۔۔
وہ متعجب سی شاہ زر کی سمت دیکھ کر بولی۔
“آپ کچن میں دیکھیں بھائ میں زرا دیکھ لوں یہ کس کی شرارت ہے”۔
شاہ زر سے کہتی وہ واپس اپنے کمرے میں داخل ہوئی۔
“میری عزیز ترین دوست مہر ”
خط کی پہلی سطر پر نگاہ پڑتے ہی ایک نامعلوم سے خوف نے اسے اپنے حصار میں لے لیا۔
“مجھے یقین ہے یہ خط پڑھکر تمھیں تکلیف ہوگی یہ جانتے ہوئے بھی میں تمھیں خط لکھ رہی ہوں۔میں تمھیں اس تکلیف سے نہیں بچا سکتی ۔آفریدی ولا کے کسی مکین کو تو مطلع کرنا ہی تھا کہ میں جا رہی ہوں۔ تمھارے سوائے اور کوئ فرد میرے ذہن میں نہیں آیا۔ کیونکہ مجے یقین ہے کہ تم میری مجبوریوں کو سمجھوگی۔ایک تم ہی تو ہو جو میرے متعلق اچھا گمان رکھتی ہو۔میرے زندگی کے ہر باب سے واقف ہو۔ میں جارہی ہوں تم سب کی زندگیوں سے دور ہمیشہ کے لیے۔میں جانتی ہںوں کہ تم سمیت اس گھر کے باقی افراد مجھے اس خاندان کا فرد تسلیم کرچکے تھے۔مگر میں خود اپنے آپ کو وہ مقام نہیں دے سکی جو مقام اس گھر کے مکینوں نے مجھے دیا تھا۔تم چاہتی ہو کہ میں ماضی کو فراموش کر نئے سرے سے اپنی زندگی شروع کرو۔جب تم خود کو میری جگہ رکھکر سوچوگی تب تمھیں احساس ہوگا کہ میں اس گھر میں ہنسی خوشی کیسے بس سکتی ہوں جسے تباہ کرنے کی نیت سے میں یہاں آئی تھی۔میرے یہاں سے چلے جانے کا یہ مطلب ہرگز نہ اخذ کرلیناکہ میرے دل میں تم سب کے لیے کوئ جذبات نہیں ہے۔اس گھر کا ہر ایک فرد بہت خاص ہے مزنی۔خوش نصیب ہونگے وہ لوگ جنھیں اس گھر سے وابستہ ہونے کا شرف حاصل ہوگا۔کسقدر احمق تھی میں جو رئیسوں کے متعلق یہ گمان رکھتی تھی کہ وہ لوگ مغرور،بے حس اور ایمان سے یکسر نابلد ہوتے ہیں۔ حسب توفیق شاہ زر سے ملاقات کے وقت میں نے اس کے بارے میں بھی وہی سوچا جو دوسرے رئیس زادوں کے متعلق سوچتی آئ تھی۔مگر شاہ زر سمیت اس گھر کے مکینوں نے مجھے غلط ثابت کر دیا۔میں نے سنا تھا کہ زندگی میں پیش آنے والے ہر واقعہ کے پیچھے کوئ مصلحت پوشیدہ ہوتی ہے۔اور شاہ زر سے اتفاقاً میری ملاقات اور پھر اس انتقام کے کھیل کے پیچھے خدا کی کونسی مصلحت پوشیدہ تھی یہ مجھے اب سمجھ آیا ہے۔وہ مجھے دکھانا چاہتا تھا کہ سبھی امیر ترین افراد ایک سے نہیں ہوتے۔میں بےوجہ ہی ان سے نفرت کرتی رہی تھی۔اس گھر میں آکر مجھے اسقدر محبت و عزت ملی جسکا میں نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔رشتوں کے نام پر صرف دائ ماں کا ساتھ تھا میری ابتک کی زندگی میں۔آفریدی ولا میں تم سب کے ساتھ چند دن گزارنے کے بعد میں نے دوسرے رشتوں کو محسوس کیا ،رشتوں کے تقدس کو جانا۔مگر میری قسمت دیکھو، بذات خود مجھے ان محبتوں کو ٹھکرا کر جانا پڑ رہا ہے۔جو مقام و حیثیت مجھے اس گھر میں دی جارہی ہے میں اس کے قابل نہیں ہوں ۔جس گھر کو تباہ کرنے میں آئ تھی اسی گھر کے مکینوں کی محبت نے مجھے چاروں شانے چت کر دیا۔میں اس گھر کے مکینوں کے ساتھ رہنا تو دور ان سے نظریں بھی نہیں ملا پاونگی۔
مجھے میری جذباتیت اور جلد بازی کی سزا مل رہی ہںے۔میں اوروں کو صحیح غلط کا سبق پڑھایا کرتی تھی وقت آنے پر خود ہی صحیح غلط میں فرق نہیں کرپائی۔میں شاہ زر کی تکلیف کا سبب بنی ہںوں میں اسے ناکردہ گناہ کی سزا دے رہی تھی۔ اور اب میں نے اپنے آپ کو سزا دینے کا فیصلہ لیا ہںے۔تم نے درست کہا تھا کہ شاہ زر کا دل بہت خاص ہے غالباً اسی لیے اسقدر زچ کیے جانے کے باوجود وہ مجھ سے نفرت نہیں کر پایا۔بجائے مجھ سے نفرت کرنے کے وہ مجھ سے ہمدردی جتاتا رہا خود کو قصور وار گردانتا رہا۔اس کا وہ گناہ جو میرے گناہ کے سامنے بہت چھوٹا تھا اس گناہ کی تلافی کے لیے اپنی پوری زندگی میرے ساتھ گزارنے پر وہ آمادہ ہوچکا تھا۔مگر مجھے یہ منظور نہیں ہے۔وہ بہت خاص ہے اسے ایسے ہم سفر کی ضرورت ہے جو دل کی گہرائیوں سے اسے چاہے ۔ایک ایسی ہمسفر جو اس کی پسند ہو اسکی محبت ہو۔جو اس کے باطن میں جھانک سکے۔اسکے کردار کی مضبوطی پر فخر کر سکے۔اس کے انتہا سے زیادہ نرم دل کو اپنی محبت سے بھر دے۔میں اس شخص کو deserve نہیں کرتی۔میں تو اس کی ہمدردی کے بھی لائق نہیں ہوں۔تم شاہ زر تک میرا یہ پیغام ضرور پہنچا دینا۔وہ میرا گنہ گار نہیں ہے۔نہ تو میں اس سے خفا ہوں نہ ہی اس سے نفرت کرتی ہوں۔لہذا معافی کا لفظ اسے اپنے لبوں پر لانا ہی نہیں چاہیے۔البتہ مجھے معذرت ضرور طلب کرنی چاہیے۔اس سے غلطی سرزد ہوئی تھی مگر اس کی وجہ میں تھی۔میں نے اس پر الزام لگایا تھا،اس کی انا کو للکارا تھا۔اسے گناہ کرنے پر اکسایا تھا۔گنہ گار تو میں ہوں مگر اس سے معافی طلب کرنے کی ہمت مجھ میں نہیں ہے ۔اسی لیے میں یہاں سے جارہی ہوں۔بیتی باتوں کو فراموش کر میں نئ زندگی کی سمت نہیں بڑھ سکتی میں مجبور ہوں میرا ضمیر مجھے اس کی اجازت نہیں دیتا۔اس گھر میں گزرتا ہر لمحہ مجھے میرا ضمیر کچوکے لگاتا رہا ہے۔اس سے قبل کہ وہ زخم ناسور بن جاتے اس گھر سے دور چلے جانے میں ہی میں نے عافیت سمجھی۔اس سے زیادہ لکھنے کے لیے نہ تو میرے پاس طاقت ہے نہ ہی الفاظ۔ہوسکے تو مجھے معاف کردینا۔مجھے ڈھونڈنے کی کوشش مت کرنا۔۔
تم سب کی گنہ گار
زرمین۔۔۔۔۔
آنسوؤں سے تر چہرے کے ساتھ مزنی کھڑی ہوئ اور کمرے کے دروازے پر آرکی۔بالائ منزل سی نیچے کا منظر واضح تھا۔گھر میں ہلچل سی مچی تھی ۔شاہ زر متفکر سا ہال کے وسط میں ایستادہ تھا۔زرمین کا پتہ نہیں چل رہا تھا۔
“بھائی وہ چلی گئی۔”
بالائی منزل کی ریلنگ پکڑ کر وہ نیچے جھانکتے ہوئے عجیب سے انداز میں چلائ۔شاہ زر نے حیران ہوتے ہوئے اوپر دیکھا تھا مزنی کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔انہونی کے احساس سے اس کا دل دھڑک اٹھا۔وہ سیڑھیاں پھلانگتا اس کے قریب آیا۔وہ خالی خالی نگاہوں سے شاہ زر کو دیکھ رہی تھی۔اس کے ہولے ہولے لرزتے ہاتھ میں مقید لیٹر کو اس نے اس کی گرفت سے آزاد کرتے ہوئے پڑھنا شروع کیا۔چند سطروں کے بعد ہی وہ خط پھینک کر متوحش سا سیڑھیوں کی سمت بڑھا۔
“نو ۔۔وہ ایسا نہیں کرسکتی میں اسے جانے نہیں دونگا ۔مجھے پتہ ہے وہ کہاں گئ ہوگی۔”
وہ بڑبڑاتا ہوا سیڑھیاں اتر گیا۔شاہ زر کا ارادہ بھانپ کر مزنی بجلی کی تیزی سے اس کے پیچھے لپکی تھی۔
وہ ہال کی چوکھٹ کو عبور کر گیا۔
“رکیں بھائ آپ کہاں جارہے ہیں۔وہ وہاں نہیں ہے۔وہاں مت جائیں۔”
وہ لڑکھڑائ اور سیڑھیوں سے لڑھکتی ہوئ فرش پر آرکی۔سب بدحواس سے اس کی طرف دوڑے۔
“زین،شاہ میر،شارق کوئ روکو انھیں۔وہ وہاں چلے گئے تو سب ختم چلہوجائےگا۔وہ راز جو میں اتنے عرصے سے اپنے سینے میں چھپائے بیٹھی تھی افشاں ہوجائےگا۔وہ اس تلخ حقیقت کو برداشت نہیں کر پائینگے۔”
بند ہوتی آنکھیں اور ڈوبتے ذہن کے ساتھ کہتی وہ ہوش و ہواس سے بیگانہ ہوگئ۔
****
وہ مسلسل دروازوہ کھٹکھٹاے جا رہا تھا۔چند لمحوں بعد دروازہ کھولا تھا۔غیر شناسا چہرے کو دیکھ کر وہ متعجب ہںوا۔
“جی کہیں، کس سے ملنا چاہتے ہیں آپ؟”وہ بولی تھی۔
“میں زرمین فاروقی سے ملنا چاہتا ہںوں اسے بلائیں۔”
اس نے اضطراری انداز ہںے۔
“یہاں کوئی زرمین فاروقی نہیں رہتی۔”
اس عورت کی بات پر بے چینی کی جگہ غصے نے لے لی۔
“یہاں کوئی زرمین فاروقی نہیں رہتی اس سے کیا مراد ہے۔آپ کون ہیں اور یہاں کیا کر رہی ہے؟قریباً ایک ماہ قبل زرمین اپنی دائی ماں کے ساتھ یہی رہائش پذیر تھی۔”
“آپ کی تعریف؟”اس عورت نے استفسار کیا۔
“میں شاہ زر آفریدی ہںوں۔زرمین کا شوہر۔”
“تو آپ شاہ زر آفریدی ہیں۔معاف کیجیے گا میں آپ کو پہچان نہیں پائی۔”
“میں آپ سے آپ کے نام کے حد تک ہی واقفیت رکھتی ہںوں۔آپ وہی شخص ہیں جس نے دو ماہ قبل اس محلے میں آکر زری کی عزت کا تماشہ بنادیا تھا۔اور اب آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ زری کے شوہر ہیں۔کہیں آپ مجھے بے وقوف تو نہیں بنا رہے؟”زینت نے متنفر لہجے میں کہا۔
“دیکھیں میں نے زری کا شوہر ہںوں یا نہیں اس بات سے آپ کو کوئی سروکار نہیں ہںونا چاہیئے۔یہ میرا ذاتی معاملہ ہے۔میں آپ کے کسی بھی سوال کا جواب دینے کا پابند نہیں ہںوں ۔آپ زرمین کو فوراً سے پہلے باہر بلائیں۔میں جانتا ہںوں وہ یہیں ہںے۔”
وہ بری طرح جھنجھلایا تھا۔
“آپ کی باتوں سے واضح ہںو رہا ہںے کہ آلاعلملم ہیں کہ اپنی بقیہ زندگی میں زرمین اس گھر کا رخ دوبارہ کبھی نہیں کرسکے گی۔اسے ذلیل کرنے کے بعد سے اس کے شوہر بننے تک کے درمیانہ عرصے میں اس کے ساتھ کیا کچھ ہںوا غالباََ آپ اس حقیقت سے انجان ہیں۔لہٰذا معلومات بہم پہنچانا میرا فرض بنتا ہے۔تو سنیں، جس روز آپ اسے ذلیل کرکے اپنے گھر چل دیے تھے۔اس کا برا وقت ختم نہیں ہوا تھا۔اور بہت کچھ سہنا اس کے نصیب میں لکھا تھا ۔آپکے جانے کے بعد محلے والوں کے طعنے دائ ماں کے ہارٹ اٹیک کا سبب بنے تھے۔وہ بےچاری دائ ماں اور محلے والوں کے سفاکی سے ابھر بھی نہ پائ تھی کہ میرے شوہر نے اپنا اصلی رنگ دیکھا دیا۔اسی رات اسے تن تنہا پاکر میرے شوہر نے اس کے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش کی۔میں ان کی نیت سے بخوبی واقف تھی۔وہ گزشتہ کئی سالوں سےزرمین کی محبت میں گرفتار تھے اور وہ معصوم اس حیوان کو بھائ کا درجہ دیتی رہی تھی۔اس رات میں نے میرے شوہر کو ان کے ناپاک ارادوں میں کامیاب نہ ہونے دیا ۔مگر زرمین کے پاس کسی کا ساتھ نہ تھا ۔محلے والے تو پہلے ہی اس کی کردارکشی میں پیش پیش تھی ۔وہ کسی سے فیصل کے مکروہ چہرے کے متعلق کہتی بھی تو کوئ یقین نہ کرتا۔اس رات کے اختتام سے قبل اپنی عزت اور میرا گھر بچانے کے لیے وہ اپنے ہی گھر سے بھاگ کھڑی ہوئ۔مکان خالی ہوتے ہی میرے شوہر نے اس پر قبضہ کر لیا۔اس دن کے بعد سے آج میں آپ کے منہ سے زرمین کا نام سن رہی ہوں۔”
زرمین کی گزشتہ زندگی کا وہ پہلو جس سے وہ ابتک ناواقف تھا اس عورت نے ایسا نقشہ کھینچا کہ وہ دہل اٹھا۔
“دائ ماں کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔۔۔۔”
وہ لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ کار کے نزدیک آیا تھا۔تبھی اس کے ذہن میں جھماکا ہوا۔
“کیا آپ بتا سکتی ہیں دائ ماں کو کس ہاسپٹل میں ایڈمیٹ کروایا گیا تھا؟
اس نے مڑ کر استفسار کیا۔وہ عورت ابھی تک دروازے پر کھڑی تھی ۔
“اس روز انھیں پاس کے سرکاری ہسپتال میں ایڈمیٹ کروایا گیا تھا ۔میں نہیں جانتی کہ آپ زرمین کے شوہر ہیں یا نہیں ؟
مگر اس کے لیے آپکا متفکر چہرہ دیکھ مجھے احساس ہورہا ہے کہ آپ اسکے لیے حقیقتاً فکر مند ہیں۔خدا کرے وہ آپکو بخیریت و عافیت مل جائے۔”
اپنے گھر سے ایک سیڑھی نیچے اتر کر زینت بولی تھی۔
اس کی کار کے اطراف بھیڑ لگ چکی تھی۔
“ارے یہ تو وہی لڑکا ہے نا جو زرمین کو اٹھا لے گیا تھا۔”
اسے پہچان کر کسی فردنے چہ مگوئیوں کا آغاز کیا۔
“ہائے کیا زمانہ آگیا ہے کسی شریف لڑکی کی زندگی تباہ کرکے کس شان سے گھوم رہا ہے۔”
“بڈھیا تو سمجھو اللّٰہ کو پیاری ہوگئ۔ لڑکی کا کچھ پتہ نہیں ہے”۔
کسی نے گویا پگھلا ہوا سیسہ اس کے کانوں میں انڈیل دیا۔لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ کار کا فرنٹ ڈور کھولکر وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا۔
اسے لگا وہ ہل بھی نہیں پائے گا۔اسے دائ ماں کا پتہ لگانا تھا۔
“زرمین یقیناً ان ہی کے پاس ہوگی۔وہ انھیں چھوڑ کر نہیں جاسکتی۔”
سوچتا ہوا وہ سرکاری ہسپتال کی سمت چل پڑا ۔وہاں پہنچ کر ایک اور چونکا دینے والی خبر اس کی منتظر تھی۔ایک ماہ قبل اس کے والد نے انھیں یہاں سے شفٹ کروایا تھا۔
“ڈیڈ دائ ماں کے متعلق جانتے تھے؟”
وہ منتشر ذہن کے ساتھ آندھی طوفان بنا اس ہسپتال پہنچا جو آفریدیس کی ملکیت تھا۔
“مگر ڈاکٹر ہمدانی کی بات سنکر وہ ساکت رہ گیا۔
“کیسی باتیں کر رہے ہو شاہ زر؟ أج علی الصبح تمھاری وائف یہاں آئ تھی۔وہ انھیں یہاں سے لےگئ۔اس کا کہنا تھا کہ اب سے ان کا علاج گھر ہی پر کیا جائے گا۔ان کے رہنے کا سارا انتظام کر لیا گیا ہے ۔وہ انھیں تمھارے گھر لیکر گئ اور تم بےخبر ہو۔ویسے میں بھی قدرے حیران تھا کہ ارینجمینٹ کے لیے کسی پرسنل نرس کو ہائر کرنے کی غرض سے راشد صاحب کا فون نہیں آیا۔ایمبولینس تو آدھے گھنٹے بعد ہی واپس آگئ تھی۔۔۔
وہ متحیر سے گویا ہوئے۔
“کہاں گئ وہ انھیں لیکر ؟آپ نے اسے جانے کیسے دیا؟ایک دفعہ کسی سے کنفرم تو کر لیتے۔آپ اسقدر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیسے کرسکتے ہیں؟
وہ ہذیانی انداز میں چیخا تھا۔
“شاہ زر کیا ہوا ہے؟ یوں بھی وہ کوما میں تھیں۔انھیں ہاسپٹل میں رکھنا ضروری نہیں تھا۔گھر میں رکھکر بھی انھیں میڈیکل ایڈس فراہم کی جاسکتی تھیں مجھے لگا کہ۔۔۔۔۔ رکو میری بات سنو۔۔۔۔شاہ زر۔۔۔۔۔
وہ تیز تیز قدم اٹھاتا راہداری کو عبور کر گیا۔ڈاکٹر ہمدانی نے فوراً راشد صاحب کا نمبر ملایا۔
تھا۔
وہ ہاسپٹل کی عمارت کے باہر کھڑا گہری گہری سانسیں لے رہا تھا۔بالوں کو مٹھیوں میں جکڑے وہ اضطراری انداز میں سڑک پر ٹہل رہا تھا چند افراد نے رک کر اس کا حال دریافت کیا تھا۔
مگر وہ اپنے حواسوں میں نہیں تھا ۔کار کا دروازہ کھولکر وہ ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان ہوا۔ایک آنسو پلکوں کا بند عبور کر رخسار پر پھسل گیا۔تبھی ڈیش بورڈ پر پڑا اس کا فون گنگنا اٹھا۔اس نے ہونٹ دانتوں تلے دبائے کمال ضبط کے ساتھ کال ریسیو کی۔دوسری طرف مزنی تھی۔
“بھائی آپ کہاں ہیں؟سارا گھر آپ سے رابطہ کرنے کوشش کر رہا تھا آپ کال کیوں نہیں لے رہے تھے؟سنیں بھائی آپ پریشان نہ ہوں۔ہم اسے ڈھونڈ لینگے۔ آپ بس گھر آجائیں۔ہم سب انتہا سے زیادہ فکر مند ہیں۔۔۔”
آنسوؤں میں بھیگی متفکر سی آواز اسپیکر سے ابھری تھی۔
“سب ختم ہوگیا مزنی۔۔۔۔۔سب ختم ۔۔۔۔۔
اس کا ضبط جواب دے دیا گیا وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔
“بھائی ۔۔۔۔آپ گھر آجائیں ۔ ۔آپکو خدا کا واسطہ ۔۔۔۔۔کوئی غلط قدم نہ اٹھا لیجئے گا۔۔۔۔۔بھائی ۔۔۔بھائی۔۔
جواب نا پاکر وہ چیخی تھی۔اس نے فون کار کی کھڑکی سے باہر اچھال دیا تھا۔دھندلی پڑتی ونڈ اسکرین کے باہر دیکھتا وہ کار ڈرائیو کر رہا تھا۔اسوقت وہ کسی سے تسلی کے الفاظ نہیں سننا چاہتا تھا۔۔۔اس پوری دنیا سے اسےنفرت ہورہی تھی۔۔۔اپنے وجود سے نفرت ہورہی تھی۔۔کسقدر حقیر تھا وہ ۔ دائی ماں کا قاتل تھا۔ اس نے زرمین کی زندگی تباہ کی تھی۔کسقدر احمق تھا وہ جو اپنے ہی گناہ سے بے خبر تھا۔۔۔۔اس لڑکی کو تباہ کرکے وہ اس سے محبت کی امید لگائے بیٹھا تھا۔ اپنی خوش عائند مسقبل کی تیاری کر رہا تھا۔وہ تو تھا ہی نفرت کے قابل اسے محبت کیونکر ملتی۔۔مفلوج ہوتے ذہن کے ساتھ اس نے موڑ کاٹا ایک موٹر سائیکل اس کی زد میں آتے آتے بچی تھی۔
موٹرسائیکل روک کر سائیکل سوار نے موٹی سی گالی دی تھی مگر اسے ہوش کہاں تھا۔وہ بند ہوتے ذہن اور آنسوؤں سے لبریز آنکھوں کے ساتھ گاڑی دوڑاتا رہا۔
مجھے جانے دو میری دائی ماں مر جاینگیں۔۔ ۔۔ ۔۔۔۔۔ہائے! کیا زمانہ آگیا ہے ایک شریف لڑکی کی زندگی تباہ کرکے کس شان سے گھوم رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔میں تم سے نفرت کرتی ہوں بے انتہا نفرت۔۔۔۔۔۔تم نے مجھ سے ایک گھنٹے کا حساب لیا تھا نہ میں تم سے ایک ماہ کا حساب لونگی۔۔۔۔۔۔بڑھیا تو سمجھو اللّٰہ کو پیاری ہوگئی،لڑکی کا کچھ پتہ نہیں ہے۔۔۔ ۔۔۔ویسے بھی وہ کوما میں تھیں۔۔۔۔۔اگر آج تم نے مجھے زندہ چھوڑ دیا ۔تو میں تمھیں برباد کردونگی۔۔۔۔۔بھائ وہ چلی گئی۔۔۔۔۔اس رات میرے شوہر نے اس کے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش کی۔۔۔۔۔۔
مختلف لفظوں کی بازگشت اس کے ذہن میں گونجنے لگیں۔اس کی کنپٹی سلگتی ہوئ محسوس ہورہی تھی۔
کرب سے اس نے آنکھیں موندلیں بند آنکھوں سے وہ تیز رفتاری سے اپنے مقابل سڑک پر دوڑتے ٹرک کو کیسے دیکھ پاتا۔ سامنے سے آتے ٹرک نے ایک زوردار ٹکر اس کی کار کو ماری۔
گاڑی ایک پیڑ سے جا ٹکرائی۔اس کے ماتھے سے خون کا فوارہ سا ابل پڑا۔اسے لگا ایک ساتھ اس کے جسم کی ساری ہڈیاں ٹوٹ گئی ہوں۔۔۔۔۔کار کے اطراف مجمع سا لگ گیا۔اس شور و ہنگامہ کے درمیان ایک مانوس آواز اس کی سماعت میں اتری تھی۔۔۔
شاہ زر۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر ہمدانی کا فون سننے کے بعد اس کا تعاقب کرتا اشعر بدحواس سا اس کی کار کے نزدیک آیا تھا۔
وہ ہوش و حواس سے بے گانہ ہوگیا۔
یہ اور بات ہے افشاں نہ ہوا تجھ پہ ورنہ
کتنا محسوس کیا میں نے تجھے تیرے بعد
**
سرکاری ایمولینس حیدرآباد سے دور ایک چھوٹے سے گنجان آبادی والے گاؤں کی حدود میں داخل ہوئی تھی۔پانچ گھنٹوں کے تھکا دینے والے سفر کے بعد وہ دکھتے بدن کے ساتھ نیند سے بیدار ہوئی تھی۔اس کا حکم بجا لاتے ہوئے ڈرایٔںور نے سرکاری ہسپتال کے عین سامنے ایمولینس روکی تھی۔وہ نیچے اتری ۔ایک گھنٹے کی مشقت کے بعد وہ دائ ماں کو ایڈمیٹ کروانے میں کامیاب ہوئ تھی۔وہ تیز تیز قدم اٹھاتی مطلوبہ ایڈرس پر آرکی۔اس نے اپنے عین مقابل ایستادہ حویلی کی سمت دیکھا تھا۔وہ ایک نیوز کور کرنے کی غرض سے چند ماہ قبل اس گاؤں میں آئ تھی۔اسوقت وہ اس حویلی کی مالکن سے ملی تھی۔وہ نیک اور ملنسار خاتون تھیں۔ محض چند گھنٹوں کے دورانیہ میں انھیں زرمین بہت بھاگئ تھی۔دوبارہ آنے کا وعدہ کرتی وہ اس گھر سے رخصت ہوئی تھی۔اسوقت اسے یقین تھا وہ واپس کبھی اس گاؤں میں نہیں آپائے گی مگر تقدیر کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
دروازے پر دستک دیتے ہی تیرہ چودہ سالہ لڑکا باہر آیا تھا۔
“نسیمہ چاچی گھر پر ہیں؟”اس نے استفسار کیا۔
“جی بالکل ہیں۔یہ انہیں کا گھر ہںے۔وہ یہی پر ہںوتی ہیں۔آپ کی تعریف؟آپ کہاں سے آئی ہیں؟
“لڑکے کے جواب پر وہ مسکرائے بنا نہ رہ سکی۔
“میں دروازے پر کھڑے ہںوکر اپنا تعارف نہیں دے سکتی۔تم نسیمہ چاچی کو بلاؤ وہ مجھے جانتی ہیں۔”
وہ فوراً اندر روپوش ہوگیا۔چند لمحوں کے بعد نسیمہ چاچی قدرے لنگڑاتی ہںوئی دروازے پر آئی تھیں۔
“اے۔۔۔ہںے! بٹیا میں کوئی خواب تو نہیں دیکھ رہی۔جھوٹی کہہ کر گئی تھی کہ مجھ سے ملنے ضرور آئے گی۔تیری راہ دیکھتے دیکھتے میں مزید بوڑھی ہںوگئی۔”
نسیمہ چاچی نے اسے اپنے ساتھ بھینچ لیا۔اسقدر پذیرائی پر اس کی آنکھیں بھیگ گئ۔
“سچ ہںی کہا تھا لیجئے آ تو گئی۔مگر اس بار جانے کےلئے نہیں آئی۔پہلے آپ اندر چلیں پھر کچھ عرض کروں۔”
وہ جبراً مسکرائی تھی ورنہ آنسو تھے کہ باہر نکلنےکو بے تاب تھے۔
صحن میں بھیچی لکڑی کی کرسی پر بیٹھتے ہںی اس نے اپنا مدعا سنانا شروع کیا تھا۔
“دراصل میں چند ماہ کےلئےاس گاؤں میں رکنا چاہتی ہںوں مگر رہائش کا مسئلہ درپیش تھا۔ میں نے سوچا آپ سے پوچھ لوں ۔آپ کی حویلی بھی کافی بڑی ہںے۔مجھے محض ایک کمرے کی ضرورت ہے۔میں یہاں بطورِ کرائےدار رہنا چاہتی ہںوں۔اگر آپ کو کوئی ہرج ہیں تو بلا جھجک بتادیں میں کچھ اور بندوبست کرلونگی۔”
“کیسی بات کررہی ہںے بیٹی۔بھلا میں تجھے منع کرسکتی ہںوں۔میں بوڑھی جان جانے کب اللّٰہ کو پیاری ہںوجاؤں۔سوچتی تھی کہ جتنی زندگی باقی ہںے کچھ ایسا ہںوجائے کہ میری تنہائی دور ہںوں۔بیٹا تو جوان ہںوتے ہںی مجھ بیوہ کو چھوڑ پردیس چلا گیا۔خیر اوپر والے نے میری دعا سن لی اور تجھے بھیج دیا۔خبردار جو تونے کرائے کی بات زبان سے نکالی۔میں تیری ماں جیسی ہںوں۔اپنی ماں کو کرایا دےگی۔”
وہ یہاں کیوں اور کیسے آئی اس معاملے کی تہہ تک جانا چاچی نسیمہ نے ضروری نہیں سمجھا تھا۔وہ اتنے میں ہی خوش تھیں کہ ان کی تنہائی دور ہونے والی تھی۔اس سے قبل کے وہ کچھ کہتی وہ باآواز بلند اپنی ملازمہ کو پکارنے لگی۔
“ایمن۔۔۔۔۔۔اری او ایمن۔۔۔۔۔۔۔۔ جھٹ سے بالائی منزل پر غسل خانے والا کمرہ صاف کردے۔آج کے بعداسے بند رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میری بیٹی اب وہی رہے گی ۔”
وہ خوش ہںوتے ہوئے کچن کی طرف چل دیں۔وہ متذبذب سی وہیں کھڑی رہ گئی۔
ہاتھ منہ دھو کر وہ کشادہ کمرے کے بستر پر ڈھے گئی۔
تبھی ایمن دروازے پر نمودار ہوئی ۔ایمن کے بلاوے پر جب وہ نیچے پہنچی ۔ دستر خوان پر کھانے کے پکوان سجائے نسیمہ چاچی اس کی منتظر نظر آئیں۔لمبے سفر کی وجہ سے اسے متلی سی ہںورہی تھی۔کچھ بھی کھانے کا جی نہیں چاہ رہا تھا۔مگر وہ انہیں منع نہیں کر پائی۔کوئ رشتہ نہ ہوتے ہوئے وہ ان کے گھر آبیٹھی تھی باوجود اس کے وہ اس کا کس قدر خیال رکھ رہی تھیں۔
بادل نخواستہ چند نوالےکھاکر وہ اپنے کمرے میں چلی آئی۔اس نے اس چاروں سمت نظر دوڑائی۔وہ کمرہ اس کی پناہگاہ بننے والا تھا۔یہ درودیوار اس کے ہمراز بننے والے تھے۔وہ بستر پر لیٹے آنسو بہانے لگی۔آفریدی ولا سے نکلے اسے محض چند ہںی گھنٹے ہںوئے تھے۔مگر ایسا محسوس ہو رہا تھا گویا صدیاں گزر گئیں۔ لگ رہا تھاہر گزرتے لمحے کے ساتھ شاہ زر اس سے مزید دور ہوتا جارہا ہے۔
“میرے خدا مجھے تنہا زندگی گزارنے کا حوصلہ دے”
اس کی گھٹی گھٹی سسکیاں کمرے کی فضاء میں عجیب سی سوگواری پیدا کررہی تھیں۔
گزر تو جائے گی تیرے بغیر بھی لیکن
بڑی اداس بڑی سوگوار گزرے گی
**
خون زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے اسے پورے چوبیس گھنٹوں کےبعد ہںوش آیا تھا۔سر پر گہری چوٹ آئی تھی۔مگر خدا کا رحم تھا کہ ہڈیاں صحیح سلامت بچ گئی تھیں۔آفریدی ولا کے مکینوں نے یہ چوبیس گھنٹے گویا پل صراط پر کھڑے ہںوکر گزارے تھے۔
سب سے پہلے مزنی اس سے ملنے کے لیے واڑد میں داخل ہوئی تھی۔اس کے ماتھا سفید پٹّیوں میں مقید تھا۔ ہاتھ میں لگی نلی کے ذریعے قطرہ قطرہ گلوکوز اس کے جسم میں داخل ہو رہا تھا۔وہ آنکھیں کھولے ایک ٹک چھت کو گھورے جا رہا تھا۔وہ اس کے بیڈ کے نزدیک اسٹول گھسیٹ کر بیٹھ گئی۔اپنے عزیز ترین بھائ کی یہ حالت دیکھ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔
” اب کیسا محسوس کررہںے ہیں بھائ؟کیا درد زیادہ ہںورہا ہںے؟”
“تم زرمین کو کب سے جانتی تھی؟”
اپنے سوال کا یہ جواب سن کر وہ متحیّر رہ گئی۔
جانے سے قبل اس نے تمہیں خط کیوں لکھا ؟ جبکہ تم دونوں کے درمیان بات چیت شاذونادر ہی ہںوا کرتی تھی۔ خط میں اس نے تمہیں مہر کہہ کر مخاطب کیوں کیا ؟ آفریدی ولا میں کوئی تمہیں اس نام سے نہیں پکارتا۔اسے کیسے پتا چلا کہ تمہارا حقیقی نام مہر ہںے؟”
چھت کو گھورتے ہوئے اس نے سلسلہ کلام جوڑا۔شاہ زر نے اس کی طرف دیکھنا بھی گوارہ نہیں کیا تھا۔اپنے عزیز ترین بھائی کی بے رخی اسے رلا گئی۔اس نے شاہ زر کے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں لیا۔
“مجھے معاف کر دیں بھائ میں نے حقیقت کو آپ سے پوشیدہ رکھا۔مگر یقین جانئیے میں نے یہ آپ کےلئے کیا۔میں چاہتی تو اول روز ہی آپ کو میرے اور زرمین کے رشتے کے متعلق بتا سکتی تھی مگر نہیں بتایا۔مجھے لگا آپ یہ صدمہ برداشت نہیں کرپائیں گے کہ آپ کے ایک غلط قدم کی بدولت زرمین کی زندگی میں کیسی آندھی آئی تھی۔آفریدی ولا کا حصہ بننے سے قبل میں اسے جانتی تھی۔میں اس سے پہلی دفعہ تب ملی جب وہ اپنے ہی گھر سے اپنی عزت بچانے کےلئے بھاگی تھی۔جس روز آپ نے اسے ایک گھنٹے کے لیے اغواہ کیا اس کی دائی ماں یہ خبر سن کر صدمہ برداشت نہیں کر پائی اور کوما میں چلی گئیں۔دائی ماں کے علاوہ اس دنیا میں زرمین کا کوئی نہیں تھا۔دائی ماں اس کی کل کائنات تھیں۔دائی ماں کی یہ حالت دیکھ وہ سنبھل بھی نہ پائی تھی کہ محلے والوں نے غلیظ طعنوں سے اس کی روح کو لہو لہان کر دیا۔ایک گھنٹے کے اندر اس کی دنیا بدل گئی تھی۔اس کی شرافت اور نیک نامی سے بہ خوبی واقف ہںونے کے باوجود محلے والے اس کی کردارکشی کرنے لگے۔وہ شخص جسے وہ ساری عمر بھائی کا درجہ دیتی آئی تھی۔وہ شخص اس سے نکاح کرنے پر مصر ہںوگیا ۔اس سے قبل کے وہ حیوانیت پر اتر آتا وہ عزت جو ابتک محفوظ تھی محفوظ نہ رہتی وہ اپنے ہی گھر سے بھاگ کھڑی ہوئ۔وہ میری کار کے سامنے بے ہوش ہوگئ۔میں اسی روز ملیشیا سے واپس لوٹی تھی۔ہم لوگ شیڈول سے جلدی واپس لوٹ آئے تھے میں گھر میں سب کو سرپرائز دینا چاہتی تھی اسی لیے میں نے کسی کو اپنی واپسی کی اطلاع نہیں دی۔وہ بہت کمزور اور ٹوٹی ہوئ تھی اس نے چوبیس گھنٹوں کے دوران کچھ نہیں کھایا تھا۔مجھے اس لڑکی سے جانے کیوں انتہا سے زیادہ اپنائیت محسوس ہوئ۔یہ جانکر کہ اس کے پاس رہنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے ۔میں نے جبراً اسے اپنے ہی ساتھ رہنے پر مجبور کر دیا ۔وہ پہروں اندھیرے میں بیٹھی رہتی۔لمبی لمبی نمازیں ادا کرتی۔اچانک اس قدر شدت سے رو پڑتی کہ اسے سنبھالنا مشکل ہںوجاتا۔اور پھر بہت کوششوں کے بعد اس نے اپنی زندگی کی کتاب میرے سامنے کھول کر رکھ دی۔چند دنوں میں وہ مجھ پر اعتماد کرنے لگی تھی اور ان چند دنوں میں مجھے اس سے محبت سی ہںوگئی تھی۔اس دن کے بعد سے میری زندگی کا ایک ہی مقصد تھا اسے زندگی کی طرف واپس لانا۔میں اس کا حوصلہ بڑھانے لگی۔اس کے اندر اس رئیس زادے کا سامنا کرنے کی ہمت پیدا کرنے لگی۔میں نے اسے احساس دلایا کہ اسے اپنے مجرم کو سزا دینی چاہیے اور تیر نشانے پر جا لگا۔زندہ رہنے کےلئے کسی مقصد کی ضرورت ہںوتی ہںے۔اورزرمین کو وہ مقصد مل چکا تھا۔دھیرے دھیرے وہ سنبھلنے لگی۔اس کا اعتماد بحال ہونے لگا۔قریباً ایک ماہ بعد ہم دونوں کے راستے جدا ہںوگئے۔اسے الوداع کہتے ہںوئے میں نے نہیں سوچا تھا کہ اسی دن میں اسے دوبارہ ملونگی۔قسمت نے میرے ساتھ مذاق کیا تھا۔ محض ایک ماہ پرانی میری عزیز ترین دوست کا گناہ گار میرا عزیز ترین بھائی نکلا تھا۔ان دنوں میں شاک کی کیفیت میں تھی۔میں زرمین کے کرب کو محسوس کر سکتی تھی۔مگر میں یہ بھی جانتی تھی کہ میرا بھائی بے قصور ہںے۔دو ایسی شخصیات جو میرے لیے بہت اہم تھیں محض ایک غلط فہمی کی بنا پر ایک دوسرے کی نفرت میں مبتلا تھیں۔میں آپ دونوں میں سے کسی کا انتخاب نہیں کرپائی لہٰذا میں نے غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا۔میں نے سوچ لیا تھا کہ میں آپ کو میرے اور زرمین کے رشتے کے متعلق کچھ نہیں بتاؤں گی ، دائی ماں کی حالت آپ سے پوشیدہ رکھوں گی۔تقدیر اپنا کام کر چکی تھی۔میں ایک نیا آغاز چاہتی تھی۔میں چاہتی تھی کہ آپ دونوں ایک دوسرے کی محبت میں مبتلا ہو جائیں اور ہمیشہ کے لیے ایک ہںوجائیں۔مگر تقدیر کو کچھ اور ہی منظور تھا۔وہ چلی گئی اور میں آپکو بذات خود اس حقیقت سے آگاہ کررہی ہںوں جسےتاعمر راز رکھنا چاہتی تھی۔میری بس آپ سے اتنی درخواست ہیں کہ خود کو قصوروار نہ سمجھیں۔جو کچھ ہںوا اس میں نہ تو آپ کا قصور تھا نہ زرمین کا۔وہ اپنی مرضی سے آپ کی زندگی میں آئی تھی اور اپنی مرضی سے چلی بھی گئی۔ہم زرمین کو ڈھونڈ لینگے۔ آپ پریشان نہ ہو سب ٹھیک ہو جائے گا۔”
“میں تھوڑی دیر کے لئے تنہائی چاہتا ہںوں۔”
اس کے ہاتھوں سے اپنا ہاتھ کھینچ کر شاہ زر نے آنکھیں موند لیں۔مزنی خاموشی کے ساتھ وارڈ سے باہر نکل آئی۔
*****
ہاسپٹل سے ڈسچارج کے بعد آفریدی ولا میں اس کی پہلی رات تھی۔وہ رات کے کسی پہر گھر سے باہر نکل گیا۔سڑک کے کنارے قریباً ایک گھنٹے تک چلتے رہنے کے بعد اس کی نظر ایک جھگی کی باہر بیٹھی عورت پر پڑی تھی۔پیلی اسٹریٹ لائٹ کی روشنی میں اس کا چہرہ واضح تھا۔وہ اپنے بچے کو سلا رہی تھی۔وہ اس جھگی کی قریب آکر عورت کے نزدیک پنجوں پر بیٹھ گیا۔
“تم یہاں کیا کر رہی ہو؟تمھیں انصاف دلانے کے لیے اس لڑکی نے کسقدر محنت کی تھی مگر تم نے معاوضہ کی رقم دیکھتے ہی اس لڑکی کو دھوکا دے دیا۔معاوضہ کی موٹی رقم لیکر تم نے وعدہ کیا تھا کہ آئندہ سے تم فٹ پاتھ پر نہیں رہوگی کسی بہتر جگہ پر رہنے کا انتظام کروگی۔مگر حسب عادت تم اپنی زبان سے مکر گئ۔اور اب بھی تم یہیں پر رہائش پذیر ہو۔تاکہ آئندہ کسی بےچارے کی گاڑی نادانستہ فٹ پاتھ پر چڑھ بھی جائے تو سرکاری پراپرٹی کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ تم جیسے غرباء کو معذور کردینے کے بھی چارجیس لگ جائیں۔”
وہ متحیر تھا اسقدر مالی امداد فراہم کرنے کے باوجود وہ عورت نے جھگی کو نہ چھوڑا تھا۔اس سے زیادہ متحیر وہ اس بات پر تھا کہ ایک نظر میں وہ اس عورت کو کیسے پہچان گیا۔غالباً زرمین سے وابستہ ہر شے ہر شخص اس کے ذہن پر نقش ہوگئے تھے۔
“ہاں صاب وہ لڑکی س
امارا (ہمارا)بوت(بہت)مدد کیا تھا۔بوت بھلا لڑکی تھا وہ۔ پر ہم غریب آدمی کیا کرے صاب۔پیسہ اور انصاف میں سے ہم پیسہ کو ایچ(ہی) چنتا ہے۔اتنا پیسہ ملا تھا یہ جھگی چھوڑنے کا ارادہ تھا مگر امارا مرد مار مار کر سارا پیسہ چھین لیا شراب اور جوئے میں اڑا دیا۔ابی ہم ادر ایچ(یہیں) رہتا ہے۔کدھر جاؤں صاب۔”
اس عورت نے غمگین لہجے میں کہا۔گود میں لیٹا بچہ سو چکا تھا۔
“تم کون ہے صاب؟امارے(ہمارے)بارے میں تم کو اتنا سب کیسے معلوم؟
وہ حیران ہوئ تھی۔اس عورت کو یہ تک یاد نہ تھا کہ وہ شخص کون تھا جسے اس کی ایک گواہی نے جیل بھجوادیا تھا۔
“تم نے بلکل درست کہا وہ بہت بھلی لڑکی تھی۔دلوں کو فتح کرنا تو اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔وہ بہت خاص ہے میرے لیے یا شاید ان کے سب کے لیے جن کی زندگی کا وہ حصہ رہی ہے۔اس کے متعلق تا حیات اچھا گمان رکھنا۔”
وہ مسکرایا تھا اس کے ذکر پر ایکدم سے زرمین کا سراپا اس کی آنکھوں کے سامنے لہرا گیا تھا۔
اپنی جیب سے والٹ نکال کر اس میں موجود ساری کرنسی نوٹ اس عورت کے نزدیک زمین پر رکھ کر وہ جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔
“صاب یہ اتنا پیسہ کو دیتا ہے تم ہم کو؟”
دس بارہ سرخ اور ہری کرنسی نوٹوں کو دیکھ عورت نے بدحواس ہو کر جاتے ہوئے اجنبی کو پکارا تھا۔
“یہ تمھارے ان الفاظوں کے ایوز بخشش ہے جو تم نے کچھ دیر قبل ادا کیے تھے ۔”
گردن موڑ کر کہتا وہ آگے بڑھ گیا۔وہ عورت کرنسی نوٹوں کو ہاتھ میں اٹھاتی اس شخص کے سامنے اپنے ہی لبوں سے ادا کیے جملوں کو ذہن میں ترتیب وار دہرانے لگی ۔مگر اسے سمجھ نہیں آیا کہ ایسا اس نے کیا کہہ دیا تھا جو وہ خوبرو و رئیس شخص اسقدر خوش ہوگیا تھا۔
مسلسل چلتے ہوئے اسے گھنٹہ بھر سے اوپر ہوچکا تھا مگر وہ بے حسوں کے مانند چلتا ہی جارہا تھا۔تبھی اس نے اطراف میں نظر دوڑائی اور چونک پڑا۔وہ یہاں پہلے بھی آچکا تھا۔تین دفعہ ۔یہ وہی جگہ تھی جہاں اسنے اس کی محبت کو ذلیل کیا تھا اور چند روز قبل اسی مقام پر اس نے خود کو ذلت کی گہرائیوں میں گرتا محسوس کیا تھا۔گلی میں اکا دکا افراد ہی نظر آرہے تھے۔
“ارے خیریت ہے فیصل بھائی؟دکان بند کرنے میں آج تو کافی دیر ہوگئی.”
اس کے عقب سے آواز آئی تھی۔یہ نام سنکر اس کی شریانوں میں دوران خون تیز ہوگیا۔
“کچھ نہیں صفدر بھائی بس بھیڑ زیادہ تھی اسلیے دیر ہوگئ۔”
وہ شخص دوسرے شخص سے مصافحہ کررہا تھا۔
وہ بجلی کی سرعت سے ان کے نزدیک پہنچا۔
“آپ دونوں میں سے فیصل ملِک کون ہے؟
اس نے سوال داغا۔غیر شناسا چہرے کو دیکھ وہ دونوں قدرے حیران ہوئے تھے۔
“جی میں ہوں فیصل ملِک ۔ معاف کیجیے گا میں نے آپ کو پہچانا نہیں ۔آپ کی تعریف؟”
گھنی کالی داڑھی،سر پر ٹوپی، سفید پٹھانی شلوار کرتے میں ملبوس وہ شخص اس کے مقابل کھڑا ہوا تھا۔
“میں زرمین شاہ زر آفریدی کا شوہر ہںوں۔”
اپنا تعارف دیتے ہوئے شاہ زر نے اسے گریبان سے پکڑ لیا۔وہ لڑکھڑایا۔
“یہ کیا بد تمیزی ہے میرا گریبان چھوڑیں ۔میں آپکو نہیں جانتا۔”
فیصل حواس باختہ سا ہکلاتے ہوئے بولا۔سیکنڈ میں اس کی پیشانی عرق آلود ہوگئ۔وہ بھاگنا چاہتا تھا مگر شاہ زر کی گرفت مضبوط تھی۔
“میں نےکہا میں زرمین کا شوہر ہوں۔ اسے تو جانتے ہو ناتم ۔ذلیل انسان۔”
شاہزر نے اس کی گریباں کو گردن کی گرد کس دیا۔فیصل کا سانس گھٹنے لگا۔
“میں کسی زر۔۔۔۔
اس سے قبل کہ وہ زرمین کا نام لیتا شاہ زر نے زوردار مکا اس کی چہرے پر رسید کیا۔
وہ لڑکھڑا کر نیچے گرا۔
“خبردار جو تم نے اپنی ناپاک زبان سے میری بیوی کا نام لیا۔جی تو کرتا ہے تمھیں زندہ زمین میں گاڑ دوں مگر اتنی آسان موت نہیں دونگا میں تمھیں۔آج میں تمھیں تمھارے گناہ کی سزا دونگا ۔تم جیسے حیوان کو اس دنیا میں سانس لینے کا کوئ حق نہیں ہے۔”
وہ لاتوں اور گھونسوں سے اس کی درگت بناتا جارہا تھا۔فیصل زمین پر پڑا کراہ رہا تھا۔محلے والے اپنے اپنے گھروں سے نکل کر ان کے اطراف اکٹھا ہونے لگے۔
“یہ کیسی گنڈہ گردی ہے”۔
مجمع کا حصہ بنے ایک شخص نے دہائ دی۔اس کی بات سنتے ہی شاہ زر نے اپنے ہاتھ روک لیے اور اس شخص کے سر پر جاپہنچا۔اس اچانک افتاد پر وہ بوکھلا اٹھا۔
”
کیا کہہ رہے تھے تم ؟اس ذلیل شخص کو پیٹنا اسے اس کے گناہ کی سزا دینا گنڈا گردی ہے۔اس آدمی کو پٹتا دیکھ آپ سب کو ہمسائے کے فرائض یاد آگئے۔یہ ذلیل شخص آپ سب کو مظلوم نظر آرہا ہے۔ایک لمحہ ضائع کیے بغیر آپ سب اس خبیث کی مدد کو پہنچ گئے۔اسوقت آپ سب کی انسانیت کہاں جاسوئ تھی جب ایک لڑکا جبراً اسی محلے سے ایک شریف لڑکی کو اٹھا لے گیا تھا۔تب آپ سب کو ہمسائے کے فرائض کیوں بھول گئے۔کیا وہ گنڈہ گردی نہیں تھی۔یہ تو مرد ہے اس کی جان خطرے میں ہے وہ تو عورت تھی اس کی عزت خطرے میں تھی۔آپ سب مرد کی جان کو عورت کی عزت سے زیادہ قیمتی گردانتے ہیں
یا اس امیر زادے کی چمچماتی کار کی چمک میں آپ سب کی آنکھیں چندھیا گئ تھیں ۔خوب جانتا ہوں میں کہ تم سب کتنے پانی میں ہو۔خبردار جو کوئ بیچ میں بولا۔جو کوئی مجھے روکنے کی کوشش کرےگا اس کا بھی میں یہی حشر کرونگا۔”
انگلی اٹھا کر مجمع کو متنبہ کرتا وہ فیصل کے قریب چلا آیا۔وہ کھڑا ہوچکا تھا۔اس کے منہ اور ماتھے سے خون بہہ رہا تھا ۔اس سے قبل کہ فیصل کا ہاتھ موڑ کر وہ اس کی ہڈی توڑ دیتا کسی کی چیخ سنکر وہ رکا تھا۔
“آپ کو خدا کا واسطہ اسے چھوڑ دیں ۔یہ میرے بچے کا باپ ہے۔اس دنیا میں ہمارا واحد سہارا ہے۔”
وہ دوڑتی ہوئی مجمع کو چیرتی ان کے نزدیک آئی تھی۔ہاتھ جوڑ کر اس کے سامنے منت کرتی عورت کو دیکھ اس نے بے ساختہ فیصل کا بازو چھوڑا تھا۔اس کا غصہ ایکدم سے شانت ہوا۔
“جاؤ میں نے تمھاری جان بخش دی۔گھر جاکر اپنی بیوی کے پیر دھو کر پی لینا ۔اگر آج تمھاری بیوی اور بچے نہیں ہوتے تو کچھ دیر بعد یہ تمھارے خیر خواہ تمھاری نماز جنازہ ادا کر رہے ہوتے۔”
زمین پر پڑے فیصل کو ٹھوکر مارتا وہ آگے بڑھ گیا۔مجمع چھٹا تھا۔زینت فیصل کو سہارا دیتی گھر کی سمت بڑھی تھی۔
وہ چند ہی قدم چل پایا تھا کہ بلاک Toyota اس کے نزدیک رکی تھی۔
“شاہ زر تم بنا کسی کو بتائے گھر سے باہر کیوں نکلے؟تمھاری طبیعت ابھی سنبھلی نہیں ہے اور تم پیدل شہر کے چکر کاٹ رہے ہو۔جانے کب سے ہم تمھیں گھر کے نزدیک تلاش کر رہے تھے کسی نے نہیں سوچا تھا تم پیدل یہاں پہنچ جاؤگے۔”
اشعر متفکر سا گاڑی کے باہر نکلا تھا۔وہ خاموشی کے ساتھ گاڑی کا دروازہ کھولکر عقبی سیٹ پر براجمان ہوگیا۔اشعر نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھال کر گاڑی گھر کی سمت بڑھا دی۔
***
سر سید اشرافیہ اور اجلافیہ دو قومی نظریہ
یہ حضرت جنگ آزادی کے دوران ایسٹ انڈیا کمپنی کے وفادار رہے۔ سر سید اور ان جیسے قماش کے لوگوں...