محبت کی حدوں سے پار،
روح کی پوشاک سے باہر،
درد کے جزیرے کے باسی،
عشق میں فنا ہونے والے،
وہ درویش لوگ ..
بتاؤ کیسے دکھتے ہیں؟؟
میں بتاؤں تم کو؟
ہمیشہ مسکان چہرے پر سجائے،
چھلنی جسم اور #روح لے کر،
وہ درد سہنے والے …
بڑے چپ چاپ ہوتے ہیں،
ہاں انکی آنکھوں میں
دھنک رنگ کے،
کچھ ان گنت خواب ہوتے ہیں،
کہ انکی خاموشی میں
کچھ عجب اسرار ہوتے ہیں،
کہ جنکی سوچ کا محور فقط ایثار ہوتا ہے،
جنکی آنکھوں کی سرخی
#رتجگوں کے #عذاب کی،
داستاں بتاتی ہے،
#درد سہنے والے بھی
#باکمال ہوتے ہیں،
یہ جو #احساس والے ہیں،
جوگ یہ جگاتے ہیں،
#روگ یوں لگاتے ہیں،،،
کسی کا کچھ نہیں جاتا…
#اپنا آپ #گنواتے ہیں.
..
(پاک فوج کے نام)
رات کے اس پہر ہر ذی روح اوڑھنے بچھونے لئے غفلت کی نیند سو رہی تھی جب وہ ایک جیپ سے اترا۔وہ ہمیشہ کی طرح اپنے گھر سے کچھ مسافت پر اترا۔پاک آرمی کے ہیڈ کواڑٹرز سے نکلتے ہی وہ خود گمنامی کی چادر اوڑھ لیتا تھا۔باہر کی دنیا میں شائد ہی کوئی اکا دکا لوگ اسے پہچانتے ہوں۔سنسان سڑک پر سفری بیگ کندھے پرڈالے اور ہاتھ پینٹ کی جیبوں میں اٹکائے وہ پھر سے اپنا ماضی دہرا رہا تھا۔یہ راحب احمد کا ہسندیدہ مشغلہ تھا ہر بار جب بھی وہ چھ ماہ بعد اپنی ماں سے ملنے آتا تو یونہی سنسان سڑک پر ٹہل کر اپنی زندگی کا ہر پنہ نیا کرتا ۔
وہ دس سال کا تھا جب اسکی ماں گاوں سے اسے شہر لے آئی۔ کیونکہ وہ شہر میں آکر اہنے بیٹے کی اچھی پرورش کرنا چاہتی تھی۔سبکے لاکھ منع کرنے کے باوجود بھی وہ شہر آگئی۔اسے خود گاوں بہت پسند تھا مگر ماں کے بغیر رہنا نہیں۔
شہر آنے کے کچھ عرصہ بعد اسکا باپ لاپتہ ہوگیا آرمی کا ایک مشن مکمل کرنے میں شائد اسکی اپنی زندگی مکمل ہو گئی تھی۔جس کے بعد راحب احمد کی زمہ داری پاک آرمی نے لے لی۔کیڈٹ سکول اور کیڈٹ کالجز میں آرمی ہیڈ کواڑٹر کی نگرانی میں اسکی جوانی کے بیس سال ماں کے بغیر گزرے۔وہ تو کبھی اپنے باپ کے ساتھ بھی وقت نہیں گزار سکا تھا مگر انکے کارنامے اور بہادری کے قصے آج بھی ہر آرمی آفیسر کی زبان ہر تھے۔باہر کی دنیا سے وہ کٹ کر کر رہ گیا تھا۔البتہ ہر چھ سات ماہ بعد وہ ماں سے مل جایا کرتا تھا۔اسنے اپنی ماں کے منھ سے کبھی کوئی شکایت نہیں سنی تھی اور نہ ہی کبھی اسے جانے سے روکا تھا۔جس بیٹے اور شوہر کیلئے وہ سب رشتے چھوڑ آئی تھیں اب انہی کے بغیر رہ رہ رہی تھیں۔
عجب تقاضے ہیں چاہتوں کے
بڑی کھٹن ہیں یہ مسافتیں
اپنی سوچوں میں گم اب وہ گھر کے باہر کھڑا تھا۔پورش ایریا میں واقع گھر بہت بڑا نہیں مگر خوبصورت تھا یہ اسکے باپ کی کی پہلی اور آخری نشانی تھی ۔مین گیٹ سے اسے نہ جانا تھا اور نہ ہی وہ گیا ۔اسنے اپنا سفری بیگ کندھے سے اتارا اور لان کی دیوار سے اسے اندر پھینک دیا۔اور خود کسی ماہر کی طرح کود کہ اندر چلا گیا۔وہ یہ کام اٹھارہ سال سے کرتا آرہا تھا۔
گھر میں خاموشی کا راج جو دن میں بھی عام تھا۔وہ بھی چلتا اپنے کمرے میں چلا گیا۔
جب دن کو گھوڑے بیچ کر سوتی رہے گی تو رات کو نیند کیسے آئے گی
وہ دونوں رات کو کھلے آسمان تلے لیٹی تھیں عفت بیگم تو پھر جھونکا لگا چکی تھیں مگر سلویٰ کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی اور وہ تاروں بھرے آسمان کو گھور رہی تھی۔۔۔
اماں!۔
ہمم۔۔
خالہ کیا کہہ رہی تھیں۔
سوجا سلویٰ مجھے نیند آئی ہے۔وہ کروٹ بدل گئیں۔
اماں میں صبح سے کئی بار پوچھ چکی ہوں تو ٹال چکی ہے اب بتا مجھے۔
سلویٰ بضد تھی۔۔
حالانکہ تو سب سن چکی ہے۔انھوں نے سلویٰ کو گھورا تو وہ کھسیانی ہو گئی۔
اماں بتاو نا اچھا۔
وہ تیرا رشتہ مانگ رہی تھیں۔
سلویٰ سب جانتی تھی مگر پھر بھی اداکاری کرنے لگی۔
اوہ تو پھر؟
پھر کیا میں نے منع کر دیا۔
ہیں کیوں؟سلویٰ یوں بلک کر اٹھی گویا 440 واٹ کا جھٹکا لگا ہو۔
اماں کیوں منع کیا تم نے ؟
شرم نہیں آتی تجھے ایسے منھ پھاڑ کر سوال کرتے؟
اماں مجھے وجہ بتاو آخر تمہیں مسلئہ کیا ہے بھئی۔
وہ لوگ تیرے لئے نہیں ٹھیک سلویٰ میری بہن اٹھارہ سال تو کبھی رابطہ کیا نہیں اور اب آ گئی ہے رشتہ مانگنے اور وہ بھی شہر کبھی نہیں۔
اماں وہ تیری سگی بہن ہے اور تجھے مسلئہ شہر سے ہے اپنی بہن سے ہے۔
سلویٰ مسلسل بحث پر متفق تھی۔
دونوں سے اور لڑکا تجھے پتا ہے کون ہے؟
عفت بیگم بھی اب اٹھ کر بیٹھ گئیں تھی۔
کوئی چور اچکا یا کوئی غنڈہ موالی ہے؟سلویٰ نے اپنی پوری ذہانت استعمال کی۔
بکواس نہ کر سلویٰ فوجی ہے وہ۔
اماں فوجی کی بیوی بننا تو کتنے اعزاز کی بات ہے۔
سلویٰ کی خوشی اور بڑھ گئی ۔
اعزاز حاصل کرنے کیلئے بڑی زمہ داریاں لادنی پڑتی ہیں خود پہ دل مارنے پڑتے ہیں پھر کہیں جا کر تمغے سجتے ہیں۔
اور میں اپنی بیٹی کو ایسے انسان کے حوالے نہیں کروں گی جسکی ساری زندگی انتظار میں گزر جائے ۔ان فوجیوں کی زندگی کا کیا بھروسہ کب جان گنوا دے۔
عفت بیگم اپنے بہنوئی کی یاد آئی۔
ہاں اماں جیسے ہم باقی لوگ تو ماتھے پر لکھوا کے لائے ہیں نا اتنا جینا ہے اور کب مرنا ہے ۔زندگی کسی کی بھی ہو اسکا کوئی بھروسہ نہیں۔مگر ہم لوگ صرف یہی سمجھتے ہیں بس جو خطرناک کام کرے وہی جلدی مرے گا۔
سلویٰ مجھے پتا ہے تجھے خالہ میں یا فوجی میں کوئی دلچسپی نہیں تجھے بس شہر جانے کا شوق ہے۔
پر میں تجھے بتا دوں شہر والوں کے خون سفید ہوتے ہیں بیٹا
تو ضد نہ کر مان جا۔
رہنے دو اماں تم چاہتی ہی نہیں کہ تمہاری بیٹی پڑھ لکھ کر کچھ بنے بس تیری طرح ان جانوروں اور کھیتوں میں زندگی گزاردوں تو ٹھیک ہے تو خوش رہ۔
سلویٰ نم آنکھیں لئے کروٹ بدل کر لیٹ گئی۔
اور عفت بیگم عجیب شش و پنج میں مبتلا تھی کہ انکی لاڈلی چاند مانگ رہی تھی وہ بھی ایسا جس سے اسکے اپنے ہی ہاتھ جل جانے تھے۔
وہ خواہشوں کے کےسراب میں خود پر زمہ داریوں کے پہاڑ گرا رہی تھی۔۔
ہمارا حافظہ کمزور ہوتا جا رہا ہے،
اور ہم تکلیف کی ایسی کڑی یکسانیت سے تھک چکے ہیں
درد اب ہمشکل سے لگنے لگے ہیں
کون سی تکلیف کس نے کب ہمارے ہاتھ پر رکھی
ہمارا حافظہ تفریق کرنا چاہتا ہے!
ذہن کی وسعت کچھ ایسی ہو چکی ہے
سالوں پہلے مرنے والے اس میں زندہ ہو رہے ہیں
اور گھٹن ایسی کے اپنے اور بہت اپنے بھی پہچانے نہیں جاتے!
ہمیں اس درد کی یکسانیت سے دور جانے کے لیے
اب ایک تازہ زخم کی اشد ضرورت ہے!
جو اپنے آپ میں بالکل نیا اور دوسروں سے مختلف ہو
اور جسے اپنا کے ہم بھی کچھ نئے لگنے لگیں !!
یا پھر کچھ ایسا ہو..
کوئی اک چوٹ ہو ..
جو ذہن کے اسرار سارے کھول دے ہم پر..
ہمیں سب یاد آ جائے.. !
صبح کا سورج اسلام آباد پر پورے طمطراق سے اترا تھا۔ہر کوچہ نکھرا نکھرا اور ہر گلی مہکی مہکی تھی۔
نگہت جہاں نوافل پڑھ کر چائے پینے کی غرض سے لان میں جایا کرتی تھیں ۔کہ تازی ہوا کا لطف اٹھا سکیں مگر گاوں کی دلنشین ہوائیں شہروں میں کہاں نصیب۔
چندہ میری چائے ل۔۔۔۔۔۔۔۔ انکی بات منھ میں ہی دم توڑ گئی جب انکی نظر راحب کے بیگ ہر پڑی تو وہ خاموش ہو گئیں۔یہی وہ لمحہ ہوتا تھا جب راحب کے آنے کی خوشی دیدنی ہوتی تھی۔
چندہ راحب کو دیکھا ہے تم نے؟
انھوں نے اپنی ملازمہ کو پکارا۔
جی بی بی جب میں آرہی تھی تو راحب بھائی اپنی سیر پ جا رہے تھے۔
اور تم نے مجھے بتانا ضروری نہیں سمجھا۔
وہ بی بی جی یاد نہیں رہا۔
اچھا اچھا جاو ہم دونوں کا ناشتہ بنا کر باہر لے آو۔چھوٹے طرز کا یہ لان نما باغیچہ بہت خوبصورت تھا۔
جس کے وسط میں چند کرسیاں اور میز موجود تھا۔
وہ وہیں بیٹھ کر اسکا انتظار کرنے لگیں کہ راحب کو شادی کیلئے کیسے منایا جائے چونکہ یہ اپنے آپ میں ہی ایک مشکل کام تھا۔
کوئی تو لفظ سوجھے تجھے جو عیاں کرے
کوئی تو کیفیت مجھے پورا بیاں کرے
کوئی تو تیرے حسن کے لائق ہو آئینہ
کوئی تو جانچ کر تجھے صدر جہاں کرے
کوئی ملے تو میری شب غم کی ہو سحر
کوئی تو نور وصل سے پھر صبح یاں کرے
کوئی ملے تو جنت گم گشتہ پاؤں میں
کوئی تو میرا نام بھی ورد زباں کرے
کوئی تو میرے قلب پہ وارد ہو مثل لوح
کوئی تو ختم دل میں اتر کر خزاں کرے
کوئی تو آئے باد بہاری کے سنگ سنگ
کوئی تو میرا قریۂ دل گل فشاں کرے
کوئی نگار غم میں بنے میرا ہم رکاب
کوئی شکستہ درد کا کوہ گراں کرے
کوئی تو چیخ ہو جو مرا درد کہہ سکے
کوئی تو پیش کھول کے سوز نہاں کرے
اوہو سلویٰ رانی بڑا چہک رہی ہو خیر تو ہے نا؟
سلویٰ اپنی سہیلیوں کے ساتھ گاوں کےاس سنہری خوبصورت دریا میں روز کی طرح پاوں ڈالےبیٹھی تھی مگر آج اسکی رنگت الگ ترنگ میں ہی کھل رہی تھی۔
ہاں یار تم لوگوں کو ایک بات بتاوں؟
ہاں ہاں بتاو۔
میرا رشتہ آیا ہے وہ بھی شہر سے ۔
ہاہ سچ میں سلویٰ۔
سحر کسی شاک کے عالم میں بولی۔
ہاں میری خالہ لگتی ہیں اور انھوں نے بولا ہےمجھے شہر جا کر پڑھنے بھی دیں گی۔
ارے واہ سلویٰ تیری قسمت تو کیسے نکھر کے آئی ہے۔نورین داد دئے بنا نہ رہ سکی۔
پر اچانک تمہاری یہ خالہ کہاں سے نکل آئیں۔ وہ بھی گاوں کی لڑکی کا رشتہ ایک شہری لڑکء کیلئے دالا میں کچھ کالا ہے ۔اللہ معاف کرے کہیں لڑکے میں کوئی عیب تو نہیں۔
ارم نے بھی خوب دماغ چلایا۔
ارے فوجی ہے ۔
ہائے اللہ فوجی تو بہت پیارے ہوتے ہیں۔
ارم تو بس بس رشک سے مرنے لگی تھی۔
بھئی جیسا بھی ہو مجھے کیا۔ اب تم لوگ دیکھنا میں بھی بڑی بڑی ڈگریاں لونگی۔سلویٰ دریا میں زور سے منھ پاوں ہلایا تو پانی اپنی بساط سے زیادہ اچھلا۔
مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی سلویٰ تمہاری شادی فوجی سے ہو رہی ہے یا پڑھائی سے تم اپنی خواہشوں کیلئے شادی جیسی زمہ داری سے سودا کر رہی ہو ۔
سحر کی بات وہاں بیٹھی کسی کم عقل کی سمجھ میں نہ
آئی۔البتہ انھوں نے حسد جان کر منھ ضرور بگاڑے تھے۔
کسی نے سچ کہا ہے سچ ایک تلخ شہ ہے اور تلخی بھلا کس کو پسند ہوتی ہے۔
راحب واپس آیا تو دونوں ماں بیٹے نے مل کر ناشتہ کیا اور خوب باتیں کیں۔
اس بیچ عفت جہاں کے فون پر رشتے کی ہاں سن کر وہ خوشیی سے پھولے نہیں سما رہیں تھی۔
اچھا راحب مجھے تم سے خاص بات کرنی ہے۔نگہت جہاں کی نروسنس دیکھ کر راحب سمجھ چکا تھا انکی خاص۔
نہیں امی میں شادی نہیں کرونگا نگہت جہاں نے حیرت سے اسے دیکھا۔
او کم آن امی آپکی خاص باتیں میری شادی تک ہی محدود ہیں نہیں تو آپ آپنے کونسا مجھ سے پاکستان کی اکانومی یا کرپشن ڈسکس کرنی ہوگی۔
راحب چائے کی چسکیاں لیتا انکا مزاق اڑانے والے انداز میں بولا۔
راحب میں سیرئس ہوں اور میں نے تمہارا رشتہ بھی طہہ کر دیا ہے۔
واٹ؟؟؟راحب کی چائے چھلکی۔
ہاں۔
تو ٹھیک ہے شادی بھی آپ آپکر لیں۔راحب کے ماتھے پر ڈھیروں بل در آئے۔
کیا بکواس ہے یہ راحب۔
امی میں رشتوں سے پہلے ہی ہیبیزار ہوں اور آپ چاہتی ہیں میں ایک نیا ڈھول گلے میں ڈال لوں اہنے سر پر ایک نئی زمہ داری اور اپنے جزبے کی کمزوری لے آوں اور پھر ساری زندگی آپکی طرح اسے بھی انتظار کی سولی پر لٹکا دوں اور مفت میں بددعائیں وصول کرتا رہوں۔
راحب نے اپنی بات مکمل کر کے ارد گرد دیکھا اور پھر چائے پینے لگا۔
تو میں کیا کروں اکیلی ہی اس اسدر و دیوار سے ٹکراتی رہوں بڑی مشکل سے مجھے ایک موقع ملا ہے اپنے رشتے بحال کرنے کا تمہاری ان فضول اور بے بےبنیاد وجوہات کی بنا پر میں ختم نہیں کرونگی۔وہ میری بہن کی بیٹی ہے اور وہی آئے گی اس گھر میں۔
عفت جہاں شائد کچھ اور بھی بولتیں مگر راحب نے انکی بات کاٹ دی۔
اوہ تو اس کے پیچھے یہ غرض مخفی ہے۔راحب نے کسی انویسٹیگیٹر کی طرح ماں کو دیکھا۔
شٹ اپ راحب ساری عمر میں نے قربانیاں دے اپنی ہر خواہش رشتے کو چھوڑ کر تم دونوں باپ بیٹے کا ساتھ دیا تم مجھے ہی خودغرض کہہ رہے ہو شاباش بیٹا شاباش میں جو جی میں آئے وہ کرو۔
راحب غصے سے اٹھ کر چل گیا تھا۔
مگر آدھے گھنٹے کے بعد وہ پھر واپس آیا۔
اوکے آئی ول میری یور نیس،بٹ فرسٹ آئی ہیو ٹو میٹ ہر۔
عفت بیگم جوں کی توں وہیں بیٹھی تھیں مگر سر موڑ کر۔
امی اچھا نا سوری۔
آپ اسے کہیں باہر بلادیں میں اسے اپنے بارے میں سب بتانا چاہتا ہوں تاکہ وہ مجھ سے کوئی امیدین نہ لگائے۔
راحب وہ گاوں ہے کوئی یورپ نہیں
تم گھر جاو گے اور اسے ڈراو دھمکاو گے بلکل نہیں ۔
امی میں ایک نوبل آرمی آفیسر ہوں کوئی گینگسٹر نہیں۔
راحب باقائدہ غصہ کر گیا تھا۔
اوکے اوکے ماں کے قہقہے نے راحب کی شرمندگی ضائل کر دی۔
اٹھارہ سال بعد گاوں کے یہ رستے اسے دل جمی سے بھاہ رہےوہ فراٹے بھرتا جیپ میں ہواوں سے باتیں کرتا ان کے گھر تک پہنچا تو اسکے جیپ کے پیچھے ایک حیران پریشان سا ریلہ تھا جو کبھی اس کی جیپ کو رشک سے دیکھتا تو کبھی اسے۔وہ ان سب کو یونہی چھوڑے دروازے ر دستک کرنے لگا۔جسے عفت بیگم نے کھولا۔
اسلام و علیکم میں میجر راحب احمد اسکی شخصیت کے سحر میں عفت جہاں کھو سی گئیں۔
آو بیٹا اندر آو۔
انھوں نے اسے اندر بٹھایا۔
رسمی علیک سلیک ہوئی۔دس سال کے تھے جب تمہیں دیکھا تھا اب تو ماءشاللہ بلکل احمد بھائی کا ر تو ہو۔
عفت جہاں کی آنھیں بھیگ گئیں۔
بیٹھو بیٹا میں چائے بنا کے لاتی ہوں۔
انکے جانے کے بعد وہ نظریں گھما کر اس حویلی کو دیکھنے لگا جو اب کافی بدل چکی تھی۔کبھی وہ وہاں حق سے کھیلا کرتا تھا اور اب ایک اجنبی کی طرح بیٹھا تھا۔
تبھی چھت سے کوئی اچھلتا ہوا نیچے آنے لگا۔راحب نے گردن گھما کر دیکھا تو کوئی لڑکی ریڈ لونگ قمیض پر بلیک پلازو پہنےسیڑھیاں اتر رہی تھی بلکہ کسی مینڈک کی طرح اچھل رہی تھی۔
جب وہ سیڑھی سے چھلانگ لگاتی تو فرنچ ناٹ میں مقید چٹیا ناگن کی طرح بل کھاتا اور کندھے پر ڈالا دوپٹہ ہوا میں کسی لہر کی طرح۔
سانولی مگر پرکشش رنگت جسے آنکھوں میں بھر بھر کے ڈالے کاجل نے دوگناہ پر کشش بنا رکھا تھا۔وہ بہت پیاری تو نہیں تھی ہاں مگر پر کشش تھی۔
واٹ آ سویٹ لٹل گرل۔
وہ آہستہ سے بڑبڑایا۔
وہ لڑکی قد میں راحب کے کندھوں تک بھی نہیں آتی تھی اسلئے وہ اسے لٹل گرل کہہ گیا۔
جب اسکی نظر سامنے بیٹھے فرد پر پڑی تو وہ وہیں جم گئی اور وہاں سے بھاگنے لگی۔
ایکسکیوز می مس سلویٰ کو بلا دوں۔
اسنے آہستہ سے دوہٹہ سر پر رکھا اور حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔
سفید شلوار قمیض پر نفاست سے بال سجائے گہری گوری رنگت مگر سلویٰ کا دھیان اسکے شوز کی طرف تھا جہاں اسے اپنی شکل بھی نظر آ رہی تھی۔
وہ بہت وجیح شخص تھا۔
ایکسکیوز می؟؟؟
سلویٰ فور ہوش کی دنیا میں آئی۔
جی میں ہی ہوں سلویٰ بولیں۔
اسنے حیرت سے اس چھوٹی لڑکی کو دیکھا جوبمشکل اٹھارہ کی ہوگی۔
سلویٰ آہستہ آہستہ چلتی پاس آئی اور اس سے چند قدم دور آ کر بیٹھ گئی۔
راحب نے خود کو کمپوز کیا اوربات شروع کی۔اسلام وعلیکم میں میجر راحب احمد۔اسکا لہجہ خاصہ گھمبھیر تھا۔
وعلکم اسلام سلویٰ یوں گردن گھما رہی تھی گویا اس میں کوئی دلچسپی نہ ہو۔اور راحب کو یہ بات سخت بری لگی تھی۔
میں جانتا ہوں ہمارے بیچ ایک رشتہ ہونے جارہا ہے جو کوئی کھیل تماشہ نہیں ہے اسلئے میں اپنے بارے میں سب بتانا چاہتا ہوں۔
(اب بتا بھی دو)
سلویٰ اسکی تمہیدوں سے سخت بیزار ہو رہی تھی۔
میں نے سارے زندگی رشتوں کےبغیر گزاری ہے اسلئے مجھے مراسم نہیں آتے۔میں ایک بیزار سا انسان ہوں جسکےموڈ بدلتے رہتے ہیں۔
میں سال میں ایک یا دو دفعہ گھر آتا ہوں۔یقینا آپکو اس بات سے اعترض ہوگا۔
سلویٰ نے اپنی پوری گردن نہ میں گھمائی راحب کو حیرانی ہوئی
(نہ بھی آو تو چلے گا)
آپکو میرے کام میں مداخلت کی کوئی اجازت نہیں ہوگی۔
سلویٰ نے ٹھیک ہے میں سر ہلا دیا۔
(مجھے کیا بھئی جو مرضی کرو)
میرے کام کی نوعیت بہت خطرناک آپ کسی بھی طرح اس اسسے دور رہیں گی اور مجھ سےکوئی سوال جواب جوابنہیں کریں گی۔میں کہیں بھی آتا جاتا ہوں کچھ بھی
سلویٰ نے پھر اثبات میں سر ہلایا
(چاند پر بھی چلے جاو نہیں پوچھوں گی)
کبھی آپکو اپنے ملک کیلئے جان بھی دینا پڑی تو ُآپ پیچھے نہیں ہٹیں گی۔
سر مسلسل ہل رہا تھا۔
(میرا ملک سے کیا لینا دینا)
آپ مجھ سے کوئی شکایت نہیں کریں گی عام نارمل کپلز کی طرح گھومنا پھرنا شاپنگ ٹائم سپنڈ کرنا یہ امیدیں مجھ سے مت لگائے گا۔
راحب کو لگ رہا تھا وہ اب غصہ کرے گی انکار کرے کرےگی مگر مگروہ تو مسلسل ہاں کئے جا رہی تھی۔
آپکی کوئی ڈیمانڈ۔ آگے پڑھنا ہے!۔یہ لفظ سلویٰ کے منھ سے سےاگل کر نکلے جیسے کب سے دبائے بیٹھی ہو۔
بس؟وہ لڑکی راحب کو حیران پر حیران کئے جا رہی تھی۔
ہاں۔
اوکے اگر میری ساری شرطیں منظور ہیں تو #کہو_قبول_ہے
قبول ہے سلویٰ نے کندھے اچکائے۔۔
تب تک عفت جہاں چائے لے آئیں تو وہ پینے لگی۔
اور دور بیٹھا وقت اس تجسس میں تھا کہ ہآخر یہ مطلب خودغرضی اور سمجھوتے پر مبنی رشتہ کیا رنگ لانے والا ہے۔
ﮐﺒﻬﯽ ﺳﻮﭼﺎ ﮬﮯ …
ﮬﻤﺎﺭﮮ ﺭﺷﺘﮯ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮐﯿﺎ ﮬوگا؟
ﻣﺤﺒﺖ . ؟؟؟
ﺿﺮﻭﺭﺕ . ؟؟؟
ﺧﻮﺍﮨﺶ .؟؟؟
ﺟﻨﻮﻥ . ؟
ﯾﺎ ﻋﺸﻖ ؟؟؟
۔
ﯾﺎ ،،،،،،
ﻭﮦ ﺭﺷﺘﮧ ﺟﻮ۔۔۔۔۔۔۔؟
ﺁﺳﻤﺎﻥ ﮐﺎ ﺯﻣﯿﻦ ﺳﮯﮬﮯ
ﺑﺎﺭﺵ ﮐﺎ ﺻﺤﺮﺍ ﺳﮯﮬﮯ
ﺣﻘﯿﻘﺖ ﮐﺎ ﺧﻮﺍﺑﻮﮞ ﺳﮯ ﮬﮯ
ﺩﻥ ﮐﺎ ﺭﺍﺕ ﺳﮯ ﮬﮯ ….
۔
ﯾﮧ ﮐﺒﻬﯽ ﺍﮎ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺳﮯ
ﻣﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺎﺗﮯ ﻟﯿﮑﻦ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﺍﮎ ﺩﻭﺟﮯ ﮐﮯ ﺑﻨﺎ ﺑﮩﺖ ﺍﺩﻫﻮﺭﮮ ﺑﻬﯽ ﮬﯿﮟ ۔۔۔۔۔
ﺷﺎﯾﺪ ﺍﯾﺴﺎ ﮬﯽ ﮐﭽﮫ
ﺭﺷﺘﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺑﮭﯽ ﮬو۔