رات کے پرسکون اندھیرے میں جب دنیا آرام دہ حالت میں بستروں میں دبکی ہوئی تھی ۔۔۔اس پہر دائم اور فیصل ایک بار پھر محل کی تلاشی لینے پہنچے ہوئے تھے ۔۔ نایا انہیں مانیٹر کررہی تھی ۔۔ جبکے فیصل آج اس کے ساتھ آیا تھا چونکہ اسے لاکرز کے سسٹم کو ہیک کرنا تھا ۔۔
دائم نایا کا بتایا گیا کمرہ تلاش کرنے لگا ۔۔۔
لیث کے لئے وہ ہمدردی بھرے جذبات رکھتا تھا ۔۔ لیکن ابھی سہی وقت نہیں آیا تھا اسکی مدد کا ۔۔۔
وہ سر جھٹک کراندر داخل ہوگیا ۔۔ کمرے کا ماحول اتنا بدبودار تھا کہ سانس لینا بھی محال تھا ۔۔
what the heck?????
وہ بڑبڑاتا ہوا آگے بڑھا ۔۔
گندم ، چاول ، چینی کی بوریاں اور متعدد کھانے پینے کی اشیاء ، ادویات جو ایران ، ترکی سے امداد کے طور پر آئی تھی یہاں گل سڑ کر چکی تھی ۔۔ لیکن اسے غریبوں کا نوالہ نہیں بننے دیا گیا ۔۔ وہ تاسف سے سر جھٹک کر دیواروں کو چھو کر معائنہ کرنے لگا ۔۔۔ کہیں کوئی خفیہ راستے نکل آئے ۔۔۔ اسکی توقع کے مطابق دیوار کے ساتھ لکڑی کے خانوں والی بڑی سی ریک رکھی ہوئی تھی ۔۔ اس نے پوری طاقت لگا کر اسے ایک طرف سرکایا ۔۔۔
ٹارچ لبوں میں دبا کر پن کی مدد سے تالا کھولنے لگا ۔۔
لکڑی کے تابوت نما صندوق میں اسے ہر طرف اسلحہ نظر آیا ۔۔
وہ دیکھ کر ہی بتا سکتا تھا ۔۔ کہ اسلحہ روس سے آیا تھا اسکے باوجود اس نے سیرئیل نمبر نایا کو نوٹ کروانے شروع کیئے ۔۔۔ کام مکمل کرنے کے بعد اس نے سکون کا سانس لیا ۔۔۔
فیصل ہوگیا؟؟؟ وہ راہداریوں کا جائزہ لینے لگا ۔۔ اسے اب اوپر کی طرف جانا تھا ۔۔
بس دس منٹ ۔۔ وہ ڈیوائس کو لیپ ٹاپ سے کنیکٹ کرکے ڈیٹا ٹرانسفر کرنے لگا ۔۔۔
فیصل صاحب ٹارگٹ پندرہ منٹ کا تھا ۔۔ جس میں سے سات منٹ گزر چکے ہیں ۔۔۔ بقیا آٹھ منٹ میں تم مجھے ٹیرس پر نظر آئو ۔۔ اس نے حکم دیا ۔۔
جلدی کا کام شیطان کا کام ہوتا ہے ۔۔
وہ تیزی سے انگلیوں کو حرکت دیتے ترکی بہ ترکی بولا ۔۔۔ جلدی کرو اس سے پہلے وہ شیطان تمہارا کام نہ کردیں ۔۔ سیڑھیوں سے گزر کر اگلے فلور کے پہلے کمرے میں چلا گیا ۔۔۔
ہونہہ ۔۔۔ آپ کا تو کام ہی یہی ہے مجھے ڈرانا ۔۔ لیکن میں ڈرنے والوں میں سے نہیں ہوں کیپٹن
فیصل نے جل کر کہا ۔۔ بات اسکے منہ میں ہی تھی قدموں کے چاپوں کی آوازیں سنائی دینے لگیں ۔۔
دھت تیری کی ۔۔ ک ۔کوئی آرہا ہے دائم بھائی ۔۔
فیصل کے چھکے چھوٹ گئے ۔۔
” کیپٹن ” جوابا اسکی کرخت آواز آئی تھی۔۔
ارے ہاں وہی ۔۔ کیپٹن بولنے سے تھوڑا وہ رک جائیں گے ۔۔۔آپ یہ بتائیں میں کیا کروں ۔۔ ڈیٹا ٹرانسفر ہونے میں ابھی پندرہ سیکنڈ باقی ہیں ۔۔ کیا کروں ۔۔۔
وہ بری طرح سے گھبرا گیا ۔۔۔
دعا کرو ۔۔ اسکے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے ۔۔
وہ مزے میں تھا ۔۔
آپ کا الگ سے حساب ہوگا ۔۔ مجھ معصوم کو ٹارچر کر رہے ہیں ۔۔ ‘مشن سکسیڈ’ کا سگنل ملتے ہی اس نے ڈرائیو واپس کھینچی ۔۔ لیپ ٹاپ ڈاکومنٹس سمیت لاکر میں ٹونسا اور بند کرکے فٹافٹ چھپنے کی جگہ تلاشنے اتنے وہ سر پر پہنچ چکے تھے ۔۔اسے مجبورا بیڈ کے نیچے گھسنا پڑا ۔.۔۔
کہاں ہو؟؟؟
جہنم میں ۔۔۔بیڈ کے نیچے ہوں اور کہاں
وہ دبہ دبہ غرایا ۔۔
سامنے دیکھو ۔۔ جہنم کے جلاد نظر آرہے ہیں یا نہیں
دائم کو امید نہیں تھی وہ احمق بیڈ کے نیچے چھپ جائے گا ۔۔ فیصل نے سامنے دیوار پر لگے آئینے میں اپنا عکس دیکھا ۔۔۔ اور پھر ایک ترچھی نگاہ ان تین چار لوگوں پر ڈالی ۔۔۔جو عربی میں نہ جانے کیا گفتگو کر رہے تھے ۔۔
او شٹ ۔۔
وہ باآسانی ان کی نظروں میں آجاتا۔۔
احمقوں کے سردار واقع ہوئے ہو ۔۔
دائم کا اسکی عقل پر ماتم کرنے کا دل چاہا ۔۔
وہ دل ہی دل میں دعا کرنے لگا کہ وہ لوگ بلب نہ آن کردیں ورنہ اسکا بھانڈا پھوٹ جاتا ۔۔
اللہ کی بچا لے اس نادان کو ۔۔ یہ غیر اخلاقی حرکت پہلی بار کی ہے ۔۔ بچا لے مالک دوبارہ نہیں کروں گا ۔۔
وہ دل ہی دل میں گڑگڑایا ۔۔ وہ لوگ لاکر کے سیف میں سے کچھ نکال کر لے گئے اور دروازہ باہر سے لاک کردیا ۔۔
فیصل نے سکون کا سانس لیا ۔۔ فٹ سے اٹھا اور کھڑکی کی جانب بڑھا ۔۔ قدموں تلے کچھ محسوس ہوا تو جھک کر تصویر اٹھا لی ۔۔ کسی لڑکی کی تھی ۔۔ شاید لاکر سے گر گئی تھی ۔۔ قدموں کی آہٹ پھر سے آنے لگی تو وہ کھڑکی سے باہر نکل کر بالکونی سے چپک کر کھڑا ہوگیا ۔۔
شاید کوئی راہداری سے گزر رہا تھا ۔۔
اب کیا کروں ؟؟ کیسے آئوں اوپر ؟؟ اس نے سر گوشیوں میں پوچھا ۔۔
تمہیں تو پائپ نظر آرہا ہوگا ۔۔۔ اسے کس کے پکڑو اور ہاتھوں کے بل رینگتے ہوئے اوپر آجائو ۔۔ جلدی ۔۔
کیا ؟؟ وہ چیخ اٹھا ۔۔
میں کوئی سرکس کا جوکر نہیں ہوں جو در و دیوار سے لٹک کر آجائوں کیسی باتیں کر رہے ہیں ۔۔ کپیٹن خدا کے لئے مجھے اوپر کھینچیں ۔۔۔
اس نے منت کی تھی۔۔
اگلے ہی پل کیبل اسکے سامنے لہرانے لگی ۔۔
اسکے ذریعے آجائو۔۔
قسم سے مجھ سے نہیں ہو گا کیپٹن ۔۔
اس نے رونی صورت بنا کر کیبل کو دیکھا ۔۔
دائم نے لب بھینچ کر ضبط کا مظاہرہ کیا ۔۔
کیبل اپنی جیکٹ سے اٹیچ کرو اچھے سے ۔۔۔ میں تمہیں اوپر کھینچتا ہوں ۔۔ اور بازوئوں کی طاقت لگا کر اسے اوپر کھینچ لیا ۔۔
ہالی وڈ کے جیمز بانڈ بھی آپ کے سامنے کچھ نہیں ہیں ۔۔۔قسم سے ہیرو لگے ہو کیپٹن
فیصل نے خوش ہوتے ہوئے مکہ اسکے کشادہ سینے پر جڑا ۔۔ دائم نے گھورتے ہوئے اسکی حرکت ملاحظہ کی ۔۔ اور تیزی سے کیبل لپیٹ کر شرٹ سے ٹانک لی ۔۔
چلتے ہیں ۔۔۔
فیصل نے خجالت سے دانت دکھائے ۔۔۔
راستے اس طرف ہے بیٹا۔۔ دائم نے اسکی گردن میں ہاتھ ڈال کر دوسری سمت کھینچا ۔۔۔
نایا انکی نوک جھوک انجوائے کرتی اسلحے کے سیرئیل نمبرز چیک کرنے لگی ۔۔۔ وہ لوگ واپس لوٹ آئے تھے ۔۔۔
فیصل کو سخت بھوک لگی تھی ۔۔ اسلئے وہ کھانا گرم کرنے لگا ۔۔ اور دائم فراغت دور کرنے کے لئے نقشے کھنگالنے لگا
تم کیا کر رہی ہو ؟؟ اسے اسکرین کے سامنے جما دیکھ کر سرسری سا پوچھنے لگا ۔۔
گنز کے سیرئیل نمبر چیک کر رہی تھی ۔۔۔ ساری ملٹری رائلفز رشین فیڈریشن کی طرف سے آئی ہیں ۔۔ اور کچھ دو تین کا تعلق اسرائیل سے بھی ہے ۔۔ وہ مصروف انداز میں بولی ۔۔ اندازہ تھا مجھے۔۔۔ وہ بڑبڑایا
لیکن ہم اندازً تو سب نہیں کر سکتے نا ۔۔ جنرل کو حتمی رپورٹ شواہد کے ساتھ دینی ہوگی ! وہ بولی
اچھاااا
اسکا اچھا انتہائی معنی خیز تھا ۔۔
۔نایا کی مسکراہٹ گہری ہوگئی ۔۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو وہ فون پر مصروف تھا ۔۔ وہ سر جھٹک کر کمپیوٹر کی جانب متوجہ ہوگئی ۔۔
۔ کیسی ہو شفق ؟؟؟ آواز پر وہ پھر سے چونکی ۔۔
ایزی کیسی ہے ؟؟؟ ڈسٹرب تو نہیں کیا نا میں نے ؟؟
دائم نے کلائی پر بندھی گھڑی پر نظر ڈالی ۔۔ رات کے دو بج رہے تھے ۔۔۔ نایا چاہ کر بھی خود کو کمپیوٹر کی طرف متوجہ نہیں رکھ پائی ۔۔ اسکی کی پیڈ پر چلتی انگلیاں تھم سی گئیں ۔۔
اچھا ۔۔ کھانا کھایا تم نے ؟؟؟
شفق کا نام پہلے بھی سنا تھا اس نے ۔۔۔ شاید اسکی بیوی ہو ۔۔ ؟؟ وہ سوچنے لگی
ایزی کا اسکول کیسا جا رہا ہے ؟؟
ایزی ؟؟ اسکی بیٹی ہو سکتی ہے ۔۔!
لیکن وہ یہ سب کیوں سوچ رہی تھی ۔۔ اس نے جھنجھلا کر ٹیبل پر مکہ رسید کیا ۔۔ دائم نے گردن موڑ کر سوالیہ نگاہوں سے دیکھا ۔۔
ٹھیک ہے ۔۔ تم اپنا خیال رکھنا ۔۔ اور ایزی کا بھی ! وہ اٹھ کر اسکی طرف آ گیا ۔۔
کیا ہوا سب ٹھیک ہے ؟؟
آ۔۔ہاں میرے سر میں درد ہو رہا ہے ۔۔ اس نے عذر تراشا ۔۔
تم آرام کرلو ۔۔ویسے بھی بہت وقت ہوگیا ہے ۔۔ بقیا کام ہم صبح کر لیں گے ۔۔کوئی جلدی نہیں ہے ! وہ رسان سے بولا ۔۔ فیصل کچن میں رات گزارنے کا ارادہ ہے تمہارا ۔۔
دائم نے فیصل کو پکارا ۔۔۔
میں الائچی والی چائے بنا رہا ہو آپ لوگوں کے لئے میری دادی بنایا کرتی تھی ۔۔ ان کے جیسا ٹیسٹ تو نہیں آ سکتا میرے ہاتھ میں لیکن مجھے یقین آپ کی ساری تکان اتر جائے گی ۔۔۔وہ ڈش میں کپ سجا کر چائے پیش کرنے لگا ۔۔ بہت خوب ۔۔ کچھ بنو نہ بنو لیکن گھر داماد بہت اچھے بنو گے تم ! دائم کے تنقیدی ‘ کمپلیمنٹ’ پر فیصل نے بے یقینی سے نایا کو یوں دیکھا جیسا کہہ رہا ہوں ۔۔
‘آپ نے انہیں سب کیوں بتایا ‘ ۔۔
جبکے نایا اس کے اندازے پر ہکا بکا رہ گئی ۔۔۔
گھورنا بند کروگے اب تم دونوں۔۔
بھاپ اڑاتا کپ لبوں سے لگاتا ہوا محفوظ ہوکر بولا ۔۔
ان دونوں جھٹ پٹ نظریں ہٹائیں ۔۔۔
تم دونوں میں سے اگر کوئی اپنے گھر بات کرنا چاہے تو کر سکتا ہے ۔۔۔ صرف پانچ منٹ !
دائم نے لب کشائی کی ۔۔ دونوں ہی اپنی اپنی جگہ خاموش رہے ۔۔۔ نایا گھر بات کرکے خود ڈسٹکریٹ نہیں کرنا چاہتی تھی ۔۔ اور فیصل کے پاس تھا ہی کون ؟
جسے وہ فون کرتا ۔۔! دادی اپنا خیال رکھ رہی ہوں گی ۔۔ وہ تاکید کرکے آیا تھا ۔۔ چچی تو بہت خوش ہوں گی کہ اس ‘آوارہ’ نکمے’ سے جان چھوٹ گئی ۔۔ آیت کو ویسے اسکی کوئی پرواہ نہیں تھی ۔۔اسے نے ایجنسی سے کانٹریکٹ سائن کرتے وقت دادی سے رائے لی تھی ۔۔دادی اسکے یہاں آنے کے حق میں تھی ۔۔ انہوں پہلے ہی دو بیٹے وطن کے سپرد کر دیئے تھے ۔۔۔ واحد فیصل ان کے خاندان کا چشم و چراغ تھا ۔۔ وہ ان تینوں عورتوں کا سرپرست تھا ۔۔
دادی اسکے معاملے خود غرض ہوگئی تھی ۔۔ پھر بھی اس نے منا لیا تھا انہیں ۔۔ چچی اور محلے کے یار دوستوں کو اس نے یہی بتایا تھا اسکی نوکری لگ گئی ہے وہ کراچی جا رہا ہے ۔۔۔
برخوردار ؟؟
ہوں ہاں ۔۔ وہ چونک کر خیالوں کی دنیا سے باہر آیا ۔۔
کہاں گم ہو؟؟ ہمیں صبح اٹھنا بھی ہے ۔۔ اب تم لوگ آرام کرو ۔۔ اس نے تاکید کی ۔۔اور لاتعلق سی بیٹھی نایا پر سرسری سی نگاہ ڈالی فیصل نے بھی اسکی نظروں کے تعقب دیکھا ۔۔
آپ ٹھیک ہیں نا آفیسر ؟؟ فیصل اپنائیت بھرے لہجے میں پوچھنے لگا ۔۔ ۔۔
ہا۔ ہاں میں ٹھیک ہوں ۔۔ میں ۔۔ ابھی مطلب مجھے نیند نہیں آرہی تم لوگ سو جائو ۔۔
اسکی آنکھوں میں نمی اترنے لگی اندھیرے کے باعث وہ اسکے تاثرات نوٹ نہیں کر پایا ۔۔۔ لیکن آواز کی لڑکھڑاہٹ اور نمی سے ظاہر تھا وہ کسی بات پر اپ سیٹ ہے ۔۔
تھوڑی دیر پہلے تو ٹھیک تھی ؟ دائم الجھا ۔۔
جب سے اس نے کال کے متعلق بات کی تھی وہ تب سے گم سم ہوگئی تھی ۔۔
خیر ۔۔ جیسے تمہاری مرضی ۔۔ وہ اس معاملے کچھ نہیں کرسکتا تھا ۔۔ فیصل بھی خاموشی سے لیٹ گیا ۔۔ جبکے نایا ٹیرس پر چلی گئی ۔۔ اسے بابا کے ساتھ اپنی آخری ملاقات یاد آگئی ۔۔ وہ اداس ہوگئی ۔۔۔ ان سے بات کرنے کے لئے بے چین بھی ۔۔ لیکن اس وقت سو گئے ہوں گے ۔۔ کریم بھی ۔۔ وہ یونہی دیوار سے سر ٹکا کر درازنو بیٹھ گئی ۔۔۔
___________________________________________
شزانہ۔۔۔ شزانہ ۔۔۔ شزانہ
مدھم اور۔۔۔ شائستگی اور محبت سے بھرپور آواز ۔۔
وہ زرا سا کسمسائی اور جھٹکے اٹھ بیٹھی ۔۔۔ پورا جسم پسینے میں نہایا ہوا تھا ۔۔ اندھیرے میں ٹٹول ہوئے روشنی کا بلب تلاش کرنا چاہا ۔۔ اچانک سے کھڑکی کا پٹ کھلا اور کوئی ذی روح اسے دبوچے باہر کھینچنے لگی ۔۔۔
اس نے چیخیں مار مار پورا آئوٹ ہائوس سر پر اٹھا لیا ۔۔ وہ کس کس چیز سے ٹکرائی۔۔ کیا کیا ٹوٹا ۔۔ کہاں کہاں گری ۔۔ اسے کچھ خبر نہیں ہوئی ۔۔. سانس بند ہونے لگیں۔۔۔ اندھیرے کو ٹٹولتی غش کھا کر گر پڑی ۔۔۔ اسکی دلخراش چیخوں سے یوسف گھبرا اٹھ بیٹھا ۔۔۔
لائٹ خراب ہو چکی تھی ۔۔ وہ پہرے دار کو ٹھیک کروانے کا بول چکا تھا ۔۔۔
شزانہ۔۔۔ ؟؟ فون کی ٹارچ جلا کر اسے تلاش کرنے لگا ۔۔ جو داخلی دروازے کے قریب گری ہوئی ملی ۔۔
شزانہ ؟آنکھیں کھولو؟ کیا ہوا تمہیں؟؟
اسکا دماغ مائوف ہونے لگا ۔۔ اسکی نبض بہت دھیمی چل رہی تھی ۔۔۔ بخار کی حدت سے اسکا جسم آگ کی سی تپش دے رہا ۔۔
اگر اسے کچھ ہوگیا تو ۔۔ ؟؟ وہ گھبرا کر اسے بانہوں میں سمیٹ کر باہر لے آیا رات کے اس پہر وہ اسے ہاسپٹل بھی نہیں لے جا سکتا تھا شہر آدھے گھنٹے کی دوری پر تھا ۔۔ شزانہ؟؟؟ شزانہ؟ آنکھیں کھولو۔۔
گارڈن کی گھاس پر اسے لٹا کر وہ زوروں سے اسکا رخسار تھپتھپانے لگا مگر بے سدھ ۔۔
چاند کی چاندنی میں بے سدھ پڑے وجود پر وہ پریشانی کے عالم جھکا ہوا کسی کی نظروں کی زد میں تھا ۔۔ ہیولا بیرونی دیوار پر انگلیاں جما کر دوسری طرف کود گیا ۔۔ اسکا بوجھل زہن بیدار ہونے لگا ۔۔ وہ اسے جھنجھوڑ رہا تھا ۔۔ وہ چیخیں مارتی ہوئی دور ہوئی ۔۔
شزانہ ۔۔ ہوش کرو ۔۔ کیا ہوگیا ہے تمہیں ۔۔کیوں چلا رہی ہو ۔۔ اس کی پریشانی میں ڈوبی آواز سن کر چاند کی روشنی میں بغور اسے دیکھنے لگی ۔۔۔
میں یوسف۔۔ کیا ہوا ؟؟ تم ڈر گئیں تھی ۔۔؟؟؟
و۔۔ہاں کھڑکی کے پاس کوئی تھا ۔۔۔ وہ مجھے باہر کی طرف کھینچنے کی کوشش کر رہا تھا ۔۔
اسکی آنکھوں سے وحشت ٹپک رہی تھی۔۔
کھڑکی تو بند ہے ۔۔
اسکے کپکپاتے ہاتھ کے تعقب میں دیکھتا ہوا بولا ۔۔۔
وہاں کوئی تھا ۔۔میں جھوٹ نہیں کہہ رہی۔۔ وہ مجھے ۔۔۔
وہ بات ادھوری چھوڑ کر ہونکتی ہوئی رو پڑی ۔۔
اسکی ہمت جواب دے گئی۔۔ ضبط ٹوٹ گیا ۔۔۔ زات بکھر کر ریزہ ریزہ ہوچکی تھی۔۔ کسی اپنے کا ساتھ ہو تو انسان قیامت کا سا دکھ بھی سہہ جاتا ہے۔۔ اور وہ اس سفر پر اکیلی تھی ۔۔ تن تنہا ۔۔زخموں سے چور ۔۔
تمہیں ٹمپریچر ہے جس کی وجہ سے تم ڈرگئی ہوگی
وہ کچھ کہہ نہ سکا ۔۔
دوپہر کا کھانا ، رات کا کھانا، پانی،روشنی،کھلی ہوا وہ سب اس پر بند کرکے کیا ثابت کرنا چاہتا تھا ؟
ساری بے وقوفیوں نے اسے ندامت کی طرف دھکیل دیا تھا ۔۔۔ وہ اپنے اس امر پر سخت پیشماں تھا
مجھے اپنے گھر جانا ہے ۔۔ کسی بھی طرح ۔۔ اپنے بابا کے پاس کے جانا ۔۔ مجھے اور کہیں نہیں جانا
مجھے بس اپنے گھر جانا ہے۔۔پلیززز
گھٹنوں میں دے کر سسکتی وہ بے بسی سے التجا کرنے لگی
میری طرف سے تم آزاد ہو ۔۔ صبح جہاں چاہے جا سکتی ہو ۔۔میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا! اس نے کہہ دیا ۔۔
جوباً وہ خاموشی سے سسکتی رہی تھی ۔۔۔ اسے مشغلے میں غرق دیکھ کر وہ خاموشی سے اس کے قریب بیٹھ گیا ۔۔ اندر چلو ۔۔ اس وقت یہاں بیٹھنا خطرے سے خالی نہیں ہے وہ رسانیت سے سمجھانے لگا ۔۔
تم صبح مجھے جانے دوگے نا ؟ اس نے پوچھا بھی تو کیا ۔۔
یوسف نے سر ہلانے پر اکتفا کیا ۔۔
وہ جھوٹی تسلیاں نہیں دینا چاہتا تھا ۔۔
اندر اب چلو ۔۔
نرمی سے کہتے ہوئے اسکی کلامی تھامی ۔۔وہ صوفے پر سکڑ کر لیٹ گئی ۔۔۔ فورا ہی اسے غنودگی نے آلیا ۔۔
یوسف نے ڈاکٹر کے لئے پیغام چھوڑا ۔۔ اور اس کے قریب ہی بیٹھ گیا ۔۔ اسکی نیند ٹوٹ چکی تھی اسے اب پوری رات جاگ کر گزارنی تھی ۔۔۔
کھڑکی ہنوز بند تھی ۔۔۔!! وہ سوچتا ہوا پلٹ کر سرخ آنکھوں کر مسلتا ہوا سینے پر ہاتھ باندھ کر آنکھیں موندنے لگا
_____________________________________
ھانی کے اکائونٹس ، اسکے سکیورٹی سسٹم ، تک رسائی حاصل کر چکے تھے ۔۔ اب انہیں اس فرد کی تلاش تھی جو اسکے خفیہ کام سر انجام دیتا تھا۔۔
نایا کی کھوج کے مطابق وہ اسرائیلی تھا ۔۔ اور فیصل کو ملنے والی لڑکی کی تصویر بھی اسکی موجودگی اسرائیل میں ظاہر کر رہی تھی۔۔ سو اب اسرائیل جانا بہت ضروری ہوگیا تھا ۔۔۔
جنت قدوسی ۔۔۔؟؟؟ کہاں ہو تم ۔۔ اسرائیل کے کس کونے میں ۔۔ وہ بڑبڑاتی ہوئی تیزی سے کی پیڈ پر انگلیاں چلا رہی تھی ۔۔
آپ خواہمخواہ خود کو تھکا رہی ہیں آفیسر ۔۔ میری صلاحیتیوں کے سامنے اپنا زور مت آزما ئیے ۔۔
فیصل نے فخریہ کہتے ہوئے اسے اپنا آئی پیڈ تھمایا
نایا سراسیمگی سے اسکرین کو گھورنے لگی ۔۔
جہاں فیصل اسکی سات نسلوں کا بیک گرائونڈ نکال چکا تھا ۔۔۔
کیسا لگا میرا کارنامہ ؟؟؟ فیصل نے مزے بھنویں سکیڑیں ۔
اصل نام جنت قدوسی ہے ۔۔ جبکے اسرائیلی شناخت ‘وینیسا جیکب’ (vanessa jacob) کے نام سے ہے ۔۔
اور دوسرا شخص جس پر مینجیر ہونے کا خدشہ ہے ۔۔ وہ جوناتھن ہے ۔۔۔ اسرائیل کے شہر تذفات میں رہتا ہے ..پچھلے بیس سال سے ایک امیر کبیر بزنس مین کے ڈرائیور کی حیثیت سے ! اسی لمحے دائم کے فون کی تھرتھراہٹ نے اسکی زبان کو بریک لگائی ۔۔ دائم نے فون کان سے لگایا اور ‘ہوں’ پر اکتفا کیا ۔۔
ہمارے پاسپورٹس ریڈی ہیں ۔۔۔ چلو ۔۔ یہاں سے نکلتے ہیں
وہ سنجیدگی سے کہتا خالی کپ لے کر اٹھا ۔۔
میں ؟؟؟ میں بھی چل رہا ہوں نا ؟
فیصل بے چینی سے پوچھنے لگا ۔۔
نہیں تم پاکستان واپس جا رہے ہو ۔۔
سنجیدہ لہجے میں کہتا فیصل کو پریشاں کر گیا ۔۔۔
لیکن ہماری اس بارے میں بات ہوئی تھی نا ۔۔ کیپٹن ۔۔
پلیز آفیسر میں شرمندہ ہوں اپنی غلطی پر !
اس نے مدد طلب نگاہوں سے نایا کو دیکھا ۔۔
ریلیکس فیصو ۔۔ہمارے کیپٹن مزاق کر رہے ہیں !
وہ زیر لب مسکرائی
اتنی سنجیدگی سے مزاق ہوتا نہیں ہیں ویسے ۔۔۔ اسکے لئے خاص لب و لہجے ہوتا ہے ۔۔ چونکہ آپ کیپٹن ہیں اسی لئے کچھ نہیں کہہ رہا ! وہ سخت برا مان گیا تھا ۔۔۔
تینوں تیزی سے اپنی چیزیں سمیٹ کر پچھلے دروازے سے مین شاہراہ کے قریب جھاڑیوں میں کھڑی جیپ میں سوار ہوکر ایئرپورٹ کا رخ کرنے لگے ۔۔
اپنے بیگز یہیں چھوڑ دینا ! زرا سی گردن موڑ پر بولا ۔۔
مگر اس میں ہمارا سامان ہے ہم کیسے ۔۔۔
وہ کہتے کہتے رکا اور پھر مصلحت جان کر سر اثبات میں ہلادیا ۔۔ ایئرپورٹ پہنچنے تک انہیں اسی نقشے کے نئے بیگ مل گئے تھے ۔۔ انکا اتنا سامان جاعہ وقوعہ تک کیسے پہنچے گا ۔۔فیصل کی سمجھ سے دور تھا ۔۔ جبکے سویلین ایجنٹس اپنا کام بخوبی طریقے سے کرنا جانتے تھے ۔۔۔سامان کی چیکنگ کے بعد ان کے پاسپورٹس پر حتمی مہر لگا دی گئی ۔۔وہ آگے پیچھے اپنی نشستوں پر آ بیٹھے ۔۔۔
نایا اور دائم دونوں مطمئن تھے ۔۔ لیکن فیصل نے کبھی جہاز کا سفر نہیں کیا تھا ۔۔
رہ رہ کر وسوسے اور برے خیالات اسکے دماغ میں آرہے تھے ۔۔۔ اگر پلین کریش ہوگیا تو ۔۔؟ خدانخواستہ جہاز کا انجن خراب ہوجائے ۔۔۔! اگر موسم خراب ہوگیا تو ۔۔.
وہ بے چینی سے پہلو بدلنے لگا
کیا بے چینی ہے ؟
دائم نے اسے پہلو بدلتے دیکھ کر پوچھ ہی لیا ۔۔
اگر کچھ ہو گیا تو۔۔۔ وہ کہنے سے خود کو روک نہیں پایا ۔۔ تو میں تدفین کا اہتمام کر دوں گا ۔۔
آپ ہمیشہ اتنے بیزار کیوں رہتے ہیں ۔۔جب دیکھو کوئی نہ کوئی جلی کٹی بات کہہ کر بندے کے موڈ کی ایسی کی تیسی کر دیتے ہیں
اسکے جواب پر وہ بھنا گیا ۔۔
میں تمہارا کیپٹن ہوں ۔۔ دائم نے اسے گویا اسے ‘شٹ اپ’ کہنا چاہا
کیپٹن کا مطلب یہ تو نہیں کہ آپ سڑیل شکل کر بنا کر گھومو ہر وقت۔۔۔
میری شکل سڑیل ہے ؟ دائم کو یقینا صدمہ ہوا تھا
واللہ جھوٹ نہیں بولوں گا ! وہ تنک کر بولا ۔۔
دائم نے جوابً ناک چڑھا کر رخ موڑلیا جیسے کہہ رہا ہو ‘آئی دونٹ کیئر’
چند ثانیے گزرنے کے بعد فیصل اب بور ہونے لگا تھا ۔۔۔ نایا ان سے دو صف چھوڑ کر کتاب میں سر دیئے بیٹھی تھی۔۔۔ اس نے پلٹ کر اپنے سامنے نیند سے اونگھتے انکل کو دیکھا ۔۔
افففف ۔۔ سخت کوفت کا شکار ہوکر فورا سے رخ موڑ کر دائم کو بغور دیکھنے لگا ۔۔۔ جو ہمیشہ کی طرح منفرد نظر آرہا تھا۔۔۔بال سلیقے سے اوپر کی طرف جمائے ۔۔ سبز نگاہیں ہمیشہ کی طرح سرد تھیں ۔۔۔ لب بھیجنے وہ کسی گہری سوچ کے زیر اثر غیر مرئی نقطے کو گھور رہا تھا ۔۔۔
وہ کسی پزل کی طرح تھے ۔۔ فیصل کو لگا وہ کبھی اس شخص کو جان نہیں پائے ۔۔ جس نے اتنے پرتوں میں اپنی زات کو خفیہ رکھا ہوا تھا ۔۔حالانکہ نایا کے متعلق وہ کافی جاننے لگا تھا ۔۔۔وہ بہت شائستہ اور ہمت والی تھی ۔۔ لڑکیوں کی فطری نیچر کی طرح نازک اور حساس بھی تھی ۔۔
محبوبہ سمجھ کر گھورنا بند کرو ! فیصل نے سٹپٹا کر نظریں ہٹا لیں ۔۔۔
ہاتھ سینے پر باندھے وہ اب سیٹ کی پشت سے سر ٹکانے لگا ۔۔
بلیک کلر سوٹ کرتا ہے آپ پر ! وہ کہے بغیر نہ رہ سکا ۔۔ بس نا ۔۔۔ (زرا اسکے قریب کھسکا) تھوڑا سا مسکرا بھی لیا کریں ۔۔۔ کبھی آنکھوں سے لبوں سے ۔۔۔ لڑکیوں کو اپنے خوبصورت دانت دیکھنے کا موقع بھی دے دیا کریں ۔۔۔ تبھی تو بات بنے گی ! وہ اسے گھوری سے نواز کر پلٹ گیا ۔۔
ویسے آپ کی آنکھوں کا رنگ کیا ہے؟ہیزل ؟گرین؟ یا کچھ اور ۔۔۔ اسے تشویش ہونے لگی
ہیزل گرین، یا سنیک ۔۔ ایسا لوگوں کا ماننا ہے لیکن یہ ایک مختلف رنگ ہے چونکہ میری ماں کی آنکھیں نیلی تھی اور باپ کی برائون اسی لئے جینٹک لحاظ سے میری آنکھیں ان دونوں کلر مکسچر ہیں جسے صحیح لفظوں ‘آئرش’ کلر کہتے ہیں ۔۔۔ نہ کہ ہیزل ۔۔گرین وغیرہ
اوہ ۔۔تبھی ۔۔ میں اندازہ نہیں لگا پایا
فیصل نے لب سکوڑے
شاید کبھی نہ لگا پائو ۔۔ دنیا میں صرف دو پرسنٹ لوگ ہی ہیں جن کی میرے جیسی یعنی بقول لوگوں کو سبز آنکھیں ہیں ! اس نے بند آنکھوں سے لب کشائی کی ۔۔۔
آپ کا آئی کیو لیول کتنا ہے ؟؟ اسے بوریت دور کرنے کا نیا طریقہ مل گیا تھا
116 ۔۔۔وہ آہستگی سے بولا ۔۔
اور میرا 136
دائم اس کی بات پر متیحر سا ہوکر دیکھنے لگا ۔۔۔ پھر سر جھٹک کر دوبارہ پشت ٹکالی ۔۔
فیصل کو کمینی سی خوشی محسوس ہونے لگی ۔۔۔ وہ ہوائوں میں اڑنے لگا ۔۔
جلے نا ۔۔۔جلے نا آپ ؟؟؟ فیصل نے اسکے سنجیدہ چہرے کو اپنی طریقے سے لیا ۔۔۔
آئی کیو لیول 136 ہونے سے تم آئن سٹائن کے جانشیں نہیں بن جائو گے۔۔رہو گے بیوقوف ہی
مانو یا نہ مانو جل تو آپ رہے ہو مجھ سے
فیصل سے یہ فطری خوشی سنبھالی نہیں جارہی تھی
دائم نے اسے زبردست گھوری سے نوازا ۔۔
وہ دانتوں کی بھرپور نمائش کرتا ہوا اپنی نشست پر سیدھا ہوا ۔۔۔
_________________________________________
تاشا۔۔۔۔ تاشا۔۔۔اٹھوووو یاررر
کسی کی جھنجھلائی آواز سن کر اسکی آنکھ کھلی ۔۔۔
کیا ہے؟؟؟ وہ کسمسائی ۔۔۔
محترمہ ایک شام اور رات گزر چکی ہے۔۔یوسف بھائی کا کچھ پتا نہیں ۔۔اور تمہارے نہ ہونے والے دلہا پتا نہیں کہاں مر گئے ہیں ہمیں یرغمال بنا کر ۔۔۔ ٹینشن لے لے کر میرا تو دماغ پٹھا جا رہا ہو پتا یوسف بھائی ۔۔۔۔
تاشاااااااااااا۔۔۔ اسے اونگھتا دیکھ کر وہ یاسیت سے حلق کے بل چلائی ۔۔ پہرےدار گڑبڑا کر کر دوڑے دوڑے آئے۔۔
تاشا ہونکو کی طرح اسکی صورت دیکھنے لگی۔۔۔
کیا ہے ؟؟؟ تکلیف ہے ؟؟؟
وہ ۔۔ میں ۔۔نوال نے تھوک نگلا
ہمیں بھوک لگی ہے کچھ کھانے کو ملے گا ۔۔۔
تاشا فٹافٹ بولی ۔۔۔اسکی نیند تو کب کی گُل ہو چکی تھی ۔۔۔
خالہ کے گھر آئی ہے کیا ؟؟ وہ شخص مسلسل خونخوار نظروں سے گھور رہا تھا۔۔
خالہ کا ہی سمجھ لو ۔۔ ویسے ہماری خالہ ہے نہیں ۔۔اگر ہوتی بھی تو تمہاری طرح بے مروت نہ ہوتی ۔۔ نا رات کا کھانا دیا اور اب صبح بھی کنی کترا رہے ہو ۔۔۔شرافت سے کچھ کھانے کو لائو ورنہ چلا چلا کے تمہارے کان کے پردے پھاڑ دوں گی ۔۔۔
وہ شخص دانت پیس کر رہ گیا ۔۔
تاشا تمہاری جرات کو اکیس توپوں کی سلامی ۔۔آگے سے اپنی پٹر پٹر چلتی زبان پر قابو رکھ لینا بہن ۔۔ ورنہ میں بے موت مار جائو گی اس شخص کے جاتے
نوال بڑبڑائی ۔۔
اور اگر کھانا نہ ملا تو میں مر جائو گی ۔۔ قسم سے اتنی بھوک لگی ہے
چند ثانیے گزرنے کے بعد وہ شخص گرم گرم چائے کے کپ اور ڈسپوزل پلیٹس میں سنیکس لیئے حاضر ہوا ۔۔۔
ناشتہ آگیا ۔۔۔ وہ ندیدہ کی طرح پیر پٹخنے لگی ۔۔۔
خوش تو ایسے ہو رہی ہے جیسے اسکے سسرال والے ناشتہ لائے ہو ! نوال کا بس نہیں چلا رہا اسکا منہ توڑ دیتی ۔۔ وہ ٹینشن سے بے حال ہورہی تھی ۔۔۔ادھر اسے کھانے کے خواب آرہے تھے ۔۔۔
تمہاری سات شادیاں ہوں ۔۔۔سات سووو بچے ہو ۔۔جگ جگ جیو۔۔قسم سے اگر دس ملکوں کی راجدھانی میرے پاس ہوتی تو بھی میں تمہارے نام کر دیتی ۔۔وہ نہال ہوگئی
بکواس کر رہی ہے۔۔ اجڑی ہوئی ریاست کی لُٹی ہو ملکہ ! نوال بھنا کر رہ گئی ۔۔
تو تُو کر لے نا مجھ سے شادی ! وہ شخص شریر ہوا تھا۔۔ تاشا کا رنگ یک لخت بدلا ۔۔۔
کیا کہا؟؟؟ گھامڑ ۔۔۔آئن اسٹائن سے بھی بہیودہ صورت ہے اسکی ۔۔ اسکی ہمت کیسے ہوئی نوال ۔۔۔ زرا ہاتھ کھول میرے ۔۔۔ میں نوچ لوں گی تیرا ۔۔ وہ تو چلا اٹھی تھی ۔۔۔
نوال بمشکل ہنسی روکی ۔۔ ا
ب تو میری برادشت سے باہر ہوتی جارہی ہے لڑکی ۔۔
دوسرا شخص ہمیشہ کی طرح آنکھیں ماتھے پر رکھ کر بولا ۔۔۔
اپنے دوست کو سمجھائو کس قسم کی نازیبا گفتگو کر رہا ہے میرے ساتھ ۔۔۔ وہ مگر مچھ کے آنسو بہانے لگی ۔۔
نوال ہکا بکا رہ گئی ۔۔
کیا کیا تم اسکے ساتھ؟؟ وہ ہکا بکا اپنے ساتھی کو دیکھنے لگا۔۔۔
سردار میں تو چائے لایا تھا۔۔ وہ گڑبڑا گیا ۔۔
اچھا چلو۔۔۔ لڑنا ویسے بھی اچھی بات نہیں ۔۔۔ میرے ہاتھ کھولو مجھے بہت بھوک لگی ہے ۔۔۔
اگر تو نے ناک میں دم کیا نا تو میں اس بار لحقظ نہیں کروں گا ۔۔۔ سمجھ گئی نا؟ وہ شخص جیسے تنگ آکر بولا تھا
تاشا نے بھرپور فرمانبرداری کا ڈھونگ کرتے ہوئے سر جھٹ پٹ ہاں میں ہلایا ۔۔
ہاتھ کھول دو اسکے ۔۔ اور کڑی نظر رکھنا ان پر ۔۔۔
حکم کی تعمیل کی گئی ۔۔
ہاتھ کھلتے ہی تاشا کھانے پر پل پڑی ۔۔
تاشا کی بچی ۔۔ مت کھائو ۔۔ کیا معلوم کھانے میں کچھ ملایا گیا ہو ۔۔
اس کی تشویش ناک آواز پر اسکا چلتا منہ ایک پل کو رکا ۔۔۔
ایسا صرف فلموں میں ہوتا ہے !
وہ لاپرواہی سے کہ کر منہ چلانے لگی ۔۔
نوال سر جھٹک کر اپنی کلائیوں پر نقش رسیوں کے نشان دیکھنے لگا۔۔
یوسف بھائی کہاں ہیں آپ ۔۔۔
اسکی آنکھیں چھلکنے کو بے تاب تھی ۔۔۔
اسی اثنا میں تاشا کو زور کا اچھو لگا ۔۔۔
پ۔۔ پانییی۔۔ وہ زور سے کھانسنے لگی ۔۔
پہرےدار کچھ توقف بعد اٹھا اور باہر نکل گیا ۔۔
تم ۔۔ٹھیک تو ہو؟؟ نوال پریشانی سے اس کی طرف لپکی ۔۔
مزے میں ہوں ۔۔ چلو چلو ۔۔اٹھو جلدی ۔۔نکلتے ہیں یہاں سے
وہ عجلت میں اٹھ کھڑی ہوئی۔۔
تا شا لیکن ۔۔۔ نوال تھرا کر رہ گئی۔۔
بھاگو بیوقوف۔۔
وہ بے دھڑک کہتی لکڑی کی چیئر اٹھانے لگی ۔۔کمرے اور کوئی چیز اسے کسی قابل نہیں لگی کہ وہ کسی کا سر پھاڑ سکے ۔۔
اسکا کیا کروگی ۔۔۔
نوال عجلت میں دروازے کی طرف جاتی بڑبڑاتی ۔۔۔
تمہارے جہیز میں دینی ہے اس لئے اٹھائی ہے ۔۔ حد ہے نوال ۔۔ وہ غصے سے بھڑکی ۔۔
اور پوری قوت سے کرسی کولر پر جھکے شخص کو دے ماری ۔۔۔
مر جائے تو ستانیاس ہو تیرا ۔۔ سمندر میں ڈوب جائے ۔۔ تیری ہمت کیسے ہوئی مجھے پرپوز کرنے کی ۔۔ جان ایلیا کے چچیرے بھائی ۔۔۔ آئن اسٹائن کے بالوں کے گھونسلے ۔۔ تیرا منہ نہ نوچ لوں میں ۔۔۔ ناسپیٹے ۔۔۔اچھا بھلا خوشی کا موقع تھا ناس مار دیا ۔۔۔بیچ میں ٹپک کر ۔۔۔گدھا کہیں کا
ہائے اللہ ! میرے کاشیز اور زارا کے اتنے مہنگے کپڑے ۔۔ پتا نہیں کون اٹھا کر لے گیا ہوگا ۔۔۔
۔۔۔اس شخص کو درد سے کراہتا چھوڑ کر اچھی خاصی بھڑاس نکالی اور نوال کا ہاتھ پکڑ کر اندھا دھند بھاگنے لگی ۔۔ ایک بار جو بھاگیں تو پھر مڑ کر نہیں دیکھا ۔۔
شاید وہ لوگ ان کا پیچھا کر رہے ہو ۔۔ یا نہیں ۔۔
تھوڑی دور آکر انہیں کچھ حوصلہ ہوا ۔۔ تو وہ جھاڑیوں کی اوٹ میں چھپ کر سانس بحال کرنے لگیں ۔۔
دیکھ لیا اپنے تھرڈ کلاس خوابوں کا نتیجہ ۔۔۔ حد ہوگئی تاشا ! نوال اس پر بھڑکی ۔۔۔
برائے مہربانی بہن آئندہ کے سبق لے لو ۔۔۔ دوبارہ ایسا بیہودہ خواب نہ دیکھنا ! ورنہ کبھی خواب دیکھنے کے لائق نہیں رہوگی ۔۔ نوال نے اسکی اچھی خاصی بازپرس کردی ۔۔۔ ٹھیک ہے نا یار ! وہ منہ بسور کر بولی ۔اسے اب رونا آرہا تھا ۔۔پتا نہیں کیوں ۔۔۔
امید نہیں تھی تم اتنی جلدی مان جائوگی ۔۔؟
وہ شکی نگاہوں سے دیکھنے لگی ۔۔۔
بے عزتی چیز ہی ایسی ہے میری جان!
وہ حواسوں میں لوٹی ۔۔ اور کپڑے جھاڑ کر اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔
اب کس طرف جانا ہے !! نوال کو فکر لاحق ہوئی ۔۔
اطراف چھوڑو بس بھاگو ۔۔۔ ورنہ ہم ان کی ظالم گولی کا شکار ہوجائیں گے ۔۔ تاشا نے اسے ہلا کر رکھ دیا ۔۔ وہ ہول کر اسکی پشت کو گھورتی ہوئی پیچھے پیچھے چل دی ۔۔
___________________________________
ان کے بخار کی اصل وجہ مینٹل ڈس آرڈر ہیں ۔۔ میں فلحال بخار کی دوا لکھ دیتا ہوں ۔۔ مگر آپ کو انہیں کسی اسپشلسٹ کو دکھانا پڑے گا ۔۔
ڈاکٹر کی طویل نصیحت پر اس نے لمبی سانس لے کر سر ہلانے میں اکتفا کیا ۔۔ اور دائوں کا نسخہ تھام کر پہرے دار کو دے دیا ۔۔۔
شزانہ کی پیشانی چھو کر چیک کیا تو بخار کا زور ٹوٹ چکا تھا ۔۔ شاید کمزوری یا نقاہت کے بعث غنودگی میں تھی ۔۔۔ شاہین صاحب کا بار بار فون آرہا تھا ۔۔ فاتح کے پیغامات موصول ہورہے تھے ۔۔ گھر میں سب پریشان تھے ۔۔
وہ فلحال کسی سے بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا اسی اثنا میں شاہین صاحب خود ہی وہاں چلے آئے ۔۔
کیا ہوا اسے ؟؟؟ وہ اسکے پہلو سے جھانکتے ہوئے بولے ۔۔ زرا سا ٹمپریچر ہے
وہ اتنا ہی کہہ سکا ۔۔
یوسف میں نے تمہیں منع بھی کیا تھا ۔۔۔ کوئی درمیانی راستہ نکال لیں گے ۔۔ اس کو مت گھسیٹو ۔۔ لیکن تم نے اپنی من مانی کرکے اسے اس حال میں پہنچا دیا ۔۔
بتائو اب کیا کریں گے؟؟ بھلا اسکو کیسے لے جائیں گے سو سوال کریں گے وہ لوگ ۔۔ اور خدا نخواستہ ہماری بچیاں مشکل میں پڑ جائیں گی ۔۔
شاہین صاحب بے بس سے ہو کر ڈرائنگ روم کے صوفے پر ڈھے گئے ۔۔
یوسف نے بے ساختہ ان کا پریشان چہرہ دیکھا ۔۔
تو بابا نے بھی ہار مان لی ہے ؟
آپ جو کہیں گے وہی ہوگا
اس نے خود کو کہتے سنا ۔۔
رات والے واقعے کے بعد وہ سخت ملال میں گھِرا ہوا تھا ۔۔ مگر فلحال تلافی ممکن نہیں تھا ۔۔۔ اسے نوال اور تاشا سب سے بڑھ کر تھیں ۔۔۔
تم نے پچھلے دنوں افغان سفیر زہیرعظمی کی موت کی خبر سنی تھی ۔۔
اسکا یہاں کیا ذکر؟؟؟
یوسف نے الجھن بھری نگاہ اٹھائی۔۔
شزانہ اسی کی بیٹی ہے ۔۔ یوسف نے بے ساختہ چوکھٹ کے پار صوفے پر پڑے بے سدھ وجود کو دیکھا ۔۔یہ انکشاف کسی شاکڈ سے کم نہیں تھا
مجھے تو یہ معاملہ سیدھا نہیں لگتا ۔۔ ہمیں ملٹری کو انفارم کرنا پڑے گا ۔۔
ہرگز نہیں بابا ۔۔ ان لوگوں کو سارا مسلہ ملٹری سے ہے ۔۔ میں ان لوگوں کو انولو کرکے معاملہ کھٹائی میں نہیں ڈال سکتا ۔۔ ہم اسے واپس کردیں گے ۔۔ بدلے وہ نوال اور تاشا کو ہمارے حوالے کریں گے ۔۔۔ بات ختم !
اسکا لہجہ پرانی روش اختیار کر گیا ۔۔
بات یہاں ختم نہیں ہوتی یوسف ۔۔ وہ بے چاری کہاں کہاں سے بھٹکتی کن حالاتوں سے گزر کر یہاں تک پہنچی ہے ۔۔ میں ہرگز ایسا نہیں ہونے دوں گا ۔۔ میں ملٹری کو انفرام کرتا ہوں. ۔۔
بابا ۔۔۔بابا کبھی تو مان لیا کریں۔۔
وہ ضبط سے مٹھیاں بھینچ کر اٹھ کھڑا ہوا ۔۔
تمہارا دماغ چل گیا ہے یوسف ۔۔ وہ بھی کسی کی بہن بیٹی ہے جانتے بوجھتے اسے جہنم میں دھکیلنا کہاں کی انسانیت ہے ! شاہین صاحب کی آواز بلند ہونے لگی ۔۔
یوسف نے بہت مشکل سے اپنے غصے پر قابو پایا ۔۔
ٹھیک ہے۔۔۔آپ میرے ساتھ چلیں گے جب نوال اور تاشا مل جائیں گی آپ واپس آجانا اور میں ان کے پیچھے جائو گا ۔۔ شزانہ کو واپس لینے
اسکا انداز حتمی تھا ۔۔ شاہین صاحب کو اس کے اندر ابراہیم کی پرچھائی نظر آنے لگی ۔۔۔ اس لمحے انہیں خوف سا محسوس ہوا ۔۔
نہیں تم نہیں جائو گے ۔۔ہرگز نہیں۔ میں ملٹری کو انفارم کرتا ہوں ۔۔ وہ گڑبڑا گئے ۔۔
بابا مان بھی جائیں۔۔ ملٹری کو انفارم کرنا ہی بہتر آپشن ہے لیکن یہ سچویشن ایسی نہیں ہے آپ بنا بنایا کھیل بگاڑ دیں گے ۔۔ اگر ان دونوں کو کچھ ہوگیا نا تو ۔۔۔ اس بار میں آپ کو معاف نہیں کروں گا !
اسکی آنکھوں میں رنج و ملال چھلکتا دیکھ شاہین صاحب بے بس ہوگئے ۔۔۔ یوسف پلٹ کر تصور کو فون ملانے لگا ۔۔ ہاں تصور بھائی ۔۔ ہاں یار سب ٹھیک ہے ۔۔ پھپھو اور اماں سے کہو پریشان نہ ہوں ۔۔ ہم انہیں ہی لینے جارہے ہیں ۔۔فاتح سے کہو ان کے ساتھ رہے تم آجائو اور سنو ۔۔۔ میری ریوالور بھی لیتے آنا ۔۔ اس نے کہہ کر فون بند کردیا ۔۔ شاہین صاحب کی پریشانی بڑھتی جا رہی تھی ۔۔
وہ اس لمحے خود کو بہت کمزور محسوس کرنے لگے تھے ۔۔ ایک طرف جوان بیٹا ۔۔ دوسری طرف دو بیٹیاں ۔۔
اس پر ان کا ضمیر کچوکے لگا رہا تھا ۔۔ وہ ایک بے سہارا اور حالاتوں کی ماری لڑکی کا سودا کر رہے تھے ۔۔
بے بسی اور لا چارگی کی انتہا تھی ۔۔
اسی اثنا میں یوسف کا فون بجا ۔۔۔
ہاں ۔۔۔ ٹھیک ہے ۔۔دو باتیں کہہ کر اس نے فون بند کردیا ۔۔ ان کی پوچھنے کی ہمت نہیں بن پڑی ۔۔
کڈنیپرز کا فون تھا ۔۔ ہمیں آدھے گھنٹے میں بلایا ہے ! ِیوسف نے انکا زرد چہرہ دیکھ کر کہا ۔۔۔
شاہین صاحب نے بمشکل سر ہلایا ۔۔
ان کا شاید بی پی لو ہو رہا تھا ۔۔۔ وہ اٹھنے لگے تو لڑکھڑا گئے ۔۔ یوسف لپک کر انکی طرف بڑھا ۔۔
بابا ۔۔۔ آپ ٹھیک تو ہیں؟
ہاں بس زرا سا چکر آگیا تھا ۔۔ ٹھیک ہوں میں
نہیں بلکل بھی ٹھیک نہیں ہیں آپ کو سرد موسم میں بھی پسینے آرہے ہیں ۔۔ رکیں ۔۔ میں ڈاکٹر کو فون کرتا ہوں ۔۔
وہ پریشانی سے ڈاکٹر کو کال کرنے لگا ۔۔
وہ نہ نہ کرتے رہ گئے ۔۔ لیکن یوسف نے ایک نہ مانی
اسی اثنا میں تصور بھی چلا آیا ۔۔
آپ آرام کریں بابا ۔۔جب تک ڈاکٹر نہیں آجاتا ۔۔۔بلکہ آپ کو جانے کی ضرورت نہیں ۔۔تصور بھائی ہیں میرے ساتھ ۔۔ آپ ٹینشن مت لیں اور آرام کریں میرے لئے اتنا کافی ہے ۔۔
یوسف کے لئے ان کی حالت ازحد پریشان دہ تھی ۔۔۔
تصور بھائی آپ ڈاکٹر سے ان کا چیک اپ کروائیے ۔۔
میں شزانہ کو دیکھتا ہوں ۔۔ ہمیں اگلی کال پر یہاں سے نکلنا ہے ۔۔۔ وہ تاکید کرکے شزانہ کی طرف بڑھا ۔۔
مالی بابا کی بیوی علی الصبح ہی آ گئی تھی۔۔
صفائی ستھرائی کے بعد ناشتہ بن چکا تھا ۔۔
شزانہ؟؟؟
اسکی پیشانی چھو کر ٹیمپریچر چیک کرنے لگا ۔۔۔
شزانہ کی آنکھ کھل گئی ۔۔ وہ چند ثانیے اسے گھورتی رہی اور پھر جھٹکے سے اٹھ کر اطراف کا جائزہ لینے لگی ۔۔۔ ملازمہ کچن میں کام کرتی نظر آرہی تھی ۔۔ ڈرائنگ روم سے باتوں کی آوازیں آرہی تھی ۔۔۔
کھڑکیوں سے پھوٹتی سورج کی کرنوں نے اسکی بادامی رنگت میں زردی گھول دی تھی ۔۔۔
وہ نظریں چرانے پر مجبور ہوگیا
رات بہت زیادہ ٹمپیریچر تھا تمہیں۔۔شکر ہے اب تم ٹھیک ہو ۔۔ ناشتہ کرلو ۔۔ کچھ دیر تک ہمیں نکلنا ہے
شکریہ ۔۔۔میں تمہاری ہمیشہ مشکور رہوں گی ۔۔
وہ یک دم خوش ہوگئی
یوسف نے اس کے تمتماتے چہرے سے نگاہیں چرا لیں ۔۔ اسے شرم سی محسوس ہونے لگی ۔۔ زندگی میں پہلی بار وہ جانتے بوجھتے کسی کو دھوکہ رہا تھا۔۔۔
ناشتہ کرلو ۔۔ مختصر سا کہہ کر باہر نکل گیا ۔۔
شزانہ کی خوشی دیدنی تھی ۔۔ حالات چاہے جیسے بھی تھے ۔۔۔ وہ اب مضبوط ہوگئی تھی ۔۔ سب سے بڑھ کر وہ آج واپس جارہی تھی اس نے ہر طرح کی مصیبت کا سامنا کرنے کے لئے خود کو تیار کرلیا تھا ۔۔تاہم وہ ہنوز معصوم تھی لوگوں کی چالوں سے بے خبر تھی۔۔۔
پانی کے چھینٹے منہ پر مار کر ناشتہ کرنے لگی ۔۔۔ ملازمہ نے اسکی ہتھیلی پر ٹیبلیٹ دھری جو اس نے سوچے سمجھے بغیر نگل لی ۔۔۔
چلیں میں تیار ہوں ۔۔ یوسف کے پاس جا کر بولی جو سیڑھیوں پر کسی سے بات کر رہا تھا ۔۔
ٹھیک ہے ہم آرہے ہیں ۔۔۔اپنی شرط مت بھولنا ۔۔
اسکے چہرے پر بلا کی سنجیدگی تھی ۔۔
شزانہ کے اندر کچھ کلک ہوا ۔۔
وہ کس بارے میں بات کر رہا تھا ۔۔؟
تصور بھائی کو بلا لائو پھر چلتے ہیں ! وہ دیکھے بغیر بولا اور گاڑی کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔
تصور بھائی چلیں ۔۔۔اللہ حافظ ۔۔
شاہین صاحب کو مشکور نظروں سے مسکراتے ہوئے بولی ۔۔
انہوں نے بے اختیار نگاہیں چرا لیں ۔۔۔
تمہیں کنفرم کرلینا چاہیئے یوسف ایک بار ۔۔۔تم نے نوال یا تاشا میں سے کسی کی آواز سنی ۔۔۔؟؟
تصور نے کچھ دور آنے کے بعد کہا ۔۔
ہاں سنی تھی ۔۔ آپ میری ریوالور لائے
شزانہ کی سمجھ سے باہر تھی ان کی گفتگو ۔۔
کیا ۔۔ ہونے والا ہے ؟؟؟؟ کہاں جا رہے ہیں ہم؟ اسکا رنگ لٹھے کی مانند کی سفید پڑنے لگا ۔۔
ہم تمہارے متبادل تاشا اور نوال کو لینے جارہے ہیں ۔۔ تمہیں نہیں پتا؟؟ یوسف تم نے بتایا نہیں اسے ؟
تصور بھائی نے بے خبری میں اسکے سارے منصوبے پر پانی پھیر دیا۔۔وہ ٹرانس سی کیفیت کبھی تصور کو تو کبھی اسے دیکھنے لگی ۔۔۔اتنا بڑا دھوکہ؟؟؟
تم نے ۔۔۔تو کہا تھا ۔۔
وہ آگے بول ہی نہیں سکی ۔۔۔
ممتاز نعت گو شاعر اور دانشور پروفیسر ریاض احمد قادری
خاندانی پس منظر میرے والد کانام مرزا غلام نبی قادری ، دادا عبدالکریم اور پردادا کانام پیراں دتہ ہے ۔ہمارا...