الف۔
سبز نیلے پروں کو اٹھائے ہوئے
یہ دیودار صدیوں سے اڑنے کو تیار ہیں
اور اڑتے نہیں
بید مجنوں سے شاخوں کی لڑیاں لٹکتی ہوئیں۔۔ ۔۔ جیسے گر جائیں گی اور گرتی نہیں
اور زرخیز مٹی سے اگتا نہیں موسموں کا ثمر
میں مسافر۔۔ ۔۔ سفر کی اترتی ہوئی قوس پر ہوں رواں
شام کی گرد میں خود سے روپوش ہوتا ہوا
سامنے۔۔ ۔۔ انت سے لے کے بے انت تک
راستے، راستوں سے نکلتے ہوئے۔۔ ۔۔ رک کے رکتے نہیں
خواب، منظر، حقائق۔۔ ۔۔ سبھی کے سبھی
ہیں خلا میں معلق۔۔ ۔۔ جمود و تحرک
’تہیں‘ اور ’ہے‘ کا تماشا بنے
ب۔
تجھ سے منکر ہے اندر کو کھلتی ہوئی آنکھ جو
دیکھتی ہے مگر دیکھتی بھی نہیں
تو نہیں جانتا ہے کہ امکان کی سرحدیں
روز کی گردشوں سے پرے
تیرے قدموں کو چھونے کو تیار ہیں
تو تخال کے خود زاد سایوں میں ڈوبا ہوا
اپنا قامت کی تحلیل تک
جانتا ہے مگر جانتا بھی نہیں کس طرح
تیسرے پہر سورج کے پرزے اڑیں
اور ہر شے کے پاؤں سے سائے اگیں
موج در موج لشکر بڑھیں
جن کی ٹاپیں اندھیرا اڑاتے ہوئے
اپنے اندر ڈبو دیں ہمیں
بے کراں وسعتیں اور بے تہ اندھیرے کی گہرائیاں
اس سمندر میں ڈوبیں تو ابھریں نہیں
اور چاہیں تو ہم
جرأتوں کے دل افروز لمحے کی آواز پر
اپنے جسموں کے انبار سے پاٹ کر
روشنی کا ہمالہ بنا دیں اسے
٭٭٭