(Last Updated On: دسمبر 22, 2022)
دل جو زیرِ غبار اکثر تھا کچھ مزاج ان دنوں مکدّر تھا اُس پہ تکیہ کیا تو تھا لیکن رات دن ہم تھے اور بستر تھا سرسری تم جہان سے گزرے ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا دل کی کچھ قدر کرتے رہیو تم یہ ہمارا بھی ناز پرور تھا بعد اک عمر جو ہوا معلوم دل اُس آئینہ رُو کا پتھر تھا بارے سجدہ ادا کیا تہِ تیغ کب سے یہ بوجھ میرے سر پر تھا اب خرابا ہوا جہاں آباد ورنہ ہر اک قدم پہ یاں گھر تھا