دن گزرتے چلے گئے اور ایشمل اور سیال کی محبت پروان چڑھتی گئی۔دونوں اب زیادہ تر ساتھ ہی پائے جاتے ۔ایشمل بھی جب سیال اردگرد ہوتا تو پرندے کی طرح چہچہاتی رہتی مگر اسکی دوری پر مرجھائی مرجھائی پھرتی۔
ایشمل نے آج بھی سیال سے اپنی بےلوث محبت کا اظہار نہیں کیا تھا لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ اسکا سیال کے بغیر جینا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔
دوسری طرف سیال اپنی کامیابی پر سر شار تھا لیکن اکثر وہ ایشمل کی باتوں اور اسکی محبت میں کھو سا جاتا لیکن اپنے مقصد کو یاد کرتا دوبارہ پتھر بن جاتا ۔
سیال کو نہیں معلوم تھا جس بدلے کے آڑ میں اس سے نزدیکیاں بڑھا رہا تھا وہی محبت اسے کہیں کا نہیں چھوڑے گی۔
***************
کریسٹینا نے قرآن پاک کا مکمل ترجمہ پڑھ لیا تھا اب وہ اپنے دل کو ہر بوجھ سے آزاد محسوس کر رہی تھی اس نے سوچ لیا تھا وہ اسلام قبول کر لے گی
آج وہ دل کے ڈر کو پیچھے چھوڑے اسلام قبول کرنے جامعہ میں موجود تھی ۔جب وہاں کی بزرگ استاد نے اسے کلمہ پڑھایا تو اسکا چہرہ زاروقطار رونے کی وجہ سے بھیگ گیا ۔اب وہ اپنے اندر ایک پاک روح محسوس کر سکتی تھی۔
اسکا نام نورالعین رکھا گیا تھا آنکھوں کا نور وہ جانتی تھی ایشمل کو یہ نام بےحد پسند ہے اسلیے یہ نام منتخب کیا تھا۔۔۔۔۔
****************
سیال اور ایشمل یونی کے گراؤنڈ میں بیٹھے اپنا اپنا فون یوز کر رہے تھے انکی عادت بن چکی تھی جب بھی وہ فارغ ہوتے اپنا وقت ایک دوسرے کے ساتھ گزارتے۔
کتنی بےرحمی سے قتل کیا گیا ہے اسے پتا نہیں کون ہے یہ Slayer کیا اسکے سینے میں دل نہیں۔۔۔
ایشمل رحمت کے قتل کی
بریکنگ نیوز پڑھ کر افسوس سے بولنے لگی۔
اسکی بات پر چند لمحوں کے لیے سیال کی آنکھوں میں سرد تاثر چھا گیا مگر ایشمل کے دیکھنے پر اسنے آنکھوں پر نرمی طاری کر لی۔۔
ہو سکتا ہے اسکے سینے میں پتھر ہو۔کیا پتا وہ لوگوں کو قتل کر کے سکون محسوس کرتا ہو۔۔۔جب سیال بولا تو لہجہ پراسرار سا تھا۔۔۔
ایشمل نے خوف سے جھرجھری لی۔
لیکن پھر بھی ایسا cold blooded killer میں نے کہیں نہیں دیکھا جو دوسروں کو اپنوں سے اس بے رحمی سے دور کرے۔
ایشمل نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
ہو سکتا ہے اسکے اپنوں کو اتنی بےرحمی سے اس سے دور کیا گیا ہو کہ وہ دوسروں کو اپنوں سے جداکر کے انکی محبت کو ختم کر کے سکون محسوس کرتا ہو ۔
کیا پتا اسکو کوئی محبت نا ملی ہو تبھی وہ انکی محبت کو ان سے جدا کرتا ہو۔۔۔۔
اسکی ایسی باتیں سن کر ایشمل اسکا منہ تکنے لگی اور پھر ہنسنے لگی۔۔۔۔
سیال نے اسکو گھور کر دیکھا۔۔۔
میں نے ایسا بھی کیا کہ دیا جو تم یوں دانت نکال رہی ہو۔سیال کو اسکا ہنسنا سمجھ نا آیا۔۔۔
سیال سیریسلی تم ایسا سوچتے ہو یو نو وٹ اگر میری مولانی یہاں ہوتی تو کیا کہتی۔۔۔
سیال نے ایک آئیبرو اچکائی۔
“دل کی نرمی اور رحم دلی رب کا ایک انعام ہے جسے یہ مل جائے اسے رب کی رحمت مل جاتی ہے”یہ کہتی وہ۔۔۔
سیال تم نے کیسے سوچ لیا جو شخص دوسروں سے اسکی محبت چھینتا ہے۔
وہ خود کیسے محبت کی چاہ کر سکتا ہے دوسروں کو انکے اپنوں سے دور کر کے وہ خود بھی کبھی محبت نہیں پاتا ۔
اسکی باتوں نے سیال کے اندر ہلچل مچا دی تھی یہ کیا کہ گئی تھی یہ لڑکی۔۔۔
کیا واقعی ایسا تھا۔۔۔۔
یہ تمہاری مولانی نے تمسے کہا ہے۔۔۔
سیال نے پوچھا تو اسنے زوروشور سے سر ہلایا۔
یہ ہے کون اور اسکا نام۔۔۔۔مولانی ہے۔۔
نہیں نہیں اسے مولانی صرف میں بلا سکتی ہوں اور اسکا نام مولانی نہیں بلکہ ای۔۔۔۔ اس سے پہلے کے وہ بات مکمل کرتی اسکا فون بجنے لگا جس پر مولانی کالنگ جگمگا رہا تھا۔۔۔
مولانی تمہاری تو بڑی لمبی عمر ہے ابھی تمہارے بارے میں ہی بات ہو رہی تھی۔۔۔ایشمل نے سلام جھاڑتے ہی اپنی باتیں شروع کر دیں تھیں جبکہ سیال اسکی ملانی کی باتیں سوچ رہا تھا آیا کہ وہ سچ ہیں یا نہیں۔۔۔۔اسکی پر سوچ نظریں ایشمل پر تھیں۔۔
*****************
ایک ہفتہ گزر چکا تھا رامین یوں ہی گھر بیٹھی تھی ۔اظہر کا دیا آئ فون بھی اسنے بند کر کے الماری میں رکھ چھوڑا تھا۔یونی جانے کی تو اس میں ہمت ہی نہیں بچی تھی۔وہ اپنی ہی نظروں میں گر گئی تھی ۔گھنٹوں ایک ہی جگہ پر بیٹھی روتی رہتی۔ایک ہفتے سے وہ بخار میں مبتلا تھی ۔
گھر میں بھی سب اسکے لیے پریشان تھے۔مگر وہ صرف اور صرف اظہر کو سوچے جا رہی تھی۔
رہ رہ کر اسے اپنی آخری ملاقات یاد آ رہی تھی کتنا کہا تھا اظہر نے کہ رونی غلط بندہ ہے مگر وہ نا مانی۔
اسکی آخری تڑپ بھری نظریں اسکے دل میں گڑه گئیں تھیں جو اسکو اندر ہی اندر کھائے جا رہی تھیں۔۔۔
کہاں ہو اظہر لوٹ آؤ دیکھو تمہاری رامین کو تمہاری ضرورت ہے۔کوئی نہیں ہے یہاں ۔کہاں چلے گئے مجھے تنہا کر کے ایک بار لوٹ آؤ میں معافی مانگ لوں گی تم سے اور پھر کبھی تمہیں خود سے دور نہیں جانے دوں گی۔۔۔۔
لوٹ آو۔۔۔
تھک کر رامین نے آنکھیں موندھ لیں۔
******************
نورالعین نے بھی جب سے اسلام قبول کیا تھا تب سے گھر ہی تھی۔گھر میں آج اسکا اسکے کزن سے رشتہ پکا کر دیا گیا تھا۔وہ سوچ سوچ کر پریشان تھی آخر کہاں جائے۔
کیونکہ جب سے اسنے اسلام قبول کیا تھا وہ یہ جان گئی تھی کہ اسے کسی مسلمان سے ہی شادی کرنی ہے نا کہ کسی غیر مزہب کے لڑکے سے۔
آج جب اسکے گھر والوں نے اسکی رضامندی پوچھی تو اسنے صاف انکار کر دیا۔اس پر دباؤ ڈالا جا رہا تھا جسکی وجہ سے وہ نا چاہتے ہوئے بھی بتا گئی کہ وہ اسلام قبول کر چکی ہے۔
جسے سنتے ہی اسکے گھروالوں پر قیامت ٹوٹ پڑی اور اسکے والد نے تیش میں آ کر اسے دھنک کر رکھ دیا اور کمرے میں بند کر ڈالا۔
وہ زخموں سے چور بند کمرے میں اللّہ سے مدد مانگ رہی تھی وہ جانتی تھی کوئی نا سہی مر اللّٰہ ضرور اسکی مدد کے در وا کر دے گا۔۔۔
رات کو اسکی شادی تھی ۔اسنے سوچ لیا تھا اگر وہ کچھ نا کر سکی تو اپنی جان دے دے گی مگر پھر یاد آیا کہ خودکشی حرام ہے تو نم آنکھوں سے دوبارہ اللّٰہ کے نام کا ورد کرنے لگی۔
رات کے ۱۰ بج چکے تھے اسکے موت کے فرشتے کبھی بھی آ سکتے تھے۔وہ ابھی نماز پڑھ کر فارغ ہوئی تھی جب اچانک دروازہ کھلا۔اسکے قدموں سے جان نکل گئی۔تو وقت آن پہنچا تھا۔
***********
ممتاز نعت گو شاعر اور دانشور پروفیسر ریاض احمد قادری
خاندانی پس منظر میرے والد کانام مرزا غلام نبی قادری ، دادا عبدالکریم اور پردادا کانام پیراں دتہ ہے ۔ہمارا...