(Last Updated On: دسمبر 22, 2022)
فائدہ مصر میں یوسف رہے زنداں کے بیچ بھیج دے کیوں نہ زلیخا اسے کنعاں کے بیچ چشمِ بد دور کہ کچھ رنگ ہے اب گریے پر خون جھمکے ہے پڑا دیدۂ گریاں کے بیچ حالِ گلزارِ زمانہ کا ہے جیسے کہ شفق رنگ کچھ اور ہی ہو جائے ہے اک آن کے بیچ تاک کی چھاؤں میں جوں مست پڑے سوتے ہیں اینڈتی ہیں نگہیں سایۂ مژگاں کے بیچ دعویِ خوش دہنی اُس سے اسی منھ پر گُل سر تو ٹک ڈال کے دیکھ اپنے گریباں کے بیچ کان رکھ رکھ کے بہت دردِ دلِ میرؔ کو تم سنتے تو ہو پہ کہیں درد نہ ہو کان کے بیچ