(Last Updated On: دسمبر 22, 2022)
گلہ نہیں ہے ہمیں اپنی جاں گدازی کا جگر پر زخم ہے اُس کی زباں درازی کا خدا کو کام تو سونپے ہیں میں نے سب لیکن رہے ہے خوف مجھے واں کی بے نیازی کا چلو ہو راہِ موافق کہے مخالف کے طریق چھوڑ دیا تم نے دل نوازی کا کسو کی بات نے آگے مرے نہ پایا رنگ دلوں میں نقش ہے میری سخن طرازی کا بسانِ خاک ہو پامال راہِ خلق اے میرؔ رکھے ہے دل میں اگر قصد سرفرازی کا