(Last Updated On: )
گل شرم سے بہ جائے گا گلشن میں ہو کر آب سا برقعے سے گر نکلا کہیں چہرہ ترا مہتاب سا گل برگ کا یہ رنگ ہے مرجاں کا ایسا ڈھنگ ہے دیکھو نہ جھمکے ہے پڑا وہ ہونٹ لعلِ ناب سا وہ مایۂ جاں تو کہیں پیدا نہیں جوں کیمیا میں شوق کی افراط سے بے تاب ہوں سیماب سا دل تاب ہی لایا نہ ٹک تا یاد رہتا ہم نشیں اب عیش روزِ وصل کا ہے جی میں بھولا خواب سا سناہٹے میں جان کے ہوش و حواس و دم نہ تھا اسباب سارا لے گیا آیا تھا اک سیلاب سا ہم سرکشی سے مدتوں مسجد سے بچ بچ کر چلے اب سجدے ہی میں گزرے ہے قد جو ہوا محراب سا تھی عشق کی وہ ابتدا جو موج سی اٹھتی کبھو اب دیدۂ تر کو جو تم دیکھو تو ہے گرداب سا رکھ ہاتھ دل پر میرؔ کے دریافت کر کیا حال ہے ! رہتا ہے اکثر یہ جواں کچھ ان دِنوں بے تاب سا