پیر خان ظہر کی نماز سے فارغ ہو کر اپنا بڑا سا رو مال ہلاتا ہوا حوض کے کنارے بنے چبوترے پر آ بیٹھا۔ دینو (دین محمد) ابھی اندر ہی تھا۔ وہ شاید اپنی آخری دو رکعتیں ادا کر رہا تھا۔ پیر خان نے اپنی ٹوپی نکال کر چبوترے پر رکھ دی اور اپنے گنجے سر پر ہاتھ پھیرنے لگا پھر داڑھی میں انگلیوں سے خلال کرتا ہوا جھک کر مسجد کے اندر جھانکا۔ دینو نماز سے فارغ ہو کر اب شاید دعا مانگ رہا تھا۔
آج مسجد میں داخل ہوتے وقت ہی دینو نے اس سے کہا تھا کہ ’’نماز کے بعد ذرا رکنا تھوڑا کام ہے تم سے‘‘ اور اب پیر خان اسی کا انتظار کر رہا تھا۔ دینو کو نماز شروع کیے ہوئے ابھی دو تین مہینے ہوئے تھے مگر پیر خان تین چار برس سے بڑی باقاعدگی سے نماز پڑھ رہا تھا جب سے اس کی بیوی کا انتقال ہوا تھا تبھی سے وہ پکا نمازی ہو گیا تھا۔ تبلیغی جماعت کے ساتھ اس نے بڑی دور دور کا سفر کیا تھا اور دین کے راستے سے بھٹکے ہوئے ہزاروں اللہ کے بندوں کو نماز کی دعوت دی تھی۔ اب تو وہ تبلیغی جماعت کا ایک سر گرم رکن تھا اور بڑی مسجد میں ہر جمعرات کی شب کو جو اجتماعی درس ہوتا تھا اس میں بڑی باقاعدگی سے حاضر ہوتا تھا۔ وہ ایک مل مزدور تھا اور ڈیوٹی کے بعد جو وقت بچتا وہ اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی میں صرف کرتا۔ وہ اپنے آپ کو اسلام کی سچی تعلیمات کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کر رہا تھا۔ محلے کے لوگ اس کی عزت کرتے تھے۔ دینو اس کا پرانا ساتھی تھا۔ وہ دونوں ایک ہی مل میں کام کرتے تھے۔ وہ دینو کو اکثر نماز کی تلقین کرتا رہتا تھا۔ دینو کبھی کبھی نماز کے لیے اس کے ساتھ آ جاتا تھا۔ مگر پچھلے تین چار ماہ سے اس نے بھی باقاعدہ نماز شروع کر دی تھی۔
دینو اپنی دعا ختم کر کے دونوں ہاتھ چہرے پر پھیرتا ہوا اٹھ گیا اور زیرِ لب کوئی وظیفہ بُدبُداتا ہوا پیر خان کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔
’’کیا بات ہے بھئی دینو! مجھ سے رکنے کو کہا تھا تم نے؟‘‘ پیر خان نے پوچھا۔
’’ہاں یار! ایک مسئلہ میں تم سے مشورہ کرنا تھا۔‘‘
دینو نے بھی ٹوپی اتار کر گود میں رکھ لی۔
’’بولو کیا بات ہے؟‘‘ پیر خان نے اپنی گنجی کھوپڑی سہلائی۔
دینو کچھ دیر تک چپ رہا۔ پھر گردن اٹھا کر پیر خان کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔
’’یار! کل کلثوم آئی تھی میرے پاس۔‘‘ دینو اتنا کہہ کر پھر چپ ہو گیا۔
’’کلثوم؟‘‘ پیر خان ذہن پر زور دیتا ہوا استفہامیہ انداز میں دینو کی طر دیکھنے لگا۔
’’ہاں یار! کلثوم میری بیوی۔‘‘ دینو نے گردن جھکا کر جواب دیا۔
’’مگر وہ تو گورکھپور اپنے باپ کے پاس چلی گئی تھی۔‘‘ پیر خان نے قدرے حیرت سے کہا۔
’’ہاں چلی تو گئی تھی مگر پچھلے مہینے اس کا باپ گزر گیا۔ وہاں وہ اکیلی رہ گئی تھی۔ بالکل بے سہارا۔ یہاں بھیونڈی میں اس کے کوئی رشتے دار رہتے ہیں۔ اب انھیں کے پاس ہے۔ ان کے بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ وہ لوگ بدلے میں دو وقت کی روٹی دے دیتے ہیں۔‘‘
’’مگر وہ تمہارے پاس کیوں آئی۔ تم نے تو طلاق دے دی تھی نا؟‘‘
’’ہاں یار، دے تو دی تھی لیکن یہ تو تم بھی جانتے ہو کہ طلاق دینے کے بعد میں بھی بہت پچھتایا تھا۔ اب وہ جو کل آ کر میرے پاس گڑگڑا کر روئی ہے تو سچ کہتا ہوں، میرا کلیجہ پھٹنے لگا۔ بے اختیار اسے سینے سے لگا کر تسلی دینے کو جی چاہا مگر اب وہ میرے لیے نا محرم تھی نا۔۔۔ اس کے جسم کو ہاتھ کیسے لگاتا۔ یہی سوچ کر ضبط کر گیا۔ کل بڑا جبر کیا تھا میں نے اپنے دل پر ورنہ خدا جانے کیسا گناہ ہو جاتا کل مجھ سے۔‘‘ اتنا کہہ کر دینو کسی سوچ میں ڈوب گیا۔
’’پھر اب کیا کہتے ہو؟‘‘ دینو کو چپ دیکھ کر پیر خان نے پوچھا۔
دینو کچھ دیر تک حوض میں تیرتی ایک سرخ رنگ کی مچھلی کو گھورتا رہا۔ پھر بولا۔
’’میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ کل وہی کہہ رہی تھی مجھے دوبارہ اپنے گھر میں بسا لو۔ اب کبھی شکایت کا موقع نہیں دوں گی۔ اس کی آواز میں کچھ ایسا درد تھا کہ میرا تو دل بھر آیا۔‘‘
’’پیر خان داڑھی کے پیچھے سے مسکراتا ہوا بولا۔‘‘ تو یوں کہو نا۔۔۔‘‘
پھر کچھ دیر بعد بولا۔ ’’مگر تم نے اسے طلاق دے دی تھی اب وہ دوبارہ تمہارے پاس کیسے آ سکتی ہے؟‘‘
’’یار پیر خان مجھے ان مسئلوں کے بارے میں زیادہ کچھ معلوم نہیں۔ تمہیں کوئی صورت نکالو نا۔۔۔‘‘
پیر خان اپنی داڑھی میں انگلیاں چلاتا ہوا کچھ سوچنے لگا۔ پھر بولا۔
’’اسے طلاق دیے کتنی مدّت ہوئی؟‘‘
’’یہی کوئی سات آٹھ مہینے ہوئے ہوں گے۔‘‘
’’تمہارے پاس سے جانے کے بعد اس نے کسی اور سے نکاح نہیں کیا؟‘‘
’’نہیں۔۔۔ کہہ رہی تھی اس کے باپ نے اس پر بہت زور دیا تھا کہ وہ دوسرا نکاح کر لے مگر اس نے منع کر دیا۔ کہنے لگی۔ میں جب بھی دوسرے نکاح کے بارے میں سوچتی ہوں تمہاری شکل آنکھوں کے سامنے گھوم جاتی ہے۔‘‘
پیر خان پھر کسی سوچ میں پڑ گیا۔ پھر کچھ دیر بعد بولا۔
’’تمہارے طلاق کے بعد عدّت کی مدّت تو ختم ہو جاتی ہے مگر شریعت کے مطابق کلثوم کو کسی دوسرے شخص سے نکاح پڑھوانا ہو گا۔ پھر وہ آدمی اسے طلاق دے دے اور اس طلاق کے بعد عدت کی مدت ختم کر کے وہ دوبارہ تمہارے نکاح میں آ سکتی ہے۔‘‘
’’یار پیر خان! اسی بارے میں تو کچھ کہنا ہے۔ میں نے یہ بات مولوی عبدالحق سے پوچھی تھی۔ انہوں نے بھی یہی کہا جو تم کہہ رہے ہو۔ مگر ایسا شخص کون ہو گا جو کلثوم سے نکاح کرنے کے بعد فوراً اسے طلاق دے دے۔‘‘
’’ہاں، ایسا شخص کون ہو گا؟‘‘ پیر خان اپنی داڑھی کھجلاتا ہوا بُدبُدایا۔ دینو سر جھکائے چپ چاپ بیٹھا تھا۔ اس کے دماغ میں ایک خیال دھیرے دھیرے رینگ رہا تھا۔ اتنے میں حوض میں تیرتی ہوئی سرخ رنگ کی مچھلی بڑے زور سے تڑپی۔ دینو چونک پڑا اس نے پیر خان کی طرف دیکھا۔ وہ اپنے گنجے سر پر ہاتھ پھیرتا ہوا اسی مچھلی کو گھور رہا تھا۔ اچانک دینو بولا۔
’’یار پیر خان یہ کام تو ہی کر دے نا۔۔۔‘‘
’’کون سا کام؟‘‘ پیر خان چونک کر بولا۔
’’ارے یہی نکاح اور طلاق والا جھنجھٹ۔ تو کلثوم سے نکاح کر لے اور طلاق دے دے عدت کی مدت وہ اپنے بھیونڈی والے رشتے دار کے یہاں گزار لے گی۔ اس کے بعد تو میں اس سے نکاح کر سکتا ہوں۔‘‘
پیر خان چپ رہا۔ دینو پھر بولا۔
’’دیکھ یار! یہ کام تجھے میرے لیے کرنا ہی ہو گا۔ یہی کہنے کے لیے میں نے تجھے روکا تھا۔‘‘
پیر خان پھر بھی چپ رہا۔
دینو کہہ رہا تھا، ’’تو ہاں کہہ دے تو میں آج ہی بھیونڈی جا کر کلثوم کو تیار کر لیتا ہوں اور کل عشاء بعد تیرے مکان پر مولوی صاحب کو بلوا لیں گے۔
پیر خان کچھ جھجھکتا ہوا بولا۔ ’’مگر۔۔۔‘‘
’’اگر مگر کچھ نہیں۔ بس تو ہاں کہہ دے، باقی سارا بندوبست میں کر لیتا ہوں۔‘‘
اتنے میں مسجد کے موذّن اپنا تہمد کستے ہوئے ادھر آ نکلے اور دینو چپ ہو گیا۔ حوض کی سرخ مچھلی ایک بار پھر زور سے تڑپی اور اچھل کر حوض کے باہر فرش پر آ گری۔ پیر خان نے لپک کر اسے فرش سے اٹھایا اور آہستہ سے دوبارہ حوض میں چھوڑ دیا۔
دوسرے دن عشاء بعد پیر خان کے مکان پر مولوی عبد الحق آئے۔ دینو کلثوم کو لے کر پہلے ہی پہنچ چکا تھا مولوی صاحب نے گواہ کے طور پر مسجد کے موذّن اور پیر خان کے ایک پڑوسی جلا لو کے دستخط لیے اور پیر خان سے کلثوم کا نکاح پڑھوا دیا۔ نکاح کے بعد شیرنی تقسیم کی گئی۔ دینو نے اپسرا ہوٹل سے چائے منگوا لی تھی۔ مولوی صاحب مسجد کے موذّن اور جلالو چائے پانی پی کر پان کی پیک اڑاتے ہوئے چل دیے۔ اب پیر خان اور دینو وہاں رہ گئے تھے۔ کلثوم کمرے کے اندر تھی۔ دینو پیر خان کا بہت مشکور تھا۔ اس نے اسے ایک بڑی الجھن سے بچا لیا تھا۔ دینو نے پیر خان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا۔
’’میں تمہارا یہ احسان زندگی بھر نہیں بھولوں گا دوست! اب مجھے اجازت دو۔ کلثوم کو اسی وقت اس کے رشتے دار کے ہاں پہچانا ہے۔ آخری بس ساڑھے گیارہ بجے جاتی ہے۔‘‘
پیر خان نے مصافحہ کرتے ہوئے مسکرا کر کہا۔
’’پیارے دینو! تم شاید اس مسئلہ سے پوری طرح واقف نہیں ہو۔ در اصل جب طلاق والی عورت دوسرے شخص سے نکاح پڑھوا لیتی ہے تو جب تک وہ دوسرا آدمی اس کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم نہ کر لے اس سے طلاق نہیں سکتی۔ اگر دوسرا مرد اس کے جسم کو نہ چھوئے تو وہ پہلے مرد کے لیے حلالہ نہیں ہو سکتی۔‘‘ دینو نے ایک جھٹکے کے ساتھ پیر خان کا ہاتھ چھوڑ دیا۔
’’یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟‘‘ اس کا لہجہ غصہ اور حیرت سے بھرا ہوا تھا۔
’’میں نہیں کہتا، شریعت کہتی ہے۔ اگر یقین نہ ہو تو کہیں سے بھی فتویٰ منگوا لو، یا مولوی عبدالحق سے جا کر پوچھ لو۔‘‘
’’مگر یہ بات تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتائی۔‘‘ دینو کا پارہ چڑھتا جا رہا تھا۔
’’مجھے کیا معلوم تھا۔ میں سمجھ رہا تھا کہ مولوی صاحب نے تمہیں یہ بات بتا دی ہو گی۔‘‘
’’مولوی صاحب کی ایسی تیسی۔۔۔‘‘ دینو نے دانت پیس کر کہا۔
’’چچ۔۔۔ چ۔۔۔ چ۔۔۔ پیارے دینو! مولوی صاحب کے لیے ایسے الفاظ نہ نکالو، وہ ہمارے امام ہیں۔‘‘ پیر خان نے پر سکون لہجے میں سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’اور پھر ایک رات کی تو بات ہے۔ کل صبح میں کلثوم کو طلاق دے دوں گا۔ تم اسے بھیونڈی لے کر چلے جانا۔ پھر عدت کی مدت ختم ہوتے ہی وہ تمہارے لیے حلالہ ہو جائے گی۔ تم اس سے نکاح کر سکو گے۔ اب تم اپنے گھر جا کر آرام کرو۔ فجر کی نماز کے وقت مسجد میں ملاقات ہو گی۔ نماز کے بعد ہی میں کلثوم کو طلاق دے دوں گا۔ اچھا، خدا حافظ۔۔۔۔‘‘
کہتا ہوا پیر خان کمرے میں چلا گیا جاتے جاتے وہ اپنے پیچھے کمرے کا دروازہ بند کرنا نہیں بھولا تھا۔ باہر دینو کھڑا دانت پیستا رہ گیا۔ وہ اپنے شدید غصے کو دبانے کی انتہائی کوشش کر رہا تھا۔
٭٭٭