اس نے پلائو دم پر رکھنے کے بعد اپنے کمرے کا رخ کیا ۔۔ٹیبل پر بکھری فائلوں اور دستاویزات کو سمیٹ کر ایک طرف کیا اور سرسری سی نگاہ گھڑی پر ڈالی جو رات کے دس بجا رہی تھی۔۔۔ آج اتوار کا دن تھا خوش قسمتی سے اسے جاب سے آف ملا تھا ۔۔ مگر سارا دن اس نے کیس انوسٹیگیٹ کرنے پر لگا دیا بقیا وقت میں بابا کے ساتھ ڈنر کرنے کے لئے اس نے ان کی پسند کا پلائو کا بنایا تھا ۔۔۔ سوچو کو جھٹکتے ہوئے وہ لائٹ سا ڈریس نکال کر واشروم میں گھس گئی ۔۔۔ فریش ہونے کے بعد اس نے نوید صاحب کے کمرے کا رخ کیا ۔۔۔
بابا؟؟؟ آپ سو رہے ہیں ؟
دروازے پر دستک دیتے ہوئے اندر جھانکنے لگی ۔۔۔
وہ اکثر دیوانوں کی سی کیفیت میں رہتے تھے ۔۔۔ کبھی کبھی تو دن بھر سوتے رہتے اور کبھی راتیں انکی بے چین گزتی مگر نیند آنے کا نام نہ لیتی ، اب تو اکثر وہ چھوٹی سے چھوٹی چیزیں بھی بھولنے لگے تھے ۔۔۔۔پچھلے دو چار سالوں سے ان کی یہی کنڈیشن تھی ۔۔۔ نایا کا دل انکی طرف سے پریشانی سے حلق میں اٹکا رہتا تھا ۔۔۔
بابا!!!!؟
اس نے آگے بڑھ کر محبت سے ان کے بالوں میں ہاتھ گھمایا ۔۔
ہوںنننہہ؟؟؟؟ نیند سے بوجھل آواز اسکی سماعتوں سے ٹکرائی
آپ نے صبح بھی ٹھیک سے کچھ نہیں کھایا ۔۔۔ اٹھیں کھانا کھا لیں ! پتا نہیں آپ نے اپنی ٹیبلٹ بھی لی ہے یا نہیں !
ساتھ ہی ہاتھ بڑھا کر دوائوں کی ڈبی ٹٹولی ۔۔۔
بابا اٹھیں ۔۔۔شاباش ! آئیں میں آپ کو واشروم تک چھوڑ دیتی ہوں ۔۔۔ وہ انہیں سہارا دے کر اٹھاتے ہوئے ان کے پیروں میں چپل اڑستی ہوئی واشروم کے دروازے تک چھوڑ کر ڈائیننگ ٹیبل سیٹ کرنے لگی ۔۔۔
کیا بنایا ہے تم ؟؟؟
وہ پانی کے چھینٹے منہ پر مارنے کے بعد ڈائننگ ٹیبل پر آ بیٹھے
آپکا فیورٹ مٹن پلائو ! انکی سوجی ہوئی آنکھوں کو نظر انداز کرتی بمشکل مسکرا کر بولی ۔۔
پلیٹ میں پلائو نکال کر انکی طرف بڑھانے لگی ۔۔۔
آپ اس وقت کیوں سوئے بابا ؟؟؟ میں نے آپ کو شیڈول سیٹ کر کے دیا ہے نا ! آپ اسکے مطابق چلا کریں نا ؟ آپ بہت من مانی کرنے لگے ہیں آجکل !
اسکے لبوں سے شکوہ پھسلا ۔۔
کیا کروں میں بیٹا ؟ بھول جاتا ہوں ۔۔ جب بھی الارم بجتا ہے سمجھ ہی نہیں آتا کونسی دوا کھانی ہے ، اور پھر الارم بھی تو ہر دو چار گھنٹے بعد بجنے لگتا ہے ۔۔۔ سر درد !
وہ بے زاری سے بولے
سب بہانے ہیں۔۔ میں اچھی طرح سے جانتی ہوں آپ خود دھیان نہیں دیتے !
وہ خفگی سے کہتی اپنی پلیٹ میں پلائو نکالنے لگی ۔۔
نوید صاحب اس الزام تراشی پر اسے گھور کر رہ گئے ۔۔۔
اس نے ابھی نوالہ منہ میں رکھنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ پاس پڑا اسکا فون چنگھاڑنے لگا ۔ ۔ ۔
ہفففففف ! ایک بے زار سا نفس اسکے لبوں سے برآمد ہوا ۔۔ چمچ دوبارہ پلیٹ میں پٹخ کر اس نے فون کان سے لگایا ۔۔
ہاں گلشن بی بی ؟ فرمائو ؟
اس نے تھکاوٹ اور ماندگی سے گردن ایک طرف گرالی۔۔
ہمیں آج رات بارڈر پر ہونے والی کچھ الیگل ایکٹیوٹیز کی خبر ملی ہے جنرل نے آپ کو طلب کیا ہے فورا۔۔
گلشن کی پیش گوئی پر اس نے بے ساختہ بابا کی جانب دیکھا ۔۔جو اسکی مایوس نگاہوں سے کچھ کچھ سمجھ چکے تھے
چیف ؟ آپ سن رہی ہیں نا؟؟
گلشن کی آواز اسکے کانوں سے پھر ٹکرائی ۔۔۔
لوکیشن شیئر کرو گلشن۔۔۔میں آ رہی ہوں !
اس نے حسرت بھری نگاہ کھانے کو دیکھا جو بہت وقتوں بعد دل سے تیار کیا تھا اور کرسی دھکیل کر اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔
I have to go baba !.
آپ کھانا کھانے کے بعد ٹیبلٹ لینا مت بھولئے گا ، اور میرا انتظار نہیں کرئیے گا ہو سکتا ہے میں نہ آئو ۔۔ ٹھیک ہے ؟؟؟ وہ محبت سے انکے ماتھے لب رکھتی ہوئی تاکید کرنے لگی ۔۔۔
اپنا خیال رکھنا بیٹا ! وہ اسکا گال تھپتھا کر بولے ۔۔۔
اس نے کمرے میں آکر اپنا کوٹ اٹھایا اور ریوالور میں گولیاں چیک کرنے کے بعد گاڑی کی چابی اٹھائی اور باہر نکل آئی ۔۔
سردیوں کے اوائل چل رہے تھے موسم خاصا سرد تھا۔۔۔
مگر موسم نے کبھی اسکی روٹین یا جاب کو متاثر نہیں کیا تھا ۔۔۔ یا شاید اس نے ہی خود پر بند لگا رکھے تھے ۔۔۔
صبح گھر سے آفس ۔۔۔اور آفس سے گھر ۔۔
سنڈے کو اسکی چھٹی ہوا کرتی تھی مگر چھٹی کے دن میں بھی اسے وقتا فوقتا بلا لیا جاتا تھا ۔۔۔
اسکی زندگی میں باپ کے علاوہ کچھ گنے چنے لوگ تھے
ماں کی وفات کے بعد کسی رشتے دار نے اسکے ساتھ رابطہ نہیں کیا تھا تو اس نے بھی کوشش نہیں کی ۔۔
وہ ایک اینٹی سوشل لڑکی تھی ، اسکے دوست نہیں تھے ، پڑھائی کے بعد اس نے انٹرپول (پولیس فورس) جوائن کرلی تھی ۔۔۔ جو سیکرٹ فوسرز ہی کا حصہ تھی۔۔
جہاں وہ پچھلے سات سال سے ڈیٹیکٹو کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہی تھی۔۔
(انٹرپول کے آفیسرز کرمنلز اور ٹریررزم کو انوسٹیگٹ کرکے ڈیٹا انٹیلیجنس ایجنسیز کو سینڈ کر دیتی تھی۔۔۔جس کے بعد انٹیلجنس کرمنلز کر پکڑنے اور انکے روابط سے ڈیل کرتی تھی)
اس نے متعدد کیس انٹیلجنس کی خدمات میں بھی سر انجام دیئے تھے۔۔۔ وہ بہت دل جمعی سے کام کرتی تھی۔۔۔
اس نے سوچوں کو جھٹک کر اگنیشن سے چابی نکالی اور رات کی سیاہی میں ابھرنے والی ٹارچ کی روشنیوں کی جانب رخ کیا ۔۔
کیا سچویشن ہے گلشن؟؟؟
جنرل کو غیر سناشا نمبر سے کال موصول ہوئی تھی جس میں خبر ملی ہے کہ اف*ان بارڈر سے کچھ دہشتگرد یہاں موجود اپنے ساتھیوں کو اسلحہ اسمگل کرنے والے ہیں !
دیکھتے ہیں ! خبر سچی ہے یا نہیں !
خیر ؟ جنرل سے بات ہوئی ؟
اس نے اندھیرے میں اپنی اسسٹنٹ کا چہرہ دیکھنے کی ناکام کوشش کی تھی
فلحال تو نہیں ، وہ چاہتے ہیں کہ ہم ایکشن ٹیم کے بغیر مداخلت نہ کریں !
گلشن نے اسے بتاتے ہوئے وائرلیس اسکی جانب بڑھایا ۔۔ جو اس نے سر ہلاتے ہوئے تھام لیا ۔۔۔
اسی لمحے اسے سیل فون پر جنرل کی کال موصول ہونے لگی ۔۔۔
انہوں نے اسے سیفٹی پریکاشن سمجھاتے ہوئے کال کاٹ دی ۔۔۔
کچھ ہی دیر میں ایکشن ٹیمیں وہاں گردش کرتی دکھائی دیں ۔۔۔
وہ انہیں پوزیشن لینے کی تاکید کرتی اپنے گاڑی سے ٹیک لگا کر آنکھیں موندنے لگی ۔۔۔
انکل کیسے ہیں ؟؟؟
گلشن کی آواز اس نے رخ موڑ کر اسے دیکھا ۔۔۔
اچھے ہوجائیں گے ۔۔۔ انشااللہ !
وہ رنجیدہ سی ہونے لگی ۔۔
انشااللہ !
گلشن نے اسکا کندھا تھپتھپایا ۔۔
گلشن کو اسے اسسٹ کرتے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی تقریبا سال ہی گزرا تھا ۔۔ گلشن نے اسے ہمیشہ صابر اور شاکر پایا تھا ۔۔۔چاہے وہ جنگ کا میدان ہو یا نجی زندگی ۔۔ وہ اسکی قابلیت کے ساتھ ساتھ اسکی زندگی گزارنے کے اصولوں سے بھی بہت متاثر ہوئی تھی ۔۔۔
انہیں انتظار کرتے کرتے پوری رات نکل گئی تھی مگر کسی نفوس کے آثار تک دکھائی نہیں دیئے ۔۔ عین ممکن تھا کسی نے غلط انفارمیشن دی ہو۔۔ لیکن انہیں صبح تک بھی انتظار کرنا پڑتا تو کوئی قباحت نہیں تھی کیونکہ یہ ان کی جاب کا حصہ تھا۔۔
اس وقت صبح کے تقریبا چھ بج رہے تھے جب ملگجے سے اندھیرے میں انہیں گاڑیاں آتی دکھائی دی ۔۔۔
ہوشیار رہو اور ۔۔۔سب لوگ اپنی پوزیشن لے لو !
کوئی آرہا ہے
اس نے دور بین آنکھوں سے ہٹاتے ہوئے وائرلیس پر میسیج دیا اور گلشن کا کندھا ہلایا جو سستانے کے لئے گاڑی کی سیٹ پر لیٹی تھی ۔۔۔
گلشن اٹھو !
وہ فورا سے اٹھی اور دونوں گاڑی کی اوٹ میں ہوگئیں ۔۔۔
جلد بازی مت کرنا ہمیں سب کو زندہ پکڑنا ہے !
علی تم تیار ہو نا؟ وہ ایکشن ٹیم کے سربراہ سے مخاطب ہوئی جو ان سے آگے اور بارڈر سے چند کلو میٹر دور مختلف مقامات پر چھپے ٹارگٹ کا انتظار کر رہے تھے ۔۔۔
چلو گلشن ! وہ تیزی سے گلشن کے برابر والی سیٹ پر آ بیٹھی جو گاڑی اسٹارٹ کر رہی تھی ۔۔۔
انہیں ان کے قریب پہنچنا تھا ۔۔۔
مگر انکی گاڑی پر بجتے سائرن کی وجہ سے مخالف خبردار ہوگئے ۔۔ اور فرار کی کوشش میں گولیوں سے دو موقع پر ہی جا بحق ہوگئے جن میں ایک زخمی حالت میں تھا ۔۔۔
گلشن بھاگو ! گاڑی سے نکلتے ہی وہ طوفانی رفتار سے گاڑی کے پیچھے بھاگیں جو خطرہ سونگھ واپس مڑ گئی تھی ۔۔۔اور بد قسمتی سے ان کی پکڑ میں نہ آ سکی ۔۔۔
رکیں ۔۔۔رکیں
چیف ؟؟؟؟؟ رک جائیں کہاں جا رہی ہیں ؟ وہ لوگ بارڈر کراس کر چکے ہیں ، ہمیں دیکھتے ہی گولی مار دیں گے !
اسے طوفانی رفتار سے بھاگتا دیکھ کر گلشن نے اسکا کندھا دبوچ کر روکا ۔۔۔
شششٹ ! اس نے مایوسی سے پیر پٹخے اور واپس مڑ گئیں ۔۔۔
کیا پتا چلا علی ؟؟؟ وہ علی سے مخاطب ہوئی ۔۔
جو اطراف میں گردش کرتے جوانون کو لاشیں ٹھکانے لگانے کی ہدایت دے رہا تھا ۔۔۔
ان میں سے جو زخمی تھا اسے ہاسپٹل منتقل کیا جارہا تھا ۔۔ علی پلٹ کر جواباً بولا
کچھ خاص نہیں ، لاہور شہر کے گرد و نواح کے علاقوں کے کچھ چارٹ اور ایک کابل کا نقشہ ملا ہے ! اسلحے جیسی تو کوئی بھی چیز بر آمد نہیں ہوئی !
علی نے تشویش ظاہر کی ۔۔
اتنا بھی بہت ہے ، باقی ہم پتا لگا لیں گے !
وہ گہری سانسیں لیتی بوتل کو منہ لگا پانی پینے لگی ۔۔
ہوسکتا ہے جو گاڑی واپس چلی گئی اس میں کچھ ہو ؟ گلشن نے لقمہ دیا ۔۔
مجھے نہیں لگتا ،وہ گاڑی عام استعمال کی گاڑی ہے اس میں اسلحہ نہیں لایا جا سکتا ! علی نے تردید کی ۔۔۔
علی صحیح کہہ رہا ہے ، خیر تم لوگ اپنی نگرانی میں زخمی کو ہاسپٹل لے کر جائو ، میں جنرل کو رپورٹ کرتی ہوں ! وہ سر ہلاتا اپنی ٹیم کو بیک اپ کا اشارہ دینے لگا ۔۔۔ اور نایا گاڑی سے اپنا فون تلاش کرنے لگی ۔۔
کیا ہم نے کسی اور کو بھی بلایا تھا چیف ؟؟؟
گلشن آنکھوں پر دوربین ٹکائے تعجب سے بولی ۔۔۔
نہیں تو بھلا ہم کیوں کسی کو بلانے لگے ! وہ فون ملانے والی تھی جب گلشن کی آواز پر چونک کر مڑی ۔۔
کوئی تیزی سے ہماری طرف آرہا ہے ! گلشن اسے دوربین تھماتی اپنی ریوالور سنبھالنے لگی ۔۔ نایا نے بڑی حیرت سے اس گاڑی کو اپنی طرف آتے دیکھا اور دونوں تیزی سے گاڑی چھوڑ کر درختوں کے بیچ گھنی جھاڑیوں میں چھپ گئیں ۔۔۔
__________________________________
دھیان سے جوان آگے پولیس کی گاڑیاں تفتیش کر رہی ہیں ! سیل پر موصول ہونے والے میسیج پر اس کی سبز آنکھوں میں ناگواری ابھری ۔۔
گاڑی کو بریک ماری اور سیل فون سے سم نکال کر کئی حصوں میں تقسیم کرنے کے بعد باہر اچھال دی ۔۔۔
اے بچے ؟؟؟ یہاں آئو ؟؟؟
دور کھیتوں میں کھیلتے بچے کو آواز لگائی ۔۔
ہاں بھائی ؟؟؟ وہ فورا سے اچھلتا گاڑی کی ونڈو سے اندر جھانکتا ہوا بولا ۔۔
یہ راستہ کس طرف جاتا ہے !
وہ جان بوجھ کر انجان بنا ۔۔۔
ام کو نہیں پتا بائی !
بچے نے کندھے اچکائے
اچھا ، کوئی دوسرا راستہ بھی ہے کیا آگے جانے کا ؟
ہاں ، ندی کے پاس سے ایک راستہ جاتا ہےآگے کو ! وہ ایڑھیوں کے بل اندر جھانکنے کی ناکام کی کوشش کرنے لگا ۔۔
چلو پھر آجائو ۔۔ مجھے وہاں تک چھوڑ دو !
اس نے ہاتھ بڑھا کر دروازہ کھول دیا ۔۔
پھولی گالوں والا سات سالہ بچہ شش و پنج میں مبتلا تھا کہ جائے یا نہیں کیونکہ اسکی اماں نے اجنبی اور راہگیروں کے ساتھ جانے سے منع کر رکھا تھا ۔۔ اور تو اور اسے اس شخص کی گاڑی میں ایک عدد پستول بھی دکھائی دے رہا تھا ۔۔۔
ام کو نہیں جانا ! وہ دو ٹوک بولا ۔۔۔
فکر مت کرو تمہیں کچھ نہیں کروں گا ، وعدہ !
بچے کی نظروں کے تعقب میں دیکھتے ہوئے اسکے لبوں پر ہلکا سا تبسم بکھرا ۔۔
وہ بچہ نیم رضا مندی سے سر ہلاتا اسکے برابر والی سیٹ پر بیٹھ گیا ۔۔۔
وہ شخص وہاں کیا کر رہا ہے گلشن ؟؟؟ وہ دوربین سے مطالعہ کرتی تشویش سے بولی ۔۔ لہلہاتے کھیتوں کے بیچ کھڑی گاڑی میں بیٹھے نفوس کو وہ دیکھ نہیں پائی ۔۔ نہ ہی اس سے بات کرتے بچے کو
سگریٹ پیئو گے ؟
وہ لبوں میں سگریٹ دبائے بچے سے مخاطب ہوا ۔۔
ام کو کیا پوچھتا ہے ؟ ام تو ابھی بہت چھوٹا ہے !
وہ خفگی سے بولا
کیا کرتے ہو تم ؟
وہ اطراف کا جائزہ لیتا ہوا سرسری سا پوچھنے لگا
ارشد بائی کے ہوٹل پے چائے بیچتا ہے !
اس نے بے ساختہ بچے کی جانب کی دیکھا ۔۔. مٹی سے آلودہ کپڑے ، بکھرے بال ، پیر چپل سے عاری تھے ۔۔
اسے افسوس ہوا جانے کیوں ۔۔
اسکول کیوں نہیں جاتے تم ؟
امارے پاس کتابیں نہیں ہیں!
اسکے سوال پر اس بچے کی آنکھوں میں مایوسی ٹپکنے لگی۔۔
میں کیا کہہ رہا تھا ، تمہارے باپ نے مجھے کچھ پیسے قرض دیئے تھے اب وہ تو رہا نہیں ؟ تو میں کس کو دوں پیسے ؟ اس نے ایک نظر اپنے پیچھے آتی گاڑی پر ڈالی اور رفتار بڑھا دی ۔۔
ام کو دے دو نا بائی ! وہ فورا سے بولا ۔۔
پکی بات ہے ؟؟؟ وہ اسکی دانستگی پر ہلکا سے مسکرایا ۔۔
بچے سے زوروں سے سر ہلایا
لیکن تمہیں بھی ایک وعدہ کرنا ہوگا ؟ تم ان پیسوں سے کتابیں خریدو گے اور گلیوں میں آوارگی چھوڑ کر روزانہ اسکول جائو گے ، اور !
وہ ٹھہر کر بولا
یہ جو ہمارے پیچھے لوگ پڑے ہیں تم انہیں میرے بارے میں کچھ نہیں بتائو گے ! وعدہ کرو؟؟؟ وہ قدرے جھک کر رازدارانہ انداز میں بولا
بچہ سوچ میں پڑ گیا ۔۔
اس نے فورا سے سیاہ کپڑا گردن کے گرد لپیٹ کر ناک تک کھینچ لیا ۔۔ اور ریوالور سنبھالی ۔۔
تم بولا تھا ام کو جانے دے گا ؟؟
بچہ خوفزدہ ہونے لگا
کچھ نہیں کروں گا ، ڈرو مت ، وہ رسان سے سمجھاتا ہوا ندی کے کنارے گاڑی روک کر اسے باہر نکلنے کا اشارہ دینے لگا ۔۔
اور میرے پیسے کب دے گا بائی ؟
فورا سے اگلا سوال آیا
رک جائو ، ورنہ گولی مار دوں گی ! نسوانی آواز پر اس نے ضبط سے لب بھینچے
بالآخر تگ و دو بعد اس تک پہنچ گئیں ۔۔۔
پیسے مل جائیں گے اس کی فکر مت کرو ۔۔. بس جو میں نے کہا ہے اس بات کا دھیان رکھنا ۔۔۔ اب اترو نیچے !
وہ کہہ کر پلٹا تو اسکے دونوں ہاتھوں میں ریوالور تھے ۔۔۔ جس کے نشانے پر نایا اور دوسرے طرف بچہ تھا ۔۔۔
گاڑی سے بچے کو نکلتے دیکھ کر نایا کے اوسان خطا ہونے لگے ۔۔
تو وہ بچے کو اپروچ کرنے کے لئے کھیتوں کے بیچ رکا تھا ؟
بچے کو جانے دو !
وہ نقاب زدہ چہرے کو گھورتے ہوئے رسان سے بولی ۔۔۔
تم مجھے جانے دو ، میں بچے کو جانے دوں گا !
وہ گھمبھیر آواز میں چنگھاڑا
اپنی گن پھینک دو ،
وہ مزید محتاط ہوگئی ۔۔۔تاہم گلشن اسکا منہ دیکھنے لگی ۔۔۔
پھینکووووو ! وو دھاڑا
ٹھیک ہے ۔۔۔ تم بچے کو جانے دو
نایا پریشانی سے گلشن کو اشارہ دیتی اس پر نظریں سامنے مرکوز کیئے گن نیچے رکھنے لگی
ڈرو مت ! وہ بچے کے کان بڑبڑاتا ہوا اسے زمین پر اتار کر قدم پیچھے کی جانب لینے لگا ۔۔۔
وہ یقینا ندی کے راستے سے بھاگنے والا تھا ۔۔ جیسے ہی بچہ انکے قریب پہنچا وہ بھاگ کر اس پر جھپٹ پڑی ۔۔۔گلشن انتہائی پریشانی سے کبھی بچے کو تو کبھی نایا کو دیکھنے لگی ۔۔وہ اسکے چہرے سے نقاب نوچنے کی فراق میں تھی کہ اس نے ارادہ بھانپ کر اپنا مضبوط بازو اسکی گردن کے گرد لپیٹ کر گرفت تنگ کردی ۔۔۔
چیففف ؟؟؟
گلشن پریشانی سے آگے بڑھی ۔۔
آگے مت بڑھنا ،
وہ چیخا ۔۔۔
نایا اسکے مضبوط بازوئوں سے خود کو آزاد کرنے کی تگ و دو کرنے لگی ۔۔۔ اسکا سانس اکھڑنے لگا تھا ۔۔ اسی کشمکش میں مبتلا مقابل شخص کی کلائی میں بندھی گھڑی کی سلور پلیٹ کا کونا اسکی گردن پر پھرنے کے بعث خون کی لکیریں ابھرنے لگی ۔۔ ۔ نایا پر غنودگی طاری ہونے لگی ۔۔۔ گلشن نے تیزی سے بچے کو گاڑی کی جانب دھکیلا ۔۔
اس سے پہلے وہ مقابل شخص پر وار کرتی وہ پوری قوت سے نایا کو زمین پر پھینک کر تیزی سے ندی میں کود گیا ۔۔۔ چیف ۔۔۔ چیف ۔۔۔ !!!!
گلشن چلاتی ہوئی اسکی جانب بڑھی ۔۔۔ اسکی سانس سینے میں نہیں سما رہی تھی ۔۔۔ وہ خود کو سنبھالتی ہوئی اٹھی اور اپنی گن لے کر بے دریخ گولیاں ندی کے پانی پر برسانے لگیں ۔۔ جہاں وہ شخص ابھی کودا تھا ۔۔ چند ہی لمحوں میں ندی کا شفاف پانی زرد آلود ہونے لگا ۔۔ تو اسے یقین ہونے لگا کہ مقابل شخص مر چکا ہے ۔۔ وہ لمبی لمبی سانسیں بھرتی بے ساختہ زمین پر بیٹھتی چلی گئی ۔۔
آپ ٹھیک تو ہیں ؟؟ اللہ اللہ ۔۔ آپ تو زخمی ہیں ؟
گلشن پریشانی سی ہوکر اسکی گردن کا جائزہ لینے لگی ۔۔ نایا کو احساس ہی نہیں ہوا کہ کب اسے چوٹ لگی ۔۔
بچہ ؟!؟ بچہ کہاں ہے ؟
وہ خیال آنے پر فورا پوچھنے لگی ۔۔
بچہ بلکل ٹھیک ہے ! چلیں آپ کو ہاسپٹل لے چلتے ہیں !
وہ اسکا بازو تھام کر اسے اٹھانے لگی ۔۔
پریشان مت ہو گلشن ! ہاسپٹل جانے کی ضرورت نہیں ہے _ ہم پہلے آفس جائیں گے وہاں میڈیکل دیکھ لے گی !
وہ بے نیازی سے کہتی اپنی گن اٹھا کر گاڑی جانب بڑھی ۔۔
تم ٹھیک ہو نا؟؟؟
وہ جھک کر بچے سے پوچھنے لگی ۔۔
وہ بائی کدھر گیا ؟؟
بچہ اسکی بات کا جواب دیئے بغیر پوچھنے لگا ۔۔
تم اسکی فکر مت کرو ، اسکا کام تمام ہوچکا ہے ! اب
تمہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے !
اسے لگا شاید بچہ خوفزدہ ہوکر پوچھ رہا ہے
مگر اسکا جواب سن کر وہ افسردہ سا ہوگیا ۔۔.
اسے اسٹیشن لے چلتے ہیں ، اسٹیٹمنٹ ریکارڈ کرنے کے لئے !وہ گلشن کو تاکید کرتی سیٹ بیلٹ باندھنے لگی ۔۔
____________________________________
بارڈر سے چند میل کی دوری پر یہ منظر سہگلز (sehgal) کی رہائش گاہ کا تھا ۔۔۔ یہ خاندان اپنے قبیلے کے قدیم خاندانوں میں شمار کیا جاتا تھا ۔۔۔ شاہین سہگل کے آباء و اجداد پاکستان اور ہندوستان کے بٹوارے کے وقتوں سے سرحدوں پر مقیم تھے ۔۔ جس کی وجہ شاہین سہگل ان کی پیروی کرتے ہوئے اپنی بڑی بہن نصیبہ کے ساتھ آج بھی یہاں مقیم تھے ۔۔جنہوں نے کم عمری میں ہی بیوگی کے بعث بھائی کی چوکھٹ کا رخ کیا تھا اور پھر یہیں کی ہوکر رہ گئیں۔۔ انکی دونوں بیٹیاں ہبا اور نوال یہیں پلی بڑھی تھیں ۔۔ ہبا کی شادی ہو چکی تھی ۔۔
اسکے دو بچے تھے ۔۔۔(عائشہ اور ایان)
جبکے نوال یونیورسٹی کی طالب علم تھی ۔۔
شاہین سہگل کی چار اولادیں تھیں ۔۔
ایک بیٹی اور تین بیٹے
بڑا بیٹا ابراہیم جو اپنی جوانی کے دنوں میں دہشت گردوں کی ظالمانہ گولیوں کی نظر ہوگیا تھا ۔۔۔جسکے بعد اسکی زمہ داریاں انکے دوسرے بیٹے یوسف نے پڑھائی ختم ہونے کے بعد سنبھال لیں تھیں ۔۔۔ جسکے بعد بیٹی تاشفین اور فاتح یونیورسٹی کے آخری سال میں تھے ۔۔۔ شاہین صاحب کی بیوی شاکرہ اور انکا بیٹا یوسف اکثر ان سے نالاں رہتے تھے وہ چاہتے تھےکہ اب وہ شہر شفٹ ہوجائیں ۔۔ مگر شاہین صاحب کی یہی ضد تھی وہ اپنی سرحدوں کو کسی صورت چھوڑ کر جانے کو راضی نہیں تھے ۔۔۔ ابراہیم کو موت کا صدمہ انہیں بھی تھا ۔۔ اور اب تو انکی عمر ستر سے تجاوز کرگئی تھی ۔۔۔ابراہیم انہیں بے حد یاد آتا تھا ۔۔۔ مگر وہ ہنوز شہر جانے کے حق میں نہیں تھے ۔۔۔اور پھر لاہور شہر بھی تو ان کی رہائش چند ہی کلو میٹر کی دوری پر تھا ۔۔۔ جہاں انکے کار خانے ، روایتی کھانوں کے ریسٹورنٹس تھے ۔۔۔ وہ باآسانی آتے جاتے تھے۔۔
ہائے اللہ ۔۔۔ اتنا خوبصورت شخص اداس بلکل بھی اچھا نہیں لگتا !
کھڑکی سے لٹکتی روشن نے کشادہ صحن میں مضطرب انداز میں ٹہلتے ہوئے یوسف دیکھا ۔۔۔
ابھی نصیبہ آپا آگئی نا ، ساری عشق معشوقی نکال دیں گیں ! ناشتہ بناتی رومیشا نے اسے ڈپٹ کر اسکی توجہ کچن کی جانب دلائی ۔۔۔
مگر وہ کھڑکی سے ہٹ کے نہیں دے رہی تھی ۔۔۔
غیر ارادی طور پر یوسف کی نظر اس پر پڑی وہ اسے گھوری سے نوازتا آگے بڑھ گیا ۔۔
نہ جانے لوگوں کو اتنا غرور کس بات کا ہے ! اب مجھے ہی دیکھ لو ؟ میں نے تو کبھی اتنا غرور نہیں کیا اللہ کا شکر ہے ! وہ اترا کر کہتی کھڑکی سے ہٹی
ہاں ، کیونکہ تمہاری شکل اس بات کی اجازت نہیں دیتی نا ! رومیشا نے اسے آئینہ دکھایا
ہونہہ ! وہ منہ چڑانے لگی
اور یہ تم کس کو کہہ رہی ہو ؟
وہ شکی نگاہوں سے گھورنے لگی ۔۔۔
یوسف کو اور کسے ! روشن فورا بولی ۔۔
یوسف صاحب بولو ،بیوقوف لڑکی نصیبہ آپا نے سن لیا تو بھرکس بنا دیں گیں ! رومیشا دبہ دبہ غرائی ۔۔
وہ دونوں بہنیں انکے ہاں ملازمہ تھیں ۔۔۔
کیا نصیبہ آپا نے سن لیا تو؟؟
نصیبہ پھپھو کچن میں برآمد ہوتے ہی شکی نظروں سے پوچھنے لگیں ۔۔۔
کچھ بھی تو نہیں ! رومیشا نے دانت دکھائے اور ساتھ ہی اسے گھورا جو فارغ کھڑی تھی ۔۔۔
ناشتہ تیار ہے ؟
ہاں بس ہوگیا ! وہ فورا بولی
تو جلدی سے لگائو ، انتظار کس بات کا ہے ، بچوں کو اسکول یونیورسٹی جانا ہے اور شاہین بھائی کو شہر جانا ہے !
نصیبہ پھپھو کہتے ہوئے انکا ہاتھ بٹانے لگیں ۔۔۔ناشتے کے ٹیبل پر تقریبا سبھی موجود تھے سوائے فاتح کے ۔۔
وہ ہمیشہ کی طرح اپنی عادات کے مطابق دیر سے سوتا اور دیر ہی سے اٹھتا تھا ۔۔اور بد قسمتی سے آج نوال کے برابر والی کرسی خالی تھی وہ کرسی کھینچ بیٹھ گیا ۔۔ نوال بے ساختہ خود میں سمٹی ۔۔ نہ جانے کیوں وہ اسکی موجودگی میں کنفیوز سی ہوجاتی تھی ۔۔
تمہیں صبح کے آداب بھی سکھانے پڑیں گے صاحب زادے ! شاہین صاحب کو اسکا لیا دیا رویہ کھٹکا ۔۔
صبح بغیر بابا ! وہ جو کھانے کا لقمہ لینے والا تھا ۔۔۔ رک کر ایک تنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ بولا اور مصروف نظر آنے لگا ۔۔۔ سبھی کو جیسے سانپ سونگھ گیا ۔۔۔
کہ بابا اب کیا کریں گے ؟؟؟
کیونکہ ان کی بارعب شخصیت اور دب دبے کے سامنے سبھی گھٹنے ٹیک دیتے تھے ۔۔۔ صرف ایک فاتح ہی تھا جو ضدی بچے کی طرح اکثر اپنی من مانیاں کرتا نظر آتا تھا جسکی وجہ سے وہ دوسروں کے مقابلے اکثر فاتح سے نالاں نظر آتے اور اس پر روک ٹوک بھی زیادہ کرتے تھے ۔۔۔
نوال اپنے سامنے پڑا گلاس تھامنے ہی والی تھی فاتح نے ہاتھ بڑھا کر گلاس اٹھا لیا ۔۔ اس نے گھبرا کر فورا سے اپنا ہاتھ واپس کھینچا ۔۔۔اور چور نگاہوں سے سب پر نظر ڈالی کہیں کسی نے اسکی حرکت کو نوٹ تو نہیں کیا ۔۔۔
مگر تاشا (تاشفین) تو پھر تاشا تھی ۔۔
وہ شوخ نگاہوں سے اسے گھور رہی تھی ۔۔۔
نوال نے جلدی سے پہلو بدلا ۔۔
مما آج میں یونیورسٹی نہیں جائونگی ! میرے سر میں بہت درد ہے ! تاشا کی آواز پر سبھی نے باری باری اسے دیکھا ۔۔ اور نوال نے تو باقاعدہ اسے گھورا تھا پوری رات وہ فلمیں دیکھتیں رہی تھی اور اب محترمہ نے سر درد کا بہانہ بنا دیا تھا ۔۔ اسے بہت غصہ آیا ۔۔۔اب وہ اکیلی کیسے یونیورسٹی جائے ؟
آج داماد (ہبا کا شوہر)اور یوسف بھی گھر پر نہیں ہیں ! فاتح تم نوال کو یونیورسٹی چھوڑ دینا ،
شاہیں صاحب کی آواز پر فاتح نے انتہائی ناگواری سے سر جھٹکا ۔۔۔ اور نوال کی دھڑکنیں بے ترتیب ہونے لگیں ۔۔
ناشتہ کرنے بعد نیچے آجانا ، مجھے بار بار نہ کہنا پڑے !
وہ اپنے ازلی انداز میں کہتا کرسی دھکیلا کر اٹھ کھڑا ہوا ۔۔ نوال کی نظر بلا ارادہ تاشا پر پڑی تو وہ مسکرا رہی تھی ۔۔۔
بد تمیز ، بے شرم ! نوال دانت پیستے ہوئے اٹھی اور کتابیں سیمٹ کر باہر نکلی تو اسے انتظار کرتا پایا ۔۔
پہلے پہل تو اسکا دل کیا کہ نہ جانے ! ایک دن کی ہی بات تھی ۔۔۔ پھر کچھ سوچتی ہوئی آگے بڑھی ۔۔
تھا تو انسان ہی ! ہاں تھوڑا غصیلا تھا ، مگر کونسا اسے کھا جائے گا ۔۔۔
وہ آگے بڑھ کر دروازہ کھولنے لگی جو کھل کے نہیں دے رہا تھا ۔۔۔
آرام سے ! کیا کر رہی ہو؟ توڑو گی کیا !
وہ اسکی بوکھلاہٹ پر برہمی سے ٹوکتا ہوا بولا
ساتھ ہی دروازہ کھول دیا ۔۔۔
سس۔سوری ! وہ اتنا ہی بول سکی ۔۔ فاتح نے کوئی جواب نہیں دیا خاموشی سے گاڑی آگے بڑھا دی ۔۔
_________________________________
اٙیزِی ؟؟؟؟
دائم نے نرمی سے اسکا گال تھپتھپایا ۔۔۔
پاپا ؟؟؟؟؟؟
ایزی سے پلکیں وا کیں تو باپ کی محبت سے لبریز سبز نگاہیں خود پر جمی پایا ۔۔۔
پاپا ؟؟؟؟ آپ آگئے ؟
وہ چہکتے ہوئے بے ساختہ اس سے لپٹ گئی ۔۔
جی پاپا کی جان ۔۔ جیسے ہی میرا اسائمنٹ ختم ہوا میں فورا سے تمہارے پاس چلا آیا ۔۔۔
تمہیں بہت مس کیا میں نے !
وہ اسکے رخساروں لب رکھتا ہوا بولا ۔۔۔
کیسی ہے میری کرلی ؟؟؟ (Curly)
اسے گود میں اٹھائے کمرے سے باہر آگیا ۔۔
ششش آہستہ بولیں پاپا ، شفق جاگ جائے گی ! چلیں اپنے گھر چلتے ہیں !
وہ اسکے کان میں بڑبڑاتی رازدارانہ انداز میں بولی ۔۔
ایسا کیوں ؟؟ مجھے تو لگا تھا کہ تم شفق کی کمپنی انجوائے کروگی ؟ وہ حیران ہوا
شفق بہت برا کھانا بناتی ہے پاپا ! ویسے بھی شفق کے پاس ڈریگن والی موویز نہیں ہیں ۔۔۔
ایزی منہ پھلانے لگی تو دائم ہنس پڑا ۔۔
اچھااااااا جی ۔۔۔ پورا ہفتہ میرا کچن خالی کرنے کے بعد اب تم کہہ رہی ہو کہ میں کھانا اچھا نہیں بناتی ؟ احسان فراموش کہیں کی !
وہ دانت پیس کر تنزیہ کہتی اسے گدگدانے لگی ۔۔
تھینک یو شفق ،کم از کم تم نے میری بیٹی کو احساس تو دلایا کہ میں اچھا کُک ہوں !
وہ شرارتا بولا ۔۔تو شفق ہنس دی
آگئے واپس۔۔ کیا ہوا ؟ ختم ہوگیا تمہارا اسائمنٹ ؟
شفق کے سوال پر اسکی مسکراہٹ معدوم ہوگئی
اس نے علیزے کو گود سے اتارا اور گاڑی کی چابی اسے تھمائی ۔۔۔
ہم گھر جا رہے ہیں بابا ؟ وہ خوشی سے چہکی ۔۔
ہاں تو اور کیا ؟ میں نہیں چاہتا تم شفق کے ہاتھ کا برا سا کھانا کھائو ، وہ منہ بنا کر بولا !
وہ خوشی سے چہچہاتی گاڑی کی جانب بھاگی ۔۔.
سب ۔۔۔۔ ٹھیک ہے نا دائم ؟؟؟؟
شفق فکر مند ہوئی
ہاں تم کیوں پوچھ رہی ہو؟
وہ چونکا ۔۔۔
کیونکہ تم نے کوئی جواب نہیں دیا ؟ اور تم نے کہا تھا ایک ہفتے تک لوٹ آئو گے ؟ دو دن اوپر ہوچکے ہیں علیزے بار بار تمہارا پوچھ رہی تھی ۔۔ اور میں تو پریشان ہوگئی تھی !
اسکی طویل باتوں پر وہ سانس بھر کر رکا
کچھ خاص نہیں بس، ایک پرابلم میں پھنس گیا تھا !
وہ بے نیازی سے بولا
کیسی پرابلم ؟ شفق نے اسے کریدا ۔۔
دائم کی سبز نگاہیں اس کے فکر مند چہرے کا طواف کرنے لگیں۔۔
بولو بھی ؟؟؟ وہ گھبرائی ۔۔۔
گولی لگ گئی تھی !
وہ بے تاثر آواز میں بولا
شفق کا دل ڈوب ڈوب گیا ۔۔۔ اسکی بیٹی کا کیا ہوتا اگر اسے کچھ ہوجاتا تو ؟؟؟؟
تم ۔۔۔ ٹھیک ہو نا دائم ؟؟؟
وہ پریشانی سے اپنے دوست کا جائزہ لینے لگی ۔۔۔
بہتر ہوں۔۔۔ دائم نے آہستگی سے سر ہلایا ۔۔
آنٹی کیسی ہیں ؟؟؟
وہ شفق کی ماں کی طبیعت کے متعلق پوچھنے لگا
ٹھیک ہیں ، سو رہی ہیں !
پاپا چلیں نا ، ہم لیٹ ہورہے ہیں
اس سے پہلے وہ کچھ اور کہتا علیزے کی آواز اسکے کانوں میں پڑی ۔۔
تھینک یو تم نے ایزی کو اتنے دن سنبھالا ! وہ اسکا کندھا تھپتھاکر بولا ۔۔
شرمندہ تو مت کرو اب ! وہ خفا ہوئی ۔۔
جوابا ہلکا سا مسکرا کر باہر نکل گیا ۔۔
بائے کرلی! شفق نے مسکراتے ہوئے علیزے کو الوداعی انداز میں ہاتھ ہلایا۔۔۔ جس کے چہرے پر ہفتوں بعد باپ سے ملنے کی خوشی واضع طور پر چھلکتی دکھائی دے رہی تھی۔۔۔
_____________________________________
[INVESTGATION ROOM]
باجی ام نے بتایا تو ہے ام کو کچھ نہیں پتا !
بچہ اجھنجھلا گیا
نایا نے بے ساختہ گلشن کو دیکھا ۔۔
اچھا ، اس نے کچھ بتایا کہ وہ کہاں سے آیا ہے ؟ یا تم نے کچھ سنا ؟
وہ رسان سے پوچھنے لگی
وہ ام سے صرف راستہ پوچھا تھا باجی !
وہ دو ٹوک بولا
کیا تمہیں واقعی اسکا چہرہ یاد نہیں ؟؟
نایا نے ایک آخری کوشش پھر سے کرنی چاہی
بچہ سوچ میں پڑ گیا ۔۔۔
ہاں ؟؟؟ یاد کرو ۔۔ کیسا دکھتا تھا وہ ؟
وہ پر امید ہونے لگی ۔۔
نہیں باجی ام کو کچھ یاد نہیں آرہا !
بچے نے اگلے ہی لمحے اسکی امیدوں کو مٹی میں ملا دیا ۔۔
وہ مایوسی سے سر جھٹکتی سیدھی ہوئی ۔۔۔
ٹھیک ہے ، میں جنرل کو رپورٹ کردوں اسکے بعد میں خود اس بچے کو گھر چھوڑنے جائوں گی !
وہ گلشن کو تاکید کرتی جنرل کے آفس کا رخ کرنے لگی ۔۔۔
کچھ پتا نہیں چل پایا سر ، مجھے لگتا ہے وہ فون کال ہمیں اصل مقصد سے گمراہ کرنے کے لئے کی گئی تھی ۔۔۔
تاکہ ہم انتظار کرنے کے بعد وہاں سے چلیں جائیں اور وہ باسآنی اپنا کام کر سکیں ۔۔۔
اور وہ دوسرا آدمی ؟ جنرل کو تعجب ہوا۔۔
اسکے بارے میں بھی کچھ پتا نہیں چل پایا ، ہماری ٹیم نے ندی سمیت آس پاس کی جگہوں کا بھی جائزہ لیا مگر نہ تو وہ شخص ملا نہ ہی اسکی لاش !
تعجب کی بات ہے ! جنرل الجھے ہوئے انداز میں بولے ۔۔
اور تم کیا کہتی ہو؟؟ تم نے بھی کچھ نوٹ نہیں کیا !
اسکا چہرہ ڈھکا ہوا ، صرف آنکھیں واضع تھیں ۔۔ شاید سبز۔۔. ۔۔۔رنگ تھا اسکی آنکھوں کا ۔۔۔ اور کلائی پر ایک لکیر بھی تھی ۔۔۔ جیسی کسی پرانی چوٹ کا نشان کا ہو ! مگر اتنا کافی نہیں ہے سر ۔۔ ہمیں اور ثبوت چاہیے اور تفتیش کے لئے کوئی سرا ہاتھ نہیں لگ رہا !
وہ قدرے مایوس نظر آئی ۔۔
ہو سکتا ہے وہ شخص ندی کے پانی کے ساتھ بہہ گیا ہو ! جنرل نے خدشہ ظاہر کیا ۔۔
ممکن ہے سر ! اس نے اکتفا کیا
خیر اُس زخمی شخص کی اسٹیٹمنٹ ہی ہمیں کسی نتیجے پر پہنچا سکتی ہے، ورنہ اس کیس کو یہیں کلوز کردینا چاہیئے،
شیور سر ! ہم اسکی کنڈیشن میں بہتری آتے ہی اسکی تفتیش شروع کردیں گے !
مئودبانہ کہتی باہر نکل گئی ۔۔۔
وہ اس بچے کو گھر چھوڑنے کے بعد گھر واپس جارہی تھی کہ ٹریفک سگنل سرخ ہونے پر گاڑی روکی ۔۔۔ اور سرسری سا اطراف کا جائزہ لینے لگی ۔۔۔
تبھی اسکے عین برابر ایک گاڑی آرکی ۔۔ بلا ارادی طور پر اسکی نظر پڑی تو آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں ۔۔۔
ابھرتی رگوں والا وہی مضبوط بازو اسٹیرنگ تھامے ہوئے تھا اور کلائی پر ویسا ہی نشان جو اس نے کچھ دیر پہلے دیکھا تھا ۔۔۔ابھی چوبیس ہی تو گزرے تھے اس بات کو ۔۔۔وہ حیران پریشان سی اس شخص کو دیکھنے لگی ۔۔۔
جس کے سر پر سیاہ کیپ نے سایہ کر رکھا تھا اندھیرے کے بعث چہرے کے خدوخال واضع طور پر نہیں دیکھ سکی تھی ۔۔۔
وہ حیران تھی اتنی گولیاں کھانے کے بعد وہ شخص زندہ کیسے تھا ؟
اس نے اپنی آنکھوں سے ندی کے پانی کو خون آلود ہوتے دیکھا تھا ۔۔ یا پھر یہ کوئی اور تھا !
کلائی کا نشان اتفاقیا بھی تو ہو سکتا تھا ؟
گاڑیوں کے ہارن نے اسے ہوش کی دنیا میں لا پٹخا ۔۔۔
اس نے گردن موڑی تو مطلوبہ گاڑی اسے حرکت کرتی دکھائی ۔۔۔ اس نے غلط سلط جلدی سے گاڑی کا نمبر نوٹ کیا اور گاڑی آگے بڑھا دی ۔۔ کیونکہ اسکے پیچھے گاڑیوں کا طویل قطاریں انتظار میں تھیں
محمد عارف کشمیری۔۔۔ ایک تعارف
خطہ کشمیر میں بہت سے ایسی قابل قدر شخصیات ہیں جنھوں نے کم وقت میں اپنی محنت اور خداداد صلاحیت...