دائم رات کے نو بجے گھر لوٹا ۔۔۔
ایزی تو دیکھتے ہی اس سے لپٹ گئی ۔۔۔
تم سوئی نہیں اب تک ؟؟؟
وہ اسے گود میں لئے لائونج میں آگیا ۔۔۔
میں آپ کا انتظار کر رہی تھی !
جھوٹی ! تم اپنے ہوم ورک کی وجہ سے جاگ رہی تھی ۔۔ہے نا؟؟؟
پر میں نے تھوڑا سا آپ کا انتظار بھی کیا تھا !
اس نے بات بنائی ۔۔
دیکھو ۔۔ میں تمہارے لئے کیا لایا ہوں !
وہ جیب سے چاکلیٹ نکال کر اسکے سامنے کرنے لگا ۔۔
ایزی کا چہرہ ایک دم کھلکھلایا تھا ۔۔
اکیلے اکیلے نہیں ۔۔ شفق کے ساتھ بھی شیئر کرنا !
اسے بے صبروں کی طرح چاکلیٹ پر جھپٹتا دیکھ کر تاکید کرنے لگا ۔۔۔
شفق کو کیوٹیز ہوگئی تو ؟ اس نے دبی دبی سرگوشی کی ۔۔ تمہیں ہوگئی تو !
دائم نے اسکے سر پر چپت لگائی ۔۔
مجھے کیسے ہوگی ، میں تو اسٹرونگ ہوں نا !
وہ ہاتھ جھلا کر بولی ۔۔۔
شفق کو آتے دیکھ کر جھٹ سے چاکلیٹ کشن کے نیچے چھپا دی ۔۔
اسکی اس حرکت پر دائم کی مسکراہٹ گہری ہوتی چلی گئی
تم آج لیٹ ہوگئے ؟ میں تمہیں کال کرنے ہی والی تھی۔۔ شفق کچن سے برآمد ہوئی ۔۔
ہاں بس کام ہی اتنا ہی تھا ! وہ تکان سے آنکھیں موندنے لگا ۔۔۔
شفق میں سونے جارہی ہوں !گڈ نائٹ
ایزی جتا کر کہتی کشن سینے سے چپکائے اٹھی تھی ۔۔ شفق نے شکی نظروں سے باپ بیٹی کو دیکھا ۔۔۔
دائم کی مسکراہٹ نے ایزی کا پول کھول دیا.۔۔
تم مجھ سے کچھ چھپا رہی ہو ایزی !
شفق نے اسے گھورا ۔۔
نہیں تو ۔۔۔ مجھے بس نیند آرہی ہے !
وہ کمال کی بے نیازی سے کہتی کمرے جا کر دروازہ بند کرنے لگی ۔۔۔ شفق نے مسکرا کر نفی میں سر جھٹکا ۔۔
میں نے آج تمہاری فیورٹ ڈش بنائی ہے ۔۔۔ لیکن تم لیٹ ہوگئے ۔۔میں دوبارہ گرم کر ۔۔۔۔
نہیں یار مجھے بھوک نہیں !
وہ اسے ٹوکتے ہوئے بولا.۔۔ شفق کے چہرے پر واضع مایوسی چھا گئی۔۔۔
اچھا چائے تو پیئو گے نا؟؟
اس نے جذبات سمیٹ کر فورا پوچھا تھا ۔۔۔
ہاں ۔۔ کیوں نہیں۔۔ میں اپنے کمرے میں ہوں !
وہ اٹھا اور کمرے میں چلا گیا ۔۔ شفق نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے چائے بنائی اور کپوں میں نکال کر اسکے کمرے کا رخ کیا ۔۔۔
آجائوں؟؟؟ دروازے پر دستک دے کر پوچھا ۔۔
ہاں آجائو ! وہ شاور لے کر نکلا تھا ۔۔۔ گیلے بالوں میں انگلی گھماتا مڑ کر اسے بولا ۔۔ اور لیپ ٹاپ لے بیڈ پر بیٹھ گیا ۔۔۔شفق ایک نظر اسے دیکھ کر نگاہیں جھکا لیں
کیا مصروفیات ہیں آجکل ؟؟؟
مصروفیت معمول سے بڑھ گئیں ہیں ، اور ہاں یاد آیا ۔۔ مجھے مشن کے لئے جانا ہے کل پرسوں تک۔۔ تم اپنا اور علیزے کا خیال رکھنا ، منصور ہر وقت تمہارے آس پاس ہوگا ، اس لئے ڈرنا مت ۔۔۔ !
وہ سن کر اداس سی ہوگئی ۔۔
کب تک لوٹو گے ؟؟؟
کچھ کہہ نہیں سکتے ۔۔
دو ہفتے ، زیادہ سے زیادہ ایک مہینہ ! وہ کہہ کر مصروف نظر آنے لگا ۔۔۔شفق کوئی رائے نہیں دے سکی ۔۔
سے ایک بات پوچھوں دائم ؟؟؟
چند لمحوں کی خاموشی کے بعد اسکی آواز پر دائم نے سر اٹھا کر ایک نظر اسے دیکھا ۔۔۔
ہوںنہ ؟؟؟ پوچھو ۔۔!!
تم نے سبین کی فوٹو اب تک اپنے پاس کیوں رکھی ہوئی ہے؟؟؟
اسکے سوال پر دائم کی حرکت کرتی انگلیاں تھم گئیں ۔۔۔۔ وہ چہرہ اٹھا کر اسے دیکھنے لگا ۔۔۔
معاف کرنا میں تمہارے ۔۔۔ کبڈ میں صرف ۔۔۔
اس نے گھبرا کر صفائی دینی چاہی ۔۔۔۔
علیزے اکثر پوچھتی ہے تو میں اسکی فوٹو دکھا دیتا ہوں ! سرد لہجے میں بولا ۔۔
اگر کل کو سبین نے ایزی کو اپنے ساتھ لے جانے کا مطالبہ کیا تو کیا تم ۔۔۔ اس نے بات ادھوری چھوڑی
دائم نے ٹھنڈی آہ بھری ۔۔۔
وہ عورت پیدا ہوتے ہی اسے میری پاس چھوڑ ڈال گئی اور مڑ کر خبر بھی نہیں لی اپنی بیٹی کی میں ایسی عورت کے حوالے اپنی بیٹی ہرگز نہیں کروں گا ! ویسے بھی ایزی کو اس سے کوئی لگائو نہیں ، اسکی زندگی میں ماں جیسی ہستی کا کوئی وجود نہیں ۔۔ وہ خوش ہے کیونکہ میں نے بلکے ‘ہم’ نے اسے بہت توجہ اور محبت دی ہے !
وہ جتاتے ہوئے بولا ۔۔۔
سہی کہہ رہے ہو تم ! سبین واقعی انتہائی سنگدل ثابت ہوئی ۔۔۔ شفق آہستگی سے بولی ۔۔
اسکے ‘ہم ‘ کہنے پر دل اور ہی لے میں دھڑکنے لگا تھا
تم بتائو محترمہ ۔۔ تمہارا شادی کا کوئی ارادہ ہے بھی یا نہیں ؟؟؟ دائم اب کے اسکی جانب متوجہ ہوا ۔۔
کرلوں گی ! شفق نے ٹالنا چاہا ۔۔
کب ؟؟ جب بال سفید ہوجائیں گے ؟ دائم ہنسا ۔۔
وہ جوابا ہلکا سا مسکرائی ۔۔۔
دیکھو شفق ۔۔۔ مجھے پتا نہیں کیوں کبھی کبھی ایسا لگتا ہے جیسے تم میری اور ایزی وجہ سے ایسا نہیں کر رہی ۔۔ کیا میں نے تم پر زیادہ زمہ داری ڈال دی ہے ؟؟؟
وہ بہت اپنائیت بھرے انداز سے پوچھنے لگا ۔۔.
اب وہ اسے کیا بتاتی.۔۔ وہی تو ہے ایک وجہ ۔۔۔ اسکے بغیر تو سب بے وجہ تھا ۔۔۔ بے معنی تھا ۔۔
شفق ؟؟؟ میں نے تم سے کچھ پوچھا ہے ؟
نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے !
تو پھر کیسی بات ہے؟ کوئی محبت وغیرہ کا چکر تو نہیں ؟؟ شفق اسے دیکھتی رہ گئی ۔۔۔
نہیں ۔۔۔ ! اسکا گلا رندھ گیا ۔۔۔
پھر کیوں؟؟؟ وہ جیسے جاننے پر مصر تھا۔۔۔
کوئی ملا ہی نہیں ۔۔۔ اس نے بات گھمائی ۔۔
تم سراسر جھوٹ بول رہی ہوں شفق ۔۔ اتنی بڑی دنیا میں تمہیں کوئی ایک بھی ایسا نہیں ملا؟جو تمہاری توقعات پر پورا اترتا ہو ؟ دائم کو صدمہ ہوا تھا ۔۔
ہاں ۔۔ اتنی بڑی دنیا میں کوئی ایک بھی تمہارے جیسا نہیں ۔۔۔ شفق بے بسی سے مسکرادی۔۔
ایسے کیا دیکھ رہی ہو تم سے پوچھ رہا ہوں ؟؟؟
دائم نے زور دے کر کہا
تم نے کیوں نہیں کی ؟
بات کو گھمائو مت شفق ! دائم برہم ہوا ۔۔۔
بتائو تو سہی ؟؟ وہ نہ جانے کیا جاننا چاہتی تھی ۔۔
کیونکہ میں اکیلے رہنے کا عادی ہوگیا ہوں۔۔۔ محبت تو خیر پہلے بھی مجھے کسی سے نہیں تھی ۔۔۔ اب یہ مت سمجھنا کہ سبین اسکی وجہ ہے ! وہ ناگواری سے بولا ۔۔
شفق نے اثبات میں سر ہلایا اور اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔
شب بخیر ! کہتی ہوئی دروازہ دھکیل کر باہر نکل گئی ۔۔۔ دائم نے تاسف سے سر جھٹکا ۔۔
ایک بار پھر سے شفق یہ موضوع گول کر گئی تھی ۔۔۔
_______________________________________
سنو کرلی ۔۔۔ ؟؟
شزانہ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی اٹھی تھی ۔۔ وہ سوچ ہی رہی تھی کہ کیا کیا جائے اسے تاشا کی آواز سنائی دی ۔۔ سوری تمہارا نام نہیں پتا تھا اس لئے کہہ دیا ۔۔ تمہارے کپڑے نکال دیئے ہیں فریش ہوکر نیچے آجائو سب وہیں ہیں ۔۔ تاشا پرجوش ہو کر بولی ۔۔۔
اسے نہ چاہتے ہوئے بھی اٹھنا پڑا ۔۔ شاور لے کر باہر نکلی تو وقت دیکھا رات کے نو بج رہے تھے ۔۔۔غالبا رات کے کھانے کا وقت تھا ۔۔۔ باہر سے ہنسنے اور باتوں کی آوازیں آرہی تھی ایک پل کو شزانہ کا دل بھرا گیا ۔۔ اسے بے ساختہ لیث کی یاد آئی نہ جانے وہ کہاں ہوگا اس وقت ۔۔۔؟
ارے تم رک کیوں گئی آئی نہیں باہر ۔۔۔
تاشا کچھ دیر بعد پھر سے آئی تھی۔۔
شزانہ حسب عادت خاموشی سے اسکے ساتھ چل دی ۔۔
نام کیا ہے تمہارا ؟؟؟
شزانہ ۔۔ نپا تلا سا جواب دیا
شز۔۔۔اا۔۔ نہ ۔۔ میرا بھی اتنا ہی بڑا نام ہے ۔۔ تا ۔۔شش۔۔فین ۔۔ اسی لئے سب لوگ مجھے تاشا کہتے ہیں ۔۔ آج سے تم شِزا ہو ہم تمہیں شزا کہیں گے ۔۔۔ ٹھیک ہے نا؟
شزانہ جوابا ہلکا مسکرائی ۔۔ اسے یہ لڑکی اچھی لگی تھی ۔۔۔ ہنس مکھ ۔۔شوخ اور چنچل سی
ویسے کیا مطلب ہے اسکا ؟؟؟
عادت کے مطابق اسکے سوالات رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے ۔۔۔
شہزادی ۔۔۔
اوہہہہ ۔۔۔
اسکا اوہ انتہائی خوشگوار تھا ۔۔
ویسے ایک بات کہوں ۔۔۔ تم ناں یوسف بھائی کی باتوں کا برا مت منانا ۔۔۔وہ ہیں ہی تھوڑے کھڑوس ۔۔۔تم تو جانتی ہو یہ بارڈر کا نزدیک ترین علاقہ ہے اسلئے یہاں کے مکینوں کے لئے کسی کا بھی یقین کرلینا تھوڑا مشکل ہے ۔۔۔لیکن تم فکر مت کرو آج تک کوئی مسلہ نہیں انشااللہ اب بھی نہیں ہوگا ! اسے مسلسل خاموشی دیکھ کر ہلکا پھلکا کرنا چاہا ۔۔۔شزانہ ٹھٹھکی ۔۔۔ وہ یہ کیوں بھول گئی تھی کہ یہ بارڈر کا نزدیکی علاقہ ہے ۔۔ھانی کا سب سے پہلا شک انہی لوگوں پر جائے گا ۔۔۔ اسکا سکون پل بھر میں ہوا ہونے لگا ۔۔۔
یہ کون ہے ؟؟؟ فاتح جو ڈائننگ ٹیبل پر چیئر کھینچ رہا اسے تاشا کے ساتھ آتا دیکھ کر حسب عادت اونچی آواز میں پوچھنے لگا ۔۔۔ وہ سب ہی مڑ کر اسکی جانب متوجہ ہوئے ۔۔۔ شزانہ کو اپنا آپ بہت پرایا محسوس ہونے لگا ان کے بیچ ۔۔۔
شاکرہ بیگم نے آنکھوں ہی آنکھوں میں گھور کر اسے اشارہ کیا ۔۔۔
اوہ ۔۔ بابا کی مہمان ہیں ۔۔اتنی ینگ ؟؟؟
اس کے لب پھیلے ۔۔۔
فاتح ۔۔۔ ! واویلا مت کرو بیٹھ جائو خاموشی سے
شزانہ کی رنگ پھیکا پڑتے دیکھ کر شاہین صاحب نے اسے ٹوکا ۔۔۔
ارے ؟؟ بابا میں تو کامن سی بات کررہا تھا ۔۔۔آپ کی عمر کے لحاظ سے تو کسی بزرگ خاتون کو ہونا چاہیئے تھا نا کہ ۔۔۔ فاتح نے معنی خیزی سے جملہ ادھورا چھوڑ کر اسے دیکھا۔۔
فاتح منہ بند کرو۔۔ بیٹا تم کھڑی کیوں آئو بیٹھو ۔۔ہمارے ساتھ کھانا کھائو ۔۔
شاہین صاحب نے سختی سے ٹوک کر شزانہ سے کہا ۔۔ پلیزززز آئیے !
فاتح نے اخلاقیات کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے آج تو ۔۔۔ نہ صرف اسے کرسی پر بٹھایا بلکے کھانا بھی سرو کردیا ۔۔۔ شزانہ بس رو دینے کو تھی اسے لگا وہ اسکا مزاق اڑا رہا ہے ۔۔۔
فاتح بس کرو ۔۔۔
اسکی پلیٹ بھرتا دیکھ کر شاہین صاحب سے ضبط سے غرائے ۔۔۔
اوہہ ۔۔ سوری بابا ! کمال کی ادائے بے نیازی سے کہتا تاشا کے برابر بیٹھ گیا ۔۔
شزانہ کا رنگ ہتک سے سرخ پڑ گیا ۔۔۔
کیا ہوجاتا ہے کبھی کبھی آپ کو؟؟ تاشا نے دبی دبی سرگوشی کی۔۔
کیا کروں اخلاقیات مجھ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہیں ۔۔۔اور بابا کے سامنے تو میں انہیں روک نہیں پاتا !
وہ معنی خیزی سے کہتا پلیٹ پر جھکا ۔۔
نوال نے شزانہ کے جھکے سر کو انتہائی افسوس سے دیکھا ۔۔ سب جانتے تھے فاتح نے یہ حرکت صرف شاہین صاحب کو زچ کرنے کے لئے کی تھی ۔۔۔ بے چاری شزانہ خوامخواہ ان کی لڑائی میں پس گئی ۔۔ شزانہ نے اسکی طرف دیکھا تو نوال بہت دل جمعی سے مسکرائی ۔۔ اسے تو وہ شکل صورت سے ہی معصوم معلوم ہوتی تھی ۔۔ پتا نہیں یوسف بھائی کو کیوں وہ بری لگی تھی ۔۔
کبھی کبھی انسان اپنے بنائے مفروضوں پر اس قدر یقین کر لیتا ہے سامنے والا چاہے جتنا بھی معصوم کیوں نہ اسے یقین نہیں آتا ۔۔ یوسف بھائی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا ۔۔۔ شزانہ بے دلی سے کھانے میں چمچ چلاتی رہی ۔۔ سب ہی نے نوٹ کیا مگر بولا کوئی نہیں ۔۔
کھانے کے بعد تصور بھائی اور شاہین صاحب لائونج میں چلے گئے ۔۔۔ نصیبہ پھپھو اور شاکرہ بیگم اپنے اپنے کمروں میں چلی گئیں ۔۔ فاتح بھی جا چکا تھا ۔۔ روشن رومیشہ کھانے کے بعد چائے بنانے میں مشغول تھی ۔۔۔
ڈاِننگ ٹیبل پر لے دے کر وہ دونوں ہی بچی تھی
تم واقعی اتنا کم بولتی ہو ۔۔
نوال نے برتن سمیٹ کر روشن کے ہاتھوں میں دیتے ہوئے حیرت سے پوچھا ۔۔ وہ جوبا ہلکا سا مسکرائی ۔۔
بھئی مجھے تو لگتا تھا کہ میں ہی کم بولتی ہوں ۔۔ لیکن تمہیں دیکھنے کے بعد میں نے اپنا نظریہ بدل لیا ۔۔
نوال اسکے مقابل کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی ۔۔
ویسے تم کہاں سے آئی ہو؟؟؟
وہ تھوڑی کے نیچے ہاتھ جماتے ہوئے خوشدلی سے گویا ہوئی ۔۔
افغانستان ۔۔ شزانہ آہستگی سے بولی ۔۔
اوہہ ۔۔ افغانستان کے حالات کے بارے میں خبروں اور اخبارات میں سنتے پڑھتے ہیں ۔۔۔ خیر ۔۔اللہ بہتر کرے گا ۔۔۔
تم اپنی فیملی کے بارے میں کچھ بتائو نا ؟
اسکے سوال پر شزانہ کے تاثرات یکدم بدلنے لگے
نوال کو لگا اس نے کچھ غلط پوچھ لیا ۔۔
تم نے تو دکھی کردیا ہماری مہمان کو ۔۔
روشن نے ماحول کا تنائو کم کرنے کی کوشش کی اور ان دونوں کے کپ ٹیبل پر رکھ کر چلی گئی ۔۔
چلو میں تمہیں اپنا ٹری ہائوس دکھاتی ہوں !
نوال کرسی دھکیلا کر اٹھ کھڑی ہوائی ۔۔
کہاں پر ؟ وہ الجھی ۔۔
ارے یہیں ہے فکر مت کرو ۔۔ باہر نہیں لے جارہی ۔۔
وہ ہنس کر بولی ۔۔
میں تو حیران ہو رہی ہوں ، کوئی حسین لڑکی روئے اور سامنے والا بندہ نہ پگھلے ؟ ایسا کیسے ہوسکتا ہے ! یوسف صاحب بھی کبھی کبھی حد کردیتے ہیں !
روشن خالی ٹرے کائونٹر پر رکھتی ہوئی بولی ۔۔
یوسف بھائی کوئی موم بتی ہیں جو پگھل جائیں گے !
تاشا برا مان گئی ۔۔
پھر بھی ۔۔۔ تم نے سنا نہیں استاد نے کیا کہا تھا۔۔
” میں نے پگھلا دیا پتھروں کو ۔۔۔اک تیرا دل پگھلتا نہیں ” روشن مخصوص انداز میں گنگنائی ۔۔
کونسے استاد نے کہا یہ؟؟؟ تاشا نے شکی نظروں سے گھورا ۔۔
ارے ۔۔ دی لیجنڈ استاد نصرت فتح علی خان صاحب نے ! روشن نے یاد دلایا ۔۔
جو بھی ہے یوسف بھائی سے ایسی امید رکھنا بیکار ہے !
تاشا نے بچا کچا کباب منہ میں رکھ کر گوہر افشانی کی ۔۔ تاشا بس کردو ابھی باہر سے ٹھونس کر آرہی ہو ۔۔کچھ خدا کا خوف کرو۔۔۔
رومیشا نے گھور کر اسکے آگے سے پلیٹ اٹھائی ۔۔
تو ۔۔۔ کیا ہوا بچا ہوا کھانا ویسٹ ہی ہوگا مجھے دے دو ! اس نے ندیدے پن کی حد کردی ۔۔
تمہیں یہ احسان لینے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔ فریج بھی کسی بلا کا نام ہے ! رومیشا نے اسے کچن سے باہر دھکیلا ۔۔۔ اچھا چائے تو دے دو میری ! اس نے دہائی دی ۔۔
_______________________________________
ھانی نے ہمارے زمہ ایک کام لگایا ہے ۔۔ اگر ہم مکمل کردیں تو ہم اسکے خاص لوگوں میں شامل ہوجائیں گے ۔۔ اور تمہیں بھی شام واپس جانے کے لئے مدد کی ضرورت پڑے گی ۔۔ کمانڈر نے تمہید باندھی ۔۔
بات کو ربڑ کی طرح کھینچو مت کمانڈر ۔۔جو بات ہے صاف صاف بولو ، وہ مخصوص ٹھنڈے لہجے میں ٹوکنے لگا ۔۔۔
تو سنو ۔۔ھانی کا قیدی بھاگ گیا ہے وہ چاہتا ہے ہم بارڈر کے نزدیک علاقوں اور گھروں میں اسے تلاش کریں اور پکڑ کر ھانی کے حوالے کردیں !
درباس کا چہرہ یک لخت بے تاثر ہوگیا ۔۔۔
اس سے نوالہ نگلنا مشکل ہوگیا ۔۔۔
بات سنو کمانڈر ! تم اور تمہارا وہ ھانی جو بھی ہے ۔۔۔ میں اسکے کسی گھٹیا منصوبے میں ساتھ نہیں دوں گا ۔۔ ملٹری پہلے ہی میرے پیچھے پڑی ۔۔ میں معاملہ ٹھنڈہ ہونے کا انتظار کر رہا ہوں ۔۔ ورنہ یہاں سے کب کا جا چکا ہوتا !
وہ زہر خند لہجے میں کہتا وہاں سے اٹھ گیا ۔۔۔
درباس بات کو سمجھنے کی کوشش کرو ہم ھانی کی نظروں میں بلند ہونے کا یہی ایک طریقہ ہے ۔۔۔
کمانڈر نے امڈتے غصے کو دبا کر کہا ۔۔۔
درباس کے الگ ہی تیور تھے ۔۔ وہ کسی ذی روح کو ماننے کے حق میں نہیں تھا ۔۔
میں تمہاری طرح ھانی کا کتا نہیں بننا چاہتا !
وہ اپنی کہنی چھڑا کر کہتا کمانڈر کو اسکی اوقات جتا گیا ۔۔
جہنم میں جائو میری بلا سے پھر ۔۔۔
کمانڈر کو اسکے جملوں نے آگ لگا دی ۔۔۔
وہ سنی ان سنی کرتا کھانا نکال کر عمارا کے سامنے بیٹھ گیا ۔۔۔
تف ہے ایسے سپاہی پر ! کمانڈر زہر خند لہجے میں بولا. . . اسے کسی نہ کسی طرح اس لڑکی کو غائب کرنا تھا ۔۔بس ! کھانا کھا لو ۔۔۔
وہ نرمی سے کہتا اسکے ہاتھوں کی گرہیں کھولنے لگا ۔۔۔ عمارا نے نظر انداز کردیا ۔۔
سنا نہیں تم نے کھانا کھا لو ۔۔۔وہی نرم اور شائستہ لہجہ. ۔۔ عمارا کو کبھی کبھی شک ہونے لگتا تھا ۔۔۔ اسکے جھوٹے خلوص پر
اگر تمہیں میرا اتنا ہی احساس ہے تو مجھے گھر جانے دو میرے بابا بہت پریشان ہورہے ہوں گے ۔۔ کیا گزر رہی ہو گی ان پر جب سارے گھر لوٹ گئے ہوں گے اور میں نہیں گئی !اسکی آواز بھرا گئی ۔۔وہ رونا نہیں چاہتی تھی اس شخص کے سامنے ۔۔۔
اتنی عمر باپ کے ساتھ گزاری ہے ۔۔ اب میرے ساتھ گزار لوگی تو کوئی قیامت نہیں آجائے گی !
وہ جلے کٹے انداز میں بولا ۔۔ عمارا کو اسکے انداز پر ہی چپ لگ گئی تھی ۔۔ وہ کس رشتے سے حق جما رہا تھا اس پر ؟؟؟
ایسے مت دیکھو ۔۔۔ ورنہ بہت پچھتائو گی !
وہ معنی خیزی سے بولا ۔۔۔
مجھے ہاتھ منہ دھونا ہے !
وہ ناگواری سے کہتی اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔
درباس لطویل سانس لے کر اسکی تاکید میں اٹھا ۔۔
اسے سے پہلے وہ اسکے ارادوں کو سمجھتا ۔۔ عمارا نے پانی سے بھرا گلاس اسکے منہ پر اچھالا اور بھاگ کھڑی ہوئی ۔۔۔
اسے علم تھا وہ ایسی ہی کوئی حماقت کرے گی ۔۔۔
بے وقوف لڑکی ۔۔ وہ منہ رگڑتا ہوا اسکے پیچھے بھاگا ۔۔۔
اور دبوچ کر روک لیا ۔۔۔
میں نے تم سے کہا تھا نا میں خود تمہیں چھوڑ آئو گا؟ لہجے میں میں شائستگی برقرار رکھنے کی بھرپور کوشش کی ۔۔۔ کیوں کہ مجھے تم پر بھروسہ نہیں ہے جھوٹے انسان ہو تم ! وہ چلاتے ہوئے روپڑی ۔۔۔
بیکار کی ضد مت کرو ۔۔۔ چلو واپس !
وہ اسکی کہنی پکڑتا اپنے ساتھ کھینچنے لگا ۔۔
عمارا اپنی جگہ جمی رہی ۔۔۔ اسکا دل چاہ رہا اس شخص کو صفحہ ہستی سے مٹا دے ۔۔
چلو !اس بار سختی سے گویا ہوا ۔۔۔
وہ انتہائی مایوسی ہوئی ۔۔۔
لاشعوری طور پر اس نے اپنا لاکٹ ٹٹولا ۔۔
م۔۔میرا لاکٹ !!! اسکے لبوں سے نکلا ۔۔۔
درباس کے قدم منجمند ہوگئے ۔۔۔ وہ رک کر حیرانی سے پلٹا تو عمارا بے چینی گھاس پوس میں اپنا لاکٹ تلاشنے لگی ۔۔۔ اسے لگا جیسے کسی نے اسکا تحفظ چھین لیا ہو۔۔۔
میری شکل کیا دیکھ رہے ہو ڈھونڈو ! وہ غصے سے غرائی ۔۔۔
کیا ؟؟؟ وہ انجان بنا ۔۔
میرا لاکٹ ڈھونڈو ! بیوقوف وہ چلائی ۔۔
میرے پاس ہے !
بغور اسے دیکھتے ہوئے چین میں جھولتا لاکٹ اسکے سامنے کیا ۔۔۔ عمارا نے لمحے ضایع کئے بغیر اسکے ہاتھ سے چھین لیا ۔۔۔
اب مت بھاگنا ! وہ سختی سے گویا ہوا
بھاگوں گی ۔۔ ہزار بار بھاگوں گی ۔۔ کیا کرلوگے تم ؟ ہیں؟
وہ چڑ کر بولی ۔۔۔
درباس کے لبوں پر بکھرا ۔۔۔
اپنا منہ بند رکھو ! اسے بے جا طائو آنے لگا ۔۔
درباس کی مسکراہٹ گہری ہوتی چلی گئی ۔۔۔ انتہائی معصومیت سےابرو اچکانے لگا ۔۔۔ جیسے کہہ رہا ہو ‘ میں نے کچھ کہا کیا ! ”
عمارا اسے قہربرساتی نگاہوں سے گھور کر کھانے پر جھکی ۔۔ جو اب ٹھنڈا پڑ چکا تھا ۔۔۔
_________________________________
کمانڈر رات کے اندھیرے میں گھاس پوس کے بستر سے اٹھا اور گن اٹھا کر دبے قدموں باہر نکل گیا ۔۔۔
جانے سے پہلے وہ چند لمحے عمارا کے پاس رکا تھا۔۔
درباس کو بہت عجیب سا لگا ۔۔ وہ اٹھا اور دبے قدموں اسکے پیچھے گیا ۔۔ لیکن تب تک کمانڈر جیپ اسٹارٹ کرکے جا چکا تھا ۔۔۔
کمانڈر شہر آیا اور وہاں سے دیئے گئے پتے پر پہنچا ۔۔
جہاں دو مسلح افراد اسکے پہلے سے منتظر تھے ۔۔کوئی سوراغ ملا ۔۔؟
ہاں ۔۔ ہم نے گاڑی کی نمبر پلیٹ نوٹ کر لی تھی ۔۔ ہمارا آدمی پتا لگانے گیا ہے ۔۔۔اور ہمیں ان لوگوں کے چہرے بھی یاد ہیں ۔۔۔
کب تک آئے گا تمہارا آدمی ؟
کمانڈر نے بے چینی سے پہلو بدلا ۔۔۔
آتا ہی ہوگا کسی بھی وقت ۔۔ہمیں شاہراہ پر ملے گا ۔۔ سب وہیں چلتے ہیں
وہ کہتے ہوئے اپنے ساتھی کو اشارہ کرتا اٹھ کھڑا ہوا ۔۔
تم نے جب ان آدمیوں کو دیکھ لیا تھا تو پیچھا کیوں نہیں کیا ؟؟
وہ لوگ ہاسپٹل چلے تھے ۔۔ اور وہاں سے کہاں گئے ہمیں پتا نہیں چل سکا!
کمانڈر ان افراد کے ہمراہ مطلوبہ جگہ پہنچا تو آدمی انہی کا منتظر تھا ۔۔۔
میں نے سب پتا لگا لیا ہے ، یوسف سہگل نام ہے اس آدمی کا ! اور باپ کا نام شاہین سہگل !گھر یہاں چند کلو میٹر کی دوری پر ہی ہے ۔۔ وہ آدمی آج ہی اسلام آباد کے لئے نکلا ہے ۔۔۔ موقع اچھا ہے ۔۔ مجھے پورا یقین لڑکی وہی ملے گی ۔۔۔ آدمی اپنی بات کہہ کر خاموش ہوگیا ۔۔۔
وہ تینوں سوچ میں پڑگئے تھے۔۔
گھر کے اندر جائیں یا کسی کے باہر آنے کا انتظار کریں ۔۔۔
تم ابھی واپس جائو ۔۔ ہم ان لوگوں پر نظر رکھیں گے اگر ہمیں لڑکی نظر آئی تو فورا اطلاع دیں گے ۔۔ اگر نہیں تو کوِئی دوسرا راستہ نکالنا پڑے گا ۔۔
وہ شخص کمانڈر کو ہدایت دینے لگا ۔۔
کمانڈر نے بھی جانے میں ہی عافیت سمجھی ۔۔۔وہ نہیں چاہتا تھا درباس کو بھنک لگے ۔۔ مگر وہ غلط تھا ۔۔۔ بھلا جنگل میں ہونے والی سازشوں سے شیر بھی کبھی بے خبر رہا ہے ۔۔!
__________________________________
بیٹابابا کو نیا اسائمنٹ (مشن) ملا ہے ۔۔اسلئے مجھے کچھ دنوں تک تم سے دور رہنا پڑے گا مگر تم sad مت ہونا اور اپنے اسکول پر دھیان پر دینا ۔۔ میں جلد لوٹ آئوں گا !!
وہ اسکے بالوں کو ربڑ میں مقید کرتا ہوا بولا ۔۔
آپ ملیشیا جارہے ہیں ۔۔۔ وہ سوالیہ گویا ہوئی ۔۔
کیوں بھلا ؟؟ اس نے بنھویں سکیڑیں
آپ نے کہا تھا وہاں اتنے بڑے بڑے ڈرگنز ہوتے ہیں !
کمال کا حافظہ تھا اس لڑکی کا کوئی بات آسانی سے نہیں بھولتی نہیں تھی ۔۔ دائم تو پھنس گیا تھا اسے بتا کر ۔۔۔ جہاں ہم جارہے ہیں وہاں ڈریگنز نہیں ہوتے !
اس نے ٹالنا چاہا ۔۔
تو آپ کہاں جا رہے ہیں ؟؟
سوئٹزرلینڈ جا رہا ہوں ۔۔ وہ چڑ کر بولا ۔۔
وائووو آپ سنوفال دکھائیں گے نا؟ فورا سے فرمائش آئی ۔۔ ایزی میں پکنک منانے نہیں جارہا ۔۔۔ دائم نے ٹوک دیا۔۔
تو کیا ہوا ۔۔صرف وڈیو کال پر دکھا دینا پاپا ؟
اس نے معصوم صورت بنائی ۔۔
بس یا اور کچھ ؟؟ وہ بے بس سا ہو کر مانتا ہی بنا۔۔
اور چاکلیٹس ۔۔ اسکی آنکھیں چمکیں ۔۔۔
افففففف ایزی ۔۔تم بہت بولنے لگی ہو
دائم سخت کوفت کا شکار ہونے لگا ۔۔اسے وہیں چھوڑ کر کمرے میں آگیا ۔۔
پلیزز پاپا میں نے خود گوگل پر سرچ کیا ہے ۔۔ ورلڈ میں سب سے زیادہ چاکلیٹ سوئٹزرلینڈ میں ہی ہوتی ہے ۔۔
آپ کو پھر کیا پتا کب موقع ملے وہاں جانے کا ؟ اس لئے آپ کو بہت ساری لانی پڑے گی میرے لئے؟
وہ جست لگا کر اپنی نشست سے اترتی اسکے پیچھے آئی ۔۔۔
میں کوئی سوئزرلینڈ نہیں جارہا دماغ کھانا بند کرو
دائم کو اب غصے آنے لگا ۔۔۔
now you’re irritating me papa!
اریٹیٹ تم مجھے کررہی ہو ‘ وہ پلٹ کر زوردیتا ہوا بولا
آپ کررہے ہیں ۔۔ جھوٹ بول کر ! وہ دوبدو بولی
ایزی ۔۔۔دائم ۔۔ناشتہ تیا۔۔۔ر ہے ۔۔
کیا ہوا تم کوئی بات کر رہے تھے ؟؟ وہ رک کر ان کے سنجیدہ چہرے دیکھنے لگی ۔۔۔
ایزی نے سرچ کیا ہے کہ سوئزرلینڈ میں سب سے زیادہ چاکلیٹ پائی جاتیں ہیں ۔۔ یہ مجھے وہی بتا رہی تھی ۔۔۔ویسے میں نے کل تمہیں چاکلیٹ لاکر دی تھی ۔۔۔ تم نے شفق سے شیئر نہیں کی ۔۔۔
دائم جانتا تھا اسکے سوالوں سے پیچھا کیسے چھڑایا جائے ۔۔
تم نے مجھ سے چاکلیٹ چھپائی ؟ شفق کا منہ کھلا ۔۔۔ don’t tell a lie تم میری بات سنو شفق۔۔
چلو پہلے ناشتہ کر لیتے ہیں میں اسکول سے آکر تمہیں سب سمجھا دوں گی ۔۔ آئی پرامس۔۔
وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر کہتی ہوئی باہر لے گئی ۔۔
کسی کو manipulate کرنا تو کوئی تم باپ بیٹی سے سیکھے! شفق جاتے جاتے کہہ گئی
دائم قہقہہ لگا کر ہنس پڑا ۔۔۔
__________________________________
فجر کی نماز پڑھ کر اس نے جائے نماز لپیٹا اور نیچے آگئی ۔۔ کریم بابا کے کمرے میں ہی سوتا تھا ۔۔
اس نے کمرے میں جھانکا تو وہ جاگ رہے تھے ۔۔۔
بابا ؟؟؟ آپ کیوں اٹھ گئے اتنی صبح ؟؟؟
وہ بے چینی سے آگے بڑھی ۔۔
وہ بیڈ پر ٹانگیں لٹکائے مضطرب انداز میں پیر ہلا رہے تھے ۔۔۔
سویا ہی کب تھا ۔۔۔ بے تاثر نگاہ اس پر ڈالی اور سر جھکا لیا ۔۔۔
نایا کو انکی اجنبی نگاہیں تکلیف سے دو چار کر گئیں ۔۔۔ بابا آپ ٹھیک تو ہیں ؟؟؟
اسکی آنکھوں میں آنسو چمکنے لگے ۔۔۔ وہ انکے قدموں میں ہی بیٹھ گئی ۔۔
نہیں ٹھیک نہیں ہوں میں تکلیف میں ہوں ۔۔۔ بہت تکیلف میں ہوں ۔۔۔۔ میرا سر پھٹا جا رہا ہے ۔۔۔ میرے پیروں تلے آگ جل رہی ۔۔۔ میں پاگل ہو رہا ہوں ۔۔
جیسے کوئی نیم دیوانہ شخص اپنے حواس برقرار رکھنے کی جتن کر رہا ہوں ۔۔۔ نایا کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا ۔۔
م یں آپ کو گارڈن میں لے چلتی ہوں ۔۔ آپ ٹھنڈی گھاس پر چلیں گے تو بہتر محسوس کریں گے ۔۔۔
وہ انکا بازو تھامے باہر گارڈن میں لے آئی ۔۔۔
اسکا بس نہیں چل رہا تھا ۔۔ورنہ وہ اپنی زندگی عوض بھی انکے لئے سکون خرید کر لے آتی ۔۔ انکی حالت دیکھ کر اسکا دل کٹنے لگا تھا
تم جائو میں یہاں بیٹھوں گا کچھ دیر ! وہ کچھ دیر چلنے کے بعد شکستہ وجود لئے گھاس پر بیٹھ گئے ۔۔
نایا کی آنکھوں سے بھل بھل آنسو بہنے لگے ۔۔۔
وہ آج مشن پر جا رہی تھی ۔۔ ان سے ایک بار بات کرنا چاہتی تھی ۔۔ ان کی گود میں سر رکھنا چاہتی تھی ۔۔۔
لیکن اس سے ہمت ہی نہیں ہو پائی ۔۔ وہ کیسے بتاتی ۔۔انہیں تو کچھ یاد نہیں تھا ۔۔! کوئی فرق نہیں پڑتا تھا ۔۔!
وہ کہاں جاتی ہے ۔۔۔ کیا کرتی ہے ۔۔ انہیں کوئی سروکار نہیں تھا ۔۔۔
جائووو مجھے اکیلا چھوڑ دو۔۔۔ اسے ہنوز کھڑا دیکھ کر وہ رکھائی سے بولی۔۔۔ نایا کہ قدم من من کے ہوگئے ۔۔
اسکا دل کیا بھاگ کر ان کے سینے لگ جائے لیکن آنسو ضبط کرتی الوداعی نظر ڈال کر پلٹ گئی. ۔۔
کریم سو رہا تھا ۔۔ اس نے کریم کے لئے لیٹر چھوڑ دیا تھا ۔۔ کہ وہ کم از کم ایک مہینے گھر سے باہر رہے گی ۔۔ اسکی غیر موجودگی میں بابا کا بھرپور خیال رکھے ۔۔۔
اس نے لیپ اور تجاوزات سمیت ضروری سامان بیگ میں رکھا اور باہر نکل آئی ۔۔ بابا ابھی تک جوں کے تو بیٹھے خلائوں میں گھور رہے تھی
بابا ؟؟؟ اس نے ہمت کرکے پکارا ۔۔۔
وہاں احساس و جذبات سے عاری سوالیہ نظر ۔۔۔
میں چند دنوں کے لئے گھر سے دور جارہی ہوں آپ اپنا خیال رکھنا۔۔ اس نے بہت محبت سے انکا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں لیا ۔۔۔ مقابل کوئی جواب نہیں آیا ۔۔ وہ بہت دیر تک منتظر رہی ۔۔۔ کچھ تو کہیں گے ۔۔۔ یا شاید ایک نظر تو اس پر ڈالیں گے ۔۔ مگر وہ خاموشی سے خلائوں کو گھورتے رہے ۔۔۔ وہ انکا ہاتھ لبوں سے لگا کر باہر نکل گئی ۔۔ خارجی دروازے سے لگ کر بھی وہ کئی دیر تک روتی رہی تھی ۔۔۔
__________________________________
تینوں بارڈر سے چند ہی کلو میٹر کی دوری پر رک گئے تھے۔۔ ہر گزرتے لمحے میں فیصل کی دھڑکنیں معمول سے زیادہ بڑھتی جارہی تھی ۔۔
جبکہ نایا فرنٹ سیٹ پر بیٹھی مطمئن نظر آرہی تھی ۔۔ دائم سنجیدگی سے ڈرائیونگ کر رہا تھا ۔۔
تیار ہو تم دونوں۔۔؟ پھر سے یاد دلا دیتا ہوں ایک بار ہم لندن سے آئے ہیں ، میں فلم پرڈیوسر ہوں آفیسر میری اسسٹنٹ ہے اور تم فوٹوگرافر ہو ۔۔
اس نے رک کر ترچھی نگاہ فیصل پر ڈالی ۔۔۔
جس نے ہولے سے سر اثبات میں ہلایا ۔۔۔ نایا نے سیاہ اسکارف سر پر درست کرنے کے بعد ناک تک کھینچ لیا ۔۔
وہ واقعی فارنر لگ رہی تھی ۔۔ گہری لپ اسٹک ،مصنوعی برائون بال ،آنکھوں میں لینس لگا کر رنگت تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی تھی ۔۔ صاف شفاف رنگت کے ساتھ اپنے معمولی حلیے سے برعکس نظر آرہی تھی۔۔۔
جبکے دائم جینز اور ٹی شرٹ میں ملبوس تھا۔۔ راویتی رومال گلے کے گرد لپیٹ رکھا تھا ۔۔۔ فیصل نے بھی سیاہ شلوار قمیص زیب تن کی ہوئی تھی ۔۔۔
اس نے گاڑی دوبارہ اسٹارٹ کی اور اسپیڈ بڑھادی ۔۔۔
ہوشیار ۔۔۔ کوئی آرہا ہے ۔۔.
ڈیوٹی پر معمور مسلح افراد دھول اڑاتی جیپ کو اپنی سمت آتا دیکھ کر گاڑی سے جست لگا کر اترے ۔۔۔
رکو۔۔۔۔رکو ۔۔۔ باہر نکلو ۔۔۔ !
رعب جماتے ہوئے انکے راستے میں حائل ہوئے ۔۔۔
اسلام و علیکم ! دائم نے سلام جھاڑا ۔۔
شناخت کروائو اپنی ؟؟؟
ان سب نے اپنا (مصنوعی) شناختی کارڈ خاموشی سے تھما دیا ۔۔۔
دوسرا نوجوان لاپرواہی سے چیزوں کو الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا ۔۔ فیصل کی سانسیں گلے میں اٹکنے لگیں ۔۔۔ بظاہر نظر آنے والا سامان اندرونی طور پر بلکل مختلف تھا ..وہ لوگ اپنے سامان میں خفیہ چیزیں چھپا کر لائے تھے ۔۔
کہاں سے آئے ہو؟؟؟
لندن سے آئے ہیں ۔۔ ہم فلم میکرز ہیں ، یہ میری اسسٹنٹ ہے کرسٹی ۔۔ اور ہمارا فوٹوگرافر !
دائم نے تعارف کروایا ۔۔۔
ہیلووو ! اس نے نزاکت سے شخص کی طرف ہاتھ بڑھایا ۔۔ جو اس نے خونخوار نظروں سے گھورتے ہوئے نظرانداز کردیا ۔۔۔
دارلحکومت جارہے ہو ؟؟؟
نہیں حلب جائیں گے پہلے ہمارا ساتھی اداکار انتظار کر رہا ہے وہاں !
دائم نے کہتے ہوئے رخ موڑ کر دوسرے شخص کو دیکھا جو ڈگی میں سر دیئے تلاشی لے رہا تھا ۔۔۔
اس کے اندر کیا ہے ؟ کھولو اسکو ؟
فیصل کے ہاتھ پیر ٹھنڈے پڑنے لگے ۔۔۔
وہ مڑ کر ڈگی کی طرف جانے لگا ۔۔۔
مسٹر وِل ! کیوں نہ یہاں ایک بولڈ سا فوٹو ہوجائے ہمارے نئے میگزین کے فرنٹ پیج کے لئے ۔۔۔
جانِ من یہ کوئی جگہ ہے ۔۔ دیکھ نہیں رہی میں ان لوگوں کے ساتھ تھوڑا بزی ہوں ،
دائم نے مصنوعی برہمی سے ٹوکا ۔۔
پلیزززز مسٹر وِل ۔۔۔ زرا پکڑنا۔۔
وہ کہتی ہوئی اسکارف اتار کر فیصل کو پکڑانے لگی ۔۔
جانے دو ان کو ۔۔۔ !!
اس سے پہلے اسکا ہاتھ عبائے کی طرف بڑھتا اس شخص نے کھا جانے والی نظروں سے گھورتے ہوئے شناختی کارڈ واپس تھمائے ۔۔۔
کرسٹی تم بھی نا کہیں بھی شروع ہوجاتی ہو ! معاف کرنا یہ تھوڑی سی بھلکڑ ہے ۔۔ یہاں کے ماحول کا اندازہ نہیں ہے اسے ! دائم معذرت خواہاں انداز میں بولا
دوسرے افراد کو ڈگی سے ہٹتے دیکھ کر فیصل کا رکا ہوا سانس بحال ہونے لگا ۔۔۔ گرین سگنل ملتے ہی وہ لوگ زیرو لائن کراس کر گئے ۔۔۔ فیصل اندر ہی اندر انکی بہادری کا قائل ہوا ۔۔ ورنہ اسکے تو ہاتھ پیر پھولنے لگے ۔۔۔ حلب کی سرزمین پر پہنچنے تک انہیں مغرب کا وقت ہوگیا تھا ۔۔۔ گاڑی انہوں نے بہت پیچھے کہیں چھوڑ دی تھی ۔۔ اپنا سفری بیگ کندھوں پر ڈالے پیدل ہی آگے بڑھنے لگے ۔۔
بازاروں کی راہداریوں میں لوگ مصروف سے آ جا رہے تھے ۔۔۔ مغرب کی اذانیں بلند ہوتے ہی بازاروں میں روشنیاں جل اٹھیں ۔۔۔ وہ لوگ بھی احترامًا رک کر اذان سننے لگے ۔۔۔ اچانک فضا میں گولیوں تڑٹراہت کے ساتھ نسوانی چیخیں بلند ہونے لگی ۔۔۔ فیصل نے دہل کر شاہراہ کی سمت دیکھا ۔۔۔ انتہائی درد ناک منظر اسکی آنکھوں سے گزرا ۔۔۔ مقامی عورت بازار میں دکاندار تھی ۔۔۔روسی فوجی انتہائی بے رحمی سے کچھ بڑبڑاتے ہوئے اسے بالوں سے گھسیٹتے ہوئے چوراہے پر لے آئے ۔۔۔ وہ سبب تو نہیں جان سکا لیکن
غصے اور بے بسی نے بیک وقت آلیا ۔۔۔ اس سے پہلے وہ اپنا آپا کھو کر ان پر جھپٹ پڑتا ۔۔۔
دائم نے اسکا بازو پکڑ جیسے اسے یاد دلایا ۔۔ وہ یہاں کیوں ۔۔ اور کس لئے آئے تھے ۔۔
فیصل کے کان اس سے زیادہ اس عورت کی دردناک چیخیں نہیں سہہ سکتے تھے ۔۔۔وہ کانوں پر ہاتھ جمائے بے بسی سے زمین پر بیٹھتا چلا گیا ۔۔ اذانوں کی آوازیں تھم گئیں تھی ۔۔ یک با یک شاہراہ پراسرار سناٹے کی زد میں آگئی
کسی کی مدھم سسکیوں کی آوازیں ابھی بھی سنائی دے رہی تھی ۔۔۔دائم اور نایا کان اور آنکھیں بند کیئے عمارت کی پچھلی دیوار سے لگ کر کھڑے تھے ۔۔۔
جاہلوں کی سرزمین !!! کچھ دیر میں فوجی بڑبڑاتے ہوئے ان کے پاس سے گزرے تو فیصل نے خود پر لگائے ضبط کا بند توڑدیا ۔۔ ۔۔ وہ بہت تیزی سے اس سمت دوڑا ۔۔جہاں نسوانی چیخوں کی آوازیں آرہی تھی۔۔
محمد عارف کشمیری۔۔۔ ایک تعارف
خطہ کشمیر میں بہت سے ایسی قابل قدر شخصیات ہیں جنھوں نے کم وقت میں اپنی محنت اور خداداد صلاحیت...