(Last Updated On: دسمبر 22, 2022)
سر شام اس سیہ کاری کا دامن اور بڑھتا ہے شراب عیش پر دیوانگی کا رنگ چڑھتا ہے صدائیں سیٹیوں کی اور گھڑیالوں کی آتی ہیں عبادت کے لیے ان بیوقوفوں کو بلاتی ہیں مثنٰے اپنے بت کا ہر قبیلہ ساتھ لایا ہے یہ مٹی کے خدا ہیں ان کو گہنوں سے سجایا ہے بتوں پر اونٹ بکرے آدمی قربان ہوتے ہیں غریب ان پتھروں کے واسطے بیجان ہوتے ہیں قریش اپنے ہبل کا ایک مثنٰی لے کے آئے ہیں اسی کے گرد ان لوگوں نے خیمے بھی لگائے ہیں بٹھا رکھا ہے پتھر کے خدا کو ایک پتھر پر کھڑے ہیں گرد اس کے اہل مکہ ساکت و ششدر بھجن گاتی ہیں جاہل عورتیں اور دف بجاتی ہیں بہا کر اونٹ کا خون اپنی قربانی چڑھاتی ہیں وہ دیکھو دے رہی ہیں خون کے چھینٹے عزیزوں پر وہ چھڑکا جا رہا ہے خون ہی کھانے کی چیزوں پر وہ دیکھو سب اسی پتھر کے آگے سر جھکاتے ہیں جبیں پر کالے کالے خون کے ٹیکے لگاتے ہیں بپا ہے وحشیانہ سیٹیوں کا شور ہر جانب عقیدت دیکھیے ہے چیخنے پر زور ہر جانب پجاری چیختے ہیں، ناچتے ہیں، گھنٹ بجتے ہیں پرستش ہے یہی ان کی جسے مذہب سمجھتے ہیں اچھلتے کودتے سب لوگ گرد اس بت کے پھرتے ہیں ہر اک چکر کے بعد اکبارگی سجدے میں گرتے ہیں قبائل محو ہیں اس لعنتی طرزِ عبادت میں یہ میلہ کہلم ڈوبا ہوا ہے بحر لعنت میں یہ نقشہ دیکھ کر سورج نے آنکھیں بند کر لی ہیں زمیں نے ہر طرف تاریکیاں دامن میں بھر لی ہیں