“درِفشاں میرے ساتھ چلوگی” اجالا نے کمرے میں داخل ہوتے ہوتے ہوئے کہا۔
“کہاں جاناہے آپی”، درِفشاں نے ڈرائنگ کرتے ہوئے کہا۔
‘تا یا ابو کے طرف جانا ہے”، اجالا نے ہا تھ میں ٹرے پکڑتے ہوئے کہا۔
نہیں آپی میں نہیں جاوں گی ، وہاں جائشہ بھی ہو گی اور میں اس کے منہ نہیں لگنا چاہتی ، درِفشاں نے سیریس ہو کر کہا۔
“درِفشاں کزن تو آپس میں اس طرح کا مذاق کرتے رہتے ہیں اس میں برا ماننے والی کون سی بات ہے”،اجالا نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
“آپی مذاق کرنے اور انسلٹ کرنے میں فرق ہوتا ہے، وہ اور یشب بھائی تو کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے جس سے وہ میرا مذاق نہ اڑائیں۔”درِفشاں درِفشاں نے کہا۔
“یشب توپیار سے نام دیتا ہے گڑیا” اجالا نے ساتھ لگاتے ہوئے کہا۔
“مجھے نہیں چاہئے ان کاپیار”، درِفشاں نروٹھے پن سے بولی۔
“اور جائشہ کو بھی منع کریں، نہیں تو میری سکول کی وین چینج کر دیں”۔
اجالا نے غور سے اس کی طرف دیکھا ،اور سر ہلا کر بولی،چلو ٹھیک ہے ،ابھی تو چلو۔
درِفشاں سر ہلا کر ساتھ چل پڑی۔
_____________________
“جیتی رہو میری بچی”،آج تو دل خوش کر دیا ،افتحار صاحب کدو کا حلوہ کھاتے ہوئے تعریف کر رہے تھے۔
جب افتحار صاحب اجالا کو دعائیں دے رہے تھے، تو افراء بیگم نے ٹیڑھی نظروں سے ان کی طرف دیکھا،”لیکن وہ تو اپنی بھتجیوں میں مگن تھےحلوے سمیت”۔اور ان کو یہ بات ہضم نہیں تھی ہو رہی۔
“افتحار صاحب باتیں تو ایسی کر رہے ہیں جیسے آپ کوتو کھانےمیں کچھ ملتا ہی نہیں”، افراء بیگم نے بظاہر تو مسکرا کر کہا لیکن اندر سے وہ جل رہی تھی۔
“ارے۔۔۔۔بیگم میں نے ایسا کب کہا کہ تم کھانا نہیں دیتی”،میں تو بس اپنی بیٹی کے ذائقے کی تعریف کر رہا تھا۔اور وہ ذائقہ کسی کے ہاتھ میں نہیں۔
“نہیں۔۔۔ تایا ابو تائی امی بھی بہت اچھا کھانا بناتی ہیں”اجالا نے جلدی سے کہا ،کیونکہ وہ نہیں تھی چاہتی کہ اس کی وجہ سے بدمزگی پیداہو۔
اور افتحار صاحب بھی موقع کی نزاکت کو دیکھتےہوئے چپ کر گئے۔
ارصم اور جائشہ نظر نہیں آرہے،اجالا نے افراء بیگم سے پوچھا۔
“وہ اپنی خالا کی طرف گئے ہیں”،افتحار صاحب نے کہا اور وہ ان کی طرف متوجہ ہو گئی،اور ان کو جائشہ اور درِفشاں کا کارنامہ سنانےلگی۔
اور افراء بیگم کے کان بھی ان کی طرف لگ گئے۔
اتنے میں فائق اندر داخل ہوا اور اجالا کو دیکھ کر چونکا اور جلد ہی اجالا کے سامنے والے صوفے پہ جاکر بیٹھ گیا۔
“واہ۔ ۔۔۔۔۔۔۔آج تو بڑے لوگ آئے ہوئے ہیں”، فائق نے اجالا کو گہری نظروں سے دیکھتے ہوا کہا۔
“یہ بڑے لوگ آپ نے کس کو کہا ہے،” اجالا نے ابرو اچکا کر پوچھا۔
“تمہیں تو نہیں کہا میں نے، وہ تو میں درِفشاں کو کہ رہا تھا،کافی دنوں بعد آئی ہے نہ،” فائق نے جلدی سے کہا۔
اس دوران پہلی بار درِفشاں مسکرائی۔
“تم اس بات کو چھوڑو ،یہ کدو کا حلوہ کھاو اچھا بنا ہے ،اجالا نے بنایا یے،” افتحار صاحب نے حلوے کاڈونگا فائق کی جانب بڑھایا۔
“پھر تو میں کھائے بغیر کہہ سکتا ہوں ،اچھا نہیں بہت اچھا ہو گا”، اور پلیٹ میں ڈال کر کھانے لگا۔
“باپ کیا کم تھا اب بیٹا بھی اس پہ فدا ہے”، افراء بیگم یہ دیکھ کر کڑھ رہی تھی،ان کو کب گوارہ تھا کہ کوئی اجالا کی تعریف کریں، اور وہ دیکھ رہی تھی کہ اجالا کو دیکھ کر ان کے بیٹے کا رنگ بدلنے لگتا تھا،اور وہ اپنے بیٹے کی زبان کو اچھی طرح سمجھتی تھیں۔
لیکن وہ سب سمجھنے کے باوجود اپنے بیٹے کی خواہش کوکبھی پورا نہیں ہونے دے گئ، کیونکہ وہ امیر گھر کی بہو لانا چاہتی تھی جو جہیز زیادہ لے کے آئے اور اجالا کے گھر والوں سے انہیں ایسی کوئی امید نہیں تھیں۔
______________________
افراء بیگم جب کمرے میں داخل ہوئیں تو افتحار صاحب مطالعہ کرنے میں مصروف تھے ۔
افتحار صاحب ایک نظر دیکھ کہ پھر سے پڑھنے میں مصروف ہو گئے۔
افراء بیگم بھی ایک نظر دیکھ کہ الماری کھول کہ کپڑے تہ کرنے لگئیں،اور جب تھک گئیں تو الماری بند کر کے آکر بیڈ پہ لیٹ گئی۔
کچھ دیر بعد افتحار صاحب نے کہا، کیا بات ہے منہ کہ زاویے کیوں بگڑے ہوئے ہیں ۔
“اچھا۔۔۔۔۔۔آپ کو فرصت مل گئیں میرے منہ کے ذاویے دیکھنے کی”، افراء بیگم نے غصے سے کہا۔
“اس میں فرصت کی کیا بات ہے تمہارا موڈ ٹھیک کب ہوتا ہے یہ تو دوز کی روٹین ہے،ہاں اگر موڈ ٹھیک ہو تو یہ بات زرا روٹین سے ہٹ کے ہے”، افتحار صاحب نے کتاب رکھتے ہوئے کہا۔
افراء بیگم صبر کے گھونٹ پی کے رہ گئیں ،کچھ کہہ بھی نہیں تھی سکتیں، بات کرنا بھی ضروری تھا۔
“آج بھی سرفراز کی طرف گی تھی”۔
“ہاں تو اس میں پریشانی کی کیا بات ہے”۔ انہوں نے جیسے سناہی نہیں۔
“گھر کا سارا فرنیچر بھی نیا ہے ، نئی LCD , کپڑے ،جوتے سونے کی انگوٹھی اور کل تو اس کا بھائی بھی آیا ہوا تھا”۔
“”ہوں۔۔۔۔۔””افتحار صاحب ہنکار بھر کر رہ گئے۔
“سن رہے میں کیا کہہ رہی ہوں ”
“ہاں سن رہاہوں اور کیا کروں ” افتحار صاحب نے سر جھٹک کر کہا۔
“”ِیہی تو مصیبت ہے کچھ کرتے نہیں ہیں۔””
“کیا کروں تمہاری خواہشات پوری کرنے کے لئے سولی پہ لٹک جاوں ، ناشکرے پن کی بھی حد ہوتی ہے الله کا دیا ہوا سب کچھ تو ہے پھر بھی تمہارا لالچ ختم نہیں ہوتاہر وقت دوسروں کی ٹوہ میں رہتی ہوکہ دوسرے کیا کر رہے ہیں۔”
“میں تو صرف بات کر رہی تھی افتحار صاحب آپ تو کیڑے ہی نکالنے بیٹھ گئے”۔
“ِیہ بات کہنے کی تھی کہ ہر وقت فلاں کے گھر وہ ،فلاں کے پاس یہ، فلاں کے پانچ بچے ،تم اپنے گھر پہ دھیان دو ان کی تربیت کرو ،ان کی روٹین دیکھو وہ سارا دن کیا کرتے ہیں کہاں جاتے ہیں ،فائق بار بی۔ اے میں فیل ہو چکاہے، ارصم کی پڑھائی مسے خطاب ویسے مطمئن نہیں ہوں اور جائشہ کی عادت میں ایک عجیب خودسری اور ضد یے”۔
“آپ کو صرف اپنی اولاد میں ہی عیب نظر آتے ہیں یہاں اگر بات ہوتی نہ درِفشاں اور اجالا کی تو آپ نے ان کی تعریفوں میں زمین آسمان ایک کر دیناتھا”۔
“ہاں کر دیتا، زمین آسمان ایک ،وہ ہے ہی تتعریف کے قابل،مبشرہ نے اپنی دونوں بیٹیوں کی تربیت بہت اچھی کی ہے ،اجالا ہر کام میں ماہر اور پڑھائی میں بھی سب سے آگے اور درِفشاں جائشہ کی ہی ہم عمر ہے اتنی سلجھی اور تمیزدار اور تمہاری بیٹی کو تو فیشن سے ہی فرصت نہیں ملتی”۔
“وہ آپ کی بھی بیٹی ہے” ،انہوں جتایاتھا۔
“لیکن میں تربیت کی بات کررہاہوں ،وہ تو تم پر لاگو تھا، وہ زیادہ تر قت تمہارے ساتھ گزارتی ہے ہر اچھی اور بری عادت تم سے سیکتھی ہےوہ”۔
“اب میں نے ایساکیا کر دیا جو آپ کو اس کی تربیت پر اتراض ہے”، اب تو وہ تپ کر بولی تھی۔
“آپنی یہ حسد والی عادت اپنے تک ہی محدود رکھو،بچوں کے زہن نہ گندے کرو، اور جائشہ کو اچھی طرح سمجھادوکہ وہ درفشاں کے ساتھ بہنوں کی طرح رہے ،ورنہ میں بہت سختی سے پیش آوں گا”،اور یہ کہہ کر افتحار صاحب نے کتاب کھول لی۔
پیچھے سے افراء بیگم ان کی باتوں پر کافی دیر تک کڑھتی رہی۔
__________________________
“جب زرینہ بیگم کمرے میں داخل ہوئی،تو یشب لیپ ٹاپ میں مصروف تھا”،انہوں نے دودھ کا گلاس سائیڈ ٹیبل پے رکھ کر سکرین کی طرف دیکھنے لگی۔
“یشب یہ کیا کر رہے ہو”، ان کا خیال تھا کہ شاید یشب چوکنا ہو جائے۔
“ماما بات کر رہا ہوں ، اپنی کلاس فیلو ارسہ کے ساتھ”،یشب یشب نے میسج سینڈ کرتے ہوئے کہا۔
“بیٹا وہ تمہاری صرف کلاس فیلو ہی ہے نہ”،زرینہ بیگم نے ساتھ بیٹھتے ہوئے کہا۔
“امی وہ میری دوست بھی ہے”، اب یشب نے سر سکرین سے اٹھا کر کہا۔
“کیسی دوست”، اب زرین بیگم نے سنجیدگی سے سوال کیا۔
“یہ کیساسوال ہے امی، دوست مطلب جس طرح کے دوست ہوتے ہے، میں کو ایجوکیشن میں پڑھتا ہوں وہاں لڑکیوں اور لڑکوں سے ہیلو ہائے ہوتی رہتی ہے، اور لڑکی سے فرینڈ شپ کا مطلب یہ نہیں کے میرا کسی کے ساتھ کوئی افئیر چل رہا ہے”۔
“یشب میں نے اور تمھارے پاپا نے کبھی تم پر کوئی روک ٹوک یا پابندی نہیں لگائی”۔
“امی کیا مطلب ہے اپکی اس بات کا کہ میں نے اپکی پابندی کا نہ جائز فائدہ اٹھایا ہے”، یشب نے سریس ہو کر پوچھا۔
“اگر اپ نے مجھے آزادی دی ہے تو مجھے اپنی لمٹ بھی پتا ہے”۔
“بیٹا تمھارے پاپا تم سے خوش نہیں ہے، انہیں تمہاری یہ دوستی اور اپنی پڑھائی کو سیریس نہ لینا پسند نہیں، ہماری ساری امیدیں تم سے ہے”۔
“امی۔۔۔۔” ان کے جذباتی انداز میں وہ حیران ہوا تھا ۔
“میں نے ایسا کیا کر دیا جو اپ مشکوکانداز میں سوال کر رہی ہے”۔
بیٹا تمہارا سارا سارا دن گھر سے باہر رہنا ، تمہاری کمپنی اور یہ انہوں نے سکرین کی طرف اشارہ کر کے کہا۔
“ارصم کو دیکھو سب اس کی تعریف کرتے ہے، پرسوں بھابی آی تھی وو ارصم کی اتنی تعریف کر رہی تھی۔اور میں ان کے سامنے شرمندہ ہو رہی تھی، کیونکہ میرے پاس تمہاری تعریف کے لیے الفاظ نہ تھے”۔
“امی ارصم میرا کزن ہے اور دوست بھی،اور میں اس کو اچھی طرح جانتا ہوں ، وہ کیا کرتا ہے اور کہا ں جاتا ہے, اور نہ ہی اس نے کوئی ایسا کام کیا ہے جو تائی امی اس کی تعریفیں کرتی نہیں تھکتیں، اور نہ ہی میں نے ایسا کوئی کام کیا ہے جو آپکو بتاتے ہوۓ شرمندگی ہو”۔
“آئ ایم شاکڈ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔” یشب نے ایک جھٹکے سے لپ ٹاپ بند کیا۔
ذرینہ بیگم نے بیساختہ اپنا نیچلا ہونٹ کچلا۔
“بیٹا میرا مقصد تمھے ہرٹ کرنا نہیں تھا، آئ ام سوری۔۔۔۔۔بیٹا”،زرینہ نے اس کےسر پر ہاتھ پیھرا۔
“امی اب تو اپ ہرٹ کر چکی ہے “، حیرت ہے مجھے اس بات پر کے اپ کو پرسو ں کی باتیں تایی جان کی یاد ہے لیکن اپنے بیٹے کی بات پر یقین نہیں ،اور ان کو تو ویسے بھی عادت ہے روی سے پہاڑ بنانے کا۔
“نہیں بیٹا ایسی کوئی بات نہیں ، ماں ہوں تمہاری اتنا تو حق رکھتی ہوں نہ پو چھنے کا”، چلو اب جلدی سے دودھ پی لو، اور اس کا سر چوم کر باہر چلی گئی۔
لیکن پیچھے سے یشب کا موڈ خراب ہو گیا تھا۔
______________________
سلا ئس کی طرف بڑھتا ہوا ہاتھ اس کا وہی رک گیا۔ جب جائشہ نے غور سے ماں کا چہرہ دیکھا، جن کا چہرہ نفرت کی وجہ سے بگڑا ہوا تھا۔
“اس درِفشاں کی بچی نے ابو سے میری شکایت کی”، غصے سے اس کا برا حال ہو گیا۔
“وہ بھی کر سکتی تھی ، لیکن تمھارے باپ کے کان اس اجالا نے بھرے ہیں وہ ہی تمھارے باپ کے کان میں من من کر رہی تھی”۔
“ایک بات مجھے سمجھ نہیں آتی، ابو کو اپنی بیٹی سے اتنا پیار نہیں ہے اور ہر وقت اجالا اجالا اور درِفشاں درِفشاں کرتے رہتے ہے ، اور وہ درِفشاں اس سے تو مجھے نفرت ہے ہر وقت کلاس میں آگے آگے ہونے کا بہت شوق ہے اسے، کوئی بھی سوال کرے اس کا دل یہی کرتا ہے کے سب سے پہلے میں جواب دوں ، میرا دل کرتا ہے میں اس کا منہ ہی نوچ لوں”، جائشہ نے ہاتھہاتھوں کا زاویا ایسا بنایا جیسے ابھی اس کا منہ نوچ لے گی ۔
“بس بس ذرا سی بات پر فورا بھڑک جاتی ہو ، مجھے تمہاری یہی عادت بری لگتی ہے اس درِفشاں کو دیکھا ہے کبھی تم سے لڑی ہو “، افراء بیگم نے سمجھاتے ہوۓ کہا ۔
“امی پلیز ۔۔۔۔۔۔اب اپ بھی اس کی مثالیں دینا شروع نہ ہو جائے”۔
“مثالیں نہیں دے رہی سمجھا رہی ہن اپنی زبان اور جذبات کو قابو میں رکھو”۔
“میں اس درِفشاں سے ڈرتی نہیں ہوں “، جائشہ تنک کر بولی۔
“پھر وہی بیوقوفوں والی بات ، اگر تم نے اپنے باپ سے بزتی کروانی کروانی ہے تو کروا لو جو مرضی ہے کرنا کرو بعد میں مجھے نہ کہنا پھر”، اور افراء بیگم غصے سے چائے اٹھا کر چلی گئی ۔
اور پیچھے سے جائشہ کا بس نہیں تھا چل رہا درفشاں کا منہ نوچ لے ۔
______________________
یشب نے ابھی موٹر سائیکل سٹارٹ ہے ہی کی تھی کہ پیچھے سے ارصم کی آواز آی، وہ رکنا تو نہیں تھا چاہتا لیکن جب ارصم قریب پہنچ گیا تو اسے رکنا پڑا ، یشب کا موڈ پہلے ہی بہت خراب تھا۔
“کہا ں جا رہے ہو”، ارصم نے پوچھا ۔
“کام سے جا رہا ہوں”۔
“میں بھی تمھارے ساتھ چلوں”۔
“ضرورت نہیں میری کمپنی میں تم خراب بی ہو سکتے ہو”، یشب نے کہا ۔
“مطلب۔” ۔۔۔۔۔ارصم نے حیران ہو کر کہا ۔
“یہ سوال تم جا کر اپنی امی سے پوچھو”، یشب نے تنک کر کہا ۔
“ہوا کیا ہے”، ارصم نے چونک کر کہا ۔
“آج تک امی ، ابو نے مجھ سے کوئی سوال نہیں پوچھا اور نہ ہی کوئی پابندی لگائی ہے، لیکن کل امی نے مجھ سے کچھ پوچھا انھے لگتا ہے کہ میری کمپنی ٹھیک نہیں ہے ، مرے دوست آوارہ ہے ، میں غلط کام میں ملوث ہوں اور یہ فتور ڈالنے والی کون ہے امی کے دماغ میں تمہاری پیاری والدہ محترمہ اور میری دیریسٹ تائی جان”، یشب نے چبا چبا کر کہا ۔
“مجھے میرے پرنٹس کے سامنے برا اور تمہاری تعریف اور فرماں برداری کے جو جھوٹے جنڈے غاڑ کے گئیں ہیں نہ اگر میں وہاں ہوتا تو ارصم تم بھی جانتے وہاں کیا ہوتا ” کون کیا ہے یہ تم بھی اچھی طرح جانتے ہو”، یشب کی آواز اور چہرے میں اتنا غصہ تھا کے کچھ لمحے کے لئے ارصم بول ہی نہ سکا۔
“یار میری بات کا یقین کرو میں نہیں جانتا امی نے ایسے کیوں کہا ، لیکن میں تو تمھارے بارے میں ایسا کچھ نہیں کہا”، ارصم نے بےچارگی سے کہا ۔
“تم ایسا کچھ کہ بھی نہیں سکتے”، یشب نے آنکھیں گاڑتے ہوا کہا،اور اگلے ہی لمحے وہ موٹر سائیکل پر بیٹھ کر چلا گیا۔
اور پیچھے سے ارصم نے اس کی پشت کو دیکھتے ہوئے گالی دی۔
______________________
اچھا مطلع کیسے لکھیں؟
(پہلا حصہ) میں پہلے ہی اس موضوع پر لکھنے کا سوچ رہا تھا اب "بزمِ شاذ" میں بھی ایک دوست...