دل خون کے آنسو رو رہا تھا ۔۔ یہ حرکت کرتے وہ مسلسل ایک ان دیکھے خوف کی زد میں تھی ۔۔۔ ضمیر بار بار اسے کچوکے لگا رہا تھا وہ غلط کر رہی ہے ، لیکن اسکی عزت و آبرو کا سوال تھا ۔۔ وہ مرتی کیا نہ کرتی اسے کرنا پڑ رہا تھا ۔۔۔ اسٹڈی میں حساس اداروے کے متعلق اسے کوئی انفارمیشن نہیں مل سکی۔۔
ہوسکتا ہے دائم کے لیپ ٹاپ میں ہو ،،
اسکے ہاتھ مسلسل کانپ رہے تھے ۔۔۔ آنکھوں سے آنسو جاری تھے ۔۔ لیپ ٹاپ کی اسکرین روشن ہوتے ہی پاسورڈ مانگ رہی تھی ، یہ بات تو اسکے گماں میں بھی نہیں تھی لیپ ٹاپ پر پاسورڈ بھی ہوگا ۔۔
اب وہ پاسورڈ کہاں سے لائے؟؟؟
دائم سے مانگنا مطلب اسے خود پر شک کرنے کا موقع دینے کے مترادف تھا ۔۔۔ جو وہ مر کر بھی نہیں ہونے دے سکتی تھی ۔۔۔ لاک کھلنے کی آواز پر اسکا دل تیز تیز دھڑکنے لگا ۔۔ خارجی دروازے سے ابھرتی قدموں کی چاپ سن کر اس نے جلدی سے لیپ ٹاپ اسکرین بجھا دی۔۔ مطلوبہ جگہ رکھ مڑی ہی تھی کہ دائم سامنے تھا ۔۔۔
لمحے کے ہزارویں حصے میں دائم کی نظروں نے اسکے وجود کی لرزاہٹ ، ہاتھوں کی کپکپی ۔۔۔ آنکھوں کی سرخی بوجھ لی تھی ۔۔۔ اور وہ اسکا لیپ ٹاپ لیئے بیٹھی تھی۔۔ ایسا حرکت اس نے آج تک نہیں کی تھی۔۔ دائم کو کچھ غیر معمولی سا احساس ہوا ۔۔۔
شفق ؟؟؟ وہ بری طرح سے چونکا ۔۔۔
تم نہیں تھے تو میں ۔۔۔سوچا کیوں نہ ۔۔ ا ۔۔۔ایزی کو دیکھ آئوں۔۔ وہ سو گئی ہے کھانا کھا کر !
وہ ہکلائی ۔۔ بن مانگے صفائی دینے لگی
دائم کا شک پریشانی میں بدلنے لگا ۔۔
تم ٹھیک تو ہو ؟؟؟
اندھیرے کے بعث اسکا چہرہ واضع نظر نہیں آرہا تھا ۔۔
دائم کی پیش قدمی پر وہ گھبرائی سی کئی قدم پیچھے ہٹی ۔۔۔
مجھے لگتا ہے مجھے چلنا چاہیئے ! اب تو تم بھی آ گئے ہو وہ روانی سے کہتی الٹے قدموں دروازہ پار کر گئی ۔۔
دائم انتہائی پریشانی کے عالم میں منصور کو کال ملانے لگا ۔۔ ایزی کو تو وہ خود سلا کر گیا تھا ۔۔
پھر شفق نے ایسا کیوں کہا !
ہاں منصور ؟ شفق کب سے تھی اپارٹمنٹ میں ؟؟؟
دوسری جانب اس پر جو انکشاف ہوا ۔۔اسے طائو دلاگیا
دائم نے سختی لب بھینچے ۔۔۔
کیا مسلہ ہے تمہارے ساتھ شفق ؟؟؟؟ وہ زیر لب بڑبڑایا ۔۔۔ جبکے منصور کے مطابق وہ کچھ پانچ منٹ پہلے ہی آئی تھی ۔۔ شفق نے کبھی اس سے جھوٹ نہیں بولا تھا !
نہ ہی اسکی چیزوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی تھی ،
انتہائی ضرورت کے وقت بھی وہ اسکا لیپٹاپ زیر استعمال نہیں لا سکتی تھی کیونکہ جانتی تھی ۔۔ اس میں حساس معلومات ہیں ۔۔ پھر آج ایسی حرکت کیوں ؟؟؟ اس کے اندر کچھ بری طرح سے کھٹکا ۔۔ وہ فوری طور پر کسی نمبر پر کال ملانے لگا ۔۔۔
____________________________________
ان بدزات فوجیوں کے ہاتھوں تم آخر پکڑے کیسے گئے حاکم ؟؟؟
کمانڈر کا شک درست نکلا ۔۔۔ مقابل لوگوں نے انہیں قاسم کا جھانسا دے کر رہائش پر چھاپا مارا اور دھماکے سے بوسیدہ مکان کے پرخچے اڑا دیا ۔۔۔
کمانڈر انتہائی طیش کے عالم میں ٹہل رہا تھا
کسے معلوم اب حاکم زندہ تھا ؟ یا ملٹری کے ہتھے چڑھ گیا تھا!
چلو یہاں سے نکلتے ہیں درباس ۔۔میں جیب لے کر آتا ہوں ، تھر میں میں نے ایک جگہ دیکھی رکھی ہے وہاں کچھ دن قیام کریں گے ، ضرورت پڑی تو امداد بلوائیں گے اور ان فوجیوں کو تو ناکوں چنے نہ چبوائے تو میرا نام بدل دینا ۔۔۔ وہ لوگ اس وقت رہائش سے بہت دور جھاڑیوں کی اوٹ میں چھپ کر دوربین سے منظر کو دیکھ دیکھ کڑھ رہے تھے ۔۔۔
درباس؟؟؟
کمانڈر نے اس بار گرجدار آواز کے ساتھ اسے پکارا ۔۔
جو بے توجہی کا مظاہرہ کر رہا تھا ۔۔ اس واقعے کے متعلق درباس کے چہرے پر ملال اور افسوس کی رمق تک نہیں تھی ۔۔۔ایک پل کے لئے کمانڈر کے اندر کچھ کھٹکا ۔۔
میں جیب لے کر آتا ہوں !
وہ ازلی لاپرواہی سے کہتا اٹھا اور جیپ گھما کر روڈ پر کمانڈر کا انتظار کرنے لگا ۔۔۔ کمانڈر سر جھٹک کر گاڑی میں سوار ہوگیا ۔۔ اس وقت کمانڈر کا شاطر دماغ تیزی سے منصوبہ ترتیب دے رہا تھا ،
اس نے حاکم اور قاسم کو واپس بلوانے کا انتظام کرلیا تھا ۔۔ اب بس عمل کرنا باقی تھا ۔۔۔رخ موڑ کر سنجیدگی سے ڈرائیونگ کرتے درباس پر ڈالی ۔۔ وہ اب بھروسے کے قابل نہیں رہا تھا ۔۔۔کمانڈر کے دل میں اب بال آچکا تھا ۔۔ اس بات سے بے خبر درباس ہاسپٹل والی حسینہ کو تصور میں سوچتے ہوئے کسی اور ہی دنیا میں سفر رہا تھا ۔۔۔
____________________________________
تمہیں کہا تھا ، وہ ڈسک ہمیں نہیں ملی تو تمہاری وڈیو تمام سوشل سائیٹس پر اپلوڈ ہوجائے ۔۔۔
وہ ڈسک کہاں ہے ذلیل عورت؟؟؟
اشتعال انگیزی سے بالوں کو مٹھی میں دبوچ کر چیختے ہوئے پوچھنے لگا ۔۔۔ شفق کی چیخیں خالی کمرے میں گونجنے لگیں ۔۔ جواب نہ پاکر اس شخص نے اسکا سر دیوار میں دے مارا اور تن فن کرتا وہاں سے نکل گیا ۔۔۔
ضرب کاری کے بعث شفق کا دماغ گھومنے لگا تھا ۔۔۔
منصور جو دوربین لگائے اس کا پیچھا کرتا ہوا یہاں تک آیا تھا۔۔۔دائم کو خبر کرتاہوا اسکی طرف دوڑا ۔۔۔
آپ ٹھیک ہیں ؟؟؟ ہیلو ؟؟؟
میڈم؟ آپ ٹھیک تو ہیں؟ میں یہاں گزر رہا تھا ۔۔ آپ کو اس خالی دکان میں دیکھا تو تعجب سے چلا آیا ۔۔۔ آپ ۔۔۔!!!
بات کرتے وقت اس نے زرا سا شفق کا کندھا ہلایا تو وہ بے ہوش ہو کر ایک طرف لڑھک گئی۔۔
ڈیم اٹ !! وہ افسوس سے سر جھٹکتا ہوا ۔۔۔ اسے اٹھا کر جیب میں ڈالنے لگا ۔۔۔
____________________________________
آج تو آپ نے حد ہی کردی ۔۔ اتنی دیر لگادی !
وہ منہ بسورتے ہوئے ناشتے کے انتظار میں اِدھر اُدھر ٹہل رہی تھی ۔۔۔
الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔۔ دیر سے تم اٹھی ہو اور الزام مجھے دے رہی ہو
دائم اسکی شکایت رد کرتا ہوا بولا ۔۔۔
جبکے اسکے ہاتھ تیزی سے انڈہ پھیٹنے لگے۔۔۔
فون بجنے کی آواز پر متوجہ ہوا۔۔۔ مگر ایزی اس سے بھی پہلے کرسی پر چڑھی اور فون کی اسکرین پر انگلی گھما کر دائم کے کان سے لگایا ۔۔۔
واٹ؟؟؟؟؟؟ منصور کی بات سن کر وہ بری طرح چونکا ۔۔۔ اسکی آواز خوبخود بلند ہوتی گئی ۔۔
۔ تم اسے فورا ہاسپٹل لے کر جائو میں بھی پہنچتا ہوں !
وہ پریشانی سے بولا ۔۔
ایزی کے فکر مند چہرے پر نظر پڑی تو اسے احساس ہوا ۔۔ اسکی موجودگی میں دائم کو بات نہیں کرنی چاہیئے تھی ۔۔۔۔ شفق اسے پریشان کیئے دے رہی تھی ۔۔۔ کل رات اسکی چیزوں کو ٹٹولنا اور آج کسی انجان شخص سے ملنا، اور اس شخص کا شفق پر ہاتھ اٹھانا دائم کو بری طرح سے چونکا گیا ۔۔ اسکی پریشانی میں مزید اضافہ ہونے لگا ۔۔۔
کیا ہوا پاپا؟؟؟
ایزی کی تفکر بھری آواز کانوں میں گونجی تو ہوش کی دنیا میں لوٹا ۔۔۔
کچھ نہیں بیٹا ، ایک دوست کو چوٹ لگ گئی ہے اسکی طبیعت معلوم کرنے جانا ہے ،
وہ کہتے ہوئے مڑا ۔۔
شفق کو چوٹ لگی ہے ؟؟؟
دائم کے حرکت کرتے ہاتھ تھمے ۔۔۔ اسکے دوست کی حیثیت سے وہ صرف شفق کو ہی جانتی تھی۔۔۔
وہ جواب دیئے بغیر انڈہ پین میں ڈال کر اسکے لئے جوس نکالنے لگا ۔۔۔
تم آج ڈرائیور انکل کے ساتھ اسکول چلی جانا ، مجھے بہت ضروری کام ہے بیٹا ، وہ تمہیں واپسی پر پک بھی کرلیں گے !اسکے بعد تم گھر ہی رہو گی !
ناشتہ سرو کرتے ہوئے تاکید کی ۔۔
اوکے پاپا !
ایزی نے سعادت مندی سے سر ہلایا ۔۔۔ ڈرائیور اور منصور ایجنسی کے متعلقہ لوگ تھے ۔۔ وہ ایزی کی طرف بے دھڑک ہوکر ان پر بھروسہ کر سکتا تھا ۔۔۔ مگر شفق نے اسے نئی الجھن میں ڈال دیا تھا ۔۔۔ ایزی کو اسکول روانہ کرنے کے بعد وہ ہاسپٹل پہنچا تو منصور سے ایک نئی کہانی سننے کو ملی ۔۔ شفق اسے جھانسا دے کر گھر چلی گئی تھی ۔۔
وہ آخر ایسا کیوں کر رہی تھی ؟؟؟؟ اسی سوال کا جواب جاننے کی خاطر دائم اپنے سبھی کام پس پشت ڈال کر اسکے گھر کا رخ کرنے لگا ۔۔۔
____________________________________
وہ سوکھے پتے کی مانند کی لرزنے لگی ۔۔۔ دل و جان سے اللہ کے آگے دعا گو تھی کہ اسکی عزت و آبرو محفوظ رہے ۔۔ جانے کس گناہ کی سزا مل رہی تھی اسے ۔۔ وہ تو بہت سادہ اور سیدھی سی لڑکی تھی ۔۔
وہ ازیت کی آخری حدوں پر تھی ۔۔۔ پورا وجود کپکپی کی زد میں تھا ۔۔۔ ان دیکھے انجانے خوف کی شدت سے !
اسی لمحے اسکے لیپ ٹاپ پر پیغام موصول ہونے لگے ۔۔۔ اسے کسی ویب سائیٹ کا لنک پیغام کے زریعے بھیجا گیا ۔۔ کپکپاتے ہاتھوں سے اس نے لنک کھولا تو چودہ طبق روشن ہوگئے ۔۔۔ وہی ہوا جس کا ڈر تھا ۔۔
شفق کی آنکھیں خوفناک حد تک پھیل گئیں ۔۔ ۔۔ وہ لیپ ٹاپ سے ایسے دور ہٹی جیسے وہ کوئی سانپ بچھو ہو ۔۔۔ وہ بری طرح چیخنے لگی ۔۔۔ کمرے کے در و دیوار تک لرز اٹھے ۔۔۔ کانوں پر ہاتھ آنسوئوں کے چیخ چلا رہی تھی ۔۔۔ دائم تقریبا دوڑتا ہوا اسکے کمرے میں آیا ۔۔۔ اسکا دیوانوں جیسا حلیہ اور چیخ و پکار دائم کے ہاتھ پیر ٹھنڈے پڑنے لگے ۔۔۔
شفق ؟؟؟؟ کیا ہوا تمہیں ؟؟؟
وہ صدمے اور غیر یقینی سے اسکی طرف بڑھا ۔۔ مگر وہ ہنوز دیوانوں کا سا رویہ اپنائے ہوئے تھی ۔۔۔
شفقققققق!!! دائم کو نا چاہتے ہوئے بھی بلند آواز اسے پکارنا پڑا ۔۔ وہ رک کر اسکا چہرہ دیکھنے لگی
۔۔د ۔۔۔۔ائمم۔۔۔ممم!
وہ بلک بلک کر اسکے سینے میں منہ چھپا کر رودی ۔۔۔
دائم کو احساس ہوا وہ بخار کی حدت سے پھنک رہی ہے ۔۔۔ تمہیں کیا ہوگیا ہے ؟؟؟
دائم سناٹے میں رہ گیا ۔۔ پتا نہیں وہ کب سے اس مسلے کا شکار تھی ۔۔۔
پلیز۔۔ مجھے بچا لو ! پلیززز مجھے بچا لو دائمممم !
مارے خوف کے اسکی آواز سرگرشیوں میں تبدیل ہونے لگی ۔۔۔ دائم ساکت رہ گیا ۔۔
کچھ لمحے کے لئے بول ہی نہ سکا۔۔۔
ش۔۔۔فففقققق ! تم ہاسپٹل سے واپس کیوں آگئی ۔۔۔؟؟
کچھ لمحے بعد وہ بولنے کے قابل ہوا تو شفق کا کندھا ہلایا ۔۔ مگر وہ بد حواس ہوکر اسکی بانہوں میں جھول گئی ۔.
او خدا !!!! شفق آنکھیں کھولو؟؟؟ شفق ؟؟؟
اسکی نبض ٹٹولی تو بہت دھیمے چل رہی تھی ۔۔ وہ اسے اٹھا کر ہاسپٹل کی جانب دوڑا ۔۔
بد قسمتی سے بیڈ پر اوندھا پڑا لیپ ٹاپ اسکی توجہ نہ حاصل کرسکا ۔۔۔ شفق کی ماں جو گولیوں کے زیر اثر محو خواب تھی انہیں بھی کچھ خبر نہیں ہوسکی ۔۔۔
ڈاکٹر نے شفق کو ایڈمٹ کرلیا تھا
دائم پریشانی سے لب بھینچے راہداریوں میں چکر کاٹ رہا تھا ۔۔۔ڈاکٹر کو آتے دیکھ کر دائم اضطراری کیفیت میں آگے بڑھا ۔۔۔
کیا ہوا اسے ؟؟؟
کیبن میں چلو ، تفصیل سے بتاتا ہوں ،
دائم نے اثبات میں سر ہلایا اور اسکے پیچھے چل دیا ۔۔
شفق کو شدید گہرا صدمہ پہنچا ہے کسی چیز سے متعلق اسکا دل نارمل کنڈیشن میں نہیں ہے ، بلڈ پریشر بھی خطرناک حد تک لو ہے !
دائم یک لخت ساکت رہ گیا ۔۔ وہ تو اچھی بھلی تھی ۔۔ پھر بھلا اسے کس چیز کا صدمہ ہوگیا !
کیا کہوں ؟ میری تو خود کچھ سمجھ نہیں آرہا !
اس نے سر پکڑ لیا ۔۔۔
تم اسکے لئے دعا کرو ، وہ بہت کرٹیکل کنڈیشن میں ہے ، دائم نے ساختہ سر اٹھایا ۔۔۔
چند گھنٹوں میں اگر بلڈ نارمل کنڈیشن میں پاور نہیں کرے گا اور بلڈ ریز نہیں ہوگا تو وہ کومہ میں بھی جا سکتی ہے ! دائم بے چینی سے کرسی چھوڑ کر اٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔
دعا کرو تم ، انشااللہ سب بہتر ہوگا !
ڈاکٹر نے تسلی بھرے انداز میں کہا ۔۔۔
دائم کے لئے ہر گزرتا لمحہ قیامت کے تعین تھا ۔۔۔
ڈاکٹر لمحہ بہ لمحہ اسکی کنڈیشن نوٹ کر رہے تھے ۔۔۔
وہ امپروو کرنے کے بجائے ہاتھ پیر چھوڑ رہی تھی ۔۔۔
وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھ سکتا تھا۔۔۔
اسے کچھ تو کرنا ہی تھا ۔۔ کچھ بہت ضروری
منصور معاملے کی چھان بین کر رہا تھا ۔۔۔ آس پاس سویلین کپڑوں میں شفق کے لئے تعینات کیئے گئے گارڈز پر نظر ڈالتا ۔۔۔ اسکے مجرموں کو زیر زمین زندہ دفن کرنے کے اردے سے اٹھا اور باہر نکل گیا ۔۔
___________________________________
تھر کے پہنچتے ہی ۔۔۔ کمانڈر نے بھرپور انگڑائی لی اور جست لگا کر ریتلی زمین پر قدم جمائے ۔۔۔
درباس کا ماتھا ٹھنکا ۔۔ دال میں کچھ تو کالا تھا
کیا بات ہے کمانڈر؟؟؟ حاکم کی غیر موجودگی کا اثر تو نہیں کہیں !
اسکے لہجے میں ہلکا سا تنز کا تاثر ابھرا ۔۔۔
کمانڈر نے رک کر اسے دیکھا ۔۔۔
سمجھو ترب کا اکا آگیا ہمارے ہاتھ میں ، اب دیکھنا کیسے بازی پلٹتی ہے !
کمانڈر پر مسرور کن امداز میں کہتا جیپ سے سامان نکال کر ویرانے میں لے جانے لگا ۔۔
درباس ابرو اچکائے اور ڈارائیونگ سیٹ چھوڑ کر کمانڈر کی تاکید میں چلتا ہوا دو کمروں پر مشتمل کچے مکان کے سامنے آرکا۔۔۔ دستک کے لئے ہاتھ اٹھایا ہی تھا کہ دروازہ کھل گیا ۔۔۔ ایک اٹھارہ سالہ لڑکا برآمد ہوا ۔۔
اور راستہ چھوڑ کر ایک طرف ہوگیا ۔۔۔
یہ کون ہے ؟؟؟ اور ۔۔۔۔ یہ سب انتظام کس نے کیا ؟؟؟؟ درباس اطراف میں نگاہ ڈال کر سوال کرنے لگا ۔۔۔
کمرے میں ایک طرف ٹیبل اور چیئر جس پر لیپ ٹاپ اور اسلحہ پڑا تھا ۔۔
دوسری جانب سلینڈر پر ہنڈیا میں کچھ پک رہا تھا ۔۔۔
میں نے بلایا ہے اسے ، آج سے سارے کام یہی کرے گا ،
لڑکے کے بجائے کمانڈر کی طرف سے جواب آیا ۔۔۔
ہاتھ میں پکڑا سامان ایک طرف رکھ کر گھاس پوس کے بستر پر ڈھیر ہوگیا ۔۔۔
درباس نے اچھنبہ سے رخ موڑ کر ہانڈی میں چمچ ہلاتے لڑکے کو دیکھا اور ٹیبل کے مقابل کرسی سنبھال لی ۔۔۔
آگے کیا کرنا ہے ؟؟؟
جھک کر مٹی سے اٹے بوٹوں کو پیروں سے آزاد کرتا ہوا پوچھنے لگا ۔۔۔ انداز انتہائی سرد اور رسمی سا تھا ۔۔۔
تم اس سے پہلے کہاں تھے ؟؟؟
جواب کے بجائے سوال سن کر درباس نے چونک کر سر اٹھایا ۔۔
شام ! مختصر سا کہا۔۔
کتنے سال ؟؟؟
اگلے سوال پر درباس کے نقوش تنے ۔۔ وہ سیدھا ہو بیٹھا ۔۔۔ لگتا ہے حاکم کی پلیٹ سے کھانا شروع کردیا تم نے بھی کمانڈر !!! صحبت رنگ دکھا رہی ہے ، اگر مجھ پر کسی قسم کا شک ہے تو بندوق اٹھائو ۔۔اور گولیاں میرے حلق اتار کر حساب لے لو ، ورنہ اگر مجھے غصہ آگیا نا تو تمہارے اندر کا تفتیشی افسر باقی نہیں رہے گا !
وہ لفظ بہ لفظ جتا کر بے باک لہجے میں کہتا کرسی کو ٹھوکر مار کر اٹھا ۔۔۔
کمانڈر کئی لمحے خونخوار نظروں سے اسے گھورتا رہا پھر قہقہہہ لگا کر ہنس پڑا ۔۔۔
اسکا بے باک اور نڈر لہجہ کبھی کبھی کمانڈر کو پریشانی میں ڈال دیتا تھا ۔۔۔
منہ ہاتھ دھو لو ، اور کھانا کھا لو پہلے ، اسکے بعد ہم شہر جا رہے ہیں ضروری کام سے !
کمانڈر کے الفاظ اسکے کانوں میں پڑے تھے مگر وہ سنی ان سنی کرتا لکڑی کا بوسیدہ سا دروازہ دھکیل کر باہر نکل گیا ۔۔
کمبخت ، انا پرست !
کمانڈر اسکی پشت کو گھورتے ہوئے کڑوے کسیلے لہجے میں بولا اور اٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔
میری شکل کیا دیکھ رہے ہو ، کھانا لگائو ہمیں اور بھی بہت کام ہیں ! کمانڈر کمانڈر نے اٹھتے اٹھتے لڑکے کو بری طرح سے جھڑک دیا ۔۔۔ لڑکا گھبرا کر جلدی جلدی ہاتھ چلانے لگا۔۔۔
___________________________________
یہ سفری بیگ اپنے ساتھ رکھ لو۔۔ اس میں میری بیوی نے کچھ کھانا ، اور پانی رکھ دیا ہے ۔۔۔ یہاں سے روز ایک بس بارڈر کے پار جاتی ہے ، تم اس میں باآسانی سفر کر سکتی ہو بشرطیکہ تمہارے پاس شناختی دستاویز ہوں
بوڑھے ضعیف نے رسان سے کہتے ہوئے سیاہ رنگ کا بیگ اسے تھمایا ۔۔
شزانہ جو دکھ بھری نگاہوں سے اپنے پیر سوجن دیکھ رہی تھی چونک کر سر اٹھایا ۔۔۔
شناختی دستاویز ؟؟؟ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے ! اور ۔۔۔۔ میں بارڈر کے پار جا کر کیا کروں گی ، مجھ شہر جانا ہے ۔۔۔ میں کسی بھی شہر جا کر روپوش ہوجائو گی مگر ۔۔۔ بارڈر کے پار ۔۔۔!! وہ رکی ۔۔۔
اور مڑ کر لمبی سڑک کو دیکھنے لگی ۔۔۔
میرا وہاں کیا کام بابا ۔۔۔ میں وہاں نہیں جانا چاہتی ، تھک گئی ہو بھاگتے بھاگتے، صبر کرتے کرتے !
اب تو شکست جیسے مقدر میں لکھ دی گئی ہے !
میں تھک گئی ہوں زندگی کی جنگوں سے لڑتے لڑتے ، میں بہت بے بس ہوگئی ہوں بابا ! میں اور نہیں بھاگ سکتی
وہ آنکھوں پر ہاتھ جمائے ہچکیوں سے رودی ۔۔۔
جسے تم بےبسی کہہ رہی ہو یہ صبر کی وہ حد ہے جہاں فیصلے تمام ہوتے ہیں! کیا پتہ تمہیں آج ہی حساب کتاب کے بعد سرخرو کردیا جائے! ہو سکتا ہے عرش پر تمہاری فتح کی تیاری کی جارہی ہو۔ کیا پتہ جسے تم مستقل شکست سمجھ رہی ہو وہ جیت کی پہلی منزل ہو! اور کیا پتہ تمہاری مستقل دعائیں ‘اُسے’ تمہاری تقدیر بدلنے پر راضی کردیں
وہ دعاؤں کا رخ قبولیت کی طرف موڑدے.. جب اس نے قرآن میں کہہ دیا ہے کہ’مجھے پکارو میں تمہاری دعا قبول کرنے والا ہوں’ تو بس یہ جنگ تو یقین کی ہے اور اللہ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے !
مایوس مت ہونا بیٹا ۔۔۔ !!! کچھ جنگیں یقین کی ہوتی ہیں ! اگر درد کی لہروں سے ٹکرا بھی جائو تب بھی صبر کا دامن تھامے رکھنا ہر حال میں ! ہمیشہ یاد رکھنا میری بات !
بوڑھے ضعیف نے شفقت سے اسکا سر تھپتھپانے ہوئے کہا ۔۔۔رہی بات شہر جانے کی تو شہر کے حالات بہت خراب ہیں ، وہ لوگ تمہیں ہر جگہ تلاش کر رہے ہیں ! فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے ، اگر تم اس طرف ہجرت کرجائو تو بہت بہتر ہے ! حالات بہتر ہوں گے تو واپس آجانا ۔۔۔ شہر جانے والی بس کچھ گھنٹے میں جائے گی ، اور سرحد کے پار جو بس جاتی ہے وہ شام کے کسی بھی اس سڑک سے گزرے گی ، اچھا بیٹا اللہ کی امان میں !
بوڑھا ضعیف لاٹھی اینٹھتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔۔۔
شزانہ کی بے تاثر نظریں خالی سڑک پر ٹکی ہوئی تھی ۔۔۔ کیا اسے خالہ کے پاس جانا چاہیئے ؟؟؟
یا واپس شہر چلی جائے ۔۔۔ !!!
لیث نہ جانے کہاں ہوگا ؟ اسے جان کے لالے پڑے ہوئے تھے ، ایسے میں شہر لوٹ کر لیث کو تلاشنا آگ میں کودنے کے برابر تھا۔۔۔ تو کیا وہ اسے وہیں چھوڑ دے گی؟؟؟
فیصلہ کرنا انتہائی مشکل تھا ۔۔ اس نے انتہائی بے بسی کے عالم میں درخت کے تنے سے سر ٹکا کر آنکھیں موند لیں ۔۔۔
ممتاز نعت گو شاعر اور دانشور پروفیسر ریاض احمد قادری
خاندانی پس منظر میرے والد کانام مرزا غلام نبی قادری ، دادا عبدالکریم اور پردادا کانام پیراں دتہ ہے ۔ہمارا...