(Last Updated On: دسمبر 22, 2022)
کل شبِ ہجراں تھی لب پر نالہ بیمارانہ تھا شام سے تا صبح دم بالیں پہ سر یک جا نہ تھا شہرۂ عالم اُسے یمنِ محبت نے کیا ورنہ مجنوں ایک خاک افتادۂ ویرانہ تھا منزل اس مہ کی رہا جو مدتوں اے ہم نشیں اب وہ دل گویا کہ اک مدت کا ماتم خانہ تھا اک نگاہِ آشنا کو بھی وفا کرتا نہیں وا ہوئیں مژگاں کہ سبزہ سبزۂ بیگانہ تھا روز و شب گزرے ہے پیچ و تاب میں رہتے تجھے اے دلِ صد چاک کس کی زلف کا تُو شانہ تھا یاد ایامے کہ اپنے روز و شب کی جائے باش یا درِ بازِ بیاباں یا درِ مے خانہ تھا بعد خوں ریزی کے مدت بے حنا رنگیں رہا ہاتھ اس کا جو مرے لوہو میں گستاخانہ تھا غیر کے کہنے سے مارا اُن نے ہم کو بے گناہ یہ نہ سمجھا وہ کہ واقع میں بھی کچھ تھا یا نہ تھا صبح ہوتے وہ بنا گوش آج یاد آیا مجھے جو گرا دامن پہ آنسو گوہرِ یک دانہ تھا شب فروغِ بزم کا باعث ہوا تھاحسنِ دوست شمع کا جلوہ غبار دیدۂ پروانہ تھا رات اُس کی چشمِ میگوں خواب میں دیکھی تھی میں صبح سوتے سے اُٹھا تو سامنے پیمانہ تھا رحم کچھ پیدا کیا شاید کہ اس بے رحم نے گوش اُس کا شب ادھر تا آخرِ افسانہ تھا میرؔ بھی کیا مستِ طافح تھا شرابِ عشق کا لب پہ عاشق کے ہمیشہ نعرۂ مستانہ تھا