اس سے پہلے ہی مونیکا جادوگرنی نے اسے پکڑ لیا اور اسے لے کر آسمان کی طرف اڑنے لگی۔ علی فرانچسکو کا تازہ خون پی کر مکمل وحشی بھیڑیا بن گیا تھا۔ اس نے فرانچسکو کی ٹانگ چھوڑی اور گلے کی طرف بڑھا۔ وہ اس کے گلے کا خون پینا چاہتا تھا۔ فرانچیسکو زمین پر پڑا تڑپ رہا تھا۔ بھیڑیے نے اس کی پوری پنڈلی ہی چبا ڈالی تھی۔ اور اب وہ اس کے گلے کی طرف بڑھ رہا تھا۔ بھیڑیا جیسے ہی اس کے نزدیک آیا فرانچسکو نے جلدی سے ہاتھ میں پکڑا ہوا سرخ پھول اس کے آگے کردیا۔ پھول کی خوشبو جیسے ہی بھیڑیے کے ناک سے ٹکرائی تو اسے ایک جھٹکا سا لگا اور وہ دور ہٹ گیا۔ فرانچسکو نے ہمت کی اور دوبارہ اس کے آگے سرخ پھول کردیا۔ بھیڑیے نے اسے سونگھا اور وہ انسانی شکل میں آ گیا۔ علی کا وحشی پن ختم ہوا تو اسے شہزادی جولیا کی فکر ہوئی۔ اس نے سر اٹھا کر اوپر دیکھا وہاں مونیکا جادوگرنی اسے تیزی سے اوپر آسمان کی طرف لے جارہی تھی۔ علی تم نے سارا کام خراب کر دیا ہے میں بھی شہزادی جولیا کو بچانے کے لیے آیا تھا لیکن تمہارے حملے کی وجہ سے میری ٹانگ زخمی ہوگئی ہے۔ اگر تم مجھ پر حملہ نہ کرتے تو میں شہزادی جولیا کو بچا لیتا۔ فرانچسکو نے تکلیف سے کراہتے ہوئے کہا۔ اس کے ٹانگ علی نے پوری چبا ڈالی تھی۔ وہ بے بسی سے اوپر آسمان کی طرف جاتی ہوئی شہزادی جولیا کو دیکھ رہا تھا۔ مونیکا جادوگرنی اسے ہوائی قلعے میں لے جاتی اور وہاں اسے قتل کر کے اس کا خون پی لیتی اور پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتی۔ شہزادی جولیا کو بچانے کے لیے تو میں آیا تھا۔ مجھے لگا تم دشمن ہو اور شہزادی جولیا کو نقصان پہنچانے لگے ہو اسی لیے میں نے تم پر حملہ کیا تھا۔ میں کسی کو بھی شہزادی جولیا کے نزدیک نہیں آنے دینا چاہتا تھا۔ علی نے جلدی سے کہا۔ وہ اوپر آسمان کی طرف ہی دیکھ رہا تھا۔ مونیکا جادوگرنی اسے لے کر آسمان میں اوپر سے اوپر ہوتی جا رہی تھی۔ ہم دونوں شہزادی جولیا کو بچانے آئے تھے لیکن بدقسمتی سے اسے نہ بچا سکے۔ ہم اب کبھی بھی شہزادی تک نہیں پہنچ سکتے ہیں۔ علی نے مایوسی سے کہا۔ بچو مایوسی گناہ ہے۔ جو مایوس ہوجاتا ہے اس کی زندگی ختم ہو جاتی ہے۔ سیلا نے دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ زیر لب ہلکا سا مسکرا رہا تھا۔ ہم آپ کیا کرسکتے ہیں۔ مونیکا جادوگرنی اسے اوپر آسمان کی طرف لے کر اڑ رہی ہے۔ ہم اوپر آسمان میں نہیں جاسکتے۔ علی بے بسی سے سیلا کی طرف دیکھنے لگا۔ اچھا تم اوپر نہیں جا سکتے تو کیا ہوا میں تو اوپر جا سکتا ہوں ناں اور تمہیں بھی لے کر جا سکتا ہوں۔ سیلا نے مسکراتے ہوئے کہا اور اس کے ساتھ ہی اس نے ایک قلابازی کھائی اور دوسرے ہی لمحے وہ ایک بہت بڑا باز بن گیا۔ چلو جلدی کرو اور دونوں میرے اوپر بیٹھ جاؤ میں تمہیں اوپر ہوائی قلعے میں لے جاتا ہوں۔ باز نے انسانی آواز میں کہا تو علی اور فرانچسکو دونوں جلدی سے اس کے اوپر بیٹھ گئے۔ باز انہیں لے کر اوپر آسمان کی طرف اڑا اور ہوائی قلعے میں لے گیا۔ وہاں مونیکا جادوگرنی نے شہزادی جولیا کو بونے شیطان کے پتلے کے سامنے لٹایا ہوا تھا اور ایک خنجر لے کر کچھ پڑھ رہی تھی۔ وہ شہزادی جولیا کو شیطان بونے کے قدموں میں قربان کرنے والی تھی۔ مونیکا جادوگرنی رک جاؤ تم کبھی بھی اپنے شیطانی مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتی ہو۔ علی نے چیختے ہوئے کہا۔ باز بھی اب واپس سیلا کے روپ میں آگیا تھا۔ سیلا دراصل روحانی بزرگ نورشاہ ہی تھے جنہوں نے علی کو میلان بھیجا تھا اور وہ خود بھی شہزادی جولیا کی مدد کے لئے آگئے تھے۔ برائی کی طاقتوں کے خلاف ہمیشہ روحانی طاقتیں مقابلہ کرتی ہیں۔ بزرگ نورشاہ نے آنکھیں بند کرکے ایک عمل پڑا تو اس کے ہاتھ میں تلوار آگئی۔ اس نے تلوار علی کو دی اور اسے مونیکا جادوگرنی سے لڑنے کا کہا۔ علی نے تلوار کو ہوا میں لہرایا اور مونیکا جادوگرنی کی طرف بڑھا۔ جادوگرنی مونیکا کے ہاتھ میں بھی ایک تلوار نمودار ہوئی اور وہ بھی مقابلے پر آ گئی۔ وہ دونوں ایک دوسرے سے لڑنے لگے۔ دونوں ہی تلواربازی میں ماہر تھے اور دونوں ہی بڑھ چڑھ کر ایک دوسرے پر حملہ کر رہے تھے۔ مونیکا جادوگرنی جادو کرنا چاہتی تھی لیکن روحانی بزرگ نورشاہ ان کے کسی بھی جادو کو پورا نہیں ہونے دے رہے تھے۔ کافی دیر تک دونوں ایک دوسرے سے لڑتے رہے آخر علی کو ایک موقع مل گیا۔ جادوگرنی نے تلوار گھمائی تو علی نیچے کی طرف جھکا تلوار کا وار اس کے سر کے اوپر سے چلا گیا۔ جادوگرنی کو ایک جھٹکا لگا اور وہ آگے کی طرف بڑھی۔ علی اوپر اٹھا اور اس نے ایک بھرپور وار جادوگرنی کی گردن پر کیا۔ تلوار کے لگتے ہی جادوگرنی کا سر تن سے جدا ہو گیا۔ جادو گرنی کے مرتے ہیں وہاں اندھیرا چھا گیا اور چاروں طرف آندھیاں چلنے لگیں۔ اپنی آنکھیں بند کر لو سیلا کی آواز آئی تو سب نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ آندھیاں کچھ دیر تک چلتی رہی اور پھر ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ اچانک چاروں طرف سے تالیوں کی آواز آنے لگی۔
رضوان علی گھمن۔ دوستوں کو ضرور مینشن کیجیے۔
اپنی آنکھیں کھول دو سیلا کی آواز دوبارہ آئی تو انہوں نے آنکھیں کھول دیں وہ سب سکول کے گراؤنڈ میں سٹیج پر کھڑے تھے۔ سامنے بیٹھے ہوئے چھوٹے بچے اور ان کے والدین تالیاں بجا رہے تھے۔ فرانچسکو کا پیر بھی بزرگ نے ٹھیک کر دیا تھا۔ اور شہزادی جولیا بھی ٹھیک ہو گئی تھی۔ اسے سب یاد آگیا تھا۔ علی مجھے معاف کردو میری وجہ سے تمہاری ٹانگ ٹوٹ گئی تھی شہزادی جولیا نے آگے بڑھ کر علی سے معافی مانگی۔ کوئی بات نہیں شہزادی صاحبہ آپ ہماری شہزادی ہوں اور شہزادیاں کبھی بھی اپنی رعایا سے معافی نہیں مانگتیں۔ علی جلدی سے آگے بڑھا اور شہزادی جولیا کے سامنے دوزانو ہو کر بیٹھ گیا۔ اس نے اپنے سر کو شہزادی کے سامنے جھکا لیا تھا۔ نہیں علی تم رعایا نہیں ہو تم شہزادے ہو میں تمہیں اپنا شوہر تسلیم کرتی ہوں۔ آج سے تم میرے دل کے شہزادے ہو۔ شہزادی جولیا نے علی کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ فرانچسکو نے برا سا منہ بنایا جبکہ سیلا مسکرانے لگا۔ جادوگرنی مونیکا اپنے انجام کو پہنچ چکی تھی۔ شہزادی جولیا اور علی کچھ دن میلان میں ہی رہے اس کے بعد سیلا نے جو کہ اصل میں بزرگ نور شاہ تھے نے انہیں کالاش واپس بھیج دیا۔ وہاں دونوں نے شادی کر لی۔ بادشاہ کاشان نے تخت وتاج علی کے سپرد کردیا اور وہ سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔
اچھا آپ نے ساری کہانی سن لی اور میرا تعارف تو کسی نے پوچھا ہی نہیں۔ چلو میں خود ہی آپکو اپنا تعارف بھی کروا دیتا ہوں۔ جناب میں ہی علی ہوں۔ علی چرواہا۔ میں اب کالج کا بادشاہ بن گیا ہوں۔ شہزادی جولیا اب میری ملکہ ہے اور وہ نہایت نرم دل اور پیار کرنے والی ملکہ بن گئی ہے۔ ہمارا چھوٹا سا ملک کالاش اب ایک پر امن ملک ہے۔
ختم شد
علامہ اقبال کی جاوید نامہ بنی نوع انسان کا ایک دستور نامہ ہے پروفیسر عبد الحق
علامہ اقبال کی جاوید نامہ بنی نوع انسان کا ایک دستور نامہ ہے: پروفیسر عبد الحق مؤسسۂ مطالعات فارسی درھند...