(Last Updated On: اکتوبر 5, 2023)
پھر اتارا زمیں کے سلگتے ہوئے جسم سے
دست اسرار سے
دھوپ کا سو جگہ سے پھٹا پیرہن
اور آنکھوں میں چھلکیں اندھیرے کی عریانیاں
ٹمٹماتے چراغوں نے دیکھا مجھے
بے نشاں رونقوں۔۔ ۔۔ ایک گزرے ہوئے روز کی خوشبوؤں کے تقاب میں
بھٹکے ہوئے
کتنے گہرے خلا پیش منظر میں تھے
شام کی بیٹھیں کس لیے مہمانوں سے خالی ہوئیں
یار لمبے سفر پر یہاں سے کہاں چل دیے
موسموں کے وطن کی مسافر ابابیل کا آشیانہ یہاں
آج ہے کل نہیں
میں دنوں کے پلندے میں خالی ورق جوڑ کر
سوچتا ہوں یہ ہونے کا انداز میرے حسابوں میں ہے
وہ جو انگلی پکڑ کے مجھے ساتھ لایا یہاں
منظروں، موسموں کے پھریرے اڑاتے ہوئے
بعد میں
بھول کی ٹوکری میں مرے خول کو پھینک کر
بے دھیانی میں
مجھ سے زمانے سے آگے نکل جائے گا
٭٭٭