اوہ تو تم اس لئے یونیورسٹی نہیں گئی !
ہبا نے آنکھیں چھوٹی کرتے ہوئے دانت پیسے.۔۔
اچھا نا ، سمجھا کریں آپی یہ سب کرنا پڑتا ہے اپنے فالوورز کے لئے ۔۔ یوٹیوب پر سیلیبرٹی ہوں میں یو نو ۔۔۔ دس لاکھ فالوورز ہیں میرے !
تاشا اترا کر بولی ۔۔
اور وہ دس لاکھ بے وقوف اور ٹیسٹ لیس لوگ ہیں ! جنہیں تم پسند ہو !
ہبا آپی نے ناک چڑھائی ۔۔
آپ کیوں جل رہی ہو ؟
وہ خوش فہم ہوئی
جلتی ہے میری جوتی ۔۔. میں انسٹاگرام پر میک اپ افلوانسر ہوں بیٹا ! اور تم سے زیادہ فوورز ہیں میرے !
ہبا آپی نے آنکھیں مٹکائیں ۔۔
کونسا سالنسر ؟؟؟
پھپھو کانوں میں بات پڑتے ہی فورا پوچھنے لگیں ۔۔ وہ الگ بات تھی کہ انکے کانوں میں بات پڑنے کے بعد ‘بات ‘ اپنی اصلی حالت میں نہیں رہتی تھی ۔۔ کیونکہ وہ زرا اونچا سنتیں تھیں ۔۔
اوہوووو امی ۔۔۔ سالنسر نہیں influencer !
ہبا آپی نے ماتھا پیٹا ۔۔
تاشا لب دباتے ہوئے انہیں مصروف دیکھ کر کھسکنے کی کوشش کرنے لگی ۔۔
اے لڑکی !!! تمہیں پتا ہے نا ؟ شاہیں ماموں کتنا غصہ کریں گے وہاں جانے پر !
ہبا آپی نے اسے ڈپٹا ۔۔
آپی قسم سے ایک وِلوگ بناکر واپس آجائونگی !
وہ ملتجی ہوئی ۔۔۔
وہ گھر کے باغات کی جانب جانے کی ضد کر رہی تھی ۔۔۔ جو حصہ خطرے کی نشانی سمجھا جاتا تھا ۔۔ بابا نے وہاں جانے سے منع کر رکھا تھا ۔۔ مگر بضد تھی کہ ولوگ بنا کر واپس آجائے گی ۔۔۔
آپی پلیزززززز ۔۔۔ !
وہ معصوم سی صورت بنانے لگی ۔۔
ٹھیک ہے لیکن صرف دس منٹ ! ماموں کے آنے سے پہلے ! اسکی بات لبوں پر ہی تھی کہ وہ زوروں سے اسکے گال کھینچنے لگی ۔۔۔
تھینک یووو سووو مچ آپی ۔۔۔
اچھااا اچھااابسسس !
وہ بوکھلا گئیں ۔۔
لیکن ایک پرابلم ہے ۔۔ نوال تو ہے نہیں آپ آجائیں نا میرے ساتھ ولوگ میں !
وہ اپنا مسلہ بیان کرنے لگی ۔۔
میں ؟؟؟
ہبا آپی پر سوچ انداز میں بولی ۔۔
ہاں ہاں آپ اور کون !
تاشا اسے سوچ میں ڈوبا دیکھ کر فورا بولی ۔۔
ٹھیک ہے تو میں ابھی آتی ہوں زرا ٹچ اپ کرکے !
ہبا آپی کو بس موقع چاہیئے تھا!
اففف اب یہ نو میک اپ ‘لُک’ اپنے چہرے پر لانے کے لئے بھی دس گھنٹے میک اپ کریں گی !
تاشا بڑبڑائی ۔۔
کیا کہا تم نے ؟؟؟
ہبا آپی بھوکی شیرنی کی طرح اسے دیکھنے لگی ۔۔
ککک کچھ بھی تو نہیں ، میں کہہ رہی تھی آپ کو میک اپ کی کیا ضرورت ہے آپ تو ماشااللہ سے ویسے ہی بہت حیسن ہیں ۔۔. لیکن اگر آپ کرنا چاہیں تو ۔۔
وہ زیر زبان بڑبڑائی ۔۔
تم کیمرہ سیٹ کرو میں ابھی آئی بس !
وہ کہہ کر درختوں کے بیچ غائب ہوگئی ۔۔
تاشا تیزی سے ٹرائیپوڈ اسٹینڈ سیٹ کرنے لگی ۔۔۔ اگر یوسف بھائی یا بابا کو اس بات کی بھنک بھی لگ جاتی تو اسکی خیر نہیں تھی ۔۔ ۔ مگر وہ بھی بیوقوف نہیں تھی ۔۔ اس نے سوچا کیوں نہ ہبا آپی کو شامل کر لیا جائے ہوسکتا ہے بابا پھر ہی کچھ لحاظ کرلیں ۔۔ مگر وہ بہت جلد غلط ثابت ہونے والی تھی ؟؟؟
ہبا آپی کو آتے دیکھ کر اس نے ریکارڈنگ شروع کردی ۔۔
ہےےےےے لووووو۔۔۔ ویورز کیسے ہیں آپ سب؟
میں جانتی ہو آپ لوگ مجھ سے ناراض ہوں گے ۔۔ کیونکہ میں نے کافی وقت سے کچھ پوسٹ نہیں کیا کیونکہ میری مصروفیات بہت زیادہ ہیں !
ہبا آپی نے نفی میں سر ہلاتی ہوئے اسکے سنگین جھوٹ کو سنا ۔۔
خیر ۔۔ میرے پاس آپ لوگوں کے لئے ایک سرپرائز ہے ۔۔ گیس واٹ ؟؟؟ ہماری آپ کی ہم دی فیمس میک اپ دیوا۔۔
مسسس ہبا ! وہ پرجوش سی ہوکر چلائی ۔۔
جبکے ہبا آپی خاموشی سے اسکی کھینچی کی طرح چلتی زبان ملاحظہ کر رہی تھیں ۔۔۔
ہبا آپی آئیں نا ؟؟ وہ دبہ دبہ غرائی ۔۔
زرا نزاکت سے آئیں ۔۔۔ آئیں نا ؟؟؟ نزاکت سے زرا لہرا کہ ۔۔
وہ اسے باقاعدہ لہرا کر دکھانے لگی ۔۔
کیا ہورہا ہے یہاں ؟اور تم دونوں یہاں کیوں آئی ہو؟؟
شاہیں صاحب کی آواز پر گویا دونوں کو سانپ سونگھ گیا ۔۔۔تاشا نے تیزی سے ٹہنی پر لگے پتے کی مانند کی اپنا سیل فون ٹرائیپوڈ اسٹینڈ سے کھینچا اور اسٹینڈ تروڑ مروڑ کر پیٹھ پیچھے چھپا لیا ۔۔
میں پوچھ رہا ہوں کیا ہورہا ہے یہاں ؟؟؟؟
انکی دھاڑ پر وہ دونوں سہمی ۔۔۔
زرا اندر آئو تم دونوں !
وہ حکم دے کر اندر چلے گئے ۔۔۔جبکے ان دونوں نے تھوک نگل کر خشک گلا تر کیا ۔۔۔
اب کیا ہوگا آپی ؟؟؟
کیا ؟ کیا ہوگا کمبخت ۔۔ تمہاری وجہ سے پھنسی ہوں میں بھی ورنہ میں بھلا کب سے ایسے کام کرنے لگی !
ہبا آپی سرے سے مکر گئیں ۔۔
تاشا نے کھا جانے والی نظروں سے انہیں گھورا ۔۔
اب چلو ۔۔۔
وہ کہہ کر آگے بڑھ گئی ۔۔
اے اللہ بچا لے ۔۔۔اگلی بار نہیں کرونگی ! پکا وعدہ؟؟؟
وہ آسمان کی جانب منہ کرکے گڑگڑائی ۔۔
کیا کر رہی تھی تم دونوں وہاں ؟؟؟ کتنی بار منع کیا ہے سب کو وہاں جانے سے ! پھر کیا تُک بنتا ہے وہاں جانے کا ۔۔۔!!
انکی رعبدار گرج پر وہ دونوں سہمی ۔۔۔
Vlog
بنانےگئے تھے بابا!
تاشا نے دانت دکھاتے ہوئے آہستگی سے کہا
ہاں ؟کیا؟؟ کونسے لوگ بُلانے گئے تھے ؟؟؟
وہ ناسمجھی سے بولے تو تاشا نے بے ساختہ لب دبائے ۔۔
نہیں لوگ نہیں بابا ! Vلوگ
وہ لفظوں پر زور دیتی ہوئی بولی ۔۔
خاموش رہو ۔۔۔ پورا گھر کیا کم پڑگیا اس سب کے لئے !
وہ اسے ڈپٹتے ہوئے بولے ۔۔
تاشا نے منہ پھلایا جبکے ہبا آپی شرمندہ سی ہونے لگیں ۔۔
اور نزاکت کون ہے ؟؟
وہ شکی نگاہوں سے دونوں کو دیکھنے لگی ۔۔
تاشا نے بے ساختہ ہبا آپی کو دیکھا ۔۔۔ اب وہ اس بات کی کیا صفائی دیتیں ۔۔۔بری پھنسی تھی
ہبا آپی کچھ بولو نا ۔۔ بابا آپ پر شک کر رہے ہیں ۔۔ کہ کہیں آپکا افیئر تو نہیں چل رہا !
تاشا زیرزبان بڑبڑائی ۔۔۔
بکو مت ۔۔بے شرم نزاکت نزاکت کی رٹ تو تم نے لگا رکھی تھی !
وہ دبہ دبہ غرائی ۔۔
میں تم دونوں سے بات کر رہا ہوں دیواروں سے نہیں !
وہ ۔۔۔با با۔۔۔۔ نزاکتتت ۔۔ وہی جو اس دن آئے تھے ۔۔۔ آپ کے دوست ۔۔ واللہ ہم انکی بات کر رہے تھے ۔۔ ماشااللہ انکی بیوی بہت نیک ہیں !
تاشا نے بات بنائی ۔۔
مگر شاہیں صاحب کو گھورتا پاکر نظریں جھکا لیں ۔۔۔ انہیں جیسے یقین نہ آیا اسکی بات پر
جائو یہاں سے اور دوبارہ باغات کے آس پاس نہ دیکھوں تم لوگوں کو !
وہ تحکمانہ گویا ہوئے ۔۔
وہ دونوں پہلی فرست میں وہاں سے کھسکیں ۔۔
آئے ہائے بیگم ۔۔۔ کہاں جا رہی ہو اتنا تیار شیار ہوکر ۔۔۔
تصور بھائی نے انکا سر تا پا جائزہ لیا ۔۔
عزت کروا کر آرہی ہیں ۔۔۔
تاشہ کی زبان پھسلی ۔۔
قیامت لگ رہی ہو !
تصور بھائی انکی گفتگو سے انجان بیگم کو ستائشی نظروں سے گھورتے ہوئے بولے ۔۔۔
شٹ اپ !!!
ہبا دونوں کوکھا جانے والی نظروں سے گھورتی پیر پٹختی چلی گئی ۔۔۔
اسے کیا ہوا ؟؟ وہ نا سمجھی سے تاشا کود یکھنے لگے ۔۔
ہونا کیا ہے تصور بھائی ؟؟؟ آپ نے سہی جملہ غلط وقت پر کہ دیا ۔۔یہ تو ہونا ہی تھا ۔۔
وہ کندھے اچکا کر کہتی تصور بھائی کو تصورات میں گھرا چھوڑ کر آگے بڑھ گئی ۔۔
_________________________________________
تمہارا منہ کیوں سوجا ہوا ہے اب؟؟؟
نوال نے بیگ کندھے سے ہٹاتے ہوئے آرام دہ انداز میں صوفے پر پیر پھیلائے ۔۔۔
بی بی ولاگ بنانے گئی تھی دو روپے والی کروا کے آگئیں ۔۔ ساتھ میں مجھے بھی کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا ۔۔پتا نہیں ماموں کیا سوچ رہے ہونگے میرے بارے میں ۔!!
ہبا آپی کو اپنی بے عزتی بھول کے نہیں دے رہی تھی ۔۔۔
اوہہہ !
نوال نے قدرے مایوسی سے دونوں کو دیکھا
بس بھی کریں ہبا آپی ۔۔ آپکا کونسا سچ میں نزاکت کے ساتھ چکر چل رہا ہے !
تاشا کی زبان پھر سے پھسلی ۔۔
بکو مت بد تمیز آہستہ بولو ، تصور سن لے گا
! ہبا اسے جھاڑ پلاتی باہر دیکھنے لگی ۔۔
آہہ آں ؟؟؟ نزاکت کون ؟؟
نوال چونک کر سیدھی ہوئی ۔۔
کوئی نہیں ہے !
ہبا آپی چڑ کر قدرے بلند آواز میں کہتی کمرے سے چلی گئی۔۔
ٹھیک ہے !!!
نوال اپنا سا منہ لے کر رہ گئی ۔۔
خیر ان کو چھوڑو ، تم بتائو کیسا رہا ؟؟؟
تاشا باز آکے نہیں دے رہی تھی ۔۔ کبھی اِدھر تو کبھی اُدھر
کیا ؟ کیسا رہا؟؟
نوال نے بھنویں اچکائیں ۔۔
فاتح بھائی کے ساتھ ! ہمممم ہمممم؟؟
وہ ہاتھوں کے پنجے آپس میں جوڑ کر کسی میزبان کی طرح اسکا انٹرویو لینے صوفے پر کودی ۔۔
استغفرااللہ ۔۔ کیسی باتیں کر رہی ہو یار!
نوال گڑبڑائی
مجھے پتا ہے تمہارے دل میں کچھ تو ہے بھائی کے لئے ؟؟؟
وہ تاشا ہی کیا جو آسانی سے مان جائے ۔۔
ایسا تم سوچتی ہو تاشا ، فاتح وہ لڑکا نہیں ہے جسے لائف پارٹنر کے طور پر پسند کیا جا سکے یعنی وہ میرے قابل۔۔۔
اسکی بات لبوں پر ہی دم توڑ گئی جب نظر چوکھٹ پر پڑے فاتح پر پڑی ۔۔
اسکا رنگ فق ہوا ۔۔وہ جھٹ سے اٹھ کھڑی ہوئی ساتھ ہی تاشا نے بھی مڑ کر دیکھا ۔۔
مارے گئے ۔۔ وہ بے ساختہ بولی
نہ جانے اس نے کیا کیا سنا ہوگا؟؟؟ وہ تو بس تاشا کو ٹالنے کے لئے سب کہہ رہی تھی ۔۔۔
اسکے خوبصورت چہرے پر سختی در آئی ۔۔
تمہارے نوٹس ، تم گاڑی میں بھول آئی تھی !
وہ سپاٹ لہجے میں کہتا زور سے نوٹس ٹیبل پر پھینک کر چلا گیا ۔۔۔
پتا نہیں فاتح کیا سوچتا ہوگا ؟؟
نوال کو اب نئی فکر لاحق ہونے لگی
جو بھی سوچتا ہوگا ؟ تمہیں تو کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیئے آخر کو تم بھائی کو پسند جو نہیں کرتی !
تاشا مصنوعی لہجے میں بولی ۔۔
چپ کرو بدتمیز ! یہ سب تمہارے وجہ سے ہوا !
وہ زور سے دھپ اسکی کمر پر رسید کرکے الماری میں کپڑے تلاش لگی ۔۔۔
اللہ۔۔۔۔ میرے دُبلی پتلی کمر !
تاشا کی آواز بلند ہونے لگی ۔۔
______________________________
کمرے سے تو نکل آیا مگر اسکے اندر الاوا سا اٹھنے لگا ۔۔
نوال کی باتیں اسکی سماعتوں پر ہتھوڑے کی مانند برس رہیں تھیں ۔۔۔
نوال سعید !!! اوقات کیا ہے تمہاری ۔۔۔
اس نے تنفر سے سوچا ۔۔۔
تھا کیا اس میں ایسا جو وہ اسے ٹھکرانے کی بات کر رہی تھی ۔۔ اسے اپنی تردید کیا جانا برادشت نہیں ہورہا تھا اسکے مرادانہ وقار اور انا کو زبردست چوٹ پہنچی تھی ۔۔
آئی وِل کِل یُو …..نوال …آئی وِل کِل یُو !
اس نے زور سے ہاتھ مار کر ٹیبل پر سجا واز زمین بوس کردیا ۔۔ غصیلی سانسیں لینے لگا ۔۔۔
اس کے خون میں ضدی پن وراثتی تھا ۔۔ وہ بضد ہوکر اپنی بات منوا لیا کرتا دوسروں کے توسط وہ قدرے اکھڑا اکھڑا اور لیا دیا سا رہتا تھا ۔۔۔ اسکا مطلب یہ نہیں تھا کہ اسے کوئی خبر نہیں تھی کہ اس گھر کا کونسا مکین اسکے بارے میں کس قسم کے خیالات رکھتا ہے
اسکے اسی رویے کے باوجود بھی وہ اس گھر کے مکینوں کی آنکھوں کا تارا تھا ۔۔سبھی اس سے محبت کرتے تھے
بے مروتی اسکی طیبعت کا خاصا تھی ۔۔ حتی کہ وہ باپ سے بھی الجھ پڑتا تھا ۔۔. شاکرہ بیگم بیچ میں پڑ کر بات کو رفع دفع کردیا کروادیتی تھی ورنہ ہر روز انکے بیچ نیا معرکہ ہونا تو طے تھا ۔۔۔
_____________________________________
اس نے نیوی بلو رنگ کی اونچی سی پھولدار کرتی شلوار زیب تن کر رکھی تھی ۔۔۔ دوپٹہ گلے میں تھا ڈھیلی سی چوٹی میں گندھے بال کمر پر جھول رہے تھے
جن میں سے کچھ لمبی لٹھیں اسکے رخساروں کو چوم رہی تھیں ۔۔ وہ خاصی حد تک تیار ہوچکی تھی
تیز میک اپ وہ ویسے بھی نہیں کرتی تھی ۔۔
چہرے پر ہلکا سا فائونڈیشن لگا کر گالوں پر سرخی بکھیری ، آنکھوں میں کاجل لگا کر ،
نرم ہونٹوں پر گلوز لگا کہ ہونٹوں آپس میں مس کرنے لگی ۔۔۔
عمارہ ؟ بیٹا میں آلریڈی لیٹ ہوں آفس سے…
احسان صاحب کی آواز پر اسکے ہاتھوں میں تیزی آگئی ۔۔ ایک حتمی نگاہ آئینے پر ڈال کر سفید کوٹ اورفائلیں اٹھائیں ۔۔ ہینڈ بیگ اچکتی تیزی سے سیڑھیاں اترنے لگی ۔۔ آج ان کے ہاسپٹل کے ایک نئے حصے کی چھوٹی سی افتتاحی تقریب تھی ۔۔
اُسی کے لئے یہ اہتمامی تیاری تھی ۔۔
اتنی دیر بیٹا ؟؟؟
احسان صاحب گھڑی پر وقت دیکھتے ہوئے بولے ۔۔
سو سوری بابا ! اٹھ تو جلدی گئی تھی ، پتا نہیں لیٹ کیسے ہوگئی میں !
وہ عجلت میں کہتی ٹوس کا نوالہ لیتی جوس کا گلاس لبوں سے لگانے لگی ۔۔
لیکن باپ کو اپنی طرف دیکھتا پاکر اسکے تیزی سے چلتے منہ کو بریک لگی ۔۔
اسے تم ناشتہ کہتی ہو؟
وہ تنقیدی انداز میں گویا ہوئے ۔۔
ہمارے ہاں اِسے ہی ناشتہ کہتے ہیں !
وہ ہاتھ جھلا کر کہتی ہلکا سا ہنسی ۔۔
میں نیچے گاڑی میں تمہارا ویٹ کر رہا ہوں !
وہ نفی میں سر جھٹکتے ہوئے باہر نکل گئے ۔۔
تو وہ جوس حلق میں انڈیلنے لگی ۔۔
فیروزہہہہ!!!! ہم جا رہے ہیں دروازہ بند کرلو !
وہ عجلت میں ملازمہ کو آواز دیتی بیگ کندھے پر ڈال باہر کی طرف بڑھی ۔۔
باجی ناشتہ تو کرلیں !
فیروزہ کچن کھڑکی سے جھانکنے لگی ۔۔
ہوگیا بس ! تم اپنا خیال رکھنا ، اللہ حافظ !
وہ کہتی گاڑی میں آ بیٹھی ۔۔
اس گھر میں وہ صرف تین نفوس ہی رہائش پذیر تھے ۔۔ پچھلے پانچ سالوں سے ۔۔ امی کی ڈیتھ کو تین سال گزر چکے تھے ۔۔ ان کے جانے بعد وہ بابا کے اور قریب ہوگئی تھی ۔۔ اس نے اپنے ڈرائیور کو چھٹی دے دی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ۔۔اور بابا کو جوائن کرلیا تھا جو اسے پِک اینڈ ڈراپ دے دیا کرتے تھے ۔۔ بس ایسے ہی اسکی زندگی گزر رہی تھی ۔۔ اس مکمل اور کامیاب زندگی میں ایک خلا تھا ۔۔ وہ تھا ابراہیم سہگل ۔۔۔
وہ پوری طرح سے اسکی ہو کر بھی اس کی نہیں تھی ۔۔
بابا چاہتے تھے کہ وہ اب شادی کرلے مگر اس نے کئی اچھے رشتے بے وجہ ہی ٹھکرا دیئے تھے ۔۔
وہ چاہتے ہوئے بھی کسی سے کوئی تعلق بڑھا نہیں پاتی تھی کچھ تھا جو اسے پابند کیئے ہوئے تھا ۔۔
یا صرف اسکا دماغی خناس تھا !
بیٹا تمہارا ہاسپٹل آگیا ؟؟؟
احسان صاحب بولے ۔۔
مگر وہ کھڑکی کے باہر دیکھنے میں اتنی محو تھی سنائی نہ دیا ۔۔
عمارا ؟؟ اسکا کندھا ہلایا ۔۔۔
جی بابا ! وہ چونکی !
تمہارا ہاسپٹل آگیا بیٹا !
اوہ اچھا ۔۔۔
وہ سر پر ہاتھ مارتے ہوئے بیگ سنبھالے لگی ۔۔
سب۔۔۔ ٹھیک ہے نا؟؟
وہ فکر مندہ ہوئے ۔۔
سب بلکل ٹھیک ہے بابا ، آپ اپنا خیال رکھیئے گا !
وہ کندھے پر پڑا انکا ہاتھ لبوں سے لگا کر عجلت میں باہر نکل گئی ۔۔
احسان صاحب سر جھٹک کر گاڑی آگے بڑھا لے گئے ۔۔
کہاں رہ گئی تھی لڑکی ؟؟؟
ملیحہ اسکے پاس آتی غرائی
کیوں کیا ہوا ؟ تقریب شروع ہوگئی کیا !
وہ تیزی سے راہداری میں چلتی ہوئی بولی ۔۔
تقریب چھوڑو محترمہ تمہارے پیشنٹس انتظار کر رہے ہیں ، اُن کو دیکھو پہلے ،
ملیحہ تڑخ کر بولی
عمارا نے خفگی سے اسے گھورا اور ہینڈ بیگ اسکے ہاتھ میں دیا ۔۔
میں تمہارا انتظار کر رہی ہو !
وہ مزے سے کہتی آگے بڑھ گئی ۔۔
اور پیچھے عمارا اکیلی رہ گئی ۔۔ وہ پیر پٹختی ہوئی پیشنٹس کی جانب روٹین چیک اپ کے لئے بڑھی ۔۔ ہاسپٹل کے تقریبا تمام ڈاکٹرز اس وقت تیسری منزل کے حال میں موجود تھے ۔۔ جبکے وہ یہاں اکیلی ہی تھی ۔۔
شششش درباس ؟؟؟؟
نقاب پوش شخص نے دبہ دبہ چلاتے ہوئے زخمی درباس کو اپنی طرف بلایا جو ہاسپٹل کی عمارت کی دیوار سے لگا اپنے زخم کا معائنہ کر رہا تھا ۔۔
اندر کوئی ہے تو نہیں ؟
وہ سرد لہجے میں گویا ہوا ۔۔
نہیں کوئی نہیں ہے ، سب لوگ اوپری منزل پر ہے ! آجائو جلدی …
حاکم اسے اپنے پیچھے آنے کی تاکید کرتا آگے بڑھا ۔۔۔
تو پٹی کون کرے گا بیوقوف ؟
درباس اسکے پیچھے چلتا قدرے اکتاہٹ بھرے لہجے میں بولا
ابھی ابھی ایک لڑکی آئی ہے ، وہ نیچے ہی ہوگی ، جلدی چلو تم !
وہ کہتا اندرونی دروازہ عبور کرنے کے بعد راہداریاں کھنگالنے لگا ۔۔ اس نے وارڈ بوائے کا لباس پہن رکھا تھا ۔۔ جسکی وجہ سے وہ کسی کی توجہ کا سبب نہ بن سکا ۔۔
سامنے والے آفس میں ہے ، جلدی جائو ۔۔ اور واپس آئو ، میں یہیں تمہارا انتظار کر رہا ہوں !
وہ دبی دبی سرگوشی کرتا ہوا بولا محتاط انداز میں نظر اطراف میں ڈال کر آفس کے سامنے والے کمرے میں چلا گیا ۔۔۔
کیسی ہیں ڈاکٹر صاحبہ ؟؟؟
اس کی گھمبھیر آواز پر وہ حیرت سے اچھلی ۔۔۔
اسکے ہاتھ میں پکڑی فائل زمین پر گر گئی ۔۔
ارے ! آپ تو ڈر گئیں ؟؟؟
درباس نے جھک کر فائل اٹھائی ۔۔۔
اونچی قد و قامت ، مٹی سے اٙٹی خاکی شرٹ سے جھانکتا کسرتی جسم ، اسکے برہنہ بازو تک مٹی سے لیس تھے ۔۔۔بڑھی ہوئی شیو، آلودہ چہرہ اس پر اسکی جما دینے والی سرد نگاہیں ۔۔
وہ حیران پریشان سی ہوکر اس شخص کو سر تا پا دیکھنے لگی۔۔۔
وہ اسکی جانب منتظر سا فائل بڑھائے ہوئے تھا ۔۔
کیا چاہیئے آپ کو؟؟
اس نے برہمی سے پوچھتے ہوئے فائل تھام لی ۔۔
مریض کیا کرنے آتا ہے ڈاکٹر کے پاس ؟؟
وہ الٹا اس سے سوال کرنے لگا ۔۔۔
تم کہاں سے زخمی ہو؟؟
وہ بھی اسی کے انداز میں بولی ۔۔
اتنا کہنا تھا کہ وہ سر پھرا شرٹ اتار کر اسے گویا سارے زخم دکھانے پر آمادہ ہوگیا ۔۔
شرٹ اتارنے کی ضرورت نہیں ہے !!!
روانی میں اسکی آواز کب بلند ہوئی اسے پتا ہی نہیں چلا ۔۔ وہ اسکی بازو پر آلودہ سا کپڑا بندھا دیکھ چکی تھی ۔۔
درباس ‘ٹھیک ہے ‘ کے سے انداز میں کندھے اچکاتا کرسی کھینچ کر عین اسکے سامنے بیٹھ گیا ۔۔۔
عمارا اسے عجیب نگاہوں سے گھورتی میڈیکل باکس کی جانب متوجہ ہوئی ۔۔۔
ہاتھ بڑھا کر اسکے زخم کو کپڑے سے آزاد کیا تو وہ دمبخود رہ گئی ۔۔
تمہیں تو گولی لگی ہے ؟؟؟
وہ بمشکل بولی ۔۔
تو ؟
وہ ازلی انداز میں بولا …جیسے اسکے لئے یہ کوئی بڑی بات نہیں تھی
تو کیا ؟؟؟ میں ایسے تمہارا علاج نہیں کر سکتی
تمہیں پہلے کمپلین درج کروانی پڑے گی !
وہ غصیلی نظروں سے گھورتی ہوئی بولی
عمارا کو اس شخص کے تیور پسند نہیں آئے تھے
کروادی ہے کمپلین بھی ، اب کوئی توجہ نہیں دے رہا تو میں کیا کروں ! آپ علاج کروگی یا نہیں اتنا بتائو؟
وہ لاپرواہی سے بولا
عمارا شکی نگاہوں سے دیکھنے لگی ۔۔
یہ شخص یقین کے قابل نظر نہیں آرہا تھا ۔۔۔
چلیں بھی ڈاکٹر صاحبہ مریض تکلیف میں ہے ۔۔۔
آپ کے اور میرے علاوہ کوئی نہیں ہے ، کسی کو کچھ پتا نہیں چلے گا ،
وہ معنی خیزی سے بولا ۔۔
عمارہ شاکڈ رہ گئی ۔۔ وہ اس سے مدد کی درخواست کرنے کے بجائے ، اسے غلط عمل پر اُکسا رہا تھا ۔۔
ڈاکٹر صاحبہ ؟؟؟
وہ اسکی آنکھوں کے سامنے ہاتھ ہلانے لگا ۔۔۔
وہ مشکل میں پڑ گئی تھی ۔۔ علاج کرے یا نہ کرے ۔۔
کریں گی علاج یا ؟ میں جائو ؟
وہ ہنوز اپنا ازلی رعبدار لہجہ اپنائے ہوئے تھا ۔۔۔
وہ نیم رضا مند سی اسکی جانب متوجہ ہوئی ۔۔۔
درباس کی نظریں اپنے کندھے پر جھکی اسکی من موہنی صورت کا طواف کرنے لگی ۔۔
نام کیا ہے تمہارا ؟؟
اس نے ‘آپ’ سے ‘تم’ کا فاصلہ منٹوں میں طے کیا ۔۔
عمارہ نے ضبط سے لب بھینچے ۔۔۔ اور خاموش رہی
تم سے پوچھ رہا ہوں میں ؟؟
وہ اکڑ کر بولا ۔۔۔
عمارہ کا چہرہ ضبط سے سرخ پڑا ۔۔۔
عمارہ!
وہ لٹھ مار انداز میں بولی ۔۔
یہ کیسا نام ہے ؟ ہمارا؟؟
اسکی آنکھیں تعجب سے چھوٹی پڑیں۔۔
‘ہمارا’ نہیں ‘عمارا’
وہ خاصے غصے سے اوزار باکس میں پٹختی بولی۔۔
اوہ ۔۔
اس نے بھنویں اچکائیں اور خاموش ہوگیا۔۔
اسکی بے تاب نگاہیں ہنوز اسکے چہرے کا طواف کر رہی تھی ۔۔۔ اسکے بدن سے اٹھتی مہک سے مسحور سا ہوکر ایک لمحے کے لئے آنکھیں بند کر گیا۔۔۔
اسکی مہک اسے بے خود کیئے دے رہی تھی ۔۔۔
وہ نا محسوس طریقے سے اسکے اور قریب سرکا ۔۔
عمارہ کا دل شدت سے دھڑکنے لگا۔۔
ہاتھوں کو تیزی سے حرکت دینے لگی ۔۔ اس شخص کی نظریں اسے اِن اسکیور کر رہی تھی ۔۔۔۔
ہوگیا ؟؟؟ وہ جتا کر بلند آواز میں کہتی ہوئی دور ہٹی ۔۔ کندھوں سے جیسے کوئی بوجھ اتر گیا ہو۔۔
وہ چاہتی تھی بس وہ شخص اسے نظروں سے دور ہوجائے ۔۔
درباس نے آہستگی سے آنکھیں کھول دیں ۔۔
ایک اچٹتی نگاہ اپنی بازو پر ڈالی اور اٹھ کھڑا ہوا ۔۔
آر یو شیور تم نے کمپلین درج کروائی تھی ؟؟؟
اسے اب اپنی نوکری کی فکر لاحق ہونے لگی ۔۔
اور ہونی بھی چاہیئے تھی ۔۔وہ پرائیویٹ ہاسپٹل میں ملازمت کرتی تھی اور ابھی تو یہ اسکے کریئر کی شروعات تھی ۔۔۔
فکر مت کرو ، تم پر کوئی الزام نہیں آئے گا !
وہ بے نیازی سے کہتا کندھوں سے شرٹ نیچے کھینچنے لگا ۔۔۔
عمارا بری طرح سے چونکی ۔۔
ک۔۔۔کیسا؟؟؟ الزام ؟
ایک خطرناک دہشت گرد کا علاج کرنے کا الزام !
وہ رک رک کر اسکی آنکھوں میں جھانکتا ہوا بولا ۔۔
عمارا کے پیروں تلے زمین نکل گئی ۔۔
اسے لگا اگلے ہی پل وہ کہہ دے گا ! کہ وہ مزاق کر رہا تھا مگر ایسا کچھ نہ ہوا ۔۔۔
وہ باہر نکلنے لگا ۔۔ عمارا تیزی سے اسکے پیچھے لپکی ۔۔
مگر درباس نے پھرتی سے باہر نکل کر دروازہ باہر سے لاک کردیا ۔۔۔
وہ صدمے اور بے یقینی سے دروازے کے وال پر مکے برسانے لگی ۔۔۔
اسکے لبوں سے احتجاجی الفاظ ادا ہونے سے عاری تھے ۔۔۔ درباس کے لبوں پر ہلکا سا تبسم بکھرا ۔۔۔
وہ اسے خوف میں گھرا چھوڑ کر واپس مڑ گیا ۔۔۔
عمارا صدمے سے بال مٹھیوں میں جکڑنے لگی…
یا اللہ ۔۔. یہ میں نے کیا کردیا !
اگر ہاسپٹل کے عملے کو خبر ہوجاتی تو اسکے کرئیر پر ہمیشہ کے لئے فُل اسٹاپ لگ جاتا ۔۔۔
بدنامی اور رسوائی ہوتی وہ الگ ۔۔
اللہ ۔۔۔ اب کیا ہوگا ؟؟؟
اسے شدید گھبراہٹ ہونے لگی ۔۔ وہ بے چینی سے آفس میں چکر کاٹنے لگی ۔۔۔
اففف اوہہہ لڑکی ؟؟؟ مجھے لگا تم سو گئی ہو ؟
کیا کرہی ہو ؟ انوگریشن کب سے اسٹارٹ ہوچکی ہے !
تمہارا آنے کا کوئی موڈ نہیں ہے کیا ؟؟
ملیحہ چھوٹتے ہی بول پڑی ۔۔ صد شکر اس نے یہ نوٹ نہیں کیا کہ دروازہ باہر لاکڈ تھا ۔۔
آ ۔۔ ہا ۔۔۔ہاں ، میں ۔۔۔بس آ ہی رہی تھی !
اس نے فورا سے بات سنبھالی ۔۔
جلدی آجائو !
وہ وہیں سے ہانکتی عجلت میں واپس چلی گئی ۔۔
عمارا ہاتھوں کی مٹھیاں ٹیبل پر جمائے ہموار سانسیں لے کر خود کو پر سکون کرنے لگی ۔۔۔ واشروم سے پانی کے چھینٹے منہ پر مارے ۔۔۔ اور چہرہ تھپتھپا کر اوپری منزل کا رخ کیا ۔۔
_____________________________________
ھیرات | افغانستان |
زہیر عظمیٰ کو انتہا پسندوں نے وطن سے غداری کے الزام میں اٙن گنت گولیاں مار کر ہلاک کردیا تھا ۔۔۔
اسکے جسد کو ھیرات کی سڑکوں پر روند کر باقاعدہ اسکے غدار ہونے کا اعلان کیا گیا ۔۔۔
اسکے لئے ناگزیر الفاظ استعمال کیئے گئے ۔۔
جو سننے والوں کے کانوں سے لہو ٹپکانے لگے ۔۔
ھیرات میں خوف و ہراس کی نئی لہر دوڑ گئی ۔۔ لوگ گھروں کے ہو کر گئے تھے ۔۔سڑکیں ایسے سنسان ویران ہوگئیں ۔۔ جیسے صدیوں کسی کا یہاں گزر بسر نہ ہو ۔۔۔ ایسے میں واحد لیث تھا ۔۔۔ اپنا نام کی طرح ۔۔ شیر ، بہادر
جس نے اپنے باپ کی جسد خاکی کو وطن کے پرچم میں لپیٹ زمین کے سپرد کیا تھا ۔۔۔
بد نصیب ! زہیر عظمیٰ ۔۔
ایک ایسا شخص جس نے اپنی زندگی کے تمام سال اس ملک کی سڑکوں پر امن کے پیغام دیتے ہوئے گزارے ہوں ۔۔
کس قدر زیادتی تھی اس کے ساتھ کہ اس کی موت پر قومی گیت تک نہ گایا گیا ! اسے خراج تحسین پیش کرنے کے بجائے اسے برے القابات سے نوازہ گیا یہاں تک کہ لوگ
اسکے مرنے کے بعد اس پر تھو تھو کرنے لگے کہ اس نے وطن سے غداری کی ۔۔ صرف اس مفروضے پر کہ
اسکے آباء و اجداد پاکستانی تھے ۔۔
اسکی بیوی پاکستانی تھی ۔۔
یہ کہاں کا انصاف تھا ؟؟؟؟
اتنی نفرت اور زہر بھرا ہوا اسلام کا پیغام اور اسلامی قوانین نافذ کرنے والے حامیوں کے دل میں پاکستان کے خلاف ۔۔۔ !!!
دائم کا دل کیا ان سب کو ایک قطار میں کھڑا کرکے انکے سینے گولیوں سے چھلنی کردے ۔۔۔
بھلا حق کا ساتھ دینے والوں کو مار کر امن کیا جا سکتا تھا ؟؟؟
یا اپنے حق کے لئے آواز اٹھانے والوں کو مار کر !!!
نہیں تو پھر !!! نوجوانوں کو جہاد کا جھانسا دے نام نہاد جنگ کے منہ میں دھکیل کر امن قائم کیا جا سکتا تھا ۔۔۔ جہاں وہ اپنے ہی ہم وطنوں کا بے دریخ خون بہاتے تھے ۔۔۔
ایسے قائم ہوتا تھا امن ؟؟؟
کسی بہن بیٹی کو غیرت کے نام پر سر پر گولی مار قتل کرنے سے
اسلامی قوانین نافذ ہو سکتے تھے۔۔۔ کون تھے یہ لوگ ؟؟؟ جو اسلامی خدا بنے بیٹھے تھے ۔۔!!
جو لوگوں کو اتنا مذہبی بنا بنادینا چاہتے تھے کہ ۔۔ وہ مظلوم محرومیوں کو قسمت کا لکھا اور ظلم کو آزمائش، سمجھ کر صبر تعین کر لیتے ۔۔۔
جو اپنی جائز خواہشوں تک کو اللہ کی راہ میں ثواب سمجھ کر قربان کردیتے ۔۔۔
غلامی کو اللہ کی مصلحت قرار دے دیتے ، اور قتل کو موت متعین کردہ وقت سمجھ کر خاموش سے سر جھکا دیتے ۔۔۔
لوگ غم کی تصویر بنے ہوئے تھے ۔۔۔ اپنے حق کے خلاف آواز اٹھانے والوں کے منہ بند کروا دیئے جاتے ۔۔۔مائیں ہر دن اپنے لخت جگروں مٹی کے سپرد کرنے پر مجبور کردیں جاتی ۔۔۔
اور نام نہاد امن کے حامی ، اسلامی قیادت کے علمبرداروں سے سوال کرنے والا کوئی نہیں تھا ۔۔۔ !!
اسلامی نظام ایک طویل جدو جہد تھی ۔۔۔ دنیا میں ایسا کوئی ملک نہیں تھا جہاں مکمل اسلام ہو ۔۔۔
لوگوں کو زہنی یا جسمانی ازیتیں دے کر، ان پر بے جا پابندیاں عائد کرنا بھی ظلم تھا ۔۔۔ بے شک اسلام ہمیں بے جا انتہا پسندی سے بھی روکتا ہے ۔۔ ظلم کا تعلق مسلمان یا کافر سے نہیں بلکے ظالم اور باطل سے ہے ۔۔۔
اور ظلم کا ساتھ دینے والا بھی ظالم کا ساتھی تصور کیا جاتا ہے ۔۔۔
________________________________________
دائم نے جنرل بخشی کو موجودہ صورتحال سے آگاہ کرنے کے بعد فون بند کردیا ۔۔۔
اس بات سے بے خبر کہ شزانہ انکی تمام تر گفتگو اسکی زبانی سن چکی ہے ۔۔۔
اسکے لئے یہ بات کسی صدمے سے کم نہیں تھی ۔۔۔
ہاسپٹل کی راہداری سے کمرے تک کا سفر اس نے کیسے طے کیا تھا یہ وہی جانتی تھی ۔۔ ۔
اسکا باپ آئی ایس آئی کی مدد کر رہا تھا ؟؟؟
مگر کیوں ؟؟؟؟
یا پھر وہ خود سیکریٹ ایجنسیز کا حصہ تھا ۔۔۔؟
آج دوسرا دن تھا۔۔ باپ کی ازیت ناک موت پر اسکا دل پہلے ہی خون کے آنسو رو رہا تھا ۔۔۔
اوپر سے یہ انکشاف کسی قیامت سے کم نہیں تھا ۔۔
ہو نہ ہو وہی سب اسکے باپ کی موت کا سبب بنے تھے ۔۔۔۔ حریت رہنمائوں کو بھنک لگ چکی تھی ۔۔
اب خدا ہی جانتا تھا انکا کیا حال ہونے والا تھا ؟؟
انہیں زندہ درگور کردیا جاتا ؟ یا جلاوطن ؟ یا موت ۔۔۔ پھانسی ۔۔ قتل
کچھ بھی ممکن تھا ۔۔۔
اس نے انہلیر کی لبوں میں دبایا اور لمبی لمبی سانسیں لینے لگی ۔۔۔
کیا لیث کو اس بات کا علم تھا ؟؟؟
اگر نہیں تو اسے بتانا بہت ضروری تھا ۔۔۔
اسکی جان خطرے میں تھی کون جانے اگلا نمبر اسکا تھا یا لیث ۔۔۔
اسے اس وقت رامی سے بھی خطرہ محسوس ہونے لگا
وہ بھاگنے کا سوچنے لگی ۔۔ اس نے آدھ کھلے دروازے سے باہر جھانکا رامی اسکی حفاظت پر تعینات تھا ۔۔
اس نے آہستگی سے دروازہ اندر سے لاک کر دیا ۔۔۔
جسکی آواز دائم کو چونکا گئی ۔۔۔
وہ تیزی سے آگے بڑھا ہینڈل گھمایا تو دروازہ اندر سے لاکڈ تھا ۔۔۔
اس نے دوسرے کمرے کا رخ کیا اور آپریشن کا سامان میں اوزار کھنگالنے لگا ۔۔۔
شزانہ کپکپاتے ہاتھوں سے کھڑکی کے پٹ وا کیئے اور کھڑکی کے دوسری طرف کود گئی ۔۔۔
کہاں جا رہی ہیں آپ ؟؟؟
دائم کی آواز پر اسکے بڑھتے قدم تھمے ۔۔۔
وہ رکی لیکن مڑی نہیں تھی
آپ بھاگ کیوں رہی ہیں مجھ سے ؟؟
تو اسے علم ہوچکا تھا کہ شزانہ کو سب پتا چل گیا ہے ۔۔
لیث کہاں ہے ؟؟؟
اسکی آواز کانپی ۔۔
مجھے نہیں پتا !
دائم نے سچ بولا
جھوٹ بول رہے ہو تم ؟؟؟
وہ مڑی تو اسکی آنکھوں میں آنسو تھے ۔۔۔
دائم کو پیشمانی نے آلیا ۔۔
مجھے واقعی علم نہیں کہ ۔۔
وہ اسکی طرف بڑھا ۔۔
تم نے ہمیں دھوکہ دیا رامی ۔۔۔
شزانہ کئی قدم دور ہوئی ۔۔اسکی آنکھوں میں دکھ ہلکورے لے رہا۔۔ کسی نے سہی کہا تھا یقین ٹوٹ جائے تو پھر جڑنا مشکل ہے ۔۔۔ دائم اب مر کر بھی دکھا دیتا تو شزانہ کا یقین بحال نہیں کر سکتا تھا سو اس نے اسے جانے دیا ۔۔۔
چلیں میں آپ کو گھر چھوڑ دوں !
اس کے لہجے میں درخواست تھی ۔۔
شزانہ کے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا وہ مانتی ہی بنی ۔۔
چلیں ۔۔۔
دائم نے دوپٹہ اسکی جانب بڑھایا اور اسے راستہ دکھایا ۔۔
ہاسپٹل سے گھر تک کا راستہ خاموشی سے کٹا ۔۔
ان کے دتمیان کوئی بات نہیں ہوئی ۔۔
حالانکہ وہ اس سے معافی مانگنا چاہتا تھا ۔۔ وہ اسکے باپ کی موت کا سبب بنا !
اسکے باپ کی موت کی تعزیت کرنا چاہتا تھا ۔۔۔
مگر وہ کرتا بھی تو کیا ! اسکے ہاتھ فرض سے بندھے تھے وہ صرف جنرل سے ملنے والی تعلیمات پر عمل کر رہا تھا ۔۔ جنکا حکم ان سب (ایجنٹس) کے لئے پتھر پر لکیر کے مانند تھا
وہ بمشکل انیس بیس سال کی سادہ سی لڑکی تھی ۔۔
وہ اسے کیسے اپنے رویے کی صفائی دیتا !!
جیپ عمارت کے سامنے رکتے ہی وہ فورا سے پہلے نکل کر اندر کی طرف بھاگی ۔۔
لیث ؟؟؟؟؟ کہاں ہو تم ؟؟؟
وہ تیزی سے سیڑھیاں چڑھتی متلاشی نگاہوں کمروں کی تلاشی لیتی لیث کو ڈھونڈنے لگی ۔۔۔
لیث؟؟؟؟ وہ ناامیدی لوٹ آئی ۔۔
دائم کسی خاموش تماشائی کی طرح سب دیکھتا رہا ۔۔۔
لییییییییثثث؟؟؟؟؟
لیث لادو مجھے ۔۔۔ مجھے میرا بھائی لادو کہیں سے !
وہ بے دم سی ہوکر گھنٹوں کے وہیں زمین پر ڈھیر ہوگئی
اس حد تک خوفزدہ ہو چکی تھی ۔۔ ہر ہر آہٹ پر اسے محسوس ہوتا وہ موت کے قریب جا رہی ۔۔۔
اسکی موجودگی میں وہ خود کو غیر محفوظ محسوس کرنے لگی ۔۔۔
لیث کو ڈھونڈدو ! خدارا میرے بھائی کو ڈھونڈو !
وہ ملتجی انداز میں گڑگڑائی۔۔
دائم کو اس سے ہمدردی محسوس ہونے لگی ۔۔
لیث کہاں تھا دراصل اسے بھی معلوم نہیں تھا ۔۔۔ وہ اپنی خفیہ سرگرمیوں میں کوشاں تھا جسکے لئے وہ یہاں آیا تھا ۔۔۔ مگر شاید لیث عسکری رہنمائوں کے قبضے میں تھا ۔۔۔
آپ فکر مت کریں ! لیث کو کچھ نہیں ہوگا !
وہ اسے تسلی دیتا آگے بڑھا ۔۔
وہ پریشان حال سی اسے دیکھنے لگی ۔۔۔
اسکے لئے آپ کو میری مدد کرنے ہوگی!
وہ اسے رسان سے سمجھانے لگا ۔۔
تمہاری مدد نے ہی ہمیں یہاں تک پہنچایا ہے!
وہ زہر خند لہجے میں کہتی دبہ دبہ غرائی ۔۔
آپ غلط سمجھ رہی ہیں ! زہیر عظمی اپنے ہوش و حواس میں ہماری مدد۔۔۔
وہ ابھی تو اس نے اپنی بات بھی مکمل نہیں تھی ۔۔
وہ تو صرف اتنا چاہتا تھا کہ شزانہ کسی کے ساتھ انکی انفارمیشن شیئر نہ کرے ۔۔ کیونکہ اسے اندازہ تھا کہ اگلی باری اسکی تھی ۔۔۔ لیث پہلے سے ہی ان کے قبضے میں تھا ۔۔۔ اور کوئی بعید نہیں تھا کہ وہ زندہ ہے بھی یا نہیں !
ہو سکتا تھا ان کے ایجنٹس اسکی مدد کررہے ہو !
اور اسے بچا بھی لیں ۔۔۔
مگر اسکے علم میں یہ بات نہیں تھی ۔۔۔ اسے جنرل کی جانب سے ایسے کوئی احکامات موصول نہیں ہوئے تھے ۔۔۔اگر شزانہ ان کے بارے میں انفارمیشن پارٹی کے رہنمائوں کو شیئر کردیتی تو بڑا مسلا ہوجاتا ۔۔۔
غیر معمولی آواز سن کر وہ اسے وہیں چھوڑ کر کھڑی کی اوٹ سے باہر کا منظر دیکھنے لگا ۔۔۔
وہی ہوا جس کا ڈر تھا ۔۔ پارٹی کا رہنما اپنی فوج سمیت یہاں بھی آ چکا تھا ۔۔
وہ کشمکش میں مبتلا تھا مداخلت کرے یا نہ کرے ؟؟؟
تب تک وہ لوگ ہر طرف پھیل گئے ۔۔۔ اس نے دل پر پتھر رکھ کر حتمی نگاہ شزانہ پر ڈالی اور کھڑکی کے باہر لگی چند انچ کی اینٹوں پر اپنا توازن بنانے لگا ۔۔۔
شزانہ ہراساں ہو کر نقاب پوشوں کو دیکھنے لگی ۔۔۔
اسکی حالت غیر ہونے لگی ۔۔۔
وہ خوف کھا کر اٹھی اور مخالفت سمت بنی سیڑھیوں کی جانب دوڑ لگا دی ۔۔
پکڑو اسے !
اندر داخل ہوتے پینتیس سالہ شخص کی آواز تھی ۔۔۔
جس نے سفید لباس پر سیاہ رنگ کا ڈھیلا ڈھالا چغا سا پہن رکھا تھا ۔ جسکا اگلا حصہ کھلا تھا ۔۔۔ سر پر عصہ باندھ رکھا تھا ۔۔ سیاہ آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا ۔۔ وہ تیزی سے چلتا اسکی جانب بڑھ رہا تھا ۔۔۔
دیوار سے لگے دائم نے ایک ایک لفظ سنا ۔۔۔ مگر وہ اندر جھانک نہیں سکتا تھا اگر اسکے جسم میں زرا بھی حرکت ہوتی تو وہ بلند و بالا منزل والی عمارت سے نیچے گر جاتا ۔۔۔
شزانہ خوف سے ہل تک نہ سکی ۔۔۔
نقاب پوش اسکے دبوچ کر کرسی پر تقریبا دھکیلتے ہوئے اسکے قریب پھیل گئے ۔۔
وہ ہرنی جیس آنکھوں میں خوف لئے انہیں دیکھنے لگی ۔۔۔ اسکی بادامی رنگت زردی کی مانند پیلی پڑ گئی ۔۔
اسے لگا بس وہ مرنے والی ۔۔۔
رامی جو اسکی حفاظت پر تعینات تھا اسے کہیں نظر نہیں آیا ۔۔ آخری امید بھی دم توڑ گئی ۔۔۔
السلام علیکم !!
وہ چلتے چلتے رکا ۔۔ اور جھک کر سرخ قالین سے اسکا اسکارف اٹھا لیا ۔۔
امن کے سفیر کی بیٹی ! ہاہاہاہاہاہاہاہاہا
وہ اسکی اجڑی حالت پر قہقہہ لگا کر ہنسا۔۔ اور ہنستا ہی چلا گیا ۔۔
تحقیر آمیز انداز پر اس کی آنکھوں پانیوں سے بھر گئیں
تمہارا باپ بہت فراخ دل انسان تھا ۔۔۔ ہمیں افسوس ہے اسکے جانے کا ۔۔میں امید کرتا ہوں کہ تم بھی اسی فراخ دلی کا مظاہرہ کرو گی !!!
مجھے بتائو آئی ایس آئی کدھر ہے ؟؟؟ کہاں چھپا رکھا ہے تمہارے غدار باپ نے ؟؟؟
وہ چبا چبا کر بولا
شزانہ کا رنگ پھیکا پڑ گیا ۔۔ وہ بری طرح سے پھنس گئی تھی ۔۔
بولو ؟؟؟ وہ دھاڑا ۔۔
م۔۔۔مجھے۔۔۔ نہیں پتا !
اس کی آواز لڑکھڑائی ۔۔۔
دیکھو ! اب تم مجھے ناراض کر رہی ہو ؟؟
اس نے بد مزگی کا اظہار کیا ۔۔۔
م ۔۔ مجھے نہیں ۔۔ پتا سچ میں !
وہ خوفزدہ ہونے لگی ۔۔
جھوٹ بول رہی ہو تم ؟؟
وہ دبہ دبہ غرا کر اسکی جانب جھکا ۔۔
میں جانتا ہوں کہ تم جانتی ہو ، تمہارے میں یہی بہتر ہے کہ مجھے بتادو ! ورنہ ،
اس نے معنی خیزی سے بات ادھوری چھوڑی ۔۔۔
بے حس و حرکت کھڑے دائم کو انجانا خوف لاحق ہوا ۔۔
وہ آہستگی سے چھوٹے چھوٹے اسٹیپ لیتا آگے بڑھنے لگا ۔۔۔ دوسرے کمرے کی کھڑکی پر پنچے جما کر اوپر چڑھنے لگا ۔۔۔ ساتھ ہی اس نے انکا دھیان بٹانے کی خاطر پیر مار کھڑکی کا شیشہ توڑ دیا ۔۔
کون ہے وہاں ؟؟؟؟ جائو تلاش کرو !
وہ چونکا ۔۔۔
دائم تیزی سے ٹیرس کا رخ کرنے لگا ۔۔۔ اسکی سوچ کے برعکس ٹیرس پر چھپنے کی تسلی بخش جگہ نہیں تھی ۔۔۔ وہ لوگ تیزی سے اوپر کی جانب آرہے تھے ۔۔ اس نے سوچے سمجھے بغیر پانی کی ٹنکی میں چھلانگ لگائی اور ڈوبتا چلا گیا ۔۔۔ گہرائی میں سانس روکے اس نے گھٹنے موڑ کر سینے سے لگالئے ۔۔۔۔ چند سیکنڈ بعد وہ لوگ ٹیرس پر دندنانے لگے ۔۔۔چیزوں کو بے پرواہی سے یہاں وہاں پھینک رہے تھے ۔۔ اور پانی کی ٹینکی میں جھانکا تو تاریکی کے سوا کچھ نہ پایا ۔۔
واپس چلو یہاں کوئی نہیں !
ایک ساتھی کے پیغام پر وہ دھڑ دھڑ کرتے واپس جانے لگے ۔۔۔
شزانہ کی سانس حلق میں اٹکی ہوئی تھی ۔۔ اگر رامی پکڑا جاتا تو ان کے شک کی تصدیق ہوجاتی ۔۔ !
وہ دل ہی دل میں اسکے لئے دعا کرنے لگی ۔۔
کہاں ہیں وہ؟؟؟؟
اپنے لوگوں مایوس لوٹتا دیکھ کر ھانی کے سفید رنگ میں غصے کا سفید رنگ گھلا ۔۔۔
میں تمہارے ٹکڑے ٹکڑے کرکے ھیرات سے کابُل تک بچھا تک دونگا ! سنا تم نے ؟؟؟سچ سچ بتائو وہ لوگ کہاں ہیں ؟؟؟ وہ چلایا
شزانہ کی آنکھیں خوفناک حد تک پھیل گئیں ۔۔۔
مجھ ۔۔ ےے نہیں پتا ۔۔۔
اس نے کچھ کہنا چاہا ۔۔۔
کپکپاتے ہاتھوں سے اپنا انہیلر اٹھانا چاہا ۔۔۔ جو مقابل نے سفاکی سے ہاتھ مار کر اسکی پہنچ سے دور پھینک دیا ۔۔۔
وہ بری طرح ہانپنے لگی ۔۔.
وہ مسکراتی آنکھوں سے یہ منظر دیکھنے لگا ۔۔۔ جیسے اسے ازیت پہنچا کر اسے سکون محسوس ہورہا ہو ۔۔۔
تم نہیں بتائو گی ؟؟؟ ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی !
وہ عجیب لہجے میں بولا ۔۔
لے چلو اسے بھی ! یہ میرے بستر کی زینت بڑھانے کے کام آئے گی !
نگاہیں بدستور اسکے سراپے پر تھیں ۔۔ اس سے پہلے اسکا ہاتھ شزانہ کے چہرے کو چھوتا شزانہ نے نفرت سے اسکے چہرے پر تھوک دیا ۔۔۔
ھانی کا رنگ یکایک سرخ ہوگیا ۔۔
اندھی عقیدت میں وہ لوگ خطرناک ارادے لئے شزانہ کی طرف بڑھے ۔۔۔ کہ ھانی نے ہاتھ اٹھا کر روکا ۔۔۔
تمہیں اس جسارت کی سزا ضرور ملے گی !
وہ زیر لب کہتا اپنا منہ رگڑنے لگا ا
شزانہ ہنوز نفرت بھری نگاہوں سے اسے گھور رہی تھی
آگ لگا دو اس لڑکی سمیت اس گھر کو !
اسکے لہجے ازیت پسندی اور طیش کا رنگ جھلکا ۔۔۔
شزانہ شاکڈ رہ گئی ۔۔ وہ اسے زندہ جلانے والے تھے !
نقاب پوش اسے کرسی کے ساتھ باندھ کر اطراف میں پیٹرول چھڑکنے لگی ۔۔۔
اور ‘وہ ‘ شخص انکا سربراہ ۔۔ ھانی السلام
اپنا چغہہ لہراتا راستے میں پڑے انہیلر کو قدموں تلے روند کر آگے بڑھ گیا ۔۔ وہ احتجاج تک نہ کر پائی ۔۔
چند ثانیے گزرنے کے بعد ہر طرف دھواں دھواں پھیلنے لگا ۔۔۔آکسیجن کی کمی کے باعث اس پر غنودگی طاری ہونے لگی ۔۔۔ اس نے آہستگی آنکھیں موند لیں ۔۔۔جو آخری چہرہ زہن کے پردے پر لہرایا وہ لیث کا تھا ۔۔۔
نہ جانے وہ کہاں تھا؟؟؟
دائم نے ہاتھوں مدد سے پانی کو مخالفت سمت دھکیلتے ہوئے اپنے وجود کو اوپر کھینچا اور لمبی لمبی سانسیں لینے لگا ۔۔۔چند پل سانس روکنا کتنا کٹھن تھا ۔۔۔ اب اسے اندازہ ہورہا دمہ کتنی جان لیوا بیماری تھی ۔۔۔ کیسے انسان جل بن مچھلی کی تڑپتا اٹھتا سانس کے بغیر ۔۔
عجیب سی بُو اسکے نتھنوں سے ٹکرائی ۔۔
اس نے ٹیرس سے نیچے جھانکا تو وہ لوگ واپس جارہے تھے ۔۔۔
مگر ۔۔۔یہ کیا؟؟؟ عمارت کی کھڑکیوں سے دھواں بھاپ بن کر ہوا میں تحلیل ہورہا ۔۔
یہ سب انکی کارستانی تھی اسے سمجھنے میں دیر نہ لگی ۔۔۔
شزانہ؟؟؟؟ وہ بے یقینی سے بڑبڑایا ۔۔اور تیزی سے سیڑھیاں پھلانگتا نیچے بھاگا ۔۔۔
جہاں زبردست آگ نے اسکا استقبال کیا ۔۔۔
محمد عارف کشمیری۔۔۔ ایک تعارف
خطہ کشمیر میں بہت سے ایسی قابل قدر شخصیات ہیں جنھوں نے کم وقت میں اپنی محنت اور خداداد صلاحیت...