وہ بھاگ رہی تھی اندھا دھند بغیر کسی چیز کی پروا کیے۔چپل تو کہیں پیچھے گر گئی تھی ۔پھتریلے راستے کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے اور کئی نوکیلے پھتر اس کے پیروں میں گھس کر اسکے پاؤں لہو لہان کر چکے تھے۔۔
کئی دفعہ ٹھوکروں کی وجہ سے اسکے بازوں،کوہنیاں اور ہتھلیاں چھل چکی تھیں۔
پکڑو سالی کو بھاگنے نا پائے ۔
پیچھے سے کرائے کے غنڈوں کے پیروں کی آواز اور واحیات آوازیں سن کر اسکے پیروں میں اور تیزی آ گئی۔
اس کے پاس سر ڈھکنے کے لیے نا دپٹا تھا نہ تن ڈھکنے کہ لیے چادر۔آج اسے دپٹے کی اہميت کا سہی اندازہ ہوا تھا۔
وہ خود کو جتنا کوستی اتنا کم تھا اسنے راہ بدلنے میں اتنی دیر کیوں کر دی۔
آگے دیکھتے ہی اسکے اوسان خطا ہوئے کیوں کے آگے گہری ڈھلوان تھی بہت گہری۔
اب کہاں جائے گی بلبل آج تو تیرا کریا کرم ہم اپنے ہاتھوں کریں گے۔ ان سبھی کہ منہ سے حوس ٹپک رہی تھی۔
آگے کنواں تھا تو پیچھے کھائی ۔
اس نے آنسو بھری آنکھوں سے اوپر دیکھا اور دل میں پختہ ارادہ لیے ہوئے کود پڑی۔
آآآآآآ
اس نے اپنی عزت کو بچانا ضروری سمجھا تھا اب اتنی آگے جا کر وہ اپنے قدم پیچھے نہیں لے سکتی تھی۔۔۔۔۔
*****************
مجھے چھوڑ دو مجھے جانے دو میں نے کچھ نہیں کیا۔خدارا مجھے بخش دو۔
اس بندھے ہوئے شخص کی دہائیاں عروج پر تھیں۔اس کے چہرے پر موت کا خوف بخوبی دیکھا جا سکتا تھا۔
سامنے سے آتے شخص کو دیکھتے ہی اس پر لرزا تاری ہو گیا،زبان دنگ ہو گئی،پسینا ٹپکنے لگا ۔
اسے خوف محسوس ہوتا بھی کیوں نا اپنی موت جو سامنے دیکھ لی تھی۔
۔Slayer ہاتھ میں بڑا سا خطرناک طرز کا بنا ہوا نوکیلا اور تیز دھار چاکو لیے سامنے سے چلا آ رہا تھا۔
اس کے پاس پہنچتے ہی وہ آدمی حواس میں لوٹا۔slayer مجھے معاف کردو آئندہ یہ غلطی نہیں ہو گی۔
وہ ہامپتے کامپتے گڑگڑایا۔۔۔۔
وہ جانتا تھا یہ سب بےکار ہے مگر اسنے کوشش کرنا ضروری سمجھا ۔۔۔
شکور تم نے میری بات کو نظر انداز کیا اسنے چاکو کی نوک پر انگلی پھیرتے پوچھا۔
انداز کافی برفیلا تھا جو شکور کو اندر تک جما گیا۔
مجھے معااا ا ”
اس سے پہلے کے وہ اپنی بات پوری کرتا اس کا کان بجلی کی سی تیزی سے کٹتے ہوئے دور جا گرا۔
آآآاآآآآآآآآآ
اس بوسیدہ کمرے میں اسکی تڑپتی دردناک اوازیں گونجنے لگیں ۔۔۔۔
اسی طرح دوسرا کان بھی کٹ کر دور جا گرا اسکی گردن تیزی سے خون سے بھرنے لگی۔
وہ کیا ہے نا شکور ۔۔۔۔
اس نے اپنی بات کو وقفہ دیتے کہا۔
“جو میری بات نہیں سنتا میں اسے دوسرے کی سننے کے قابل نہیں چھوڑتا۔”
وہ پراسرار لہجے میں کہتے ہوئے اسکے قریب آنے لگا جو درد سے بلک رہا تھا آہستہ آہستہ اس کمرے میں کربناک چیخوں کا انبار لگ گیا۔
وہ ایسا ہی تھا سفاک جلاد تبھی تو اسے سب slayer کہتے تھے۔۔
یعنی روح قبض کرنے والا
****************
وہ چار لڑکے یونی کے گراؤنڈ میں برگد کے درخت کے نیچے اپنی مخصوص جگہ پر بیٹھے تھے۔ ان میں سے تین لڑکوں کا رخ اپنے سربراہ کی طرف تھا جو درخت سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔
اوشن بلیو آنکھیں،ماتھے پر لاپرواہی سے بکھرے بال جو وہاں کھڑی ہر لڑکی کی متوجہ اپنی طرف سمیٹ رہے تھے،سونے پے سہاگا ورزشی مظبوط جسم یونی کی ہر لڑکی کا آیڈیل تھا وہ،سفید رنگت،ہوتی بھی کیوں نا خانزادہ تھا وہ۔۔۔۔
لڑکیاں اسکی ایک نظر کی منتظر رہتیں مگر خود سے اسکے پاس جانے کی ہمت مفقود پاتی تھیں وجہ اسکی مشکوک حرکات اور لیا دیا سا لہجہ تھا۔
اپنا دل کرتا تو کسی لڑکی کو منہ لگاتا ورنہ ایک نظر نا دیکھتا۔۔
تو آخر عورت زات سے اتنی نفرت کیوں کرتا ہے۔ان میں سے ایک لڑکے بشیر نے کہا۔۔۔
کیونکہ عورت زات ہوتی ہی نفرت کے قابل ہے۔۔۔
تو پھر تو انکے ساتھ رات کیوں گزارتا ہے۔۔۔
دوسرے لڑکے اہتشام نے پوچھا۔
کیونکہ وہ اسی قابل ہیں کہ انہیں ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیا جائے اور پھر ضرورت پوری کرتے ہی پھینک دیا جائے۔
اسنے خباثت سے کہا تو سارے ہنس دیے۔
اور ویسے بھی لڑکیاں تیار ہو کر ہمارے سامنے آتی ہی کیوں ہیں۔
اس نے تلخی سے کہا۔۔۔
اور مرد ہونے کے ناطے ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ انھیں سراہیں۔۔۔
اسنے آنکھ مارتے کہا تو چاروں کا خباثت زدہ قہقہ گونجا۔
اس نوجوان جس کا نام سیال خان تھا۔۔
اگر کوئی جان لیتا کہ اس خوبصورت چہرے کے پیچھے اتنی کراہیت بھری سوچ ہے تو لوگ اس سے دور بھٹکتے۔۔۔۔
ویسے بھی لوگ اس کی بری شہرت کی وجہ سے دور ہی رہتے تھے۔ ہفتے میں ایک دفعہ حوالات کی ہوا کھانا تو اس کا فرض تھا جیسے اور پھر غنڈا گردی، مار دھاڑ اور بلیک میلنگ میں تو جیسے اس نے پی ایچ ڈی کی تھی۔
دفعتاً وہ اٹھا اور کیفے جانے لگا جب سامنے سے آنے والی لڑکی سے ٹکرا گیا۔۔۔
اس نے سرخ آنکھوں سے اس لڑکی کو دیکھا جیسے ساری غلطی اسی کی ہو۔۔۔۔جو نیچے گراؤنڈ سے اپنے نوٹس اٹھا رہی تھی۔
وہ چونکا تب جب وہ لڑکی نوٹس اٹھاتے رکی کیونکہ کچھ نوٹس سیال خان کے پاؤں کے نیچے دبے تھے جنہیں وہ مضطرب انداز سے دیکھ رہی تھی۔
سیال نے اسکی آنکھوں میں دیکھا اور غرور سے اسکے نوٹس کو مسلا جو اسکے پاؤں کے نیچے دبے تھے۔۔۔۔
سامنے بیٹھی لڑکی نے دکھ اور غصے سے اسکی حرکت کو ملاحظہ کیا اور اسکے عین سامنے کھڑی ہوئی۔۔۔۔
یہ کیا حرکت ہے۔۔۔۔وہ بپھری شیرنی بنی بولی تو وہ محضوظ ہوا ۔۔۔۔
یہ میرے راستے میں آنے کی چھوٹی سے سزا ہے۔
اسکی بات مقابل کو طیش دلا گئی۔۔۔
مطلب کیا ہے آپ کا اندھوں کی طرح خود چل رہے ہیں اور الزام دوسروں پر دھر رہے ہیں۔۔۔
اسکی بات سنتے ہی سیال شاہ نے اسے کڑے تیوروں سے دیکھا۔۔۔
اے لڑکی جانتی بھی ہو کون ہوں میں۔۔۔
خان زادہ ہوں میں اپنے سے اونچی اواز میں بات کرنے والے کو کہیں کا نہیں چھوڑتا صرف دو پل لگیں گے مجھے تمہاری اکڑ توڑنے میں۔۔۔۔
اس نے غصے سے وارننگ دیتے لہجے میں کہا۔۔۔
اگر تم خان زادہ ہو تو میں بھی خان زادی ہوں،میری رگوں میں بھی پختون خون ہے۔اگر سامنے والا عزت دینے کا قائل نا ہو تو اسکی عزت دو کوڑی کی کرتے موقع یا محل نہیں دیکھتی میں۔۔۔
اس نازک حسینہ کے لہجے میں بھی پھنکار تھی جیسے مقابل کو آنکھوں سے جلا کر راکھ کر دے گی۔۔۔
وہ پہلے تو حیران ہوا آج تک کسی لڑکی کی جرات نہیں ہوئی تھی اس سے بات کرنے کی اور یہ چھٹانک بھر کی لڑکی اسے سبکے سامنے بےعزت کر رہی تھی۔۔۔۔
لمحوں میں اسکے غصے کا گراف بڑھا تھا اس سے پہلے کے وہ اس پر جھپٹتا ۔۔۔۔۔
اسکے دوستوں نے اسے گرفت میں لیا۔۔۔۔
کیا کر رہا ہے سیال لوگ دیکھ رہے ہیں اور ڈین بھی کسی وقت آ سکتے چل یہاں سے۔۔۔
وہ نا چاہتے ہوئے بھی انکے ساتھ گھسیٹتا چلا گیا۔۔۔۔
مگر جانے سے پہلا اسکے سامنے رکا ۔۔۔۔
دیکھ لوں گا تمیں ۔۔۔۔اسکے وارننگ دیتے لہجے پر تو دو پل کو ایشمل خان زادہ بھی کانپ گئی مگر ڈٹ کر اسکی آنکھوں میں دیکھتی رہی۔۔۔
یہ لڑکا اسے زہر سے بھی برا لگا تھا یہ تو طے تھا کہ آئندہ وہ اسکے منہ بھی نہیں لگے گی۔مگر آگے کیا ہونا تھا یہ تو وقت جانتا تھا یا خدا۔۔۔۔
********************
کیا ہوا ایشی۔۔۔۔
منہ کیوں پھولا ہوا ہے۔۔۔
دراب نے اپنی دوست جیسی کزن کو پوچھا۔۔۔
جو دمکتی سنہری رنگت پر سبز نین کٹوروں میں خفگی لیے،پھولے پھولے دھوپ کی وجہ سے سرخ گالوں میں،پنکھڑیوں جیسے لب معصومیت سے لٹکائے سامنے کھڑے دراب کو مسکراہٹ ضبط کرنے پر مجبور کر گئی۔۔۔
کیا بتاؤ دری آج ایک سر پھرے لڑکے نے میری اسائنمنٹ خراب کر دی کتنی مشکل سے بنائی تھی میں نے ۔۔۔
اسنے جھنجلاتے ہوئے کہا۔۔۔
جب دراب پر نظر پڑی تو فواراً دانت نکالتے ہوئے اپنے جملے کی تصحیح کی میرا مطلب ہے کہ تم نے بنائی اور میں نے مدد کی…
اس کے تیزی سے بیان بدلنے پر وہ دل سے ہنس دیا۔۔۔۔
تو ہماری دی گریٹ ایشی نے اس لڑکے کا کیا کیا۔۔۔
وہ اپنی اس نڈر اور منہ پھٹ کزن کو بھی جانتا تھا جو اگلے بندے کو دن میں تارے دکھا دیتی تھی اب بھی ضرور کسی کی شامت آئی ہوگی وہ جانتا تھا۔۔۔
زیادہ کچھ نہیں بس حساب بے باک کر دیا اس نے فرضی کالر جھاڑتے کہا تو سر دائیں بائیں ہلا کر رہ گیا جیسے کہہ رہا ہو اس کا کچھ نہیں ہوسکتا۔۔۔۔
**************
تم مجھ سے کتنا پیار کرتے ہو اس لڑکی نے کئی بار کا پوچھا جانے والا سوال اس کتاب میں مصروف لڑکے سے دوبارہ پوچھا۔۔۔
اس لڑکے کو اپنی طرف متوجہ نہ دیکھتے اس لڑکی نے جھنجلاتے ہوئے اس کی کتاب کھینچی اور دوبارہ سوال دہرایا۔۔۔
اظہر نے نظریں اس رامین پر ٹکائی اور کہا کیا تمہیں میری نظروں میں دیکھ کر معلوم نہیں ہوتا کہ میں تم سے کتنا پیار کرتا ہوں۔۔۔
رامین نے اظہر کی آنکھوں میں دیکھا جہاں محبت کا ایک جہاں آباد تھا وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر کھلکھلا کر مسکرائی۔۔۔
کتنی دفعہ تو تم سے پوچھا ہے اور اب بھی پوچھتا ہوں کہ اپنے گھر والوں کو تمہارے گھر کب بھیجوں تاکہ تمہیں میری محبت کا یقین آ جائے۔۔۔۔
جس پر رامین نے مسکراتے ہوئے بات ڈال دی
******************
زاہد سرفراز زاہد ۔۔۔ فن نعت گوئی کا خوبصورت نگینہ
محمد زاہد سرفراز کا ادبی نام زاہد سرفراز زاہد ہے۔ آپ کا شمار عہدِ حاضر کے نوجوان شعرا میں نعت...