عثمان نے علی سے مسکراتے ہوئے کہا: کیا ہوا علی صاحب آپکے رنگ کیوں اڑگئے ہیں۔
علی نے ہچکچاتے ہوئے کہا:ککک کچھ نہیں۔
عثمان نے کہا: دیکھوں میں یہاں تمہارے بھلے کے لئے ہی آیا ہو۔
علی نے حیرانگی سے پوچھا: بھلا کیسا بھلا؟؟؟
عثمان نے کہا: پہلے مجھے یہ بتاؤ کہ تم آئمہ کو حاصل کرنا چاہتے ہو؟؟؟
علی تو واقعی آئمہ سے محبت کرتا تھا اور اسے کسی بھی قیمت پر حاصل کرنا چاہتا تھا۔
علی نے نیچے منہ کرتے ہوئے کہا: ہاں میں اس سے پیار کرتا ہو اور اسے حاصل بھی کرنا چاہتا ہو کسی بھی قیمت پر۔
عثمان نے کہا: یہ ہوئ نا بات ایسے بولو نا۔
علی نے کہا: آپ آئمہ کو کیسے جانتے ہے اور آپکو یہ کیسے پتا چلا کہ میں آئمہ سے محبت کرتا ہو؟؟؟
عثمان نے کہا: آئمہ میرے چھوٹے بھائ آزر کی بیوی ہے اور میں نے تمہیں اس دن آئمہ سے بات کرتے ہوئے سنا تھا جب تم آئمہ کو منانے کی ناکام کوشش کرہے تھے۔
یہ سن کر علی کافی حیران ہوا اس نے کہا: اوووو اچھا۔
عثمان نے کہا: اگر تم آئمہ کو حاصل کرنا چاہتے ہو تو تمہیں میرا ایک کام کرنا ہوگا؟؟؟
علی نے کہا: کیسا کام؟؟؟
عثمان نے کہا: تمہیں میرے ساتھ مل کر آئمہ کو اغوا کرنا ہوگا پھر ہم اسے ایک سنسان جگہ پر لے جائے گے جہاں کوئ نہیں آتا ہوگا اور مجھے ایسی جگہ کا پتا ہے پھر تمہیں آئمہ کیساتھ جو کرنا ہوگا تم کرسکتے ہو تو بولو کیا تم راضی ہو۔
علی کافی حیران ہوا اس نے عثمان کی طرف دیکھا اور کہا: مگر اس سب میں آپکو کیا فائدہ ہوگا کیا آپکی آئمہ کیساتھ کوئ دشمنی ہے؟؟؟
عثمان نے کہا: دیکھوں یہ سب کچھ میں تمہارے لئے کرہا ہو اس دن تمہیں آفس میں روتے ہوئے دیکھ کر مجھے بہت دکھ ہوا تھا تو میں تو بس یہی چاہتا ہو کہ تم آئمہ کو حاصل کرلو بس۔
علی نے کہا: دیکھئے سر میں آئمہ سے محبت کرتا ہو مانتا ہو میں یہ بات مگر اسے حاصل کرنے کے لئے میں اس حد تک نہیں جاسکتا میں تو بس اس سے شادی کرکے ایک ہنسی خوشی زندگی گزارنا چاہتا ہو بس۔
عثمان نے کہا: اوووو تو پھر شاید میں غلط جگہ پر آگیا ہو ٹھیک ہے بیٹھے رہو ایسے ہی عاشق بن کر اور ایسے ہی خواب دیکھتے رہو میں تو بس تمہارے خوابوں کو حقیقت میں بدلنا چاہتا تھا۔
علی نے کہا: اوووو اچھا تو پھر آپ اپنے بھائ کے بارے میں کیوں نہیں سوچ رہے ہے جس کی آپ زندگی برباد کرنا چاہتے ہے آخر وہ بھی تو آئمہ سے محبت کرتا ہے۔
یہ سن کر عثمان ایک دم چپ ہوگیا۔
اسے مزید غصّہ آیا اس نے غصے سے کہا: زیادہ بکواس مت کرو آئ سمجھ مت بھولو کہ میں تمہارا boss ہو۔
علی نے کھڑے ہوکر کہا: مجھے لگتا ہے کہ آپ خود بھی آئمہ کی محبت میں پاگل ہوگئے ہے اور آپ بھی آئمہ کو حاصل کرنا چاہتے ہے۔؟؟؟
عثمان نے کھڑے ہوکر غصے میں وہ بول دیا جو اسے نہیں بولنا چاہئے تھا عثمان نے کہا: آئمہ کو حاصل کرنا چاہتا نہیں بلکہ آئمہ کو حاصل کرچکا ہو۔
یہ سن کر علی پر تو جیسے بجلی گرگئ ہو
اب علی کا بھی میٹر گھوم چکا تھا اس نے بھی غصے سے عثمان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا: کیا کیا کہا تم نے۔؟؟؟
عثمان نے کہا: وہی جو تم نے سنا۔
علی نے عثمان کا گریبان پکڑ لیا اور نہایت غصے سے کہا: کیوں کیا تم نے اس بیچاری کیساتھ ایسا بولو۔
عثمان نے اپنا گریبان چھڑایا اور ایک زہریلی سی مسکراہٹ لیتے ہوئے کہا: کیا کرتا وہ ہے ہی اتنی خوبصورت میں خود کو روک ہی نہیں سکا۔
عثمان نے مزید کہا: اور ہاں آئندہ کے بعد اگر تم نے میرا گریبان دوبارہ پکڑنے کی کوشش بھی کی تو میں تمہیں زمین میں زندہ گاڑ دو گا۔
یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلا گیا عثمان علی کے پاس اس لئے آیا کیونکہ اسے اس بات کا ڈر تھا کہ آئمہ کسی کو حقیقت نا بتادے وہ چاہتا تھا کہ وہ علی کیساتھ مل کر آئمہ کو اغوا کرے اور علی کو آئمہ کیساتھ ریپ کرنے پر مجبور کردے تاکہ جب علی آئمہ کیساتھ ریپ کرہا ہو تو وہ اس کی video چھپ کر بنالے اور video جاکر آزر کو اور اپنے ماں باپ کو دکھا کر آئمہ کی اور آزر کی طلاق دلوا کر اسے گھر سے نکلوا دے مگر جیسا اس نے سوچا تھا ویسا نہیں ہوا۔
علی کافی غصے میں تھا پھر علی کو یاد آیا کہ اس کہ جیب میں موبائل سب record کرہا تھا کیونکہ اس نے ہی واش روم جاکر موبائل کی recording on کی تھی اس نے جلدی سے موبائل جیب سے باہر نکالا اور وہی ہوا جو اس نے سوچا تھا اس کہ پاس سب recording ہوگئ تھی اور وہ اس بات سے بہت خوش تھا۔
مگر دوسری طرف عثمان جو اس بات سے بلکل انجان تھا
اسے یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ علی سب ریکارڈ کرہا تھا۔
رات کے دس بج چکے آزر آئمہ اور آزر کے ماں باپ کھانے کے ٹیبل پر بیٹھے کھانا کھارہے تھے کہ اچانک عثمان بھی وہاں پر آگیا عثمان کو دیکھ کر آئمہ نے کھانا وہی چھوڑا اور سب کو کہا: میرا پیٹ بھر گیا ہے میں اوپر کمرے میں سونے جارہی ہو۔
آزر نے کہا: ارے ابھی تم نے کھایا تو نہیں کچھ آؤ اب تو عثمان بھی آگیا ہے بیٹھ کر کھانا کھاؤ۔
عثمان بھی وہی ٹیبل پر بیٹھ گیا اور کہا: جی بھابھی بیٹھ جائے نا پلیز۔
آئمہ نے ایک غصے بھری نظر عثمان کی طرف کی اور فوراً کہا: آزر میرا پیٹ بھر گیا ہے آپ اوپر اجائیے گا۔
یہ کہہ کر وہ اوپر چلی گئ آزر کی والدہ نے کہا: ارے اسے کیا ہوگیا۔
آزر نے کہا: امی شاید اس کا دل نا کرہا ہو کھانا کھانے میں تو اسی لئے شاید۔
عثمان نیچے منہ کرکے ہنس رہا تھا۔
تھوڑی دیر تک سب وہی بیٹھے رہے اور پھر اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔
آزر نے جاکر آئمہ کو دیکھا جو کہ بیڈ پر بیٹھی تھی اور ایک جگہ پر ہی دیکھی جارہی تھی جیسے بہت گہری سوچ میں ہو۔
آزر نے جاکر آئمہ کو کہا: ارے آئمہ کیا ہوگیا ہے تمہیں تم نے کھانا بھی نہیں کھایا اور یہاں آگئ۔
آئمہ نے آزر کی طرف دیکھا اور کہا: مجھے بھوک نہیں ہے۔
آزر آئمہ کے پاس گیا اور کہا: اچھا کیوں بھوک نہیں ہے۔
آئمہ نے کہا: میں نے دوپہر کو کھانا کھا لیا تھا۔
آزر نے کچھ سوچا اور آئمہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: ہممم تو پھر کیا ice cream بھی میرے ساتھ باہر کھانے نہیں جاؤ گی دیکھوں منا مت کرنا مجھے پتا ہے تمہیں ice cream کتنی پسند ہے۔
آئمہ ابھی کچھ کہنے ہی لگی تھی کے آزر نے آئمہ کے ہونٹوں پر انگلی رکھتے ہوئے کہا: کچھ نہیں چلے گا چلو تیار ہو۔
آئمہ نے آزر کو دیکھا اور مسکرا دی۔
آزر نے کہا: یہ ہوئ نا بات چلو میں گاڑی میں تمہارا انتظار کرہا ہو۔
یہ کہہ کر وہ نیچے چلا گیا جبکہ آئمہ تیار ہوکر سیدھا نیچے ہی چلی گئ اور جاکر گاڑی میں بیٹھ گئ پھر دونوں ice cream کھانے نکل پڑے ابھی وہ پہنچنے ہی والے تھے کے انکی گاڑی ایک سنسان سڑک پر جاکر خراب ہوگئ۔
آزر نے باہر نکل کر گاڑی کو دیکھا اور کہا: ارے یار اسے بھی ابھی ہی خراب ہونا تھا شٹ۔
آئمہ نے کہا: کیا ہوا آزر؟؟؟
آزر نے کہا: یار گاڑی خراب ہوگئ ہے۔
آئمہ نے کہا: اب کیا کرے؟؟؟
آزر نے کہا: یہاں کوئ کے بھی نہیں جس سے مدد مانگے۔
ابھی وہ بات ہی کرہے تھے کہ سامنے سے ایک موٹر سائیکل پر ایک آدمی ہیلمٹ پہنے آرہا تھا اس آدمی کو دیکھ کر آزر نے اسے مدد کے لئے روکا۔
جب اس آدمی نے موٹر سائیکل روک کر آزر کی طرف اور گاڑی میں بیٹھی آئمہ کی طرف اس کی نظر پڑی تو اس نے اپنا ہیلمٹ اتار دیا۔
جب آزر نے اس آدمی کا منہ دیکھا تو وہ کافی حیران رہ گیا کیونکہ وہ آدمی علی تھا علی کو دیکھ کر آزر نے کہا: علی تم؟؟؟
علی نے کہا: ہاں میں۔
آزر نے غصے سے کہا: نہیں مجھے تم سے کوئ مدد نہیں چاہئے جاؤ یہاں سے۔
علی نے مسکراتے ہوئے کہا: ارے یار کیسی بات کررہے ہو رات کا وقت ہے سنسان سڑک ہے اور تم ایک لڑکی کیساتھ اکیلے ہو کچھ بھی ہوسکتا ہے مجھے گاڑی دیکھنے دو۔
آزر نے علی کی طرف انگلی کرتے ہوئے کہا: اچھی طرح سے جانتا ہو میں کہ تم مدد کیوں کرنا چاہتے ہو دفع ہوجاو یہاں سے۔
یہ سن کر علی کو بھی غصّہ چڑھ گیا اس نے کہا: کیوں تیرے باپ کی سڑک ہے۔
یہ سن کر آزر کو مزید غصّہ آیا اس نے علی کا گریبان پکڑ لیا اور کہا: میں نے کہا دفع ہو یہاں سے۔
یہ سب کچھ دیکھ کر آئمہ گاڑی سے باہر نکلی اور جاکر علی کو دیکھا علی کو دیکھ کر اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئ اس نے کہا: علی تم؟؟؟
علی نے کہا: ہاں میری جان میں۔
یہ سن کر آزر کا میٹر گھوم گیا اس نے ایک زور دار مکا علی کے منہ پر دے مارا جس کی وجہ سے وہ نیچے گرگیا۔
یہ دیکھ کر آئمہ ڈر گئ۔
علی کی آنکھیں غصے سے لال ہوگئ اس نے کھڑے ہوکر آزر کے پیٹ پر لات ماری جس کی وجہ سے آزر بھی نیچے گر گیا یہ دیکھ کر آئمہ آگے بڑھی اور علی کو دھکا دیا۔
علی ایک سائیڈ پر ہوگیا آزر سے اور برداشت نا ہوا اس نے ایک پتھر اٹھایا اور علی کے سر پر مارا جس کی وجہ سے علی کا سر پھٹ گیا اور وہ پھر سے نیچے گر گیا آئمہ نے ڈرتے ہوئے کہا: ااااا آزر نہیں۔
علی نے اپنی جیب سے پستول نکالی اور غصے میں آکر اس نے وہ پستول آزر پر چلادی گولی سیدھا آزر کے پیٹ پر بجی
یہ دیکھ کر آئمہ کے حلق سے زوردار چیخ نکلی
علی نے غصے میں آکر پتا نہیں کیا کردیا وہ بھی یہ نہیں جانتا تھا۔
علی جلدی سے اپنی بائیک پر بیٹھا اور وہاں سے فرار ہوگیا۔
آئمہ کی بری حالت تھی آزر نیچے گرا تڑپ رہا تھا آئمہ نے آزر کو پکڑا اور رو رو کر کہا: نننن نہیں آزر نہیں تمہیں کچھ نہیں ہوگا نننن نہیں۔
آزر کی آنکھیں دھیرے دھیرے بند ہورہی تھی آئمہ کی تو جیسے جان نکل گئ ہو وہ چیخ چیخ کر مدد کے لئے پکار رہی تھی آئمہ کا آزر کا نکلتا خون دیکھ کر اس کا دل پھٹنے کو آرہا تھا وہ چیخ چیخ کر رو رو کر مدد کے لئے پکار رہی تھی مگر وہاں کوئ نہیں تھا۔
آزر کی آنکھیں مکمل طور پر بند ہوچکی تھی۔۔۔۔
آزر کا مسلسل نکلتا خون دیکھ کر آئمہ کی بری حالت تھی وہ چیخ چیخ کر مدد کی پکار لگا رہی تھی کہ اچانک وہاں پر سے ایک گاڑی گزری گاڑی میں بیٹھے شخص نے جب سامنے کا منظر دیکھا تو وہ بلکل ساکت ہوگیا وہ جلدی سے گاڑی سے اترا اور جاکر آزر کو دیکھا۔
آئمہ نے اس شخص کو دیکھا اور روتے ہوئے کہا: پلیز خدا کے لئے ہماری مدد کرو خدا کے لئے مدد کرو۔
اس آدمی نے جلدی سے آزر کو اٹھایا اور جاکر گاڑی کی پچھلی سیٹ پر لٹایا آئمہ بھی آزر کیساتھ ہی بیٹھ گئ
رورو کر آئمہ کی بری حالت تھی۔
وہ آدمی جلدی سے انہیں ہسپتال لے گیا۔
ہسپتال پہنچ کر آزر کی حالت دیکھ کر ڈاکٹرز نے جلدی سے آزر کو آپریشن وارڈ میں لے گئے آئمہ ڈاکٹر کو رو رو کر کہہ رہی تھی کہ پلیز آزر کو بچالے پلیز۔
اس آدمی نے آئمہ سے کہا: آپ پریشان مت ہو اللہ سے دعا کرے۔
آئمہ کا رو رو کر سانس تک اکھڑ رہا تھا
آئمہ کی سسکیاں رک ہی نہیں رہی تھی ساتھ کھڑی نرسز نے آئمہ کو سنبھالا۔
اس آدمی نے کہا: آپ ایسا کرے کہ گھر کہ باقی افراد کو بھی اطلاع کردے۔
اس شخص نے اپنا فون نکال کر آئمہ کو دیا تاکہ وہ گھر میں اطلاع کرسکے۔
آئمہ نے فون پکڑا اور آزر کے والد کی طرف کال کی۔
آزر کے والد نے کال اٹھائ اور کہا: ہیلو کون؟؟؟
آئمہ نے روتے ہوئے کہا: ابو میں میں بات کرہی ہو آئمہ۔
آزر کے والد نے حیرانگی سے کہا: ارے بیٹا کیا ہوا رو کیوں رہی ہو سب خیریت ہے؟؟؟
آئمہ نے کہا: ابو آااا آزر کو گگگ گولی لگی ہے اس کی بہت بری حالت ہے مممم میں میں ہسپتال میں ہو آپ لوگ پلیز جلدی اجائے۔
یہ سن کر آزر کے والد کو یوں لگا جیسے اس کے پیروں کے نیچے سے زمین کھسک گئ ہو اس نے تڑپتے ہوئے کہا: آئمہ یہ کیا کہہ رہی ہو تم ہوش میں تو ہو تم؟؟؟؟
آئمہ نے سسکیاں لیتے ہوئے کہا: نننن نہیں ابو آزر کا اندر آپریشن ہورہا ہے اسکی حالت ٹھیک نہیں ہے پلیز آپ لوگ جلدی یہاں پہنج جائے۔
یہ سن کر آزر کے والد نے کانپتے ہوئے کال کاٹی اور جلدی سے آزر کی والدہ کو اٹھایا اور اسے سب کچھ بتایا۔
یہ سب سن کر اس کی ماں کی تو جیسے جان نکل گئ ہو اس نے کہا: نہیں نہیں کہہ دے کہ یہ جھوٹ ہے ایسا نہیں ہوسکتا یااللہ خیر۔
آزر کا والد جلدی سے بھاگتے ہوئے جاکر عثمان کو اٹھایا اور اسے سب بتاکر جلدی سے گاڑی نجانے کا کہا۔
عثمان کی بھی یہ جان کر کافی پریشان ہوگیا اس نے جلدی جاکر گاڑی نکالی اور بغیر کوئ وقت ضائع کئے وہ سب وہاں سے سیدھا ہسپتال کی طرف گئے جب وہ سب ہسپتال پہنچے تو وہ سب اندر بھاگتے ہوئے گئے آپریشن روم کے پاس جاکر انہوں نے آئمہ کو دیکھا جس کے کپڑے خون سے بھرے ہوئے تھے اور وہ رو رہی تھی آزر کی ماں بھاگتی ہوئی آئمہ کے پاس گئ اور روتے ہوئے کہا: یہ یہ یہ خون آزر کا ہے ہائے میرا بچہ کہاں ہے میرا آزر بولو کہاں ہے ازر۔
یہ سن کر آئمہ نے روتے ہوئے اپنی ساس کو گلے سے لگا اور کہا: امی امی دعا کرے کہ آزر کو کچھ نا ہو ورنہ میں مرجاؤ گی۔
اس وقت سب پر قیامت آئ ہوئ تھی۔
تھوڑی دیر میں ڈاکٹر باہر آیا۔
ڈاکٹر کے باہر آتے ہی عثمان اور اس کے والد نے بھاگتے ہوئے جاکر ڈاکٹر سے پوچھا: ڈاکٹر صاحب کیسا ہے میرا بیٹا بولئے خطرے کی تو کوئ بات نہیں ہے نا بولئے پلیز؟؟؟؟
ڈاکٹر نے انکی طرف دیکھا اور کہا: دیکھئے ان کا کافی حد تک خون بہہ چکا ہے اور وہ اس وقت بے ہوش ہے ہم نے گولی تو نکال لی ہے مگر وہ ہوش میں نہیں آرہے ہے ہم نے انہیں خون کی بوتل لگادی ہے بس آپ لوگ دعا کرے کے اگلے چوبیس گھنٹے میں انہیں ہوش اجائے ورنہ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔
یہ سن کر سب کی بری حالت ہوگئ۔
آئمہ ڈاکٹر کے پاس گئ اور روتے ہوئے کہا: پلیز پلیز میرے آزر کو بچالے پلیز۔
یہ سن کر ڈاکٹر نے کہا: دیکھئے زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے ہم تو صرف کوشش کرسکتے ہے اس وقت آزر کو آپ لوگوں کی دعاؤں کی ضرورت ہے۔ شکریہ۔
یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلا گیا۔
سب کافی پریشان تھے۔
آزر کے والد نے آئمہ سے پوچھا: یہ سب کس نے کیا ہے میرے بیٹے کیساتھ۔؟؟؟؟
آئمہ نے روتے ہوئے کہا: ابو میری اور آزر کی یونیورسٹی میں ایک لڑکا پڑھتا تھا جس کا نام علی ہے اس نے کیا ہے یہ سب کچھ۔
یہ سن کر عثمان کافی شوکڈ ہوگیا۔
آزر کی والدہ آگے بڑھی اور روتے ہوئے کہا: مگر اس کا میرے بیٹے نے کیا بگاڑا تھا؟؟؟
آئمہ نے روتے ہوئے کہا: امی وہ مجھے چھیڑتا تھا یونیورسٹی میں بھی اور باہر بھی یہ بات آزر بھی جانتا ہے
اور یوں پھر ہماری گاڑی خراب ہوگئ تھی وہ وہاں پر آیا اور اس نے مجھے چھیڑا جس کی وجہ سے آزر کو غصہ آیا اور ان دونوں میں کافی لڑائ شروع ہوگی میں نے انہیں چھڑانے کی بہت کوشش کی مگر علی نے مجھے سائیڈ پر دھکیل کر آزر کو گولی ماردی اور خود وہاں سے فرار ہوگیا۔
یہ سن کر عثمان نے غصے سے کہا: میں اس کمینے کا ابھی جاکر علاج کرتا ہو۔
اس کے والد نے کہا: کیا تم اس حرام زادے کو جانتے ہو۔
عثمان نے کہا: ہاں جانتا ہو۔
یہ کہہ کر عثمان نے بغیر کوئ وقت ضائع کئے ہسپتال سے باہر نکلا اور گاڑی میں بیٹھ کر علی کے گھر کی طرف روانہ ہوگیا جب وہ وہاں پر پہنچا تو اس نے گھر کا دروازہ زور زور سے کھٹکھٹایا شور کی آواز سن کر علی جاگ گیا اس نے جاکر دروازہ کھولا ابھی دروازہ کھلا ہی تھا کہ عثمان نے زور سے علی کو دھکا دیا جس کی وجہ سے وہ نیچے گر گیا علی نے عثمان کی طرف دیکھا اور کہا: اووووو تم!
عثمان اس کے قریب گیا اور نہایت غصے سے چیخ کر کہا: کیوں کیا تم نے میرے بھائ کا یہ حال بول۔
علی نے کہا: زیادہ چیخوں مت تم اس وقت میرے گھر پر کھڑے ہو۔
عثمان نے ایک زور دار مکا اس کے منہ پر دے مارا اور کہا: تجھے تو میں ابھی اور اسی وقت پولیس کے حوالے کردو گا چل میرے ساتھ۔
یہ کہہ کر اس نے علی کو گھسیٹتے ہوئے باہر لے گیا۔
علی نے خود کو چھڑایا اور نہایت غصے سے کہا: تو تم نے کونسا اپنے بھائ کیساتھ وفا کی ہے میں نے تو چلو اسے سامنے سے گولی ماری ہے تم نے تو اسے پیچھے سے وار کیا ہے۔
عثمان نے کہا: تو چل میرے ساتھ۔
یہ کہہ کر اس نے پھر سے علی کو پکڑا اور اسے لے کر جانے لگا کہ علی نے چیختے ہوئے کہا: اگر اب تم نے مجھے دوبارہ اس طرح سے پکڑا تو میں تمہارا تمہارے گھر والو کو سب کچھ سچ سچ بتا دو گا کہ تم نے آزر کی بیوی آئمہ کیساتھ کیا کیا ہے؟؟؟
یہ سن کر عثمان کو بہت غصہ آیا اس نے علی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا: کیا بولے گا تو تجھے کیا لگتا ہے تو جو بولے گا ویسا ہی ہوگا۔
علی نے کہا: ہاں ویسا ہی ہوگا کیونکہ میرے پاس ثبوت ہے۔
ثبوت کا نام سن کر عثمان کے رونگٹے کھڑے ہوگئے اس نے حیرانگی سے پوچھا: ثبوت کیسا ثبوت؟؟؟
علی نے مسکراتے ہوئے کہا: میرے پاس تیری ایک ایک بات کی ریکارڈنگ پڑی ہے۔۔۔
یہ سن کر عثمان کی حالت پتلی ہوگئ۔
اچھا مطلع کیسے لکھیں؟
(پہلا حصہ) میں پہلے ہی اس موضوع پر لکھنے کا سوچ رہا تھا اب "بزمِ شاذ" میں بھی ایک دوست...