(Last Updated On: دسمبر 22, 2022)
کیا دن تھے وے کہ یاں بھی دلِ آرمیدہ تھا رُو آشیانِ طائرِ رنگِ پریدہ تھا قاصد جو واں سے آیا تو شرمندہ میں ہوا بے چارہ گریہ ناک گریباں دریدہ تھا اک وقت ہم کو تھا سرِ گریہ کہ دشت میں جو خارِ خشک تھا سو وہ طوفاں رسیدہ تھا جس صید گاہِ عشق میں یاروں کا جی گیا مرگ اس شکار گہ کا شکارِ رمیدہ تھا مت پوچھ کس طرح سے کٹی رات ہجر کی ہر نالہ میری جان کو تیغِ کشیدہ تھا حاصل نہ پوچھ گلشنِ مشہد کا بوالہوس یاں پھل ہر اک درخت کا خلقِ بریدہ تھا دل بے قرار گریۂ خونیں تھا رات میرؔ آیا نظر تو بسملِ در خوں تپیدہ تھا