یہ محفل گرم تھی لیکن یہاں اک اور گل پھولا
اٹھا شور اک طرف سے شاعر اپنی داستاں بھولا
پڑی افتاد کوئی ہو ئی بزم سخن برہم!
کوئی طوفان اٹھا جس نے کر دی انجمن برہم
جمے تھے کان ان کے شاعروں کی داستانوں پر
مغلظ گالیاں کیوں آگئیں ان کی زبانوں پر
یہ کیوں گالی گلوچ اور مار دھاڑ آپس میںہوتی ہے
یہ عورت کون ہے کیوں پیٹتی ہے اور روتی ہے
یہ کیوں اٹھی ہے خلقت تیغِ خوں آشام لے لے کر
پکارے جا رہے ہیں کیوں قبیلے نام لے لے کر
نظر آتی ہیں کیوں ہر سمت تلواریں ہی تلواریں
یہ کس نے مار ڈالا سرخ کیوں کر ہو گئیں دھاریں
سبب اس برہمی کا کچھ نہیں کھلتا خدا جانے
یہ باہم جنگ کیوں کرنے لگے ہیں اٹھ کے دیوانے
سبھی الجھے ہوئے ہیں کون سنتا کون کہت اہے
مگر لاشوں پہ لاشیں گر رہی ہیں خون بہتا ہے
کوئی اتنا نہیں جو اس لڑائی کا سبب پوچھے
فروزاں کیوں ہوئی یہ آتش قہر و غضب پوچھے
کسی پر چل گیا خنجر کسی پر چل گیا بھالا
گرا جو زخم کھا کر اس کو قدموں نے کچل ڈالا
فغاں ہے شور ہے چیخیں ہیں شوریدہ نوائی ہے
بتوں کی منتیں ہیں اور بھوتوں کی دہائی ہے
لہو سے اس زمیں کا نامہ اعمال دھلتا ہے
بہت سے کشت وخوں کے بعد اتنا حال کھلتا ہے
کہ اک لڑکی نقاب اوڑھے ہوئے بیٹھی تھی بیچاری
ودیعت تھی جسے فطرت کی جانب سے حیاداری
شرارت کے لیے تاکا اسے عیاش لڑکوں نے
اسے دھوکے سے ننگی کر دیا اوباش لڑکوں نے
بہت سے لوگ بیٹھے تھے کسی نے بھی نہیں روکا
لگے ٹھٹھا اڑانے جب وہ لڑکی کھا گئی دھوکا
مفر کی اس پجاری کو نہ جب صورت دکھائی دی
تو لڑکی نے وہیں اپنے قبیلے کی دہائی دی
دہائی سن کے لڑکی کے لواحق طیش میں آئے
چمک تلوار کی دیکھی تو وہ لڑکے بھی گھبرائے
بچاؤ کی کوئی صورت نہ سوجھی ان رذیلوں کو
تو گھبرا کر پکار اٹھے شریر اپنے قبیلوں کو
صدا سنتے ہی ان کے لوگ بھی دوڑے ہوئے آئے
گھٹاؤں کی طرح دونوں طرف کے جوش ٹکرائے
اٹھا اب خنجروں کی بجلیوں میں جوش بیداری
لگے سر کٹ کے گرنے خون کی بارش ہوئی جاری
پڑی بنیاد جونہی دو گھرانوں میں لڑائی کی
تو لازم تھا کوئی کوشش کرے ان میں صفائی کی
مگر ان کی شریعت اور تھی جس پر یہ تھے عامل
کہ سب کے سب قبیلے ہوگئے اس جنگ میں شامل
کوئی اس کی حمایت میں کوئی اس کی حمایت میں
رہیں گے اب یہ سب مشغول جنگِ جاہلیت میں
یہ سارے خود کو اسمعیل کی اولاد کہتے ہیں
مگر ہم تو انہیں مادر پدر آزاد کہتے ہیں