انہی افکار میں بیٹھا تھا میں اک دن جھکائے سر
در آرام گاہِ شاہِ قطب الدین ایبک پر
وہ قطب الدین وہ مرد مجاہد جس کی ہیبت سے
یہ دنیا از سر نو جاگ اٹھی تھی خوابِ غفلت سے
اکھاڑیں ہند سے جس نے ستمگاری کی بنیادیں
رکھیں ہر دل میں انسانی رواداری کی بنیادیں
وہ جس کی جرات بیباک سے سفاک ڈرتے تھے
وہ جس کے بازوؤں کی دھاک سے افلاک ڈرتے تھے
وہ قطب الدین جس کے دامنِ تسخیر کا سایا
قُلوبِ راجگانِ ہند کو دامن میں لے آیا
لکھی ہے ذرے ذرے کی جبیں پر داستاں جس کی
ہے سُرخی داستانِ فاتحِ ہندوستاں جس کی
وہ جس کی ذات پر لفظ غلامی ناز کرتا تھا
ترقی کا تخیل عرش تک پرواز کرتا تھا
لئے بیٹھی ہے دہلی قلب میں نقشِ نگیں جس کا
لقب تاریخ میں ہے تاجدارِ اولیں جس کا
یہاں لاہور میں سوتا ہے اک گمنام کوچے میں
پڑی ہے یاد گارِ دولت اسلام کوچے میں
نجس ، ناپاک کوچہ جس میں کوئی بھی نہیں جاتا
وہاں سویا ہوا ہے مسندِ دہلی کا لَکھ داتا
یہ تربت ماتمی ہے ان حجازی شہسواروں کی
مسلمانوں نے مٹی بیچ لی جن کے مزاروں کی
یہاں تک ابرِباراں کی رسائی ہو نہیں سکتی
گھٹا روتی ہوئی آتی ہے لیکن رو نہیں سکتی
شعاعوں سے یہاں خورشید دامن بھر نہیں سکتا
فلک اس پر ستاروں کو نچھاور کر نہیں سکتا
یہ تربت چادر میتاب سے محروم رہتی ہے
نگاہوں سے چھپی رہتی ہے نامعلوم رہتی ہے
یہاں سہرے کہاں ، کیا ذکر پھولوں کے چڑھاوے کا
کوئی ساماں نہیں ہے اہل ظاہر کے دکھاوے کا
نہ پڑھتا ہے یہاں پر فاتحہ کوئی نہ روتا ہے
کسے معلوم ہے اس چھت کے نیچے کون سوتا ہے
ادھر لاہور کی دنیا کا ایماں سوز نظارا
جہاں تہذیب نو پھرتی ہے بازاروں میں آوارہ
ادھر اک تُربتِ خاموش کا اندوہگیں منظر
الم انگیز حسرت خیز عبرت آفریں منظر
نہیں ہے چار گز کا ٹکڑا زمیں کا جس کی قسمت میں
یہ تربت آسماں رفعت ہے میری چشم عبرت میں
میں اکثر شہر کے پر شور ہنگاموں سے اکتا کر
سکوں کی جستجو میں بیٹھ جاتا ہوں یہاں آ کر
مرے نزدیک اس تربت سے اب بھی شان پیدا ہے
مزار مرد غازی سے عجب ایمان پیدا ہے
یہاں آتے ہی مجھ پر غلبہ احساس ہوتا ہے
کسے معلوم دل اس وقت کس کے پاس ہوتا ہے
یہاں میں حال کو ماضی کے دریا میں ڈبوتا ہوںٴ
تصور کے طفیل اک اور ہی دنیا میں ہوتا ہوں
تخیل مجھ کو لے جاتا ہے اک پر ہول میداں میں
جہاں باہم بپا ہوتی ہے جنگ ابنوہِ انساں میں
نظر آتا ہے لہراتا ہوا اسلام کا جھنڈا
بہر سو نور پھیلاتا ہوا اسلام کا جھنڈا
مقابل میں گھٹائیں دیکھتا ہوں فوج باطل کی
نظر آتی ہے فرعونی خدائی اوج باطل میں
حق و باطل کی آویزش کا منظر دیکھتا ہوں میں
نظر آتی ہیں تلواریں مجھے سر دیکھتا ہوں میں
صدائیں نعرہ ہائے جنگ کی آتی ہیں کانوں میں
بلند آہنگ تکبیریں سما جاتی ہیں کانوں میں
نظر آتے ہیں مجھکو سر خرو چہرے شہیدوں کے
لہو کی ندیاں کھلتے ہوئے گلشن امیدوں کے
علم کے سائے میں سلطان غازی کا بڑھے جانا
سر دشمن پہ افواج حجازی کا چڑھے جانا
وہ حملہ آوروں کی خون کے دریا میں غرقابی
وہ باطل کی شکست فاش وہ حق کی ظفر یابی
وہ امن و صلح سے معمور ہو جانا فضاؤں کا
زمانے بھر کے سر سے دور ہو جانا بلاؤں کا
یہ سب کچھ دیکھتا ہوں میں تصور کی نگاہوں سے
ملاقاتیں ہوا کرتی ہیں غازی بادشاہوں سے
مجھے محسوس ہوتا ہے مجاہد مرد میں بھی ہوں
پرانے لشکر اسلام کا اک فرد میں بھی ہوں
شہادت کے رجز پڑھتا ہوں میدان شہادت میں
رجز پڑھتا ہوا بڑھتا ہوں میدان شہادت میں
عظیم الشان ہوتا ہے یہ منظر پاکبازی کا
شہیدوں کی خموشی غلغلہ مردان غازی کا
مرا جی چاہتا ہے اب نہ اپنے آپ میں آؤں
اسی آزاد دنیا کی فضا میں جذب ہو جاؤں
سکوں کی راہ میں حائل ہے جب تک گردش گردوں
قلم سے کام لینے کا ارادہ ملتوی کر دوں