” تم بھی اس سے اتنی ہی محبت کرتی ہو جتنی وہ کرتا ہے۔۔”
وہ اپنا فون ہینڈ بیگ میں ڈالتے ہوئے کڑوی سی مسکان لیے تاسف سے سر ہلا رہی تھیں۔
یہ اعتراف تو اسنے کبھی زید کے سامنے بھی نہیں کیا تھا پر اسکے نام پر کاٹے ہجر میں شاید وہ خود سراپا اعتراف ہو گئی تھی۔ اتنی ظاہر، اتنی عیاں۔
ان محبتوں کا کیا جائے جنھیں انجام تک لانا نہ ہو ممکن؟؟
وہ انکی آواز پر تھمی ضرور تھی پر مڑی نہیں۔ انکی آواز میں غصہ، بے بسی اور ترحم تھا۔ منیزے نے بے اختیار اپنے چہرے کو چھوا۔ کیا اس کی شکل دیکھ کر لوگوں کو اس پر رحم آنے لگا تھا؟
لوگ تو اس سے متاثر ہوتے تھے، خائف ہوتے تھے، انسپائر ہوتے تھے۔ وہ اسے رشک سے دیکھتے تھے۔ پر شاید صرف وہ لوگ جو اسے قریب سے نہیں جانتے تھے۔
حاصل کو اپنے ہاتھوں سے لاحاصل میں بدلنے والوں پر لوگ ترس ہی کھاتے ہیں۔ انھیں ان پر رحم ہی آتا ہے۔
ٹھیک ہی آتا ہے۔
وہ بنا مڑے چند لمحوں کے ٹرانس کے بعد مضبوط قدم اٹھاتی وہاں سے چلی گئی جیسے اسنے سنا ہی نہ ہو۔ سنا ہو بھی تو اسے فرق نہ پڑتا ہو۔
♤♤♤♤
ماضی
سویا ہوا دماغ میوزک کی اس قدر تیز آواز سے جھنجھنا اٹھا تھا۔
وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔
یکدم سے اٹھنے پر بائیں بازو میں کہنی کے اوپر درد کی شدید لہر ڈوڑی۔ اسنے کراہ کر دوسرے ہاتھ سےدکھا ہوا ہاتھ تھاما۔ آنکھیں کھولیں تو سامنے غیر مانوس منظر تھا۔
میوزک اب بھی اتنی ہی آواز میں چل رہا تھا۔
نوجوانوں میں مشہور برٹش بینڈ ون ڈائریکشن کے گانے ٹیکن Taken کے بول کان پھاڑ رہے تھے۔
Now you can’t have me
You suddenly want..
اسے جاگتے دیکھ زید نے سائڈ ٹیبل پر رکھا اپنا فون اٹھا کر گانا بند کیا۔
” آپ ٹھیک ہیں؟ شکر آپ اٹھ گئیں، مجھے لگا یو پاسڈ آوٹ you passed out۔۔”
وہ فون جیب میں ڈالتے دو قدم آگے ہوا۔
” یہ تم نے لگایا تھا میوزک؟ تم پاگل واگل تو نہیں ہو؟”
منیزے نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔
مریض کے ساتھ ایسا سلوک کون سا ڈاکٹر کرتا ہے؟
” میں آپ کو کب سے آوازیں دے رہا تھا، آپ اٹھ ہی نہیں رہیں تھیں، کلڈنٹ تھنک آف آینی تھنگ ایلس couldn’t think of anything else، آپ نے گھر جانا تھا دو بجے سے پہلے۔۔ آپ ٹھیک ہیں ناں؟”
وہ واقعی اسے آواز دے کر اٹھانے کی کئی ناکام کوششیں کر چکا تھا۔ شاید پین کلر میں کچھ مقدسر میں خواب آور دوا بھئ موجود تھی۔
آخری راستہ اسے یہ سوجھا اس ارادے کے ساتھ کہ اگر وہ اب بھی نہ اٹھی تو وہ ایمبولینس بلا لے گا۔
” ٹھیک تھی، پر اس میوزک سے ضرور میں نے کارڈئیک ارسٹ cardiac arrest میں چلے جانا تھا”
اسنے اب بھی اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر جیسے بے ترتیب دھڑکن ناپی۔
” ایسے تو نہیں کہیں، آئی ایم سوری”
” کیا ٹائم ہو رہا ہے؟”
منیزے نے اسکی معذرت ان سنی کرتے وقت پوچھا۔
” ایک”
” اف، تم نے مجھے جگایا کیوں نہیں؟”
وہ یکدم ہی بستر چھوڑ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔
” آدھے گھنٹے سے جگا ہی تو رہا ہوں۔۔”
اسنے سائیڈ ٹیبل سے اسکا بیگ اٹھا کر اسے تھماتے جواب دیا۔
“چلو۔۔”
” ایک سیکنڈ۔۔”
منیزے نے اسکی آواز پر عجلت میں کمرے سے نکلتے اسے رک کر دیکھا۔
” یہ پہن لیں۔۔”
وہ کوئی سفید اونی اپر تھا جو وہ اسکی سمت بڑھا رہا تھا۔
” یہ کس کا ہے؟”
منیزے کو اپنی پھٹی ہوئی آستین یاد آئی۔
” مام کا۔۔”
وہ جو ہاتھ بڑھا کر لینے لگی تھی یہ سن کر رک گئی۔
سعدیہ ابراہیم کا تھا مطلب کم۔از کم اسکی ایک ماہ کی تنخواہ جتنا مہنگا۔ اسکے زخمی ہاتھ سے اس پر کوئی لہو کا دھبا لگ گیا تو۔۔
” نہیں اس کی ضرورت۔۔”
اسنے منع کرنا چاہا۔
” آپ اس پھٹے ہوئے سلیو کے ساتھ کیسے گھر جائیں گی، سکارف آپ کا پہلے ہی ویسٹ ہو چکا ہے۔۔ یہ اوپر پہن لیں۔۔ کہہ دیجئے گا ٹھنڈ تھی تو کلیگ سے بورو کر لیا۔۔”
زید شاید جب وہ سو رہی تھی سب سوچ بچار کر کے بیٹھا تھا۔
” پر یہ کافی مہنگا لگ رہا ہے۔۔ تمھاری مام کو ڈھونڈنے پر نہ ملا تو۔۔”
وہ اب بھی تامل کا شکار تھی۔
” اگر مجھے باقی کی ساری زندگی آپ کے افریقہ میں پورٹی poverty اور بھوک کا الزام میری امیری پر لگانے کا ڈر نہ ہوتا تو میں آپ کو مام کا واک ان کلوزٹ walk in closet ضرور دکھاتا۔۔ ان کے پاس اتنے کپڑے ہیں، انھیں رئیلایز realize بھی نہیں ہوگا۔۔ ویسے بھی یہ وہ لاسٹ منتھ یو کے کی ٹرپ پر پہن چکی ہیں، شی ازنٹ گونا وئیر اٹ اگین۔۔ she isn’t gonna wear it again”
ابراہیم حسین قیام پاکستان سے قبل سندھ کے اہم سیاسی کاروباری گھرانوں میں سے ایک سے تعلق رکھتے تھے۔ ملک بننے کے بعد بھی انکا خاندان صوبائی اور قومی سیاست کا اہم حصہ رہا تھا پر انھوں نے والد کے برعکس طب کو بطور پیشہ چنا اور کاروبار کا رخ بھی اسی پیشے کی طرف موڑ دیا تھا۔ پراپرٹی، انگنت انویسٹمنٹس کے علاوہ آج انکی ملک کے بڑے شہروں میں چھے سے سات ہسپتالوں کی چین تھی جہاں سٹیٹ آف دا آرٹ state of the art طبی سہولیات میسر تھیں۔ وہ ملک کی ڈاکٹر کمیونٹی کا بہت نمایاں نام تھے۔
زید کی طویل تفصیل پر منیزے نے وہ اپر آخر تھام لیا۔
“لیٹ می ہیلپ”
اسے پہنتے ہوئے لب بھینچتے دیکھ زید نے اپر کوٹ کی طرح تھاما اور منیزے نے دوسرے ہاتھ کی مدد سے اپنا زخمی ہاتھ آستیں میں ڈالا۔
♤♤♤♤♤
” یہ آپ کی ٹیبلٹس۔۔”
گاڑی تقریباً خالی ہوئی سڑکوں پر رات کے ڈیڑھ بجے دوڑ رہی تھی۔
زید نے ڈارئیو کرتے منیزے کو ڈیش بورڈ سے اٹھا کر دوا کی تھیلی پکڑائی جو ٹیک لگائے بیٹھی ونڈ شیلڈ کے باہر دیکھ رہی تھی۔
” یہ کہاں سے آئیں۔۔”
اسنے گود میں پڑے شاپر کو دیکھتے پوچھا۔
” میں نے منگوائیں۔۔”
” کیسے۔۔”
وہ عام کھانسی بخار کی دوائیں نہیں تھیں کہ بنا ڈاکٹر کے پرچے کے مل جاتیں۔
” مام کے پرسکرپشن پیڈ پر لکھ کر۔۔”
اسنے سادہ سا جواب دیا۔
” تم کوئیک تھنکر ہو۔۔ ریسورس فل بھی ہو۔۔ اچھے سرجن بنو گے تم”
منیزے نے متاثر ہوتے تعریف کی۔ وہ بھی باپ کی طرح سرجن بننا چاہتا تھا۔
” ہاہ، بنا انیستھیزیا کے جو ٹارچر میں نے آپ کو کیا ہے مجھے سرے سے سرجن بننے کا ارادہ ہی ڈراپ کر دینا چاہیے۔۔”
زید کو اسکی تعریف پر اپنی کوتاہی نئے سرے سے یاد آئی۔
کس قدر گدھا تھا وہ۔
” فرسٹ ٹائم بنا ٹریننگ کے یو ور آ سٹار، نیچرل۔۔ فضول مت سوچو۔۔”
منیزے نے اسے جھڑکا۔
” آپ نے اتنا درد کیسے برداشت کر لیا بنا اف تک کیے۔۔ آئی کانٹ ایمیجن، آئ ایم امیزڈ۔۔”
وہ اب بھی حیران تھا، بے یقینی اسکی آواز میں واضح تھی۔
” سمپل، جیسے انسان غصے کو، خوشی کو، دکھ کو چھپا سکتا ہے ویسے ہی درد کو بھی ہینڈل کیا جا سکتا ہے۔۔درد بھی ایک احساس ہی ہوتا ہے آخرکار۔۔ دماغ ہمیں بتاتا ہے کہ درد ہو رہا ہے ہم اس کی سن کر بنا سوچے سمجھیں چیختے ہیں۔۔ اگر ہم خود کو ٹرین کر لیں یہ سوچنے پر کہ اگر درد ہو رہا ہے تو شور کرنے سے رئیکٹ کرنے سے کیا ہوگا؟ درد کم ہو جائے گا؟ اگر ہاں تو کر لیں رئیکٹ، اگر نہیں تو پھر کیا فائدہ؟ سائیکوجکلی ٹرین کرنا پڑتا ہے برین کو۔۔۔ اور بس۔۔”
منیزے نے سادہ سے الفاظ میں مشکل سی بات تفصیلاً بتائی۔
” بہت ہی عجیب فلاسفی ہے یہ۔۔”
زید کو وہ فلسفہ قابل عمل نہیں لگا، کہنا آسان تھا۔ اور پھر برداشت کیا ہی کیوں جائے اتنا؟
“اتنی بھی عجیب نہیں ہے ملٹری میں، کمبیٹ پروفیشنز میں استعمال ہوتی ہے۔۔”
اسکا ہر طریقہ سند یافتہ ہوتا تھا۔
” سٹل۔۔”
اسنے کندھے اچکائے۔
” تکلیف پر رونے سے کیا ہوتا ہے؟ وہ کم ہوتی ہے؟ نہیں؟ تو پھر کیا رونا،کیا اظہار کرنا؟”
وہ زخمی حالت میں بھی جرح کر سکتی تھی۔
” انسان کا دل ہلکا ہو جاتا ہے۔۔”
ہر بات لاجکل ہو ،پریکٹکل ہو ضروری تو نہیں۔
” دل تو ویسے ہی بڑی خوار اور ہلکی چیز ہے ۔۔۔ اسے مزید کیا ہلکا کرنا۔۔”
منیزے نے اس کی دلیل دل غریب کی خوب تحقیر کر کے رد کی۔
“آپ بھی ناں۔۔”
زید نے بحث نہیں کی مزید۔
منیزے کو سمجھانا اس کے بس کی بات نہیں تھی۔
وہ اب گذشتہ انداز میں ٹیک لگائے بیٹھی آنکھیں موند گئی۔
زید نے گردن ذرا موڑ کر اسے دیکھا۔ زرد سے چہرے پر موسم کے سبب سرخ پڑتی اٹھی ہوئی ناک، پلکوں کی گری ہوئی جھالر۔۔ جیسے مجسمہ ساز نے سفید مٹی گوندھتے ہوئے اس میں درد کی زردی اور یخ بستگی کی سرخی گھول دی ہو۔
اسکا ساتھ موجود خاموش وجود بھی دل بےخبر کو عجیب سی تسلی دیتا تھا۔
♤♤♤♤♤♤
” یار زید تم سوچو تو ایک دفعہ۔۔ شی از رئیلی سیریس اباوٹ یو۔۔ اچھی لڑکی ہے، اچھے بیک گراوئنڈ سے ہے”
کلاس ختم ہونے کے بعد وہ کینٹین آگئے تھے اور آدھے گھنٹے سے عینا ثمن نامہ سنا کر زید کے ساتھ باقیوں کا بھی سر کھا رہی تھی۔
” اچھی ہے آئی نو، ڈیڈ کی کلیگ کی فیملی سے ہے”
اب وہ انٹرسٹڈ نہیں تھا اسکا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ اس کی اچھائی سے انکاری ہو جائے۔
” دیکھا تمھارے تو فیملی ٹرمز ہیں اسکے ساتھ۔۔ اب تو کوئی ایکسکیوز نہیں بنتا”
عینا نے جیسے اپنی طرف سے بات ڈن کی۔
ثمن پچھلے ایک ماہ سے اسکا سر کھا گئی تھی کہ وہ زید کے سامنے اسکا کیس رکھے۔
” واہ، ایسے تو ڈیڈ کا پروفیشنل سرکل اتنا بڑا ہے اور میری مام اتنی سوشل ہیں کہ ہر دوسری بندی سے میرے فیملی ٹرمز ہیں، یہ کرائیٹیریا criteria بنا لیا تو آئ ایم گونا بی دا نیکسٹ بگ کیسانوا I am gonna be the next big casanova ۔۔”
اسے عینا کی بچکانا بات پر غصے سے زیادہ ہنسی آئی۔
” ہر کسی سے کون کہہ رہا ایک ثمن کی بات ہو رہی ہے یہاں۔۔”
وہ اب بھی مصر تھی۔
” کیوں پہلے سے لسی ہوئے دماغ کا مزید دہی کر رہی ہو عینا۔۔۔تم لوگوں کو اس کے ماتھے پر اتنا بڑا ان اویلایبل unavailable کا سائن نظر نہیں آتا کیا؟”
زید نے کچھ حتمی کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا جب ٹیبل پر رکھی گریز اناٹمی کی موٹی سی کتاب پر سر رکھے اونگھتے ہوئے سمیر کی جھنجھلائی ہوئی نیند میں دوبی آواز گونجی۔
ڈاکٹر انصاری کی ہر کلاس اس کے لیے خواب آور دوا کا ہیوی دوز ثابت ہوتی تھی۔
” انویلایبل؟ تم کمیٹڈ ہو؟ تو بتایا کیوں نہیں۔۔”
عینا کے ساتھ باقی تینوں کا بھی منہ کھلا۔
زید نے سوالیہ انداز میں سمیر کو گھورتے نفی میں سر ہلایا، اسے ضرور لیکچر کے دوران کوئی خواب آیا تھا۔
” یار کمیٹڈ نہیں ہے پر اسکا جو اس جرنلسٹ پر میجر کرش ہے ناں وہ اسے ادھر ادھر دیکھنے ہی نہیں دیتا۔۔”
سمیر نے اپنی خمار آلود آواز میں دھماکا کیا۔
سر ہنوز کتاب پر دھرا تھا۔
” واٹ دا ہیل۔۔ منیزے دوست ہیں میری!”
زید نے غصے میں ٹیبل پر ہاتھ مارا۔ کہہ کیا رہا تھا وہ؟
” تم انکے دوست ہوگے پر تمھاری تو وہ صرف دوست ہر گز نہیں ہیں، جھوٹ کس سے بول رہے ہو؟”
سمیر اسکے جارھانہ انداز سے ذرا متاثر نہیں ہوا۔
” ایسا کچھ بھی۔۔”
اسکا دل کیا یہی کتاب اسکے سر پر دے مارے جس پر سر رکھے وہ بکواس کر رہا تھا۔
” انکے نام کا نوٹیفکیشن آنے پر تمھارے چہرے پر جو سیروٹونن، دوپامین اور اوکزیٹوکزن ( oxytoxin, dopamine serotonin) (happy chemicals) کا فلش آتا ہے ناں وہی کافی ہے میری بات ثابت کرنے کے لیے ورنہ ہم غریب دوستوں کا فون تو یہ پڑھا کو ٹائم پر اٹھاتا بھی نہیں ہے۔۔ مر بھی رہے ہوں ناں تب بھی کال اٹھانے کے بجائے قبر پر آکر کہے گا سوری یار پڑھ رہا تھا فون سائلنٹ پر تھا، اور منیزے کے ٹیکسٹ کا ریپلائی یہ ڈیورنگ لیکچر بھی کرتا ہے”
سمیر نے آخر کار سر اٹھا کر اپنا جوش خطابت جگایا۔
وہ زید کا اسکول کے زمانے کا بہت اچھا دوست تھا۔
” ٹھیک کہہ رہے ہو تم۔۔”
اب کہ عادل، ہادی اور عینا نے بھی سر ہلایا۔
وہ منہ کھولے ان سب کو دیکھ رہا تھا۔
” کیا ٹھیک کہہ رہا ہے وہ؟ کچھ بھی؟ میں جا رہا ہوں تم لوگ بیٹھ کر بنا سر پیر کی گوسپس کرو۔۔”
وہ غصے میں ان سب پر برستا واک اوٹ کر گیا۔
اس کے اس قدر دیفنسو defensive ہونے پر اس کے آدھے گروپ نے اسے حیرت سے دیکھا اور آدھے نے معنی خیزی سے۔
” مان جا یار۔۔ کب تک ڈینے deny کریگا۔۔ وہ چلی گئیں ناں کسی اور کے ساتھ پھر پچھتانا بیٹھ کر۔۔”
کینٹین سے نکلتے ہوئے سمیر کی ہانک اسکے کان میں پڑی۔ اسنے سمیر سے کم از کم ایک ماہ بات نہ کرنے کا عہد کرتے مٹھیاں بھینچیں۔
♤♤♤♤♤♤
” جلدی، مجھے اگلے آدھے گھنٹے میں گھر پہنچاو۔۔”
منیزے عجلت میں گاڑی کا دروازہ کھول کر اس کے برابر کہتی ہوئی بیٹھی۔
وہ کالج میں ایکسٹرا کلاس کے انتظار میں لائبریری میں موجود تھا جب منیزے کی کال آئی۔ وہ قریب ہی کہیں تھی اور اسے گھر ڈراپ کرنے کا کہہ رہی تھی اگر وہ فارغ ہو گیا تھا کالج سے تو۔
” سب خیریت؟ انکل ٹھیک ہیں؟”
وہ اسکی اتنی عجلت پر پریشان ہوا۔
” ہاں ابا ٹھیک ہیں پر تم نے مجھے ٹائم پر نہ پہنچایا تو میں نے ٹھیک نہیں رہنا۔۔”
فون پر بٹن دباتے ہوئے اسنے اسکی فکر دور کی۔
آج اسے گھر جلدی پہنچنا تھا وہ وعدہ کر کے آئی تھی پر ہنگامی بنیاد پر ہونے والی ایک پریس کانفرنس کوور کرنے کے لیے کوئی اور موجود نہیں تھا چینل پر، مجبوراً اسے جانا پڑا تھا۔ کانفرنس ختم ہوتے ہوتے دیر ہوگئی تھی اور مزید اس فائیو سٹار ہوٹل کے باہر کوئی رکشہ یا ٹیکسی نہ ملنے کے سبب ہو رہی تھی جب اسے زید کے کالج کے یہاں سے دس منٹ کی دوری پر ہونے کا خیال آیا۔
وہ لیٹ ہو جاتی تو ابا کبھی یقین نہیں کرتے کہ اسنے یہ دانستہ طور پر نہیں کیا۔
” جی ابا میں نکل چکی ہوں۔۔۔۔ آدھے گھنٹے میں پہنچ جاوں گی۔۔۔انکے آنے سے پہلے پہنچ جاوں گی جیسے میں نے وعدہ کیا تھا۔۔ آپ سٹریس مت لیں۔۔ خدا حافظ ”
وہ ابا کی خشمگی باتیں سنتے انھیں جواب دے رہی تھی۔
” شکر تم فری تھے ورنہ آج ابا کے ہاتھوں میرا قیمہ بن جاتا۔۔”
فون واپس پرس میں رکھتے ہوئے وہ دوبارہ گویا ہوئی۔
وہ فری نہیں تھا پر اسے ایکسٹرا کلاس کی بات چھپا کر یہی کہا کہ روز کی کلاسیں ختم ہو گئی ہیں۔ اس کے لیے فی ہو سکتا تھا وہ۔
” کون آرہا ہے؟ ”
زید نے فون پر ہونے والی گفتگو کی بابت پوچھا۔
” یار ہیں کوئی لوگ میں نہیں جانتی۔۔”
اسکے کے انداز میں لاپرواہی تھی۔
” تو آپ کا ملنا کیوں ضروری ہے جب آپ جانتی ہی نہیں۔۔”
وہ الجھا۔
” مجھے دیکھنے آرہے ہیں ناں ”
” آپ کو وہ شام چھے بجے نیوز لگا کر بھی دیکھ سکتے ہیں۔۔”
زید کو سمجھ آتا تو اسنے اپنے تئیں دھماکا ہی کیا تھا۔
” کاش وہ مجھے وہیں دیکھ لیتے۔۔”
منیزے نے تھکی ہوئی آہ سا جملہ ادا کیا۔
” مجھے بلکل نہیں سمجھ آرہا۔۔”
اسے سمجھ آجاتا تو وہ خاص ٹائم نکال کر یہاں آنے پر ضرور اپنا سر کہیں دے مارتا۔
اسکا پورا چہرہ سوالیہ نشان میں ڈھل چکا تھا۔
” یار رشتے کے لیے آرہے ہیں وہ میرے، ارینج میریجز یو نو ”
اب کے منیزے نے صاف صاف سیدھے الفاظ میں سمجھایا اور اگلے لمحے اسکا سر سیدھا ڈیش بورڈ سے ٹکرایا۔
زید نے اسکی بات پر اس قدر مصروف شاہراہ پر بیچ روڈ پر بریک مارا تھا۔
” زید۔۔ ”
وہ ماتھے کو دونوں ہاتھوں سے تھامے چلائی۔
سر کے گرد واقعی چڑیاں گھوم گئی تھیں۔
” یو آر گیٹنگ میریڈ؟ آپ کیسے کرسکتی ہیں شادی؟”
وہ بھی بے یقینی سے تقریباً چلایا ہی تھا۔
” ٹھیک ہے میں روایتی لڑکیوں جیسی نہیں ہوں، اور تھوڑی تھوڑی مرد مار ہوں، لیکن اب میرا شادی کرنا اتنی بھی کوئی انہونی نہیں ہے کہ تمھارے یوں بریکس فیل ہوں۔۔”
منیزے اسکے ردعمل پر باقائدہ برا مان گئی۔
اس میں اس قدر شاک والی کیا بات تھی؟
” آئ ایم سوری۔۔”
اسے اپنے ردعمل کے شدید ہونے کا احساس ہوا۔
دل کے نیچے کی زمین بری طرح کھسکی تھی۔
” ہو از دا لکی مین۔۔”
اسنے خود کو کمپوز کیا۔
” نہیں پتا۔۔”
وہی لاپرواہی۔
” ٹھیک، ابھی آپ جاکر، مل کر ڈیاسئڈ کریں گی۔”
زید نے سمجھنے والے انداز میں سر ہلایا۔
اندر کہیں کسی نے زور سے وہی سر نفی میں ہلایا۔
اسنے نظر انداز کیا۔
اسے کیا ہوگیا تھا؟
” کون سے ببل bubble میں رہتے ہو تم؟ میں نہیں وہ لوگ ڈیسائڈ کریں گے کہ انھیں میں پسند آئی بھی یا نہیں۔”
اسکی بات پر وہ ہنسی۔
“آپ کو کون نا پسند کر سکتا ہے منیزے؟”
اسنے گردن موڑ کر منیزے کی آنکھوں میں جھانکا۔
” ہر اگلا بندہ۔۔ اب ہر کوئی زید ابراہیم تھوڑی ہوتا ہے۔”
زید ابراہیم تو اب ایک ہی تھا۔
” آپ یوں ہی کسی سے بھی شادی کر لیں گی؟”
اسکی آواز پھر ڈوبی۔
یہ “کسی بھی” کس قدر خوش قسمت تھا۔ گدھا!
” ابا کی خواہش ہے یار۔۔ وہ بیمار ہیں، پریشان رہتے ہیں، مجھے لے کر پتا نہیں کیا خدشے ہیں انھیں۔ یوں وہ خوش اور مطمعین ہو سکتے ہیں اگر تو یہ بھی کر کے دیکھ لیتے ہیں۔۔”
ابا نے خالہ کو سختی سے کہہ دیا تھا کہ وہ منیزے سے پہلے علیزے کا نہیں سوچیں گے۔ خالہ کو بھی کوئی اعتراض نہیں تھا وہ تیار تھیں رشتے والی عورت سے بات کرنے لیے۔ منیزے ابا کی فکر دیکھتے چند شرائط پر راضی ہوگئی تھی۔ پہلی یہ کہ فاروق چاہیں تو منگنی کر دیں پر شادی کا ذکر انکے ٹرانسپلانٹ سے پہلے نہیں ہوگا۔ دوسرا یہ کہ اسکے کیرئیر اور معاشی فیصلوں میں کوئی کسی بھی قسم کی دخل اندازی نہیں کرے گا۔ جو یہ دو شرائط ماننے کو تیار ہو اور ابا کو پسند ہو وہ آجائے، وہ کر لے گی شادی۔
” آپ کو تو کوئی بھی، کبھی بھی مل جائے گا اتنی جلدی کیا ہے؟۔۔”
زید کو چند ماہ پہلے سمیر کا وہ جملہ یاد آیا۔
اسے کیوں یاد آیا؟
” جلدی یہ ہے کہ میری عمر بڑھ رہی ہے اپیرنٹلی میں بوڑھی ہو رہی ہوں۔۔ ابھی نہ کی شادی تو کوئی اچھا لڑکا نہیں ملے گا۔۔”
وہ اپنا مذاق اڑا رہی تھی یا معاشرے کے معیار کا وہ سمجھ نہیں پایا۔
” آپ کی ایج کیا ہے؟”
” ٹیونٹی سکس 26″
اسنے زید کے سیدھے سوال کا سیدھا جواب دیا۔
“میں تو چار سال بعد یہ نہیں سوچوں گا کہ میں بڈھا ہو رہا ہوں لیٹس سیٹل”
چھبیس سال کی عمر میں کون بوڑھا ہوتا ہے؟
وہ جس کلاس کا پروردا تھا اسے منیزے کے طبقے کی سچائیاں سمجھ آنا مشکل تھا۔
” تم آدمی لوگ۔۔ پریویلجڈ جینڈر privileged gender۔۔ تمھیں کیا پتا سوسائیٹل پریشرز societal pressures کیا ہوتے ہیں”
اسنے سر جھٹکا۔
” آپ سوسائیٹل پریشرز پر کیو cave (ہار ماننا) کر رہی ہیں؟ آپ منیزے ہیں، آپ بھی یہ کریں گی؟”
آج معمول کے برعکس جرح کے موڈ میں زید تھا۔
” سوسائیٹل پریشرز پر کیو cave نہیں کر رہی بس ابا کی فکر اپنی مرضی سے کم کر رہی ہوں۔۔ اور میرے کون سا کوئی ڈریمز یا پلینز تھے اس سب کو لے کر، نہ کوئی ہے ایسا ہے جس کے لیے منع کروں، بلکہ اگر کوئی ہوتا ناں تو ابا خوشی خوشی مان جاتے مسئلہ ہی یہی ہے کہ کوئی نہیں ہے اور جیسی میں ہوں ہی از شیور کہ کبھی کوئی ہوگا بھی نہیں، تبھی خود ہی کوئی انتظام کرنا چاہ رہے ہیں وہ۔۔”
وہ بھی آج تفصیلی جواب دے رہی تھی۔
پتا نہیں زید کو یا خود کو۔
گاڑی رک گئی، گھر آچکا تھا۔
” وش می لک یار ، تم نے بوتھی ایسے سجا لی ہے جیسے مجھے نہیں تمھیں دیکھنے آرہے ہیں وہ لوگ، وہ بھی زبردستی”
منیزے نے اترتے ہوئے لہجے میں مصنوعی شرارت سموئی۔
” گڈ لک”
زید نے پھیکی سی مسکان کے ساتھ قسمت کے اچھے ہونے کی دعا اسے نہیں خود کو دی۔
♤♤♤♤♤♤♤
حال
” کیسی رہی میٹنگ؟ مطمعین ہوئے تم؟”
وہ اسٹڈی میں سینٹرل ٹیبل پر رکھی فائل پر سیاہ ڈریس پینٹ اور سفید شرٹ کی آستنیں موڑے جھکا کسی گہری سوچ میں محو تھا۔
جب سعدیہ اسکے پاس آکر کھڑی ہوئیں۔
اسے یہاں آئے ڈیڑھ ہفتہ ہونے کو آیا تھا۔ اور چند دن سے وہ اپنے اور ابراہیم کے کراچی میں ایک سرجیکل آنکالوجیکل فسیلیٹی (جہاں کینسر کی وہ اقسام جن کا سرجری کے بغیر علاج ممکن نہیں کا علاج میسر ہو) بنانے کے سالوں پرانے منصوبے پر باقائدہ کام شروع کر چکا تھا۔
” آرکیٹیکٹ واز گڈ ، آئیڈیاز تو اچھے لگے مجھے لیٹس سی فائینل ڈیزائین کیسا بناتا ہے”
وہ اب بھی بلڈنگ کے ڈیزائن کے کچھ آپشنز دیکھ رہا تھا۔
دھیان اب بھی کہیں اور تھا جیسے ان سرسری باتوں کے پیچھے کوئی اور فکر پنہاں ہو۔
” کیا سوچ رہے ہو؟”
سعدیہ نے نرمی سے اسکی کہنی پر ہاتھ رکھے پوچھا۔
” آئ ایم ناٹ شیور مام کہ میں اس پروجیکٹ کو وہ ٹائم دے بھی پاوں گا جو یہ ڈیمانڈ کر رہا ہے۔۔ مجھے نہیں لگتا میں دوبارہ کبھی اس شہر میں پہلے کی طرح اتنا عرصہ گزار سکتا ہوں۔۔”
منیزے کے چلے جانے کے بعد وہ محض یہاں ایک ہفتہ رہا تھا اور اسکے بعد جب بھی آیا تھا اس مخصوص عرصے سے زیادہ وہ نہیں رہ پاتا تھا۔
اس شہر کے چپے چپے کی خاک اسنے منیزے کی ہمراہی میں چھانی تھی۔
اب صرف وہ رہ گیا تھا اور خاک جو آنکھوں میں ماضی کی کرچیوں سمیت گھس جاتی تھی۔
اسے وحشت ہوتی تھی اس شہر سے۔
وہ یہاں منیزے کے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔
” سال میں دو ڈھائی ماہ بہت زیادہ تو نہیں ہیں۔۔۔”
یہ پراجکٹ اتنے سے وقت ہی کا تقاضا تو کر رہا تھا۔
وہ خوش تھیں کہ اسی بہانے وہ اپنے بیٹے کو ذرا زیادہ دنوں کے لیے دیکھ لیا کریں گی۔
وہ ان کی بات پر چپ ہو گیا۔
یہ دو ڈھائی ماہ اسکے لیے صدیوں پر محیط ہو جانے تھے۔ ہر لمحے نے چال دھیمی کر کے اپنے قدموں تلے اسے روند کر گزرنا تھا۔
” منیزے کراچی میں ہے زید۔۔”
انھوں نے بے اختیار کہا۔ کہہ کر خو بھی حیران ہوئیں۔
اس عزیز تر چہرے پر ویرانیوں اور خاموشیوں کے تاریک سایوں سے گھبرا کر وہ کہہ اٹھی تھیں۔
” مجھے پتا ہے”
اسنے دھیرے سے انکی بات کے جواب میں کہا۔
ہاں، حیران ضرور ہوا کہ وہ کیسے جانتی ہیں۔
” تم اس سے رابطے میں ہو؟”
وہ اسے معلوم ہونے پر زیادہ حیران ہوئیں۔
تو یہ تھی اسکے شہر میں ایک ہفتے سے زیادہ رہ جانے کی وجہ؟
” ہماری فلائٹ سیم تھی، اتفاق آئی گیس”
وہ چہرہ جھکائے میز پر پڑے صفحے سمیٹتا ان سے اپنے تاثرات چھپا گیا۔
” میں ملی تھی اس سے۔۔”
اسکے حرکت کرتے ہاتھ سعدیہ کے لفظوں نے روکے۔
وہ غیر محسوس انداز میں لرزے۔
” ان فیکٹ میں نے ملنے بلایا تھا اسے”
انہوں نے اپنا جملہ دوبارہ ترتیب دیا۔
زید کے دل سے ہر خوش فہمی کہ شاید کوئی اتفاق رہا ہو اکھاڑ پھینکی۔
” کیوں؟”
وہ مجسم ایک پر ملال سوال ہوگیا۔
” اس سے ریکوئسٹ کرنے کہ تمھیں ڈائیورس دے دے۔۔”
سعدیہ نے دھیمے سروں میں مجرموں سا اعتراف کیا۔
زید کو لگا وہ اگلا سانس نہیں لے پائے گا۔
♤♤♤♤♤♤
Aftab sikender آفتاب سکندر
Aftab sikender آفتاب سکندر