(Last Updated On: اکتوبر 5, 2023)
مضطرب ذات کہیں
سچ کا تعویذ اتارے نہ مرے بازو سے
اور میں تیرے فسوں میں آ کر
اسم زر پھونکتی آواز کے ہمراہ چلوں
شر کا شہر رواں ہے جیس
اپنے انکار کی مدہوشیوں کے دائرے میں
میں شفق زاد اجالے کا امیں
تیری تاریکیوں کے تنگ کنوئیں کے اندر
اپنی گونجوں کا بھنور بن جاؤں
میرے انگوٹھے پر
روشنائی نہ لگا آج کے سمجھوتے کی
میں گزرگاہ تمنا کا مسافر ہوں مجھے جانے دے
زاد آوارگی کافی ہے مجھے
اس ہوا زار سے گلدستۂ خوشبو لے کر
جب میں دوران سفر فردا سرا میں اتروں
اہل نو شہر سے یہ کہہ تو سکوں
لو تمہارے لیے اک پھول بچا لایا ہوں
٭٭٭