(Last Updated On: )
زید! یہ کیسے پھول ہری آشاؤں کے
دن کے صحن میں کھلتے ہیں
نیم جنوں کی خوشبوئیں
سینے کے صفحے پہ نقش بناتی ہیں
بے مفہوم، شکستہ خط تحریروں کے
آ مکتب سے بھاگ چلیں
دیکھ! وہاں پر
ریت کا ٹھہرا دریا نیلی بینائی کی
وسعت سے جا ملتا ہے
سنتا ہے تو دل میں دھوپ کی دھڑکن سی؟
ایک تمنا نامعلوم تعاقب کی
ہم سے آگے آہٹ آہٹ چلتی ہے
آدھے عرش کی دوری سے
دیکھ! پتنگیں کٹ کر ڈولتی جاتی ہیں
پیچھے پیچھے
ریلے ہی ریلے میں اٹھی باہوں کے
کیا معلوم ہوا کا پرچم کس خوش بخت کے ہاتھ آئے
آہم بھی یلغار کریں
پھر کیا
وہ ہم دنوں سے قد آور بھی ہیں، آگے بھی
٭٭٭