(Last Updated On: )
نسلیں جو اندھیرے کے محاذوں پہ لڑی ہیں
اب دن کے کٹہرے میں خطاوار کھڑی ہیں
نکلیں تو شکستوں کے اندھیرے ابل آئیں
رہنے دو، جو کرنیں مری آنکھوں میں گڑی ہیں
آ ڈوب! ابھرنا ہے تجھے اگلے نگر میں
منزل بھی بلاتی ہے، صلیبیں بھی کھڑی ہیں
کیا رات کے آشوب میں وہ خود سے لڑا تھا
آئینے کے چہرے پہ خراشیں سی پڑی ہیں
خاموشیاں اس ساحل آواز سے آگے
پاتال سے گہری ہیں سمندر سے بڑی ہیں
بے نام سی آواز شگفت آئی کہیں سے
کچھ پتیاں شاید شجر شب سے جھڑی ہیں
٭٭٭