ہیبت کے مارے اسکے چہرے پر ایک رنگ آرہا تھا ایک جا رہا تھا ۔۔۔ ہاتھوں کو مضبوطی سے آپس میں پیوست کیئے اسے خبر ہی نہیں ہوئی کب اسکے ناخن نازک جلد میں گڑھ گئے ۔۔۔
تصور بھائی انتہائی افسوس بھری نگاہ سے خون کی امڈتی بوندوں کو دیکھا اور یوسف کی توجہ اس طرف دلائی ۔۔۔
شزانہ ۔۔۔؟؟ یہ کہا کر رہی ہو تم؟؟؟
یوسف نے غم و غصے سے اسکا ہاتھ جھٹکا ۔۔
م ۔۔مجھے نہیں جانا وہاں ۔۔۔ مجھے نہیں جانا تمہارے ساتھ ۔۔۔دروازہ کھولو ۔۔
وہ سنی ان سنی کرتی دروازہ کھولنے لگی ۔۔جو یوسف کی طرف سے لاک کردیا گیا تھا۔۔
شزانہ پلیز ۔۔ مجھ پر بھروسہ رکھو میں تمہیں زندہ سلامت واپس لے آئوں گا ۔۔۔ یقین کرو بس ایک بار تاشا نوال مل جائیں ۔۔
وہ خوامخواہ ہی خود کو قصوار سمجھنے لگا ۔۔
نہیں ہے مجھے تم پر بھروسہ ۔۔مجھے اب کسی پر بھروسہ نہیں ۔۔۔ تم دروازہ کھولو ۔۔مجھے جانا نہیں تمہارے ساتھ ۔۔ وہ روتی ہوئی ہزیانی انداز میں دروازے پر ضربیں لگانے لگیں ۔۔۔ تصور بھائی کو رہ رہ یوسف پر غصہ آرہا تھا ۔۔۔ دروازہ کھولوووو ۔۔۔ پلیززز کھول دو ۔۔ مجھے اس جہنم میں واپس نہیں جانا ۔۔میں اپنی جان پر کھیل کر وہاں سے بھاگی تھی ۔۔ تم پھر مجھے موت کے منہ میں دھکیل دو گے ۔۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رودی ۔۔۔
لیکن دوسری طرف تو رتی برابر اثر نہیں پڑا ۔۔۔وہ سنگدل بنا رہا ۔۔۔
اس نے بے یقین نگاہوں سے یوسف کا سنجیدہ چہرہ دیکھا ۔۔۔ یہ وہ شخص تو نہیں تھا جس کا تفکر بھرا لمس وہ رات بھر وقتا فوقتا اپنی پیشانی پر محسوس کرتی تھی ۔۔۔ گاڑی مطلوبہ جگہ رکی ۔۔۔ شزانہ تھرا کر رہ گئی۔۔ سینے میں موجود سا دل برق رفتاری سے پھڑپھڑانے لگا اسکے وہاں موجود نقاب پوش کو دیکھ کر حواس اڑنے لگے ۔۔۔یوسف نے اسکی کلائی پکڑ اسے باہر نکالا ۔۔۔
وہ التجائی نظروں سے یوسف کو دیکھتی آنسو بہانے لگی ۔۔۔
مت کرو میرے ساتھ ایسا ۔۔۔
یوسف نے جیسے خود کو پتھر کا بنا لیا تھا ۔۔۔ اسکی کلائی کھینچتا ہوا کچھ دوری پر رک گیا ۔۔۔
اسے ہمارے پاس بھیج دو ۔۔۔تمہاری بہنیں تمہیں مل چکی ہیں ۔۔۔ بھاری بھرکم آواز کوئی بولا تھا ۔۔۔
کیا بکواس ہے ؟ کہاں ہیں وہ؟ میں کیسے یقین کرلوں تمہاری بات کا ۔۔۔ وہ غصے سے پھبرا ۔۔
ہمارا وقت برباد مت کرو ۔۔ اپنے گھر فون ملائو اور پتا کرلو ۔۔ شزانہ چلوووو ۔۔۔
یوسف نے بے ساختہ تصور بھائی کو دیکھا۔۔
تصور بھائی گھر فون کرو؟؟ جیب سے فون نکال کر تصور کو دیا ۔۔ شزانہ قربانی کا بکرا تصور کر رہی تھی خود کو ۔۔۔ وہ یوسف کی گرفت میں مسلسل مچلتی بھاگنے کو تیار تھی ۔۔۔
تاشا اور نوال گھر پر ہیں کیا؟؟؟ تصور بھائی نے بے تابی کال رسیو ہوتے ہی پوچھا ۔۔ اور جوابا خوشی سے سر ہلاتے ہوئے یوسف دیکھا ۔۔۔
مجھے دو۔۔۔ یوسف کا ماتھا ٹھنکا ۔۔ وہ فون ان سے لے کر کان سے لگانے لگا ۔۔ اسی لمحے اسکا دھیان بٹا اور شزانہ ہاتھ چھڑا کر مخالفت سمت بھاگنے لگی۔۔۔ مگر نقاب پوشوں نے اسے جا لیا ۔۔ گویا وہ چاروں اطراف سے ان لوگوں کو گھیرے ہوئے تھے ۔۔۔
چھوڑو مجھےےےے ۔۔۔یوسففففف ۔۔ تصور بھائی بچائو ووووو ۔۔۔ وہ چیخنے چلانے لگی ۔۔
رکوووو ۔۔۔ رک جائو تم ایسے نہیں لے جا سکتے ۔۔پلیزز اسے چھوڑ دو بدلے میں میں کوئی بھی قیمت ادا کرنے کو تیار ہوں وہ بے چینی سے بولا ۔۔
تمہیں تمہاری بہنیں مل چکی ہیں ۔۔۔اب دفع ہوجائو یہاں سے ۔۔ورنہ پیروں پر چلنے کے لائق نہیں رہو گے ۔۔۔
وہ لوگ اسے کھینچ گاڑی میں پھینکنے لگے ۔۔۔
یوسف کا دل جیسے کسی بند مٹھی میں جکڑ لیا ۔۔ شزاااانہ ۔۔۔؟؟ تصور بھائی اچانک ہی تیورا کر گر گئے ۔۔ اسکے بڑھتے قدم دھڑام کی آواز پر رک سے گئے ۔۔۔ کیوں ؟ کیسے ؟ سمجھنے کا موقع ہی نہیں ملا ۔۔ اچانک کہیں سے کوئی سوئی نما چیز اسکی گردن میں پیوست ہوگئی ۔۔ چند ثانیے گزرتے ہیں اسے زمین آسمان گھومتے دکھائی دیئے ۔۔۔ قدموں پر کھڑے رہنا دشوار ہوگیا ۔۔ وہ غش کھا کر زمین بوس ہوگیا ۔۔
_____________________________________
وہ دونوں جیسے ہی جھاڑیوں کے عقب سے نکلیں سامنے دو فوجی اہلکاروں کو دیکھ کر ہکا بکا ایک دوسرے کی صورت دیکھنے لگیں ۔۔ ان کی موجودگی قطعی غیر معمولی بات تھی ۔۔
پھر سوچا شاید ان کی تلاش کی جارہی ہو ؟
ہیلو ۔۔۔ہیلو ۔۔ہیلو ۔۔ پلیز ہیلپ اٙس آفیسر ؟؟؟
روانی میں بولتی ہوئی تاشا سر پٹ دوڑتی ان کے قریب پہنچی۔۔۔ایک نوجوان آنکھوں پر ٹوپی جمائے جیپ میں لیٹا ہوا تھا جبکے دوسرا ٹیک لگائے کھڑا آس پاس کا جائزہ لے رہا تھا ۔۔
سب خیریت محترمہ ؟ نواجوان نے سیدھے ہوتے ہوئے پوچھا ۔۔۔
نہیں ۔۔ سب خیریت نہیں ہے ۔۔۔مت پوچھو کیا ہوا ؟؟؟
پتا ہے ہم اغوا ہوگئے تھے ۔۔ بڑی مشکل سے جان بچا کر بھاگے ہیں ۔۔ وہ ماتھے سے پسینہ ہٹاتی خصلت سے بولی ۔۔ جیسے بڑی مشقت کا کام کرکے آرہی ہو ۔۔
اچھاااا ۔۔۔ نوجوان کی آنکھوں میں حیرانگی بھری مسکراہٹ ابھری ۔۔۔ جیسے اسے تاشا کی بات پر یقین نہیں آیا تھا ۔۔
کیا اچھاا ؟؟؟ پانی ہی پلا دو ۔۔ ! وہ دیدے پھاڑ کر جیپ میں جھانکنے لگی جہاں دوسرے نوجوان کے کان پر جوں تک نہ رینگی ۔۔۔
لیجئے پانی پی لیں ۔۔ آپ واقعی بہت بہادری والا کارنامہ سر انجام دے کر آرہی ہیں ۔۔ میں گورنمنٹ آف پاکستان سے اپیل کروں گا کہ آپ کو میڈل سے نوازا جائے ۔۔۔
گویا لہجہ سادہ تھا مگر تاشا کو تپا گیا ۔۔ وہ نگل جانے والی نظروں سے پانی کی بوتل بند کرکے واپس اسکے ہاتھ میں تھمانے لگی ۔۔
ہمیں چھوڑ دیں گے یا ہم خود چلیں جائیں ۔۔؟
خاصی رعبدار آواز میں پوچھا گیا ۔۔
ہاں کیوں نہیں ۔۔ ہم چوبیس /چھتیس/بتیس تمام گھنٹے آپ ہی کی خدمت میں حاضر ناظر رہتے ہیں ۔۔۔آئیے !
اس قدر عزت پر نوال اور وہ دونوں دیدے پھاڑ کر آفیسر کو دیکھنے لگیں ۔۔۔ یہ عزت تھی ۔۔یا عزت ‘افزائی’ دونوں ہی سمجھ نہ سکیں ۔۔۔ اور خاموشی سے جیپ میں بیٹھ گئیں ۔۔۔
چلو ۔۔۔ابراہیم ! وہ بیٹھتے ہوئے بولا
ایڈریس تو بتایا ہی نہیں تم نے تاشا؟ نوال بولی ۔۔
بتانے کی ضرورت نہیں مجھے پتا ہے ۔۔
جواب ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے جوان کی طرف سے آیا تھا۔۔ نوال حیران ہوئی ۔۔۔تاہم تاشا کے اندر کچھ کلک ہوا ۔۔۔ ابراہیم بھائی ؟ وہ زیر لب بڑبڑائی
ایک مانوس سی آواز اور خوشبو اسکے نتھنوں سے ٹکرائی ۔۔۔ جو وہ سات پردوں میں بھی پہچان سکتی تھی ۔۔۔کتنی ہی دیر وہ ٹرانس سی کیفیت میں اندازے لگاتی رہی ۔۔ جیپ ایک مقام پر رک گئی ۔۔
فاتح کچھ دوری پر فون پر محو کلام تھا ۔۔۔انہیں دیکھ کر بھاگا آیا ۔۔۔ اس نے دیکھا کہ فاتح نے جھک کر اس جوان سے کچھ کہا تھا ۔۔۔ اور پھر ان کی طرف متوجہ ہوا ۔۔۔
شکر ہے تم دونوں سہی سلامت مل گئیں ۔۔ نصیبہ پھپھو اور اماں بس رو رو کر بے حال ہورہی تھیں ۔۔۔
تاشا تم ٹھیک ہو؟؟؟ اور تم ؟
تاشا کوئی جواب نہیں سکی ۔۔ نوال نے آہستگی سے سر ہلایا۔۔ کیا فاتح بھی پہچان نہیں پایا اس شخص کو ؟؟؟
یا پھر ۔۔ سب کچھ اسکی سمجھ سے باہر تھا ۔۔۔
میجر عون کی دلچسپ نگاہوں نے اس چلبلی طبیعت کی مالک لڑکی کا بہت دور تک پیچھا کیا تھا۔۔۔
تاشا ؟؟؟ کیا ہوا سب ٹھیک ہے نا؟؟؟ فاتح پریشانی کے عالم میں اسکی اتری ہوئی صورت دیکھنے لگا ۔۔۔
ہوں ۔۔۔؟ ہاں بلکل ٹھیک ہوں بھائی ۔۔
وہ ذبردستی مسکرائی ۔۔۔
تم دونوں نے تو سب کی جان ہی نکال دی تھی ۔۔
اسکے لہجے میں تفکر کا تاثر تھا ۔۔
یونہی۔۔۔بس سمجھ لیں ایڈونچر تھا ۔۔ بلکل ڈر نہیں لگا پوچھ لو نوال سے جو میں نے اسے رونے دیا ہو ۔۔۔ بلکے مجھے یقین تھا آپ ضرور آئیں گے
اس نے خود کمپوز کرتے ہوئے کہا۔۔
اچھا ۔۔ مجھے تو ڈر تھا کہیں تم محترمہ کے آنسوئوں کے ریلے میں نہ بہہ گئی ہو ۔۔۔
وہ بیک ویوو مرر سے نوال کو دیکھتا ہوا مضاحقہ خیز انداز میں بولا ۔۔۔ نوال نے جوابا چبھتی ہوئی نگاہ اس پر ڈال کر رخ موڑ لیا ۔۔
یوسف بھائی کیوں نہیں آئے ؟؟
تاشا کو تشویش ہونے لگی ۔۔۔
گھر چلو سب پتا چل جائے گا ۔۔۔! وہ بات ٹال گیا ۔۔۔
گھر پہنچتے ہی ہبا آپی سمیت اسکے بچے ان کی ٹانگوں سے لپٹ گئے ۔۔۔ نصیبہ پھپھو اور ممانی جی بھر کر رولینے کے بعد اسے بانہوں کے حصار میں لئے لائونج میں آ گئیں ۔۔ اففف خواتین کا رونا دھونا ۔۔۔
تاشا ناک بھوں چڑھا کر صوفے پر گر سی گئی ۔۔۔ جیسے معرکہ سر کرکے آئی ہو ۔۔
مجال ہے جو تم پر کوڑی کا بھی اثر پڑا ہو ۔۔ یہاں ہم پریشانی سے آدھے ہوئے جارہے تھے ۔۔ اور تمہیں جیسے کوئی فرق نہیں پڑا ۔۔
اماں اسکے تیوروں سے خائف ہوکر غصے کا برملا اظہار کرتی اسکے پاس بیٹھ گئیں ۔۔
خاصی نا معقول بات کی آپ نے بی اماں ۔۔ بھلا بدلائو کیسا ! ہم تو جیسے ہیں ویسے ہی رہیں گے ۔۔۔ بلکے نوال بدل گئی ہے ۔۔ وہ بلکل نہیں روئی اس دوران ۔۔ پوچھ لو بھلے ۔۔۔ وہ ڈھٹائی کا اظہار کرتی نوال کی طرف اشارہ کرکے بولی ۔۔جو نصیبہ پھپھو سے لگی آنسو بہاتی اب اسے گھور رہی تھی ۔۔
اللہ کا شکر ہے تم دونوں واپس آ گئیں ۔۔ نوافل ادا کروں گی ۔۔ انشااللہ ۔۔ فاتح جائو تم یوسف کو خبر کرو ۔۔ روشن رومیشا جائو اچھا سا کھانا میری بیٹیوں کے لئے ۔۔
اماں صدقے واری جارہی تھی ۔۔۔ ان کی حالت دیکھ کر تاشا کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے ۔۔۔
وہ بے اختیار ان سے لپٹ گئیں ۔۔۔
آپ خوامخواہ ٹیشن لی ۔۔ دیکھیں ہم ٹھیک ہیں ۔۔ نوال کے آنسوئوں پر مت جائیں وہ تو ہے ہی رونی صورت ۔۔۔
وہ چڑا دینے والے انداز میں بولی ۔۔
بکو مت ۔۔ نوال نے اسے گھرکا ۔۔
یوسف بھائی کا فون نہیں لگ رہا میں نے میسیج چھوڑ دیا ہے ان کے لئے ۔۔۔آپ فکر مت کریں سب ٹھیک ہوجائے گا ۔۔ تم لوگ بھی جائو اٹھو ۔۔ فریش ہوجائو ۔۔ جب تک یہاں بیٹھی رہو گی خواتین آنسو بہاتی رہیں گی ! خواہمخواہ ماحول کو فرسٹریٹڈ بنایا ہوا ہے
وہ گویا حکم صادر کرکے دو دو ، چار چار سیڑھیاں پھلانگتا ٹیرس پر چلا گیا ۔۔۔۔ اور کسی کو میسیج کرنے لگا
چلو جائو ۔۔ نہا دھولو کر نیچے آجائو دوپہر کے کھانے کا وقت ہونے والا ہے ۔۔۔میں نوافل ادا کرلوں۔۔
نصیبہ پھپھو تاکید کرتی اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔
یوسف بھائی کہاں ہیں ؟؟؟ نوال کو تشویش ہوئی ۔۔
تاشا بھی بند آنکھیں کھول کر دیکھنے لگی ۔۔
یوسف تو غصے میں مہمان لڑکی کو لے کر کل رات ہی یہاں سے آئوٹ ہائوس چلا گیا تھا ۔۔ البتہ شاہین بھائی آج صبح گئے ہیں بے چارے ٹیشن سے بے حال ہو رہے تھے ۔۔ داماد کا فون آیا تھا ۔۔ وہاں طبیعت زیادہ بگڑ گئی تھی اسی لئے ڈاکٹر کو بلا دوا وغیرہ دلاائی ہے ۔۔۔اب آرام کر رہے ہیں شام کو آجائیں گے ۔۔۔نصیبہ پھپھو کہہ کر چلی گئیں ۔۔
جبکہ وہ دنوں ایک دوسرے کی صورت دیکھنے لگیں ۔۔۔ نوال شزانہ کا کیا ہوگا بھائی نے ؟؟
تاشا بے چینی سے پہلو بدلنے لگی ۔۔
تاشا تمہیں یاد ہے اغوا کاروں نے ہمارے نے سامنے کال کی تھی ۔۔۔ان لوگوں کو ہمارے بدلے شزانہ چاہیئے تھی ۔۔۔ اور یوسف بھائی ۔۔۔
وہ بات ادھوری چھوڑ کر تاشا کو دیکھنے لگی ۔۔۔
یوسف بھائی ایسا نہیں کر سکتے وہ کیسے خالی خولی دھمکیوں میں آ سکتے ہیں یاررر۔۔
انہیں اب سہی معنوں میں شزانہ کی فکر ستانے لگی ۔۔۔۔ یوسف بھائی اب تک آئے کیوں نہیں ہیں؟؟؟ فاتح وہاں کیسے پہنچا ؟ کچھ سمجھ نہیں آرہا ۔۔
وہ دونوں الجھ کر رہ گئیں ۔۔۔
ارے تم دونوں ابھی تک یہیں بیٹھی ہو بھئی جائو ۔۔ فریش ہو جائو ۔۔ آج سارا کھانا تم دونوں کی پسند کا بنا ہے ۔۔۔روشن کی چہکتی آواز پر وہ دونوں خاموشی سے سر ہلاتی اپنے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئیں
اچھا سنو۔۔۔؟؟ ڈرائیور بابا میرے کپڑے تو واپس لے آئے تھے نا؟؟تاشا کچھ یاد آنے پر پلٹ کر روشن سے پوچھنے لگی
کونسے کپڑے ؟؟ وہ الجھی
ارے بھئی میرے ڈیزائنر کپڑے ۔۔۔ روشن نے شدید حیرانی سے اسے دیکھا
سو نادیدے مرے ہوں گے تب جا کر تم پیدا ہوئی ہوگی ۔۔ موت کے منہ سے واپس آئی ہو لیکن مجال ہے زرا برابر اس بات کا اثر لیا ہو ہنوز اپنے ڈیزائنر جوڑوں کی پرواہ ہے۔۔روشن نے اسے آڑے ہاتھوں لیا
ہاں تو؟ جان تو فری میں جاتی ہے لیکن جوڑوں کے پیچھے لاکھوں جاتے ہیں ۔۔ ویسے بھی مرنا تو ہے ہی ایک نہ ایک دن سب نے تو پھر بےکار میں رونا پیٹنے کا فائدہ۔۔
وہ بے نیازی سے کہتی روشن کے چودہ طبق روشن کر گئی
یہ کیا چیز زمین پر اتار دی ہے اللہ نے ؟؟؟ وہ سوچ کر رہ گئی
____________________________________
مزاج بخیر ہیں محترمہ ؟؟
وہ دروازے کو ٹھوکر مار کر بند کرتا ہوا اندر آکر بولا..
عمارا نے نگل لینے والی نظروں سے اسے دیکھا ۔۔
اس وقت مخصوص وردی زیب تن کیئے اپنے پورے قد کے ساتھ وہ بے حد جاذب نظر لگ رہا تھا ۔۔۔
اچھا لگ رہا ہوں نا؟ پوچھو گی نہیں کہاں سے لی یہ وردی۔۔ ؟ انتہائی شائستگی سے کہتے درازنو اسکے قریب بیٹھ گیا ۔۔
مجھے کیا ضرورت ہے پوچھنے لگی ! اس نے جل کر کہتے ہوئے رخ پھیر لیا ۔۔
سوچ لو پچھتائو گی بعد میں ؟ کاش پوچھ لیا ہوتا ۔۔! وہ بغور اسے دیکھتا ہوا بولا ۔۔۔
کھانا رکھ دو میں کھالوں گی ۔۔اور پلیز جائو یہاں سے خدا کے لئے ! وہ عاجزی سے بولی ۔۔
جیسے تمہاری مرضی ۔۔ میں یہیں ہوں جب تک تم کھانا نہیں کھا لیتی ۔۔
وہ کہتا ہوا چڑا دینے والی مسکراہٹ لبوں پر سجائے مقابل صوفے پر پھیل کر بیٹھ گیا ۔۔
اگر ایسا ہے تو بھوکی مر جائوں گی ۔۔
اس نے ڈھیٹ پن مظاہرہ کرتے ہوئے دل ہی دل میں مصمم ارادہ کرلیا ۔۔ دس ۔۔ پندرہ ۔۔بیس ۔۔تیس۔۔ پورا گھنٹہ گزر گیا ۔۔ وہ ڈھیٹ بنی بیٹھی رہی ۔۔۔ دوسری طرف وہ بھی اپنے ارادوں میں اٹل تھا ۔۔
جو اب نیند سے اونگھنے لگا تھا ۔۔ چند تانیے گزرنے کے بعد وہ آواز پیدا کیئے بیڈ سے اتری اور اسکی جیبیں ٹٹولنے لگی ۔۔ چابی باآسانی اسے مل گئی۔۔
اسکا ہاتھ جیسے ہی والٹ کی طرف بڑھنے لگا ۔۔
درباس کا فون چنگھاڑنے لگا ۔۔۔ وہ بھاگ کر تاثرات نارمل کرتی بیڈ پر دوبارہ بیٹھ گئی۔۔۔
عمارا کا دم بلیوں کی طرح اچھلنے لگا ۔۔۔
تم کھانا کھانا مت بھولنا ۔۔ وہ عجلت میں دروازہ لاک کرکے باہر نکلا ۔۔ جیب ٹٹولی تو جیپ کی چابی غائب تھی ۔۔۔ وہ چند ثانیے ٹھہرا سوچتا رہا ۔۔۔لمحے کے ہزارویں حصے وہ سمجھ گیا یہ کس کی حرکت ہو سکتی ہے ۔۔۔ اسکی مسکراہٹ گہری ہوتی چلی گئی ۔۔
وہ واپس اسکے سامنے آ کھڑا ہوا ۔۔۔
اب کیا ہے ؟؟ عمارا گڑبڑا گئی ۔۔ ہاتھ بے ساختہ پیچھے چھپا لیا۔۔۔
چابی واپس کرو ۔۔ وہ ہلکا سا ہنسا اسکے انداز پر ۔۔۔ ہنسنے کا انداز بڑا دلکش تھا ۔۔ عمارا نے نگاہیں پھیر لیں ۔۔ اور انتہائی غصے سے چابی اسکی ہتھیلی پر پٹخی ۔۔۔
والہانہ نظریں اس پر ٹکائے وہ مخروطی انگلیاں اپنی گرفت میں لے چکا تھا ۔۔
گھر جانا چاہتی ہوں ؟؟؟ رسانیت سے پوچھا گیا ۔۔
نہیں ۔۔ تمہارے ساتھ اس بند کمرے میں جینا اور مرنا چاہتی ہوں وہ کاٹ دار لہجے میں بولی ۔۔۔
اس نے جوابً مسکرا کر ہاتھ چھوڑ دیا ۔۔
کل چلی جانا ۔۔ بلکے میں خود تمہیں چھوڑ جائوں گی ۔۔ جاتے جاتے رک کر کہا اور باہر نکل گیا ۔۔۔
_____________________________________
چند گھنٹوں کے بعد وہ لوگ رامن انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر اترے
(international airport )
ramon)
اور تزفت کا رخ کیا ۔۔ اس وقت برف کے طوفانی جھکڑ چل رہے تھے ۔۔ زمینی راستے منوں من برف تلے ڈھکے ہوئے تھے ۔۔۔ رات کے لگ بگھ نو بجنے کو تھے ۔۔۔ سردی میں ٹھٹھرتے وہ مشکل راستوں سے گزر کر کاٹیج تک پہنچے ۔۔۔ فیصل جاتے ہی کمفرٹر میں دبک گیا ۔۔ جبکے نایا کچن کا رخ کرنے لگی ۔۔ اسے مچھلی بنانا نہیں آتی تھی ۔۔
نہ جانے وہ مچھلی ہی کیوں لایا تھا ۔۔ یا شاید ۔۔سردی کی نوعیت سے جسم کو گرمائش کی ضرورت تھی ۔۔۔ اس نے پردے ہٹا کر گلاس وال سے باہر جھانکا تو وہ لکڑیاں توڑ رہا تھا ۔۔۔مچھلی کو نظرانداز کرتے ہوئے اس نے کافی بنائی اور لائونج انگیٹھی کے قریب بیٹھ گئی ۔۔۔
فیصل کے دانت مسلسل بج رہے تھے۔۔۔ دائم لکڑیاں اکٹھی کیں اور انگیٹھی میں آگ جلانے لگا ۔۔۔
تھینکس ۔۔ کافی کا کپ دیکھ کر جوابً مختصر کہا ۔۔۔
ہونہہ اتنا روکھا سا تھینکس۔۔! اس نے جل کر سوچا۔۔
بحرحال اسکی ساری عادتیں عام لوگوں سے زرا ہٹ کر تھی وہ بہت محنتی واقع ہوا تھا ۔۔کبھی کبھی تو کھانا بھی خود بنا کر ان لوگوں کو سرو کر دیا کرتا تھا ۔۔ اس کے لئے یہ خوش آئند بات تھی ۔۔۔
کوئی مسلہ ہے ؟؟؟ اسے مسلسل اپنی طرف محویت سے دیکھتا پا کر دائم نے الجھ کو سوال کیا ۔۔اور ہاتھ جھاڑ کر اسکے برابر میں ٹک گیا ۔۔ کافی کا کپ اٹھالیا ۔۔
مجھے فش فرائی کرنی نہیں آتی ۔۔ ! اسے اب کچھ تو کہنا ہی تھا ۔۔
لو بس اتنی سی بات ۔۔ کیپٹن کس لئے ہیں ۔۔ آپ اُن کے ہاتھ فرائیڈ فش چکھیں گی تو انگلیاں چاٹتے رہ جائیں گی ۔۔ کیوں کیپٹن؟ فیصل اسکرین سے نظر ہٹا کر اپنے مخصوص انداز میں بولا ۔۔۔
دائم نے ایک اچٹتی نگاہ ڈالی ۔۔
تم بھی اپنے بستر سے اٹھنے کی زحمت کرو باہر لکڑیاں پڑی ہیں ۔۔اور کہلاڑا بھی ۔۔۔ جانتے ہونا کیا کرنا ہے ۔۔
فیصل کو اسکے کھانے کی تعریف کرنا مہنگا پڑ گیا ۔۔
ٹھیک ہے جی ۔۔ وہ مسکین سی صورت بنا کر باہر نکل گیا۔۔ میرے لئے کیا کام ہے کیپٹن؟؟ وہ لب دباتے ہوئے پوچھنے لگی ۔۔
جو تمہارا دل کرے۔۔خالی کپ اسے تھما کر کچن کا رخ کرنے لگا۔۔
اففف یہ انداز ۔۔ وہ بلبلا کر رہ گئی ۔۔ دھیرے دھیرے اسے سمجھ آنے لگا تھا کہ کم بولنا ۔۔ زیادہ سننا ۔۔ کم سونا ۔۔ زیادہ کام کرنا ۔۔ اسکی طبیعت کا خاصا تھی ۔۔
وہ سر جھٹک کر کپ اٹھائے کچن میں آگئی ۔۔
دائم نے آستینیں فولڈ کیں اور مچھلی صاف کرنے لگا ۔۔
وہ سینے پر ہاتھ جمائے خوامخواہ ہی اسے کام کرتا دیکھنے لگی ۔۔ پھر سر جھٹک کر باہر آگئی ۔۔۔
واللہ ایسی سردی تو صرف ٹی ویوں میں دیکھی تھی ۔۔ پتا نہیں تھا ایسی سردی جھیلنا آسان نہیں ہوتا ۔۔ فیصل نے لکڑیاں پھینکی اور ہاتھ رگڑنے لگا ۔۔
کچن میں لے آئو سب لکڑیاں اور آگ جلائو ۔۔ اگلا حکم سن کر فیصل کو پتنگے لگ گئے ۔۔
اس سے اچھی تو ہماری بستی ہے ۔۔ کم از کم گیس تو ہے ۔۔ یہاں دیکھوں اتنی ترقی ہوگئی لیکن گیس نہیں ہے ! وہ کہتا ہوا لکڑیاں جلانے لگا ۔۔
تمہیں نہیں لگتا تمہیں کم بولنا چاہیئے !
وہ چڑ کر بولا ۔۔
آپ کو نہیں لگتا کہ آپ کو ‘بھی’ بولنا چاہیئے ۔۔ ایسا لگتا ہے جیسے آپ کوئی روبوٹ ہیں ۔۔۔ نہ ہنستے ہیں۔۔ نہ بولتے ہیں ۔۔ ہر وقت کام میں لگے رہتے ہیں۔۔ آپ کو تو مجھ پر اور آفیسر پر ناز ہونا چاہیئے ۔۔۔ اس قدر محنتی پارٹنر ملے ہیں ۔۔۔ ہے نا آفیسر ؟؟ سہی کہہ رہا ہو نا میں؟
اس نے فرضی کالر جھاڑے ۔۔
دائم نے جواب دینے گریز کیا
انسان کو اتنا بھی کھڑوس نہیں ہونا چاہیئے ۔۔
وہ جواب نہ پاکر جل کر بولا ۔۔۔ اور اسکے قریب بیٹھ گیا ۔۔۔ دائم کا اکسایا ہوا چہرہ دیکھ کر نایا کی مسکراہٹ گہری ہونے لگی ۔۔
پتا ہے ہمارے گائوں میں نا ۔۔۔آپ کے جیسا ہی ایک جوان رہتا تھا ۔۔ اسے سب کھڑوں فوجی کے نام کے بلاتے تھے ۔۔۔ وہ جب بھی ۔۔۔
اگر تم نے ایک لفظ اور بولا تو میں تمہیں اٹھا کر باہر پھینک دوں گا ۔۔۔ وہ قطعی انداز میں اسکی بات کاٹ کر بولا ۔۔۔
نایا نے بمشکل ہنسی دباتے ہوئے رخ موڑ لیا ۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے ! وہ منہ بسور کر اٹھ کر کھڑا ہوا ۔۔۔
اب کیا اس گھر میں بھی روشن دان جلانا ممنوع ہوگا ۔۔ ؟ وہ خاموشی سے اکتا کر پوچھنے لگا ۔۔۔
جلا سکتے ہیں ۔۔۔پوش علاقہ ہے مجھے نہیں لگتا ہمیں کوئی خطرہ ہو سکتا ہے ۔۔۔ جواب نایا کی طرف سے آیا ۔۔ خاص طور گیارہ بجے کے بعد بند رکھنا۔۔ یہاں کچھ دوری پر انڈینز فلم کی شوٹنگ کر رہے ہیں ! وہ مصروف انداز میں بولا ۔۔ فیصل کے لئے یہ سب نیا تھا ۔۔۔ نایا نے پر سوچ انداز میں سر ہلایا ۔۔
اسرائیل میں بھی ہندوستانی رہتے ہیں کیا؟ وہ حیراں ہوا ۔۔ لگ بگھ اسی ہزار کے قریب ہندوستانی یہاں مقیم ہیں ۔۔۔ فیصل تو اسکی غیر معمولی قابلیت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا ۔۔ جو شام کے علاقوں کا نقشہ انگلیوں پر کھینچ سکتا تھا ۔۔۔ اسرائیلیوں کے بیچ ہندوستانیوں کو پہنچان سکتا تھا ۔۔۔وہ کیا کچھ نہیں کر سکتا تھا ۔۔۔! انگیٹھی میں لکڑیاں زوروں شور سے جل رہی تھی ۔۔۔ دائم ہاتھ دھو کر فون کان سے لگائے باہر آگیا ۔۔
وہ دونوں ڈائننگ ٹیبل سیٹ کرنے لگے تھے ۔۔
ہم آج رات ہی جنت قدوسی کے پیچھے جائیں گے ؟ تم لوگوں کو اگر آرام کرنا ہے تو کوئی مسلہ نہیں میں اکیلا بھی جا سکتا ہوں ۔۔
اس نے گویا جواب بھی خود ہی اخذ کرلیا ۔۔
ہم تیار ہیں ۔۔ وہ دونوں یکجاں ہوکر بولے ۔۔
جب کام کی بات آتی تھی تو غیر معمولی طور پر ساری تھکن ہوا ہوجاتی تھی ۔۔ حالانکہ حد درجہ سردی میں انسان سست اور کاہل ہوجاتا تھا ۔۔فیصل کے لئے یہ احساس بہت نیا اور خوش آمیز تھا ۔۔۔
_____________________________________
یہ تمہارے ہاتھوں پر کیا ہوا ؟؟
چبھتی ہوئی نظر اور کاٹدار آواز پر نوال نے گھبرا کر کلائی دوپٹے کے نیچے چھپا لی ۔۔
انفیکشن ہوگیا تھا ہلکا سا۔۔۔ وہ بمشکل بولی ۔۔
آج پھر اس کی ساس آئی تھی ۔۔ تاہم لہجہ کچھ کھنچا کھنچا سا تھا ۔۔ نوال کے ساتھ بھی گرمجوشی فقط رسمی سی تھی ۔۔۔ سب خوش اور مطمئن تھے ۔۔البتہ نصیبہ پھپھو کا دل انکا رویہ دیکھ کر ہولنے لگا تھا ۔۔۔ نوال ان کی جانچتی نظروں سے گھبرا کر فورا اٹھ گئی ۔۔ ادھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد وہ چلی گئیں ۔۔ نصیبہ پھپھو کی پریشانی میں اضافہ ہونے لگا تھا ۔۔ نوال کی شادی کی خبر خاندان بھر میں سرگرم تھی ۔۔ اللہ اللہ کرکے وہ واپس آئیں تھی ۔۔ یہ ایک دن اور رات انہوں نے کیسے خود کو سنبھالا تھا یہ وہی جانتی تھی ۔۔
نوال ماں اتری ہوئی صورت دیکھ کر پریشانی مبتلا ہونے لگی۔۔
کیا ہوا بھئی ؟ کچھ چائیے ؟ رومیشا اسے دیکھ کر مسکرائی ۔۔
آنٹی بہت عجیب نظروں سے دیکھ رہی تھی رومیشا ۔۔۔میں جانتی ہوں وہ کیا سوچ رہی ہوں گی ۔۔بس اپنے خدشات کو زبان دینے سے کترا رہی تھی ۔۔
کسی سوچ کے تحت اسکی آواز بھرا گئی ۔۔۔
چہ خدانخواستہ کوئی برا خیال ان کے زہن میں آئے ۔۔۔ ! رومیشا نے اسے دلاسا دیا ۔۔
چوکھٹ پر کھڑے فاتح کے نقوش تنے تھے ۔۔ وہ تیزی سے سیڑھیاں پھلانگتا ہوا نیچے آیا ۔۔ جہاں خواتین حسب عادت داخلی دروازے پر پہنچنے تک محو کلام تھیں ۔۔
ہوگئی ڈیٹ فکس شادی کی؟؟؟ اسکے اچانک سوال پر خواتین مڑ کر دیکھنے لگیں ۔۔
بھائی صاحب کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے ۔۔ شائستہ کہہ رہی ہے کچھ وقت کے شادی ڈیلے کردی جائے ! جواب شاکرہ بیگم کی طرف سے آیا ۔۔
اچھااا میں ابھی رامس کے پاس سے آرہا ہوں ۔۔اس نے تو ایسا کوئی زکر نہیں کیا ۔۔
شائستہ بیگم کا رنگ فق ہوا ۔۔۔ اس نے تو اندھیر میں تیر چلایا تھق۔۔ جو نشانے پر جا لگا ۔۔
کیوں شائستہ آنٹی ؟ صاف صاف کیوں نہیں کہتی کہ روایتی خواتین کی طرح اب آپ کو بھی لڑکیوں کے کریکٹر پر شک ہونے لگا ہے ۔۔ اغوا شدہ لڑکی یے ! خاندان میں باتیں بنیں گیں ! وغیرہ وغیرہ !
نصیبہ پھپھو نے دہل کر فاتح کو دیکھا ۔۔
شائستہ بیگم کا رنگ ضبط کے مارے سرخ پڑ گیا ۔۔
فاتح کیا بک رہے ہو جائو یہاں سے ۔۔ شاکرہ بیگم نے آنکھیں دکھاتے ہوئے اسے اندر کی طرف دھکیلا۔۔
اماں آپ دیکھ نہیں رہیں ان کی نیت میں کھوٹ آچکا ہے ! فاتح کا دل کیا اس غلیظ نظروں والی عورت کی آنکھیں نوچ لے ۔۔۔
بس بہت ہوگیا۔۔کیا بکواس کیئے جارہے ہو تم اگر ایسی ہی بات ہے تو تم کر لونا شادی ۔۔ آخر کو تمہاری کزن ہے ۔۔ اسکے اغوا شدہ ہونے پر کمپرومائز تو کر ہی سکتے ہو
شائستہ بیگم بھڑک اٹھیں
نکلو یہاں سے ۔۔۔ اس سے پہلے میں اس عورت کو دھکے دے کر نکالوں ۔۔اسے کہیں یہاں سے چلی جائے ۔۔
فاتح کا دماغ پلوں میں گھوما ۔۔۔ شائستہ بیگم بکتی جھکتی وہاں سے چلی گئیں ۔۔۔نصیبہ پھپھو کی آنکھوں سے آنسو جاری ہونے لگے ۔۔۔
دوبارہ مت آئیے گا یہاں دوغلے اور گھٹیا سوچ والوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ۔۔ وہ غصے سے چیخا ۔۔
۔ شاکرہ بیگم کا ضبط جواب دے گیا ۔۔۔ نتیجاً ایک زور دار طمانچہ اسکی بولتی بند کروا گیا ۔۔۔
اماں ۔۔۔؟؟؟
تاشا جو ابھی ابھی یہاں آئی تھی ۔۔۔ یہ منظر دیکھ کر ششدر رہ گئی ۔۔اماں کا لاڈلا بیٹا تھا ۔۔وہ بابا کی ناراضگی مول لے کر بھی اسکی طرفداری کیا کرتی تھی ۔۔۔ آج ایسا کیا ہوگیا جو طمانچہ جڑ دیا ۔۔۔
تاشا اسے یہاں سے لے جائو ورنہ میں تھپڑوں سے اسکا منہ لال کردوں گی ۔۔ اماں کی بلند آواز سن کر جہاں وہ دنگ رہ گئی ۔۔ نوال اور رومیشا بھی وہاں پہنچی ۔۔۔
فاتح انتہائی طیش کے عالم میں تاشا کا ہاتھ جھٹک کر کمرے میں چلا گیا ۔۔۔
نصیبہ پھپھو ۔۔ ؟؟ کیا ہوا آپ کو ؟ آئیں میں آپ کو اندر لے چلتی ہوں ! اسے نصیبہ پھپھو کی حالت دیکھ کر ہمدردی محسوس ہونے لگی ۔۔
نوال بھی انہیں سہارا دے اندر لے آئیں ۔۔۔
اماں کیا ہوا ہے ؟؟؟ آپ نے فاتح بھائی کو کیوں مارا ؟ تاشا کی شاکی آواز نوال کو بری طرح سے چونکا گئی ۔۔
ممانی نے فاتح پر ہاتھ اٹھایا ؟؟
فضول کی بکواس کر رہا تھا نوال کی ساس کے ساتھ ! انہیں ناراض کرکے بھجوا دیا ۔۔۔ شاکرہ بیگم پھٹ پڑیں ۔۔ نصیبہ پھپھو کو جس بات کا ڈر تھا وہی ہوا ۔۔ وہ ابھی تک شاک میں تھیں ۔۔۔ خوانخواستہ اگر شائستہ نے رشتہ توڑ دیا ۔۔ اور بات خاندان میں پھیل گئی تو وہ کیا جواز پیش کریں گی ۔۔؟ کس کس کو بتائیں گی ۔۔ کیسے یقین دلائیں گی ۔۔
اماں اب ایسی بھی بات نہیں ہے فاتح بھائی کوئی دودھ پیتے بچے تو ہیں نہیں جو انہیں رشتوں کا لحاظ سمجھانا پڑے۔۔ کوئی بات ضرور ہے آپ کو ان پر ہاتھ نہیں اٹھانا چاہیئے تھا ۔۔
تاشا تاسف سے سر جھٹکتی فاتح کے کمرے کی جانب بڑھی ۔۔۔جہاں سے توڑ پھوڑ کی آوازیں مسلسل آرہی تھیں ۔۔ تم نصیبہ آپا کا دھیان رکھو نوال ۔۔۔میں ڈاکٹر کو فون کرتی کہیں بی پی نہ بڑھ گیا ہو ۔۔۔
شاکرہ بیگم کے اعصاب جواب دینے لگے تو وہ بھی چلی گئیں ۔۔ جی ممانی ۔۔ وہ سر ہلا کر رہ گئی ۔۔ آخر ایسی بھی کیا بات ہوگئی کہ ممانی نے طمانچہ جڑ دیا ۔۔ فاتح اپنی تمام تر بدتمیزیوں اور من مانیوں سمیت ہر دل عزیز تھا ۔۔ مگر اس نے حدود کبھی پار نہیں کی تھی ۔۔
_____________________________________
وہ ہر روز رات دس بجے کے قریب کلب میں آتی ہے ۔۔ اس سے اچھا موقع نہیں مل سکتا ہمیں جی پی ایس اسکے موبائل میں لگانا ہوگا۔۔اور ایک کار ٹریکر بھی ٹھیک رہے گا اسکی لوکیشن جاننے کے لئے ۔۔
میں کار سے نپٹ لوں گی ! وہ فورا بولی۔۔
ٹھیک ہے تو اسکے فون میں ۔۔۔
میں کروں گا یہ کام فیصل دائم بات کاٹ کر جوش میں بولا ۔۔۔
تم ۔۔۔؟ دائم نے ٹھہر کر قدرے حیرانی سے اسے دیکھا ۔۔
جی بلکل کیپٹن ۔۔ وہ کیا ہے نا۔۔ میں اسکا ہم عمر لگتا ہوں میں اس پر لائن ماروں تو اچھا بھی لگتا ہے ۔۔ آپ تو اسکے والد لگیں گے ۔۔
فیصل خوش فہمی کے پہاڑ چڑھتے ہوئے بولا ۔۔۔
ٹھیک ہے ۔۔ دھیان سے کہیں بنا بنایا کام مت بگاڑ دینا ۔۔
وہ اسے گھور کر بولا ۔۔ وہ لوگ آگے پیچھے کاٹیج سے نکلے تھے۔۔سردی حد سے بڑھ گئی تھی مگر ان لوگوں کے لئے رکنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ۔۔۔ سو چل پڑے۔۔ سنسان سڑکوں پر ۔۔۔ جیبوں میں ہاتھ گھسائے ۔۔۔
کلب کے سامنے پہنچ کر دائم نے نایا کو نمبر پلیٹ بتائی ۔۔وہ سر ہلاتی ہوئی پارکنگ کی جانب بڑھی ۔۔ جبکے فیصل لمبی سانس لے کر اسکے ہاتھ سے ممبر شپ کارڈ لیا اور کلب کے دروازے پر پہنچا ۔۔۔ اسے فورا اندر بلالیا گیا ۔۔۔ کانوں کو پھاڑتا ہوا تیز میوزک چل میوزک چل رہا تھا۔۔ کٹے پھٹے کپڑوں میں جھومتے لڑکے لڑکیاں خاصا ناگزیر ماحول تھا ۔۔۔ وہ اب پچھتانے لگا تھا ۔۔ جس کا کام اسی کو ساجے ۔۔۔
کسی نے سہی کہا تھا ۔۔ یہ اسکے بس کی بات نہیں تھی ۔۔ جانے کے خیال سے پلٹا پھر دائم کے قہر سے ڈر کر اندر چلا آیا ۔۔ متلاشی نگاہیں دوڑاتے ہوئے اس دوزخ میں اسے آخر کار جنت نظر آہی گئی ۔۔
وہ کالر درست کرتا ہوا آگے بڑھا ۔۔۔
انتہائی چست اور چھوٹے سے لباس میں کم عمر سی جنت عرف ونیسا خاصی حسین دوشیزہ تھی ۔۔۔
وہ آلتو جلالتو کا ورد کرتا ۔۔ بظاہر نرم سی مسکراہٹ اسکی طرف اچھال کر برابر میں آکھڑا ہوا ۔۔۔
کیا لیں گے آپ سر؟
just water .. I don’t drink
کیا مطمئن انداز تھا ۔۔
دائم بری طرح چونکا ۔۔۔
فیصوووو ۔۔۔؟ تم ٹھیک تو ہو؟؟ خاصا معنی خیز انداز تھا نایا کا ۔۔
ہاں اگر آپ رہنے دو تو ۔۔۔ وہ بظاہر دانت دکھا کر آس پاس کا جائزہ لیتا بڑبڑایا ۔۔ جنت بی بی نے اپنا فون نازک سے کلچ میں رکھا ہوا تھا ۔۔ جو اسکے ہاتھ میں تھا ۔۔
اب وہ کیا کرے ؟؟
فیصل کتنے سال لگیں گے ؟؟ دائم زرا اکتا گیا ۔۔
یار آپ تو جان جائے مگر لڑکی نہ جائے والا انداز اپنائے ہوئے ہیں ۔۔ تھوڑا صبر تو کریں۔۔۔ اور دیکھیں اب میں کیا کرتا ہوں۔۔ فیصل کا انداز چیلنجنگ تھا ۔۔
دیکھ لیتے ہیں ۔۔ دائم بڑبڑاتا ہوا کافی میں شاپ میں کافی آرڈر کرنے لگا ۔۔
ہائے ونیسا۔۔
وہ پورے کانفیڈنس کے ساتھ بولا تھا۔۔
البتی جنت نے ایک نظر سر تا پا اسکے حلیے پر ڈالی ۔۔اور نائس ٹرائے ۔۔ ۔۔کہتی ہوئینخوت سے سر جھٹک کر رخ موڑ گئی ۔۔ کافی پیتے دائم کو زور کا اچھو لگا ۔
یہ تھا تمہارا پلین ؟
فیصل اپنا سا منہ لے کر رہ گیا ۔۔۔ گھی جب سیدھی انگلی سے نہ نکلے تو انگلی ٹیڑھی کرنی پڑتی ہے ۔۔ دکھا دو اپنی وِل پاور ! نایا کی موٹیویشن کام آ گئی ۔۔
وہ ناک بھوں چڑھا کر غصے سے فون نکال کر تیزی سے انگلیاں گھمانے لگا ۔۔۔ اسی اثنا میں جنت کے فون پیغامی ٹون بجی ۔۔ اس نے نامحسوس طریقے سے کائونٹر پر پڑی بوتل کو انگلی ماری نتیجا شراب کی بوتل فون کو گیلا کر گئی ۔۔
اوہ ۔۔۔ آئی ایم سو سوری ۔۔ وہ جھٹ پٹ فون اٹھا کر رومال سے رگڑنے لگا ۔۔۔
اٹس اوکے ۔۔ وہ ازلی بے نیاز انداز میں بول کر پلٹ گئی جیسے اسے فون کی کوئی پراوہ نہ ہو ۔۔
فیصل کے لئے اس سے خوشآئند بات اور کیا ہو سکتی تھی ۔۔ وہ جیسے ہی زرا سا مڑی ۔۔
اس نے ایپلیکیشن اسکے فون انسٹال کرکے مہارت دکھا دی ۔۔ بظاہر مسکرا کر فون دوبارہ اسکی طرف سرکایا ۔۔ اور فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ کیپ درست کرتا کلب سے باہر نکل آیا ۔۔
کیا ہوا ؟؟ اسے آتا دیکھ کر دائم کیفے سے نکلنے لگا ۔۔
ہونا کیا ہے کیپٹن ۔۔ دا گریٹ فیصل نے اپنا کام کردیا ۔۔ ایسا کہ آپ سنتے ہی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکیں گے ۔۔
وہ کہتا ہوا سڑک کے کنارے چلنے لگا ۔۔
اچھاااا ! اس نے اچھا خاصا کھینچ کر ادا کیا ۔۔
اب سے ہم اسکی باتیں ، چیٹس کال ، ریکاڈنگ ، لوکیشن سب پر نظر رکھ سکیں گے ! مسکراتے ہوئے اپنا کارنامہ بتایا ۔۔۔
ویل ڈن ! وہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہا سکا.۔۔
نایا ؟ آر یو دیئر ۔۔ ؟؟؟
یس آئی ایم ہیئر۔۔ اب جب تک یہ کار سروس کے لئے نہیں جاتی ۔۔ ہمارے لئے مفید ہے ۔۔ اگر ایسا ہوتا تو ہمیں نئے سرے ٹریکر لگانا پڑے گا ۔۔۔وہ آس پاس محتاط نظر دوڑاتی گاڑی سے نکلی ۔۔ اور مخالفت سمت چل دی ۔۔۔
آگے پیچھے وہ لوگ واپس کاٹیج پہنچے ۔۔ فیصل کو ایک نئی ایکٹیوٹی مل گئی تھی ۔۔۔ اسے اب ساری چیٹس اور میسیج پڑھنے تھے ۔۔ تاکہ اپنے مطلب کی انفامیشن تلاش کرسکیں ۔۔
دائم انگیٹھی میں لکڑیاں جلانے لگا ۔۔
اور نایا کافی بنانے کچن میں چلی گئی ۔۔
لائٹس آف کردو گیارہ بجنے والے ہیں ۔۔ اس نے سر ہلاتے ہوئے لائٹس بند کردیں ۔۔
آگے کے کیا پلینز ہیں ؟؟؟ وہ کپ لبوں لگاتی ہوئی بولی ۔۔ دائم نے رخ پھیر آگ کی روشنی میں دمکتے اسکے سرخی مائل چہرے کودیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔
کل ہر صورت جنت کے بارے میں زیادہ سے معلومات اکٹھا کرنی ہے اور اس مینجر کے بارے میں بھی ۔۔
اس نے جوابا سر ہلانے پر اکتفا کیا ۔۔۔
تم نے اپنے گھر بات نہیں کی اس دن؟؟؟
چند لمحوں کی خاموشی کے بعد اس نے دریافت کیا
۔۔۔نایا نے براہراست اسکی سبز نگاہوں کو دیکھا جو آتش دان میں جلتی آگ پر مرکوز تھیں ۔۔
کیونکہ بابا دماغی طور پر معذور ہیں۔ وہ کبھی کبھی مجھے بھی نہیں پہچان پاتے ! اسکا گلا رندھ گیا ۔۔
صرف کبھی کبھی ؟ اس نے یونہی پوچھ لیا تھا ۔۔
نایا کے پاس کوئی جواب نہیں تھا ۔۔ اسکی آنکھیں نمکین پانیوں سے بھر گئیں ۔۔۔
زندگی بہت سی جگہوں پر نا انصافی کر جاتی ہے کبھی کبھی ۔۔۔بس انسان کا حوصلہ نہیں ٹوٹنا چاھیئے
اسکی جھلماتی آنکھوں کو دیکھ کر رخ موڑ گیا ۔۔
سہی کہہ رہا تھا وہ یہ نا انصافی نہیں تو اور کیا تھا ! جن کے لئے اس نے اتنی محنت کی ۔۔زندگی میں یہ مقام حاصل کیا ۔۔ اسے گزرا ہوا ایک لمحہ بھی یاد نہیں تھا ۔۔۔ کبھی کبھی تو وہ سوچتی تھی کاش اس نے فوسز جوائن ہی نہ کیں ہوتی ۔۔ کوئی اور جاب کرکے اپنا گزر بسر کر لیتی اور شادی کرکے گھر بسا لیتی ۔۔ وہ باپ کی محبت میں یہاں تک آئی تھی ۔۔ مگر سب لا حاصل رہا ۔۔ سب کچھ
اس نے دیر کردی تھی۔۔
تم دونوں بھی اب آرام کرلو ۔۔ تھک گئے ہوگے ! اسکی آواز پر نایا چونک کر خیالوں کی دنیا سے باہر آئی ۔۔۔ واللہ اتنا چونا تو تاریخ میں کسی عاشق نے اپنی معشوقہ کو نہیں لگایا ہوگا ۔۔ جتنا یہ ایک دوسرے کو لگا رہے ہیں !
وہ بلند آواز بڑبڑایا ۔۔ یقیننا وہ چیٹس اور میسیجز سے لطف انداز ہورہا تھا ۔۔۔ دائم سر جھٹک کر دوسرے کمرے میں جانے لگا ۔۔تاہم نایا ایک بار پھر سے اداس نظر آنے لگی ۔۔
_____________________________________
یوسف کے حواسوں پر چھائی غنودگی کا اثر زائل ہونے لگا ۔۔ زہن بیدار ہونے لگا تو خود کو ہاسپٹل کے بستر پر پایا ۔۔ صوفے پر تصور بھائی ہاتھوں میں سر گرائے بیٹھے تھے ۔۔۔ تاشا ۔۔؟؟ نوال؟؟؟ یاد آتے ہی بے چینی سے اٹھ بیٹھا ۔۔۔
تاشا اور نوال دونوں ٹھیک ہیں گھر پہنچ چکی ہیں.۔۔ تمہاری طبیعت کیسی ہے ؟ شکر ہے تمہیں ہوش آگیا ۔۔ تم پچھلے دو گھنٹے سے بے ہوش ہو ۔۔
تصور بھائی تفکر بھرے لہجے میں بولے ۔۔
دو گھنٹے سے بے ہوش ہوں؟ کیسے ؟ کیا ہوا مجھے ؟
وہ حیران رہ گیا ۔۔
تمہیں ۔۔ بلکے ہمیں بے ہوش کردیا گیا تھا ۔۔ ڈاکٹر کا کہنا ہے ہمیں انجیکشن دیا گیاتھا بے ہوشی کا ۔۔ اور گرنے کے بعث تمہارا سر پتھریلی چیز سے ٹکرایا اس لئے تمہیں سر پر چوٹ آئی ہے ۔۔۔
یوسف نے انتہائی حیرانی اور پریشانی سے اپنا ماتھا چھوا ۔۔
شزا۔۔۔شزانہ؟شزانہ کہاں ہے؟؟ وہ زیر لب بڑبڑایا ۔۔ نظر اٹھا کر تصور بھائی کو دیکھا ۔۔ جنہوں نے اسکے سوالوں سے گھبرا کر رخ موڑ لیا ۔۔ ان کے پاس بھی کوئی جواب نہیں تھا ۔۔۔
یا خدا ۔۔ یہ کیا ہوگیا.. انتہائی بے بسی کے عالم میں سر ہاتھوں میں گرا لیا۔۔ اس نے شاہین صاحب سے وعدہ کیا تھا ۔۔ اور پھر ۔۔اس نے شزانہ کو بھی تو قول دیا تھا ۔۔۔ کتنی بے بس نظر آرہی تھی وہ ۔۔اسکے بارے میں سوچ کر ہی دل ہول رہا تھا۔۔۔ وہ ڈرپ کھینچ کر اتارتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا ۔۔ تصور بھائی نے کچھ کہنا مگر اسکے قطعی انداز پر جیکٹ اٹھانے لگا ۔۔ ہاسپٹل سے گھر تک کا سفر خاموشی سے کٹ گیا۔۔۔
رات کے کھانے پر ڈائننگ ٹیبل تقریبا خالی تھا ۔۔ نصیبہ پھپھو کی طبیعت شام والے واقعے کے بعد سے ناساز تھی ۔۔فاتح کو بھی اپنے کمرے سے نکلتے نہیں دیکھا تھا کسی نے ۔۔۔ نوال اور تاشا بھی گم سم تھیں ۔۔شاہین صاحب یوسف کی فکر کھائے جا ریی جو اب تک نہیں لوٹا تھا ۔۔۔ شکر الہی تم لوگ لوٹ آئے ؟ میرا تو دل بیٹھا جا رہا تھا ؟ کہاں تھے اب تک ؟ ہبا آپی جو ان کے انتظار میں صحن میں ٹہل رہی تھی ۔۔ تصور بھائی کو آتا دیکھ کر خود کو روک نہیں پائیں ۔۔ اور ان کے پیچھے شکستہ حال یوسف کو دیکھ کر تو سانس لینا ہی بھول گئیں ۔۔
ہائے اللہ یوسف ۔۔یہ سب کیا ہوا ؟ تمہیں چوٹ کیسے لگی ؟ پریشانی کی کوئی بات نہیں بس ۔۔چھوٹی سی چوٹ ہے ! وہ بجھے دل سے بولا ۔۔۔
ایسے کیسے چھوٹی سی چوٹ ہے ؟ بتاتے کیوں نہیں کیا ہوا ؟ تصور تم ہی کچھ بولو ؟ وہ ہلکان ہوئے جارہی تھی ۔۔۔وقت آنے پر پتا چل جائے گا ہبا ۔۔ بے چارے کو آرام کرنے دو ۔۔پریشان مت کرو ۔۔ اور سب لوگ کہاں ہیں؟ کوئی نظر نہیں آرہا ؟؟
تصور بھائی بات ٹال گئے ۔۔
پتا نہیں میں تو شام سے بچوں کے ساتھ اپنی دوست ہاں گئی تھی واپس آئی تو سب گم سم سے تھے ۔۔ کوئی کچھ نہیں بتا رہا ۔۔ پتا نہیں کس کی نظر لگ گئی ہے ہمارے گھر کو ایک کے بعد ایک پریشانیاں آتی جارہی ہیں !
ہبا آپی دلگیری سے بولیں ۔۔
خیر چھوڑو ۔۔کھانا لگائو ۔۔ اور باقی سب کو بھی بلائو ۔۔
یوسف تم بھی ہاتھ منہ دھو لو اور ٹیبل پر آجائو
وہ تاکید کرتی ہوئی اٹھ گئی ۔۔ شاہین صاحب کے سوا ٹیبل پر کوئی نہیں آیا تھا ۔۔۔ یوسف اور تصور خاموشی سے کھانے میں مشغول تھے ۔۔
چوٹ کیسے لگی تمہیں ؟؟ بہت دیر بعد انہوں نے بہت ہمت جمع کرکے پوچھا ۔۔۔حالانکہ ان کی چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ کچھ تو ضرور ہوا ہے
یوسف نے ایک نظر انہیں دیکھ کر سر جھکا لیا ۔۔۔
اغوا کار شزانہ کو لے جارہے تھے میں نے مزاحمت کی تو وہ لوگ بیچ میں آگئے ۔۔ اور ۔۔
اس نے بات ادھوری چھوڑ دی ۔۔ عجیب سی سوچیں اور وسوسے اسکے دماغ میں آنے لگے ۔۔۔ اتنا بے چین وہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا زندگی میں ۔۔۔ شاہین صاحب نے پھر کوئی سوال نہیں کیا نہ ہی اس میں ہمت تھی جواب دینے کی ۔۔۔ وہ دو چار لقمے زہر مار کرنے کے بعد خاموشی سے اٹھ گیا۔۔ محسوس کر دینے والی خاموشی اور اداسی اس گھر کے مکینوں پر چھائی ہوئی تھی ۔۔۔ ہر کوئی چھپتا پھر رہا تھا۔۔
نوال ؟؟؟ وہ ہبا آپ کے کمرے کے سامنے سے گزر رہی تھی جب اپنے نام کی پکار سن کر رک گئی ۔۔۔
جی آپی؟؟؟
زرا گرم دودھ اور ٹیبلٹ تو یوسف کے کمرے میں دے آئو ۔۔وہ مجھے تھکا تھکا اور پریشان لگ رہا تھا ۔۔ وہ بچوں کو ہومورک کروانے میں مصروف تھی ۔۔
یوسف بھائی کب آئے ؟ وہ سن کر حیران ہوئی ۔۔
ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی تصور کے ساتھ آیا ہے ۔۔دونوں ہی گم سم سے ہیں ۔۔ مجھے تو کوئی پریشانی والی بات لگتی ہے ! ہبا آپی نے خدشہ ظاہر کیا
اللہ خیر کرے ۔۔ اب کونسی پریشانی نے گھیر لیا ۔۔ وہ بے ساختہ بولتی ہوئی کچن میں آگئی.۔۔۔
دودھ گرم کرکے اس نے پین کلر اٹھائی اور دروازہ بجایا ۔۔ یوسف بھائی؟؟؟ اندر آجائوں !
آجائو ۔۔ وہ ابھی سساتے کے لئے لیٹا تھا ۔۔ آنکھوں سے ہاتھ ہٹاتے ہوئے اٹھ بیٹھا ۔۔.
یہ کیا ہوا آپ کو ؟؟ چوٹ کیسے لگی ؟ وہ حیران پریشان رہ گئی ۔۔
کچھ نہیں بس چھوٹی سی چوٹ ہے ۔۔ تم نے زحمت کیوں کی ۔۔ روشن سے کہہ دیتیں !
اسکے ہاتھ سے گلاس لیتے ہوئے یوسف نے بات بدلنی چاہی ۔۔
یہ کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ؟ سچ سچ بتائیں کیا ہوا ہے ؟؟ اسکی آواز لڑکھڑائی ۔۔ وہ بس رو دینے کو تھی ۔۔ کچھ نہیں ہوا بابا ۔۔ بس معمولی سی چوٹ ہے ۔۔۔ ادھر آئو تم یہاں بیٹھو ۔۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر اسے پاس بٹھا لیا ۔۔
آپ سچ کہہ رہے ہیں نا ؟ اور کہاں تھے آپ ابھی تک ؟؟ شزانہ کیوں نہیں آئی ؟ وہ چانچتی نگاہوں سے دیکھنے لگی ۔۔ یوسف نے اسکے سوال پر بے بسی نظریں پھیر لیں ۔۔ نوال کا دل کسی نے مٹھی میں جکڑ لیا ۔۔
اللہ ۔۔اللہ ۔۔ اس ۔۔ اسکا مطلب آپ نے ؟؟ یوسف بھائی ؟ آپ کیسے کر سکتے ہیں اس کے ساتھ ایسا !
بے یقینی ہی بے یقینی تھی ۔۔
یوسف کا جھکا سر مزید جھک گیا ۔۔۔
بے چاری شزانہ ۔۔ کس حال میں ہوگی؟؟ نوال اس سے آگے سوچ ہی نہیں سکی ۔۔
مجھے تم دونوں کے لئے کرنا پڑا ! اس نے کمزور سی دلیل دی ۔۔
مگر کیوووووں؟ ہم وہاں سے بھاگ آئے تھے ۔۔۔ ملٹری آفیسرز وہاں موجود تھے جنہوں نے ہمیں ویرانے سے سڑک تک چھوڑ دیا ۔۔۔اسکے بعد فاتح وہاں پہنچ تو گیا تھا ۔۔۔ آپ کم از کم تحقیق تو کرلیتے یوسف بھائی ۔۔
نوال بے بس سی ہوکر بولی ۔۔
تم لوگ بھاگ کر آئی ہو ؟؟؟
اسکی آنکھیں حیرانی سے پھیل گئیں ۔۔
ہاں ۔۔ تاشا اور میں وہاں سے بھاگ کر آئے ہیں ۔۔
کس وقت؟ اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا
صبح کا وقت تھا تقریبا نو یا دس بج رہے ہوں گے ۔۔
اور اسے کال گیارہ بجے موصول ہوئی تھی ۔۔ جسکے ٹھیک آدھے گھنٹے بعد وہ مطلوبہ جگہ کے لئے نکلے تھے ۔۔۔ یہ سب سوچی سمجھی سازش تھی ۔۔
کتنا بے وقوف واقع ہوا تھا وہ ۔۔ ان لوگوں کے جال میں پھنس گیا ۔۔ اس نے انتہائی انداز میں گلاس ٹیبل پر پٹخ دیا ۔۔ نوال اسکا چہرہ دیکھ کر رہ گئی ۔۔
فاتح وہاں کیسے پہنچا ؟ اور ملٹری آفیسرز وہاں کیا کر رہے تھے ؟ وہ ٹھٹھک کر پوچھنے لگا ۔۔ کہیں بابا نے تو؟؟
وہ اس سے آگے سوچنا نہیں چاہتا تھا۔۔لیکن اگر سچ ہوا تو؟
پتا نہیں یوسف بھائی ۔۔ یہ سب اتفاقیہ ہوا ۔۔۔ وہ پرسوچ انداز میں بولی ۔۔
وہ سر ہلا کر رہ گیا ۔۔
اچھا ۔۔ اب آپ اپ سیٹ کیوں ہو رہے ہیں ۔۔ اب تو ہم آگئے نا ۔۔ چلیں فٹافٹ دودھ پی لیں ۔۔ ٹھنڈا ہوجائے گا ۔۔۔ وہ بضاہر مطمئن ہوکر پین کلر اسکی ہتھیلی پر رکھتی ہوئی بولی ۔۔ یوسف نے خاموشی سے ٹیبلٹ نگلی اور گلاس چڑھا کر ٹیبل پر رکھ دیا ۔۔۔
نوال اسکا ستا ہوا چہرہ دیکھ کر آرام کی تلقین کرکے کمرے سے نکل گئی ۔۔۔ وہ چت لیٹا چھت کو گھورنے لگا ۔۔۔
کسی کی نم آنکھیں بار بار زہن کے پردے پر لہرانے لگیں۔۔۔وہ بے چینی سے کروٹیں بدلنے لگا ۔۔۔ اسکی رات آنکھوں میں کٹنے والی تھی اتنا تو طے تھا ۔۔
محمد عارف کشمیری۔۔۔ ایک تعارف
خطہ کشمیر میں بہت سے ایسی قابل قدر شخصیات ہیں جنھوں نے کم وقت میں اپنی محنت اور خداداد صلاحیت...