وہ ایک ڈیپارٹمنٹل سٹور تھا جہاں اُسے اپنی پڑھائی کے بعد جاب کرنا ہوتی تھی۔ وہ یہاں آئی تو پڑھائی مکمل کرنے ہی تھی مگر کب تک وہ اپنے والد پر بوجھ بن سکتی تھی۔ اُسکے اسکالرشپ کی رقم بھی محدُود سی تھی کہ بمُشکل ایک اپارٹمنٹ اور پڑھائی کا ہی بوجھ برداشت کر پاتی تھی۔
اِس وقت بھی وہ کاؤنٹر پر بیٹھی حِساب کِتاب میں مصروف تھی مِسٹر براؤن نے ڈیوٹی چینج کرنے کو کہا۔ وہ اُٹھی اور جا کر گاہکوں کو سرو کرنے لگی۔ اُسے یہ کام کرتے ہوئےاپنا مُلک اپنا گھر بہت یاد آیا کرتا تھا۔ اب بھی اُس پر یہی کیفیت طاری تھی، جب اُس نے دیکھا ــ وہ اُس کے پاس ایک ٹرالی لیےکھڑا تھا۔
وہ یک ٹُک اُسے دیکھے گئی مگر دوسری طرف سے سر نہیں اٹھایا گیا تھا۔
اُس نے بھی ردِعمل نہ پا کر اُسکا سامان شاپر میں بھرنا شروع کر دیا۔ جاتے ہوئے بھی اُس نے اُسے اُمِید سے دیکھا کہ شاید اب ہی۔ ۔۔
مگر وہ مگن سا کاؤنٹر پر ادائیگی کر کے آگے بڑھ گیا۔
وہ بھی ٹھنڈی سانس لیتی خود کو کام میں الجھانے لگی۔ اسکے علاوہ چارہ بھی کیا تھا۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“کیا بات ہے بیگم صاحبہ بہت چپ چپ ہیں۔” جمال صاحب کتاب کا مُطالعہ کرتے ہوئے ذرا کی ذرا نظر اُٹھا کر عائشہ بیگم کو بھی دیکھ لیتے تھے جو کب سے بالکل خاموش کچھ سوچنے میں مگن تھیں۔
“ہوں۔ ۔ ۔ کچھ نہیں۔ بس یُوں ہی۔” وہ اچانک بُلانے پر چونکی تھیں جِس پر جمال صاحب کو تشویش ہوئی وہ کچھ آگے ہو کر بیٹھے اور اُنکی طرف متوجہ ہوئے۔
“کیا بات ہے عائشہ؟” ان کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے اُنہوں نے فِکر مندی سے پُوچھا۔
“سعدیہ سے بات ہوئی تھی نا ں کل۔” عائشہ نے تمہید باندھی تھی۔
“جی جی پھر؟”
“اُسکی بیٹی کا بیچلرز بھی ایک عرصہ ہوا مکمل ہو چُکا” یُونہی سوچوں میں غرق اُنکی توجہ اصل بات کی طرف دِلائی۔ جبکہ جمال صاحب ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گئے۔ اسی وقت کے انتظار میں تو عرصہ بیت گیا تھا۔
“”تمہاری عُنید سے بات ہوئی؟” اُنہوں نے بیٹے کے متعلق اِستفسار کیا حالانکہ جواب تو وہ خود بھی جانتے ہی تھے کہ جب اُسکا دِل کرے گا وہ خود ہی رابطہ کرے گا۔
“آپ اُسے بُلا کیوں نہیں لیتے؟” عائشہ نے سسکاری بھرتے ہوے کہا۔
“ہوں۔ ۔ ۔” کتاب کا ورق ہلکا سا فولڈ کیا ، میز پر رکھی اور مبہم سا جواب دے کر وہ کمرے کی طرف بڑھ گئےتھے۔
اور عائشہ اچھے سے جانتی تھیں کہ بیٹا اُن کے بلانے نہ بلانے کی اِجازت کا مجاز نہیں رہا تھا ۔
ہاہ۔۔۔ یہ اولاد بھی کہاں کہاں خوار کرتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
پرِیا آجکل اپنے اسٹوڈیو میں بیٹھی اپنی نئی ایگزیبیشن کی تیاریوں میں مصروف رہتی۔ وہ اس معاملے میں محتاط تھی۔ کام مکمل توجہ اور تنہائی میں کرتی تھی۔ اب بھی وہ سٹوڈیو میں ہی بیٹھی تھی جب اسے اچانک اس لڑکی کا خیال آیا جو اُس دن نمائش میں مِلی تھی۔ پرِیا نے فوراً اس سے ملنے کا پروگرام بنایا اور جِس حلیے میں بیٹھی تھی اُسی میں چل پڑی۔ نینی کو بتا کر وہ گھر سے باہر آگئی۔
وہ اُسکے بتائے ہوئے پتے پر جا رہی تھی۔ وہ اُسکا نام جانتی تھی ،اُس کا نمبر لے پائی تھی اور نہ ہی مکمل طور پر اُسے جانتی تھی۔ مگر بہرحال ملنا تھا اُس سے۔
پرِیا اُس کے دیئے گئے پتے پر پہنچی تو دیکھا کہ وہ ایک چھوٹا سا اپارٹمنٹ تھا۔ اُس نے دروازہ کھٹکھٹایا تو ایک چینی لڑکی باہر نکلی اور اپنی چھوٹی چھوٹی اور سُوجی ہوئی آنکھوں سے اُسے سوالیہ انداز میں دیکھنے لگی۔ایک دم سے دھچکا لگا تھا۔ ایسی کوئی ‘چیز’ اس کے ذہن سے گزری بھی نہ تھی۔
“یہاں کوئی اسکارف والی لڑکی رہتی ہے؟” پرِیا کو اُس کا نام تو معلوم نہیں تھا سو جو شناخت بہتر لگی وہی پُوچھ لی۔
“ہاں!مگر وہ فی الوقت موجود نہیں۔” اُس نے رُکھائی سے جواب دیا۔
“کب تک آئیگی؟” پرِیا نے بھی ٹھنڈے لہجے میں پوچھا۔
“معلوم نہیں کوئی فِکسڈ ٹائم نہیں ہے۔” اب کہ لڑکی نے اُکتا کر جواب دیا تھا۔
“اُنکا کوئی کانٹیکٹ نمبر؟” پرِیا نے فوراً سے پوچھا مبادہ وہ چنی چنی آنکھوں والی لڑکی دروازہ بند ہی نہ کر دے۔
اور جواب میں واقعی اُس لڑکی نے یوں گھورا تھا کہ بس نِگلنا ہی باقی تھا۔ پرِیا بھی دانت پیس کر رہ گئی۔ کوئی اور وقت ہوتا تواُس لڑکی کو منہ بھی نہ لگاتی مگر یہاں معاملہ دوسرا تھا۔
“اُن سے کہنا پرِیا رِتیش ملنے آئی تھی۔” اُس نے نام بتایا اور واپس مُڑ گئی۔
“ڈِسگسٹنگ!” دروازہ اُس کے پیچھے ایک آواز سے بند کیا گیا تھا۔غصہ تو بہت آیا مگر ضبط کر گئی۔ دِل بھی اُداس ہو چُکا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ خاموشی سے بیٹھا اپنے موبائل پر آئی ہوئی اپنی ماں کی مِسڈ کال دیکھ رہا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا اُسے کیا کرنا ہے اب۔ وہ کال کرے یا نہیں۔آخر تھک کر موبائل اُس نے بیڈ کی سائڈ ٹیبل پر ڈالا اوراپنا لیپ ٹاپ لے کر بیٹھ گیا۔ اُسے ابھی بہت کام کرنا تھا۔
وہ ایک سوفٹ وئیر انجنیئر تھا اور یہاں وہ ایک کمپنی کے معاہدے اور اسکالرشپ کے تحت رہائش پذیر تھا۔ اُس کے لئے زندگی ہمیشہ بہت آسان رہی تھی۔ مگر وہ آہستہ آہستہ سب سے حتیٰ کہ اپنے والدین سے کٹنے لگا تھا وجہ وہ خود نہیں جانتا تھا۔
وہ یہاں پیسے کمانے نہیں آیا تھا۔ وہ یہاں اسکالرشپ پر ایک کمپنی سے معاہدے کے تحت چند سال رہنے آیا تھا۔ پِھر اسکالرشپ ختم ہوتے ہی اُسنے اپنے معاہدے کی معیاد بڑھا دی تھی۔ وہ واپس نہیں جانا چاہتا تھا کیونکہ اگر وہ واپس جاتا تو ماں باپ کو مزید اذیت میں مبتلا کرنے کے ساتھ ساتھ خود بھی اُسی کیفیت میں رہتا ۔
وہ خود سے منسلک کسی بھی رشتے کو نبھا نہیں پا رہا تھا۔ حالانکہ وہ ایسا نہیں چاہتا تھا مگر ایسا ہوتا چلا جا رہا تھا۔ سوچوں کی یلغار اتنی تھی کہ تھک کر اس نے لیپ ٹاپ بند کیا اور بیڈ کی پُشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند لیں ۔
اور کوئی چارہ بھی تو نہیں تھا۔ ہوتا بھی تو کیا وہ کر ہی کیسے سکتا تھا کہ اتنا عرصہ خود سےاور اپنی کیفیات سے بھاگتا رہا تھا۔ اس کے لیے بھاگتے رہنا معاملے کے حل سے زیادہ بہتر تھا شاید۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ یونہی جھیل کو گھورے جا رہا تھا ۔ لوگ معمول کی طرح اُسے دیکھتے اور گُزر جاتے مگر اُسے یک سر پرواہ نہیں تھی۔ اُسے اپنے گِرد موجود لوگوں اور اشیاء سے کوئی غرض نہیں تھی۔ وہ بالکل بیگانہ ہوا بیٹھا تھا۔ معاً ایک فٹبال آیااور اُس کے گُھٹنے سے ٹکرا کر گھاس پر اُس کے قدموں کے پاس گر گیا۔ جھیل سے اِرتکاز ٹوٹ چُکا تھا۔ماتھے پر تیوری نے جگہ بنائی ۔ فٹ بال اٹھنے کو نیچے جھکا ہی تھا جب زنانہ جوگرز نظرآئے۔اُس نے چہرہ اوپر اُٹھایا تو وہ لڑکی اُسے ہی دیکھ رہی تھی گویا فٹبال اُسی کا تھا۔ اُس نے فٹ بال اُٹھایا، بازو اوپر کیے اور ہلکے سے جھٹکے سے ہوا میں اُچھال دیا جسے لڑکی نے پُھرتی سے کیچ کیا تھا۔وہ دوبارہ اپنے عمل میں مصروف ہو چکا تھا جبکہ لڑکی آنکھیں سکیڑے اُسے دیکھ رہی تھی۔ لیکن وہاں اسے کسی سے کوئی غرض نہ تھی۔۔ اُسنے اُسے پہلے بھی دیکھا تھا وہ ہمیشہ اُسے اپنی اِسی مخصوص جگہ پر ہی بیٹھا دِکھا تھا۔
وہ کافی دیر دُور ایک بینچ پر بیٹھی اُسے دیکھتی رہی مگر لڑکے کے بیٹھنے کے انداز میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔
اُس روز کے بعد اُسے دیکھنا اور نوٹ کرنا اُسکی عادت بنتا گیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آج کل پرِیامکمل فراغت سے تھی تو اُسکے پاس وقت ہی وقت تھا جو کٹتا نہ تھا۔ وہ بور ہونے لگی تھی کیونکہ آج کل اُس کے ڈیڈ بھی ساتھ نہ تھے۔
پرِیا کے ڈیڈ اِنڈیا کے شہر دہلی کے رہائشی تھے مگر بہت عرصہ پہلے وہاں سے کیلیفورنیا شفٹ ہو گئےتھے جس کے باعث وہ یہاں کے نیشنلٹی ہولڈر بھی تھے۔ پرِیا اُنکی اکلوتی اولاد تھی جبکہ اُنکی محبوبہ بیوی انامیکاـــ جن سے اُنہیں خود سے زیادہ پیار تھاــــ اُنہیں چھوڑ کر چلی گئیں۔ اُنہیں اپنی اِس چھوٹی سی فیملی سے عشق تھا مگر انامیکا کی موت نے اُنہیں اَدھ مُوا کر دیا تھا۔ اگر اُنہوں نے رِتیش مادَھو سے پرِیا کی پرورش کا وعدہ نہ لیا ہوتا تو اب تک وہ بھی جانے کہاں ہوتے۔ رِتیش پرِیا کو لے کر امریکہ کے شہر کیلیفورنیا میں رہائش پذیر ہو گئے اور ایک رُومی عورت کو پرِیا کی تربیت کےلئے رکھ لیا۔ پرِیا اُنکو نینی کہتی تھی۔
رِتیش مادَھو کو اپنی بیٹی سے بہت پیار تھا۔ پرِیا کا بھی اُن کے اور نینی کے عِلاوہ کوئی دوست نہ تھا ۔ نہ ہی وہ کسی کو اپنا دوست بنانا پسند کرتی تھی۔مگر پہلی دفعہ یوں ہوا تھا کہ پریا رتیش نے کسی کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے کا سوچا تھا۔ وہ اسٹوڈیو میں بیٹھی سوچوں میں غرق تھی کہ اچانک اُسے ڈیڈ کی کال موصول ہوئی۔ وہ کِھل اٹھی تھی۔پِچھلے دنوں کی کدورت ختم ہو چکی تھی اور وہ اب اُنکو الف سے یےتک کی سب کہانیاں سُنانے والی تھی۔ رتیش مادھو بھی خوش تھے کہ پریا مطمئن تھی۔
کال کے دوران وہ اسکیچ بھی بناتی رہی تھی۔ کال مکمل ہونے کے بعد اُسنے موبائل ایزل کے سائڈ ٹیبل پر رکھ دیا تھا۔
واپس کینوس کی طرف متوجہ ہونے پر اُسے معلوم ہوا کہ کچھ دیر پہلے ذِہن میں موجود اُس لڑکی کو اُس نے بہت مہارَت کے ساتھ سکیچ کیا تھا۔ وہ خود بھی حیران تھی۔وہ اچانک اُٹھی اور اپنے کمرے میں جا کر تیار ہوئی اور نینی کو ساتھ لے کر باہر نکل آئی۔نینی کو پہلے ڈیپاٹمنٹل سٹور چھوڑا اور خود ایک بار پھر اسی پتے پر چل پڑی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سید زیارت حسین جمیل ۔۔۔ کمزوراں، ماڑیاں تے لسیاں دا انکھی شاعر
جیہڑی وچ زیارت دے گئی مینوں میری ماں میں پنجابی چھڈ نہیں سکدا ، میرے ادب دی تھاں . ....