(Last Updated On: )
کوئی کیوں میرے اندھیروں میں چھپے
میری میعاد ہی کیا، دہر ہے وہ، دہر ہے وہ
میں تو مظہر ہوں زاں خوردہ اصولوں کا
مجھے چھپنے دو
میری زنجیر کے حلقے میں مرے روز و شب
سو بہ سو ظاہر و مستور کے ابہام کی منظر گاہیں
نصف سچائیاں کلتی ہیں مری آنکھوں پر
کوئی اس سوچ کی گرہیں کھولے
کیا مرا آنا کوئی واقعہ تھا
موج روپوش جو ہو جائے تو کیا ہوتا ہے
ایک تشکیل کی صورت سی سدا مٹتی ہوئی
سات طوفانوں کی اونچائی پر
ایک تخریب کی یورش ہے بپا
روندتی رہتی ہے دریا کے ارادے کو سدا
کون کس سمت اڑائے لیے جاتا ہے مجھے
زرد سا ہاتھ کسی حرکت کا
سانس کی ڈور سے باندھا ہوا کاغذ ہوں میں
٭٭٭