خشک دریا کا کشکول
یہ پتنگیں۔۔ ۔۔ حوالے کے دھاگے سے ٹوٹی ہوئیں
ڈولتے ڈولتے گر رہی ہیں کہاں
وہ کہاں ہیں جو سرسوں کی پھیلی ہوئی دھوپ میں
بھاگتے تھے انہیں لوٹنے کے لیے
اس برہما! ترے کھیت کے ٹھنٹھہ کیسے اگیں
پیاس سے ہانپتا ہے کنواں
سیپ اوندھا پڑا ہے تہی ہاتھ پر
کوئی تعویذ کا معجزہ
میرے اکڑے ہوئے جسم کو لوچ دے تو چلوں یا مری آنکھ کے زخم سے
گھنٹیاں سی بجاتا ہوا خوں ٹپکنے لگے
یا نگل لے مجھے
جھاگ کی کپکپی سی اڑاتا ہوا اژدہا
تو کہ ہے آسمانوں، زمینوں پہ پھیلا ہوا
منکشف ہو کہ میں
جی سکوں ،مر سکوں
رائیگاں ہوں تو پھر نیستی کی سزا دے مجھے
اوس ہوں تو اڑا دے مجھے
(۲)
روشنی کی ابجد
وقت کی شاخ پر
کوئی اڑتا ہوا ہنس اترا ہے کیا؟
ارض کے انگ کو گدگداتی ہوئی کپکپی
دوڑتی پھر رہی ہے مرے خون میں
اور اپریل کا اولیں آسماں
جھک کے برسا رہا ہے زمینوں پہ ہریالیاں
یہ ملاپ اور تخلیق کا وقت ہے
سامنے چار سو
اک الاؤ سی عورت ہے لیٹی ہوئی
خواب، سرخاب سے۔۔ ۔۔
آب کے عکس نیلی فضاؤں میں اڑتے ہوئے
کائیوں اور گدلاہٹوں سے اٹی جھیل میں
بو رہے ہیں کنول
کس کے آنے کا اعلان کرتے ہوئے
کل کا دہقاں مری راکھ کو مٹھیوں میں سمیٹے ہوئے
بو رہا ہے مجھے
میں کہ نابود ہونے کے ہیجان میں
پھیلتا جا رہا ہوں زمانوں کو باہوں میں گھیرے ہوئے
٭٭٭
تنوع کے فقدان کا عذاب
لاہور ایئرپورٹ سے فلائی کرنے والا ہوموپاکیئن دو تین گھنٹے بعد دوبئی یا دوحہ میں اترتا ہے تو ایک مختلف...