پھر وہی ہوا جس کی توقع کی جا سکتی تھی ۔۔۔ جنرل بخشی نے اسے علی الصبح ہی طلب کرلیا تھا ۔۔۔
شفق کی طرف سے وہ قدرے مطمئن تھا مگر پریشانی ابھی بھی ختم نہیں ہوئی تھی ۔۔۔ اسکی حالت خطرے سے باہر تھی لیکن ہوش نہیں آرہا تھا ۔۔۔ ایزی کو اسکول کے حوالے کرنے بعد اس نے ہیڈ کوارٹر کا رخ کیا تھا ۔۔۔ ہیڈ کوارٹر میں سب اپنے اپنے کاموں میں مشغول تھے
وہ مطمئن سی چال چلتا جنرل بخشی کے آفس کی جانب بڑھا ۔۔ مگر وہ خالی تھا ۔۔۔
اس نے ایک پرسکون سانس لی اور اگلی راہداری کے دوسرے کمرے کی جانب بڑھا ۔۔۔
جہاں توقع کے مطابق انوسٹیگیٹر (ایجنٹ) ایک عدد
(lie detector)
اور الیکٹرک چیئر کے ساتھ اسکے منتظر تھے ۔۔۔
وہ سپاٹ چہرے کے ساتھ کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا ۔۔۔ شروع کریں ؟؟؟ کیا شاہانہ انداز تھا ۔۔
انتہائی پرسکون انداز میں کہتے ہوئے اس نے لائے ڈیٹیکٹر کلائی سے اٹیچ کیا۔۔ اور الیکٹرک چئیر کا بیلٹ باندھ لیا ۔۔۔ کنٹرول روم میں اسکرین کے سامنے کھڑے جنرل بخشی کے لبوں پر بے ساختہ مسکراہٹ آ ٹھہری ۔۔ انہوں نے جیسے اسکی حرکت کا مزا لیا تھا۔۔۔
کل ٹھیک گیارہ بج کر تئیس منٹ پر تم نے ڈائون ٹائون ایریا کے مکان نمبر دو میں سات منٹ کا قیام کیا ؟یہ سچ ہے؟
دائم نے اثبات میں سر ہلایا ۔۔۔
کیا کیا تم نے اندر ؟؟؟؟
کچھ خاص نہیں !
وہ مزے سے کہتا انہیں بہلانے لگا ۔۔ شاید اسے گماں گزرا تھا۔۔نرمی برتی جائے گی
اگلے لمحے اسے چودہ طبق روشن ہوگئے جب الیکٹرک چیئر میں 5380 والٹ کا کرنٹ ڈسچارج گیا کیا ۔۔۔ آہہہہہہہہہہہہ ! اسکی دلاخراچ چیخیں کمرے میں گونجنے لگیں۔۔۔ لمحے بھر کے لئے اسکی سماعتیں اپاہج ہوگئیں ۔۔۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاگیا ۔۔۔ اس نے زوروں سے سر جھٹکتے ہوئے حواس برقرار رکھنے کی کوشش کی ۔۔ انوسٹیگیٹر نے گویا واضع کردیا کہ اسکا جواب اسے قطعی پسند نہیں آیا ۔۔۔
پھر کئی تصوریں اسکے سامنے پھیلائی تھی ۔۔۔
انوسٹیگیٹر ابھی بھی کچھ پوچھ رہا تھا مگر اسکے کانوں میں سیٹیاں بجنے لگیں ۔۔۔
اس نے اندازً شفق کی تصویر کی جانب اشارہ کیا ۔۔۔
کون ہے یہ لڑکی؟؟؟
اگلا سوال کیا گیا ۔۔
ش۔۔فق میری د۔۔وست ہے !
اسکے چہرے پر درد کے آثار نمایاں تھے ۔۔۔ وہ ان ٹارچر کے مراحل سے پہلے بھی گزر چکا تھا اسلئے حواس برقرار تھے ۔۔ اگر اسکی جگہ کوئی اور ہوتا تو ممکنہ طور پر دل کی دھڑکنیں رک جانے کے بعث ہاسپٹل کے بستر پر پڑا ہوتا ۔۔۔حادثے سے ایک دن پہلے رات کے وقت وہ تمہارے گھر پندرہ ٹھہری؟؟؟ اس بات کی وضاحت ہے تمہارے پاس ؟؟؟
وہ کام سے آئی تھی !
اب کی بار انتہائی بیزاری سے بولا۔۔
کیسا کام ؟؟ فورا سے پوچھا گیا۔۔
کھانا بنانے آئی تھی ۔۔۔
اس کے جواب پر لائے ڈٹیکٹر سرخ بتیوں سے جگمگایا ۔۔۔
دائم کے ناتواں لبوں پر زخمی سی مسکراہٹ ابھری ۔۔۔
یقینا اس نے جھوٹ بولا تھا
وہ سر جھٹک کر منتظر نگاہوں سے جلادی شخصیت کے مالک انوسٹیگیٹر کو دیکھنے لگا ۔۔۔
کتنی پرانی دوست ہے تمہاری ؟؟؟؟
معلوم نہیں!
وہ لائے کی سرخ بتی کو گھورتا ہوا ہٹیلے لہجے میں بولا ۔۔۔
کتنی گہری دوست ہے ؟
بہت ! اداسی سے جواب دیا گیا ۔۔۔
وہ تمہارے لیپ ٹاپ سے انفارمیشن چرانے آئی تھی ؟؟؟؟ اگلے سوال پر اسکے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے ۔۔۔
نہیں ۔۔. !! اس نے بے چینی سے پہلو بدلا ۔۔
سرخ بتی پھر سے روشن ہوئی ۔۔۔
دائم کے ماتھے پر ناگواری کی سلوٹیں ابھری ۔۔ وہ شفق کو ہرگز اس میں گھسیٹنا نہیں چاہتا تھا ۔۔وہ معصوم تھی
شفق میری بہت گہری دوست وہ ہرگز یہ حرکت ۔۔۔۔۔۔
اس نے کہنا چاہا مگر کہہ نہیں سکا ۔۔۔
بجلی کے شدید جھٹکوں پر اس بار وہ نہیں چلایا تھا ۔۔۔ ضبط سے اسکا چہرہ لہو ٹپکا رہا تھا ۔۔۔ وہ مضبوطی سے ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچے قیامت کا درد سہہ گیا ۔۔۔ وضاحت نہیں مانگی !! جواب مانگا ہے ! ہاں یا نا؟؟؟
نہیییییںں ۔۔۔
اس نے ہٹیلے پن کا مظاہرہ کیا تھا ۔۔۔ جانتا تھا حساس انفارمیشن کا معاملہ ہے ۔۔ جسے وہ اپنی جان دے بھی حفاظت میں رکھتا ۔۔ مگر شفق کا نام کسی صورت نہیں آنے دے گا ۔۔۔ وہ تحمل سے لب بھینچے اگلے سوال کا انتظار کر رہا تھا جب انوسٹیگیٹر اسٹیمنٹ لے کر اٹھا اور باہر نکل گیا ۔۔۔
دائم نے لمبی سانس لے کر سر کرسی کی پشت ٹکالیا ۔۔۔ اسکا پورا وجود ہنوز کپکپاہٹ کی زد میں تھا ۔۔۔
وہ اپنی کلائی ڈٹیکٹر سے آزاد کرتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔
پھر یہ تو ہونا متوقع تھا ۔۔۔ اور اسے زرا بھی ملال نہیں تھا کہ اس نے اس شخص کو مارا ۔۔ چونکہ وہ مشن پر تھا اسی لئے یہ انوسٹیگیشن بہت ضروری تھی ۔۔ اگر وہ آف مشن ہوتا اور یہ واقعہ پیش آتا تو انوسٹیگیشن کی نوبت نہ آتی ۔۔
وہ راہداری سے گزرتا اپنی کلائی کو نظروں کی زد میں لئے کپکپاہٹ نوٹ کر رہا تھا ۔۔۔ جب تصادم ہونے سے بال بال بچا ۔۔۔
کیسے ہو تم ؟؟؟
نایا نے رسمی سا سوال کیا ۔۔۔
وہ دونوں چلتے ہوئے لفٹ میں آکھڑے ہوئے ۔۔
مزے میں !
وہ ایک سرد نگاہ اس پر ڈال کر اپنی کلائی پیچھے لے گیا ۔۔۔ سکیورٹی پلین ریڈی ہے ، دیکھنا چاہو گے ؟؟؟
کچھ توقف کے بعد پھر سے پوچھا ۔۔
کیا یہ شخص اتنا ہی سنجیدہ رہتا ہے ہمیشہ ؟؟
اس نے دل میں سوچا ،
اس کے ساتھ کام کرنا مشکل نظر آرہا تھا ۔۔
ہممم ! وہ اثبات میں سر ہلاتا ہوا اسکے پیچھے چل دیا ۔۔۔
نایا ڈیجیٹل نقشہ اسکرین پر پلے کرنے لگی ۔۔
گڈ جاب !
دائم کو بہت گہری نگاہوں سے دیکھنا پڑا تھا ۔۔۔
اسکے اعصاب تھکن زدہ سے تھے ۔۔ دل چاہ رہا تھا بس بستر پر گر جائے اور طویل نیند لے کر سوئے ۔۔۔
از ایوری تھنگ آلرائٹ ود یو؟؟؟
اسکے لہجے کی لڑکھڑاہٹ نایا کی نظروں پوشیدہ نہیں رہ سکی …. نا چاہتے ہوئے بھی پوچھ بیٹھی ۔۔۔
دائم نے سنجیدگی سے بازو سینے پر باندھ کر سبز نگاہیں اس ٹکا لیں ۔۔۔
افففف ، اسکی آنکھوں میں دیکھنے والے تو ڈوب جاتے ہوں گے ! نایا نے نگاہوں کا محور بدل لیا ۔۔۔
5380 والٹ کے دو جھٹکے کھا کر انسان کیسا ہو سکتا ہے؟ انتہائی سنجیدگی سے کہتے ہوئے وہ سرخ آنکھیں مسلنے لگا ۔۔۔
کیا ؟؟؟؟ وہ تقریبا چیخی تھی۔۔ صدمے بھری نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی ۔۔۔
مگر ۔۔۔کیوں؟؟؟ روانی میں کہتے ہوئے لا شعوری طور پر اسکی جانب پیش قدمی کی ۔۔
دھرتی کا بوجھ کم کرنے کی کوشش تھی بس چھوٹی سی !! وہ بد ستور مطمئن تھا ۔۔۔
میں کچھ سمجھی نہیں ؟؟؟ وہ الجھی ۔۔
طویل قصہ ہے آفیسر ، فراغت کے وقت سنائوں گا کبھی ! اب اگر تم مجھے اپنے قدموں پر کھڑا رہتے دیکھنا چاہتی ہو تو ایک چائے کا کپ بنا کر لے آئو ! پلیز
مئودبانہ درخواست کرنے لگا ۔۔۔
نایا چاہنے کے باوجود اسے آرام کی تلقین نہیں کر سکی تھی ۔۔۔ وہ چوبیس / اڑتالیس گھنٹے کام کرنے والے لوگ تھے جنہیں آرام کی تلقین کرنا شرمندہ کرنے کے برابر تھا ۔۔۔
خاموشی سے اثبات میں سر ہلاتی کچن کی جانب بڑھی ۔۔۔ دائم سر جھٹک کر شفق کی کنڈیشن کے متعلق دریافت کرنے لگا ۔۔۔
_______________________________________
بس کا ڈرائیور ڈیوٹی پر طعینات افسران سے کسی بات پر بعث کر رہا تھا ۔۔۔ اب جبکہ وہ آگ میں کود گئی تھی تو جان بچانے کے لئے ہاتھ پیر مارنے تھے ۔۔۔ اسکی قسمت اچھی تھی شاید ۔۔۔ بس کی پچھلی نشستیں خالی تھی ۔۔۔ وہ جھاڑیوں سے نکل کر آواز پیدا کیئے بغیر پچھلی سیٹ کے نیچے جھک گئی تھی۔۔۔ اندر سے وہ بہت ڈری ہوئی تھی اوپر سے اسے دمہ کا مرض کا لاحق تھا اس نے کبھی بس میں سفر نہیں کیا تھا ۔۔۔ زرا سا سر اونچا کرکے دیکھا تو وہ لوگ ہنوز بحث میں مشغول تھے ۔۔۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اسکی بے چینی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔۔
ہر چاپ پر موت کا گماں ہونے لگتا ۔۔۔
ہر سانس پر آخری سانس کا گماں ہوتا۔۔
اگر بارڈر پر پکڑی گئی تو؟؟؟؟ اسکے کیسا سلوک ہوگا؟
اس نے ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں مضبوطی سے پیوست کی ۔۔۔ دل ہی دل میں شدت سے دعائیں مانگنے لگی ۔۔۔کچھ دیر بعد افسران نے جھلا کر نہ جانے کیا کہا تو بس کا ڈرائیور تن فن کرتا بس میں سوار ہونے لگا ۔۔ اس نے شکر کا کلمہ پڑھا اور پر سکون سی ہوکر ٹیک لگا کر بیٹھ گئی ۔۔۔
_______________________________________
منگنی کی تقریب رات کے وقت منعقد کی گئی تھی ۔۔۔ مہمان آنا شروع ہوچکے تھے ۔۔۔
شاکرہ بیگم ، اور نصیبہ پھپھو بمع روشن اور رومیشا مہمانوں کو رسیو کر رہی تھیں۔۔۔
لگے ہاتھوں انکے کپڑوں اور جوتوں پر تبصرے بھی کر رہی تھی ۔۔۔ نصیبہ پھپھو نے جواباً ان دونوں کو زبردست گھوری سے نوازا ۔۔۔
جائو فاتح کو بولو نوال اور تاشا کو پارلر سے لے آئے ، شام سے اکیلی گئی ہوئی ہیں دونوں لڑکیاں
نہ جانے کہاں کہاں بھٹک رہی ہوں گی ، داماد (تصور بھائی) بھی مصروف ہے۔۔ جائو فاتح سے کہو لے آئے ان دونوں کو مہمان بس آتے ہی ہوں گے۔۔۔
نصیبہ پھپھو کی آواز پر دونوں ایسے لاتعلق ہوگئی جیسے سنا ہی ہو ۔۔۔
میں جاتی ہوں آپا
شاکرہ بیگم کو انکا مسلہ سمجھ آ گیا تھا۔۔۔
تم تو ایسے سر منہ لپیٹ کر پڑے ہو خدانخواستہ جیسے کوئی سوگ منا رہے ہو ، اٹھوو فاتح گھر میں تقریب ہے اور تم ہو کہ سونے سے فرست نہیں !
اسے بستر پر محو خواب دیکھ کر شاکرہ بیگم کا پارہ ہائی ہونے لگا ۔۔۔۔
کیسی تقریب اماں؟؟؟
وہ آنکھیں رگڑتا اٹھ بیٹھا ۔۔۔۔ کیا شانِ بے نیازی تھی ۔۔۔
شاکرہ بیگم عش عش کر اٹھیں ۔۔۔
تم ہوش میں تو ہو لڑکے ؟ نوال کی منگنی ہے آج !
وہ تپ کر بولی ۔۔
تو ؟؟؟ کیا کروں پھر میں بھنگڑے ڈالوں؟؟؟
بیزار کن انداز میں کہتا پیر زمین پر رکھنے لگا ۔۔۔
آفرین ہے تم پر فاتح ! اٹھو اور نہا دھو لو ۔۔ بہنوں کو پارلر سے پک کرنا ہے تم نے !
شاکرہ بیگم نے نرمی سے کہتے ہوئے اسکے بالوں میں ہاتھ گھمایا ۔۔۔
ایک منٹ اماں ؟؟؟ کونسی بہنیں ؟
اسکی صبیع پیشانی پر سلوٹیں ابھری ۔۔
نوال اور تاشا !
شاکرہ بیگم نے خفگی سے گھورا ۔۔
صرف تاشا میری بہن ہے !
گویا جتا دیا گیا ۔۔۔ وہ بلا کا ضدی اور اکڑ مزاج تھا ۔۔۔ سو اماں نے بھی اس سے بعث مول نہ لی ۔۔۔اور کبڈ سے اسکا تیار کردہ جوڑہ نکال کر اسے تھمایا ۔۔۔
کیا دن آگئے ہیں اماں ، اب کیا میں پارلر کے چکر کاٹوں ،
یہ کام تصور بھائی جیسے مردوں پر سوٹ کرتا ہے !
وہ بے باکی سے تصور کے گھر داماد ہونے پر چوٹ کر گیا ۔۔ آہستہ بولو ، بد لحاظ ! نصیبہ یا ہبا میں سے کسی نے سن لیا تو کیا سوچیں گی !
اماں نےتنبیہی نظروں سے گھورتے ہوئے کہا ۔۔
میری بلا سے پورا خاندان سن لے اماں !
وہ ازلی لاپرواہی سے کہتا جھنجھلا کر واشروم میں گھس گیا ۔۔۔۔ شاکرہ بیگم نے تاسف سے بند دروازہ کو دیکھا ۔۔۔ فریش ہونے کے بعد اس بال میں برش گھمایا اور پرفیوم کی بوتل اٹھائی ہی تھی کہ روشن اسکے کمرے میں نمودار ہوئی ۔۔۔
فرمائو روشن بی بی ؟؟؟
وہ انتہائی ناگواری سے مڑ کر پوچھنے لگا ۔۔۔
روشن سر تا پا اسے ستائشی نظروں سے دیکھنے لگی ۔۔ بلاشبہ وہ بہت خوبصورت لگ رہا تھا ۔۔۔
ہیلو؟؟؟؟ چلتے پھرتے نیوز پیپر ؟؟؟؟
فاتح نے بہت تحمل کا مظاہرہ کیا تھا ۔۔۔
عجیب شخصیت کا مالک تھا۔۔ اسے کسی کی ایک منٹ کی موجودگی اپنے کمرے میں برداشت نہیں تھی
روشن اندر ہی اندر ‘نیوز پیپر’ پکارے جانے پر کھول کر رہ گئی ۔۔
نصیبہ پھپھو نے بھیجا ہے کہہ رہی ہیں کہ نوال کو لے آئو! وہ تڑخ کر بولی
جائو ، نصیبہ پھپھو کو ‘صبر’ نامی چڑیا سے متعارف کروائو میں آرہا ہو !
وہ تنقدی انداز میں کہتا واپس مڑ کر کندھوں پر پرفیوم چھڑکنے لگا ۔۔۔
ہونہہ آیا بڑا ہرتِک روشن۔۔۔
روشن فورا سے پہلے کمرے سے نکل گئی ۔۔۔
رومیشا ؟؟؟؟ رومیشا؟؟؟؟ سنو ؟؟؟یہاں آئو جلدیییییی!
وہ دبہ دبہ چلاتے ہوئے راہداری کی سیڑھیوں پر کھڑی رومیشا کو بلانے لگی ۔۔۔
تمہیں تو نصیبہ پھپو نے ۔۔۔
ارے چھوڑو نصیبہ پھپو کو تم نے فاتح کو دیکھا ؟؟؟ بائے گاڈ ، کیا لگ رہا تھا ، قسم سے ، ایک دم شہزادہ !
شکریہ !!
سنجیدگی سے بھرپور آواز پر وہ دونوں اچھل کر مڑیں ۔۔۔
تو وہ تجے اعصاب لئے پیچھے ہی کھڑا تھا ۔۔۔
اب تم ہٹو گی ؟ بی بی سی؟؟
وہ کاٹدار لہجے میں بولا ۔۔۔
وہ دونوں جو سر جوڑے راہداری میں کھڑی تھی ۔۔۔خجل سی ہوکر ایک طرف گئیں ۔۔۔
کروالی بے عزتی ؟ تمہیں ناں بلکل سہی نام دیا ہے فاتح نے بی سی سی۔۔
رومیشا نے اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورا ۔۔
تھینک یو کہنے کے بھی ایک سو ایک طریقے ہوتے ہیں ، یہ کونسا طریقہ تھا سمجھ نہیں آیا !
روشن منہ پھلاتے ہوئے بڑبڑائی تھی ۔۔
_______________________________
مقامی لوگوں کی گفتگو سے اسے علم ہوا تھا کہ وہ ترخم بارڈر سے جا رہے تھے ۔۔۔ اندھیری رات کے کالے سائے نے ہر منظر کو ڈھانپ رکھا تھا ۔۔۔ جانے کیا وقت ہورہا تھا ۔۔۔ ؟؟
بس ایک جھٹکا کھا کر رکی تو اسکا سر زور سے سیٹ کی پشت سے ٹکرایا ۔۔۔ کچھ وقت لگا تھا اسکے حواس لوٹنے میں ۔۔۔قدرے جھک کر دیکھا تو فوجی جوان کی پشت نظر آرہی تھی ۔۔۔یعنی وہ لوگ پاکستان بارڈر پر تھے ۔۔۔ چیکنک کے مراحل سے گزر رہے تھے ۔۔۔
اگر اسکی موجودگی کی بھنک بھی فوجی جوانوں کو لگ جاتی تو اسکا کیا حشر ہوتا ؟؟
خوف کی برقی رو سی اسکی رگوں میں دوڑ گئی ۔۔۔ فوجی جوان کے بھاری بوٹوں کی آواز سے بس کی زمین دھم دھم کرنے لگی ۔۔۔ ایک نگاہ ڈال کر گویا تسلی کرلی گئی۔۔۔ پچھلی نشستیں خالی تھی ۔۔شاید اسی لئے دھیان پیچھے کی جانب نہیں گیا ۔۔۔ بس سے اتر کر جوان نے کچھ کہا تو۔۔۔
ڈرائیور نے مئودبانہ سلام جھاڑ کر بس آگے بڑھا دی ۔۔۔
اور وہ لوگ زیرو لائن کراس کر گئے ۔۔۔
ایک نئی دنیا … نئے ملک … نئے لوگوں میں …
شزانہ کو اس لمحے شدت سے رونا آیا ۔۔۔ اسکی سرزمین ۔۔۔ اپنا گھر ! جہاں سارا بچپن گزرا تھا ۔۔۔ جہاں وہ کھیل کر بڑی ہوئی تھی ۔۔۔ جہاں اس نے
اسکا بھائی ، باپ کا جسد ۔۔۔۔ جس کے آس پاس وہ خود کو محفوظ تصور کرتی تھی ! وہ بہت پیچھے چھوٹ گیا تھا ۔۔۔ وہ بہت ساری ہمت جٹاتی پھر سے اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔ اور سیٹ پر آ بیٹھی ۔۔ جہاں سے تھوڑی دیر پہلے ایک سیاہ فام عورت اتری تھی ۔۔۔ اس نے مطمئن سی ہو کر نقاب کھینچ کر چہرے سے اتارا اور پرسکون سانسیں لینے لگی ۔ ۔۔ بس میں ملگجہ سا اندھیرا تھا مسافر تھکے ماندےنیند سے بوجھل آنکھیں لئے سستا رہے تھے ۔۔۔کہ اچانک جیپ سوار بس کی راہ میں حائل ہوئے ۔۔۔
شزانہ کا رنگ لٹھے کی مانند پیلا پڑ گیا ۔۔۔ نقاب پوش دیکھتے دیکھتے بس میں داخل ہوگئے ۔۔۔ وہ مزاحمت کرنا چاہتی تھی چیخنا ، چلانا چاہتی تھی ۔۔۔
لیکن خوف وشکست کا ولولہ اس پر غالب آگیا ۔۔۔
کیا فائدہ ؟ وہ بھاگی …لڑکھڑائی… گری ۔۔۔ اٹھی ۔۔ پھر بھاگی
عزت تک دائوں پر لگی ۔۔۔ کتنے لوگ اس کی وجہ سے خاک اور خون ہوئے ہوں گے ! فقط ۔۔
جان بچانے کی خاطر ۔۔۔ وہی جان جو اب ان کے قبضے میں تھی ۔۔۔ نقاب پوش اسے بے دردی سے اپنے ساتھ گھسیٹنے لگے ۔۔۔ بوڑھے ضعیف کی باتیں کانوں میں گونجنے لگی تو اسے رگوں میں سرائیت کرتے خون کی تپش محسوس ہونے لگی ۔۔۔ خود کو ان درندوں کے حوالے کرنا سراسر خوکشی تھی ۔۔۔ وہ بہت سی ہمت جٹا کر اپنی کہنی چھڑا کر جیپ سے جیپ سے نیچے کود گئی۔۔۔ ۔۔۔
نقاب پوش مطمئن سے ہوکر راستوں پر رواں دواں تھے ۔۔۔ اسکے اچانک گرنے پر ہڑبڑا کر ہوش میں آئے تب تک شزانہ کچے راستوں کے اطراف بنی جھاڑیوں میں چھپ گئی ۔۔۔ پکڑو اسے ، بھاگ کر جانی نہیں چاہیئے !
انتہائی طیشناک آواز تھی ۔۔۔ وہ چاروں طرف پھیل گئے ۔۔۔ شزانہ دونوں ہاتھوں سے سسکیوں کا گلا گونٹ کر گھنی جھاڑیوں میں بے حس و حرکت بیٹھ گئی ۔۔۔
دھول مٹی جیسی چیزوں سے اسے سخت الرجی تھی ۔۔ وہ سانس نہیں لے پا رہی تھی ۔۔
اسکا پائوں شدید زخمی تھا ۔۔۔گرنے کے بعث ہڈی کریک ہوگئی تھی شاید ۔۔۔ پائوں پر وزن ڈالنا محال تھا ۔۔ کجا کہ بھاگنا ۔۔ اب تو بس وہ اللہ کے سہارے تھی ۔۔۔ بے شک وہ مسبب اسباب تھا ۔۔۔ اب وہی اسے بچا سکتا تھا ۔۔۔
_______________________________
ہلکے سرمئی رنگ کے گھیردار فراق میں برائے نام میک اپ اور جیولری زیب تن کیئے اسکا سوگوار حسن رات کے اندھیرے میں چاندنی بکھیر رہا تھا ۔۔۔
وہ جو لاتعلق سا گاڑی کی پشت سے ٹیک لگائے انتظار میں کھڑا تھا ۔۔۔ دیکھا تو دیکھا ہی رہ گیا ۔۔۔
یہ لڑکی عجیب انداز میں اسکے دل میں اترتی جا رہی تھی ۔۔۔ ہر لمحہ ، ہر پہر وہی اسکے حواسوں پر چھائی رہتی ۔۔ وہ جتنا اس چیز کو زہن سے جھٹکنے کی کوشش کرتا اتنا ہی خود کو بے بس محسوس کرنے لگتا ۔۔۔
فاتح ایک لمحہ کو بے خود سا ہوکر آنکھیں بند کرگیا ۔۔۔
نوال نے کسی کی نظروں کی تپش محسوس کرکے سر اٹھایا تو اسے محویت اپنی جانب تکتے پایا ۔۔۔۔
فاتح ۔۔۔؟؟؟ وہ حیران ہی تو رہ گئی اسے یہاں دیکھ کر ۔۔۔۔
فاتح بھائی آپ ۔۔۔!!
تاشا تاثرات بھی اس سے کچھ مختلف نہ تھے۔۔۔
ات۔۔۔نی دیر ۔۔۔لگادی تم لوگوں نے ! اسکا لہجہ لڑکھڑایا
اب اسے کچھ تو کہنا ہی تھا ۔۔۔ نظریں بدستور اسکے جگر جگر کرتے سراپے پر ٹکیں تھی ۔۔۔
کیسی لگ رہی ہوں میں بھائی ؟؟؟
اسکی دخل اندازی فاتح کو خاصی نا گوار گزری تھی
مگر تاشا تو تاشا تھی ۔۔۔اسکے سامنے ناگواری کا اظہار کرنا اپنی شامت بلالے کے مترادف تھا۔۔۔
تاشا ہمیشہ کی طرح سادگی میں بھی نمایاں تھی ۔۔۔ استغفراللہ !
سر تا پاایک نظر اس پر ڈال کر فاتح برا سا منہ بناتے ہوئے بولا ۔۔۔
خود کو دیکھ لیں پہلے !
وہ نخوت سے سر جھٹک کر بولی ۔۔۔
دیکھ کر آرہا ہو !
اسکے جلے کٹے انداز پر فاتح نے گردن اکڑا کر کہا ۔۔۔
ان کی دونوں کی مڈ بھیڑ سے پچھلی نشست پر براجمان لاتعلق سی نوال نہ جانے کن سوچوں میں غرق تھی ۔۔۔
فاتح کی نظریں بھٹک بھٹک کر اسکے چہرے پر جا رہی تھی۔۔۔۔
تم کیوں اداس روح بنی بیٹھی ہو بہن ، مسکرا ہی دو خیر سے منگنی ہورہی ہے تمہارے شادی ابھی بہت دور ہے !
تاشا نے توپوں کا رخ نوال کی جانب موڑ دیا ۔۔۔
نوال کی سرخ رنگت مزید سرخ پڑنے لگی۔۔
نوال !!! یار ۔۔۔ اب رونے مت لگ جانا خدا کے لئے ۔۔۔
تاشا کو احساس ہوا تو فورا ٹشو کا ڈبہ اسکے ہاتھ میں تھمایا ۔۔۔ فاتح نے بغور اسکا چہرہ دیکھا ۔۔۔
اسے پہلی بار اسکی رونی صورت دیکھ کر غصہ نہیں آرہا تھا ۔۔۔
خدانخواستہ دریائے چناب سے پانی کم پڑ جائے تو ہماری کزن سے رابطہ کر لیں ! فاتح نے میٹھا سا تنز کیا ۔۔۔
نوال نے شکوہ کنا نگاہوں سے بیک ویئو مرر دیکھنے لگی ۔۔۔۔ جواباً فاتح کے لبوں پر دلکش سی مسکراہٹ ابھری ۔۔
نوال نے بے ساختہ نگاہوں کا محور بدل لیا ۔۔۔
اس نے بہت مشکل سے دل کو سمجھایا تھا اب اسکی ادنیٰ سی توجہ کے آگے زیر ہوکر محنت ضایع نہیں کر چاہتی تھی۔۔۔
اسی لمحے کوئی سیاہ وجود تیزی سے گاڑی کے ونڈو گلاس پر ہاتھ مارنے لگا ۔۔۔۔
نوال کی خوفناک چیخوں سے گھبرا کر گاڑی کا توازن بگڑا اور ایکسیڈنٹ ہوتے ہوتے بچا ۔۔۔۔ وہ خوف سے آنکھیں پھاڑے سسکیوں کا گھلا گھونٹتے ہوئے ۔۔۔ بے ہوش ہونے کو تھی ۔۔۔ فاتح انتہائی غصے سے باہر نکلا مگر دیکھا تو کچھ بھی نہیں تھا ۔۔۔
تم ٹھیک ہو ؟؟؟؟
وہ بیک سیٹ کا دروازہ کھول کر نوال سے پوچھنے لگا ۔۔۔جسکا رنگ خوف سے پیلا پڑ گیا تھا ۔۔۔
ہیللووووو؟؟؟ تم سے ۔۔۔!!!! ہاں تم سے پوچھ رہا ہوں میں ٹھیک ہو؟؟؟؟ وہ اب کی بار قدرے غصے اور جھنجھلاہٹ کا شکار ہوا ۔۔۔ اسے نازک مزاج لڑکیوں سے سخت چڑ تھی۔۔۔۔ اگلے ہی لمحے جانے اسکے دل میں کیا سمائی ۔۔۔اس نے پانی کی بوتل اٹھا کر اسکے ہاتھ میں تھمائی جو ہنوز اسی کیفیت میں گھری ہوئی تھی ۔۔۔
بھ ب۔۔۔۔بھائی ؟؟؟ کہیں بھوت تو نہیں ۔۔۔۔
تاشا خدا کا خوف کرو یار ، اچھی خاصی دماغ والی لڑکی ہو تم ، بھوتوں جیسی سنی سنائی گفتگو تمہیں زیب نہیں دیتی !
فاتح نے جھنجھلا کر کہتے ہوئے گویا اسے ‘شٹ اپ’ کال دے دی ۔۔۔
اب اسے گھر تک اپنے تمام تر خدشات کے ساتھ خاموش ہی رہنا تھا ۔۔۔ نوال کے حواسوں پر ابھی تک سیاہ پوش چھایا ہوا تھا ۔۔۔
_______________________________
گاڑی روکو یوسف …فورا گاڑی روکو!
یوسف شاکرہ بیگم سے محو کلام تھا جب شاہین صاحب کو نہ جانے چلتی سڑک پر کیا نظر آیا کہ بے چینی سے یوسف کو حکم دیا ۔۔۔
ہوا کیا ہے بابا؟؟؟؟
یوسف نے ہڑبڑا کر فون ڈیش بورڈ پر پھینکا اور گاڑی سڑک کے ایک طرف لگا دی ۔۔۔
وہاں دیکھو ۔۔۔ کوئی عورت ہے!
بابا کے تشویش بھرے لہجے پر یوسف نے ونڈو سے باہر جھانکا ۔۔۔ دو نقاب پوش ایک عبائے والی خاتون کو دبوچے نہ جانے کیا کر رہے تھے ۔۔۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ ان کی نگاہوں کی زد میں آگئے ۔۔۔
مجھے تو معاملہ کچھ اور ہی لگتا ہے بابا ، یہ عام لوگ معلوم نہیں ہورہے ، دیکھیں تو سہی ان کے پاس اسلحہ بھی ہے !
یوسف نے لب کشائی کی ۔۔۔
کیسے مرد ہو تم ، خاتون مشکل میں ہے اور تم نفع نقصان دریافت کر رہے ہو ..شرم آنی چاہیئے تمہیں…
شاہین سہگل اپنے سپوت کو جھاڑ پلا کر خود ہی باہر نکلے پڑے ۔۔۔ بلا شبہ بہادری کی ان کی رگوں میں خون کی مانند دوڑتی تھی ۔۔۔
یوسف کو سخت طائو آیا تھا وہ ہمیشہ کی طرح ضدی واقع ہوئے تھے ۔۔۔
یوسف کو اس بار بھی ہار ماننا پڑی ۔۔۔
ان حالاتوں میں کوئی بھی غیرتمند آدمی وہی کرتا جو باپ بیٹا کرنے چلے تھے ۔۔۔ لیکن جب تک وہ خاتون تک رسائی حاصل کرتے ۔۔۔ نقاب پوشںوں نے گھبرا کر فائرنگ شروع کردی ۔۔۔ فضا میں تڑٹڑاہٹ زور و شور سے گونجی ۔۔۔
بابا سنبھل کر !!! یوسف بے ساختہ چیخا ۔۔۔
جب تک وہ بھاگ کر ان تک پہنچے لڑکی تیورا کر ان کے قدموں میں ہی زمین بوس ہوگئی ۔۔۔ یوسف ان نقاب پوشوں کے پیچھے بھاگا مگر وہ جھاڑیوں میں کہیں غائب ہو گئے ۔۔۔ شاہین سہگل انتہائی مایوسی کے عالم میں خاتون کی کلائی پر انگلیاں رکھ کر نبض چیک کی۔۔
وہ لوگ بھاگ گئے !
یوسف پلٹ کر بولا اسکا سانس پھولا ہوا تھا ۔۔۔
بے چاری کو گولی لگی ہے تمہیں میں نے پہلے ہی کہا تھا یوسف !
شاہین سہگل یوسف پر بھڑک اٹھے ۔۔۔
کیا مطلب ؟؟؟ مجھے کیوں سنا رہے ہیں میرا کیا قصور بھلا !
یوسف پبھر کر بولا ۔۔۔۔
خاموش ، ایک لفظ اور نہیں ! اٹھائو اس بچی کو ہم اسے ہاسپٹل لے جا رہے ہیں !
شاہین سہگل نے رعبدار آواز میں حکم صادر کیا ۔۔۔
بابا سمجھنے کی کوشش کریں ، یہاں ایسے حادثات ہوتے رہتے ہیں.. ہم نے بچانے کی کوشش کی مگر جو خدا کو منظور …اب آپ اپنے گلے میں بلا وجہ کی فلم ڈال رہے ہیں ! یوسف نے رسان سے کہا ۔۔۔
انسانیت مر گئی ہے تم لوگوں کے اندر !
شاہین سہگل دانت پیس کر کہتے ہوئے جھکے ۔۔۔
یوسف نے تحمل سے لب دانتوں تلے دبائے
جانتا تھا اب اسکے باپ کو کوئی طاقت نہیں روک سکتی تھی ۔۔۔
رکیں ، ہٹیں ۔۔ ہٹیں میں اٹھاتا ہوں !
وہ بے بس سا ہوکر جھکا ۔۔۔ اپنی جگہ وہ بلکل درست تھا ۔۔۔ یہ بارڈر کا قریب ترین علاقہ تھا ۔۔۔جس کی وجہ خطرہ بھی زیادہ تھا ۔۔۔
یہاں ہزاروں لوگ ہجرت کرکے آتے تھے ۔۔۔کچھ قانونی جبکے متعدد غیر قانونی طریقے سے یہاں آتے تھے ۔۔۔کچھ فوجی جوانوں کے ہاتھوں مارے جاتے ۔۔ انہی تعداد میں یہاں عورتیں بھی لائیں جاتی تھی جنہیں دہشت گرد اپنے استعمال کار لاکر یا تو بدسلوکی کا نشانہ بناکر قتل کردیتے ۔۔۔یا پھر بیچ دیتے ۔۔۔
جس کی وجہ سے یہاں کے لوگ آنکھیں ، کان ، منہ بند کرکے زندگی گزارنے پر مجبور تھے ۔۔۔
مگر اسکا باپ ان سب سے الگ تھا ۔۔۔ وہ کئی بار دہشت گردوں کی مخبری آرمی چیف کو کرچکے تھے ۔۔۔اب تو اکثر ہی کرنے لگے تھے ۔۔۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ ایسے کونسے جاسوس چھوڑ رکھے ہیں اسکے باپ نے جو اسے ایسی خبریں ڈھونڈ کر دیتے ہیں ! پھر چاہے کسی زخمی ، بیمار کی دوا دارو کا مسلہ ہی کیوں نہ ہو !
یوسف انکی طبیعت سے بہت خائف رہتا تھا ۔۔۔
اسکی ماں، بہنیں ، بچے ان راستوں سے گزر کر شہر پڑھنے ، ہزاروں کاموں سے جاتے تھے ۔۔۔ خوانخواستہ وہ نہیں چاہتا تھا دہشت گردوں کی نظروں میں آجائیں اور انکے ساتھ کوئی مسلہ در پیش آئے ۔۔۔ دہشت گردوں کی درندگی اور اوچھے ہتھکنڈوں سے سب ہی واقف تھے ۔۔۔ وہ نہیں چاہتا تھا ہر وقت اسلحہ لئے اسے اپنے پیاروں کی حفاظت کے لئے ان کے سروں پر منڈلانا پڑے ۔۔۔ ابراہیم کے شہید ہونے کے بعد وہ اور شاکرہ بیگم بضد تھے کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر شہر چلے جائیں گے ۔۔۔ مگر مجال ہے اس کے باپ نے انکی دھمکیوں کا اثر لیا ہو ۔۔۔ ان کے مطابق وہ یہاں رہ کر اپنی سرحدوں کی حفاظت کر رہے تھے ، اور اپنی موت تک یہیں رہیں گے۔۔ یوسف کو ان کی اسی بات سے تضاد تھا ۔۔۔ آرمی کے جوان کافی تھے ۔۔۔ انہوں نے ٹھیکا نہیں لے رکھا سرحدوں کا ! مگر شاہین سہگل نہ مانے ۔۔۔ نتیجا آج ابراہیم کی موت کو کئی برس گزر گئے ۔۔۔ان لوگوں کا قیام بھی برقرار تھا ۔۔۔ وہ لوگ ہمیشہ کہ طرح خوشحال فیملی تھے ۔۔ لیکن یوسف کو ابراہیم کے بعد سے ہر وقت دھڑکا لگا رہتا تھا ۔۔۔ اپنے اسی خوف کے چلتے وہ راہگیروں کی مدد سے بھی صاف انکار کردیتا تھا ۔۔۔کیا معلوم کس روپ میں کون بہروپیا ہو ۔۔ کب فوجی جوان اسے دہشت گردوں یا پراسرار لوگوں کی مدد کے الزام میں سلاخوں کے پیچھے ڈال دیں ۔۔۔
میں ڈاکٹر کو بلاتا ہوں تم یہیں رکو !
شاہین سہگل سنجیدگی سے کہتے ہوئے باہر نکلے ۔۔۔
ان کی آواز پر وہ سوچوں سے باہر آیا اور مڑ کر ایک نظر خون و خون ہوئے وجود پر ڈالی ۔۔۔
ڈاکٹر نے اسکی نبض دیکھ کر تشویش کا اظہار کیا ۔۔۔ شاہین سہگل کی چہرے پر بھی تاسف ابھرا ۔۔۔
یوسف باپ کو ہلکان کو ہوتا دیکھ کر اندر ہی اندر کڑھنے لگا ۔۔۔ دل تو چاہ رہا تھا ۔۔۔ اسکا لڑکی کا گلا دبا دے یا اٹھا کر نظروں دور پھینک آئے ۔۔۔
ڈاکٹر عبید اللہ انکے فیملی ڈاکٹر اور اسکے باپ کے دوست بھی تھے ۔۔۔اسی لئے فورن ہی اسے داخل کرکے آپریشن شروع کردیا ۔۔۔ شاہین صاحب کو راہداری میں رکھی بنچ پر براجمان ہوتے دیکھ کر یوسف انتہائی ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے آگے بڑھا ۔۔۔
ہم سے جتنا ہو سکتا تھا اتنا کردیا ۔۔۔ جو انسانیت دکھانے کے لئے کافی ہے اب گھر چلیں نوالی کی منگنی ہے آج !
وہ اندر تک جھنجھلا گیا ۔۔۔
تم جائو میں انتظار کروں گا !
شاہین صاحب آہستگی سے پسماندہ لہجے میں بولے ۔۔۔ انہیں نہ جانے کیوں ابراہیم یاد آنے لگا تھا ۔۔۔
بابا ۔۔۔۔ !!
یوسف کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کیا کر بیٹھے ۔۔۔
ٹھیک ہے میں یہاں رکتا ہوں ، نصیبہ پھپھو اور نوال کو آپ کی ضرورت ہوگی ، آپ چلیں جائیں ۔۔۔
وہ ہار مانتے ہوئے بولا اور ان کے برابر بیٹھ گیا ۔۔
اسکی آنکھوں میں ناراضگی واضع نظر آرہی تھی ۔۔۔
تم بیٹیوں والے ہو جائوگے نا ، تو سمجھو گے میرے جذبات ! وہ اسکا کندھا تھپتھپا کر اٹھے اور باہر نکل گئے ۔۔۔
یوسف نے کوئی رد عمل نہیں دیا ۔۔۔ ان کے جاتے ہی ۔۔۔ انتہائی بیزاری اور ناگواری سے خون آلود کوٹ اتار کر زمین پر پٹخا ۔۔۔ سر سیٹ کی پشت سے ٹکا کر تھکان بھرے انداز میں آنکھیں موند لیں ۔۔ اسے کیا پڑی تھی وہ آپریشن تھیٹر کے باہر انتظار کرتا ۔۔ پلکیں نیند سے بھاری ہونے لگیں تھی ۔۔۔
ممتاز نعت گو شاعر اور دانشور پروفیسر ریاض احمد قادری
خاندانی پس منظر میرے والد کانام مرزا غلام نبی قادری ، دادا عبدالکریم اور پردادا کانام پیراں دتہ ہے ۔ہمارا...