(Last Updated On: اکتوبر 5, 2023)
آؤ کہ چل کے رات کا لا نشہ پئیں
اک پل کی بے پناہیاں
بے انت آسماں
ہم کو دبوچ لیں
دھچکا ہوا کا بند کواڑوں کو کھول دے
نکلیں حویلیوں سے نظر بند لڑکیاں
بے حسن منظروں کی سزا وار آنکھ کو
آزادیاں ملیں
رونق کا اک شر ر
بس دھوم سی مچا دے فنا کی فصیل پر
پھر اس کے بعد فرش پہ، چاہے تو گر پڑے
آئینہ خواب کا
یہ کیا کہ آپ اپنا تماشا بنے ہوئے
ہم دوسرے کے خفیہ اشارے کے سحر میں
ایام کی بساط پہ چلتے رہیں سدا
اپنے خلاف جنگ کسی اور کی لڑیں
رستے کی قوس پر
جینے کی آس نیم دریدہ لباس میں
دائم کھڑی ہوئی
عریانیوں کی ڈھلکی ہوئی بھیک دے ہمیں
آنکھوں کی تشنگی
اک خوشنما سراب کا جلوہ انڈیل دے
صحرا کی اوک میں
٭٭٭