کاشف ایک ہاتھ میں سوٹ کیس پکڑے اور دوسرے ہاتھ سے اپنا کوٹ کاندھے پر ڈالے اپنی شاندار “کاشف والا ” میں داخل ہوا۔۔۔ آج دو سال کے بعد اپنی کوٹھی کو اسی طرح ہرا بھرا دیکھ کر بہت خوش ہوا اور لمبے لمبے قدم بڑھا کر لان کی طرف بڑھنے لگا۔۔۔۔لان بے حد حسین ھو گیا تھا۔۔۔۔۔رنگا رنگ پھولوں کی بھار تھی۔۔۔۔ہری ہری گھاس کا بالکل مخملی قالین سا بچھا ھوا تھا۔۔۔۔وہ ائرپوڑٹ سے سیدھا گھر چلا آرہا تھا۔۔۔۔لندن سے اعلی تعلیم کے غرض سے دو سال قبل گیا تھا۔ ۔کاشف کے والدین بچپن میں ھی کار کے حادثے کا شکار ہوگے تھے۔۔۔۔اس کا ایک بھائ تھا۔۔آصف اور ایک بے حد چاہنے والی بھابی جو اسے بالکل سگےچھوٹے بھائیوں کی طرح رکھتی تھی۔۔۔۔اور ماں کی طرح شفقت سے پیش آتی تھی۔۔کاشف کو بھی اپنی ماں جیسی بھابی سے بےحد پیار تھا۔۔۔۔۔کاشی کو بھابی کی صورت میں ماں کی ممتا اور بہن کا پیار مل گیا تھا۔۔اور وہ صرف بھابی نہیں بلکے کاشی کی بہت اچھی دوست اور ھم راز بھی تھی۔۔۔جن سے کاشی کی کوئ بات پوشیدہ نھیں تھی۔۔۔۔جہاں اس قدر دوستی تھی۔۔وہیئں دونوں دیور بھابی کی خوب لڑائی اور نوک جھوک بھی چلتی تھی۔۔۔بھابی کو بھی کاشی کے بنا چین نہیں آتا تھا۔۔۔دونوں بہت بے تکلف دوست بھی تھے۔۔۔۔۔اور آصف بھائ ان دونوں کا یہ سلوک دیکھ کے بہت مطمئین اور خوش تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کاشف کو ھمیشہ ھی سے چونکا دینے والے کاموں سے بڑی دلچسپی تھی۔۔اس لیے وہ آج بھی بغیر اطلاع دیے نازل ھوا تھا۔۔۔۔وہ بھابی اور بھائ کو surprise دینا چاہتا تھا وہ صرف دوماہ کی چھٹیاں گزارنے آیا تھا۔۔کاشف ڈبے قدموں سے بر آمدے کی سیڑھیاں چھڑھنے لگا کہ مالی بابا نے تقریبا چیختے ھوئے اپنی خوشی کا اظہار کیا اور کہا۔۔”ارے چھوٹے صاحب آپ !!!!؟؟ آپ کب آئے ؟ بوڑھے بابا نے کاشف کو چونکا دیا “ارے ارے بابا ! آہستہ بولو ا کاشف نے گھبرا کر بابا کو چپ رہنے کا اشارہ کیا۔ ۔پھر دوبارہ بولا !!!!
میں آبھی آبھی آیا ہوں بابا!!! بھیا اور بھابی کہاں ہیں۔۔۔؟ چھو ٹے صاحب !!وہ تو گھر پر نہیں ہیں۔۔کسی پارٹی کا کہ کر گئے ہیں”!!بابا نے جلدی سے بتایا ”اوہو !!!سارا موڈ خراب کر دیا۔۔۔ان ک پارٹیاں تو آدھی آدھی رات تک چلتی ہیں۔۔اب نا جانے کتنی دیر بور ھونا پڑے گا۔۔۔۔۔اس سے اچھا میں اطلاع دے کے آتا وہ گھر پر تو نظر آتے۔۔۔۔۔کاشف ان کی غیر موجودگی پر خفا ھو کہ بول رہا تھا کہ اچانک بوا سامنے آگئ۔۔۔”ارے ارے میرے بیٹے تم کب آئے””؟؟۔۔۔ بوا کے لہجے میں حیرت اور خوشی دونوں تھی۔۔۔بوا بس ابی ایا ھوں۔۔کاشف نے بے دلی سے جواب دیا اور کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔۔۔
کمرے میں پہنچا تو کمرہ بلکل صاف اور سجا ھوا تھا۔۔۔جیسے اس کے آنے کی اطلاع کے بعد صاف کیا گیا ھو۔۔۔میز پر تازہ پھولوں کا گلدستہ رکھا تھا۔۔اور پھلوں کی مہک سے پورا کمرہ مھک رھا تھا۔۔۔کاشی کا سارا غصہ ہوا ہوگیا۔۔۔اس نے محبت سے گلدستہ اٹھیا پھول سونگے اور بے سختہ اسکے لبوں پر بھرپور مسکڑاہٹ بکھر گئ۔۔۔””I love you bhabi maa””
اس نے انکھیں بند کر کے سرشازی سے کھا۔۔۔۔۔
یہ تازہ تازہ پھول بھابی کی محبت کا ثبوت تھا۔۔۔کہ وہ اس کی غیر موجودگی میں بھی اس کے کمرے کو صاف اور تازے پھولوں سے مہکتا ھوا رکھتی تھی۔۔۔اپنے کمرے کو ایسے صاف دیکھ کر کاشی کے دل میں ماں جیسی بھابی کے لیے پیار اور احترام کئ گناہ بڑھ گیا تھا۔۔۔۔
کاشف جب فریش ھو کر وائٹ کرتے شلوار میں تولیے سے بال خشک کرتا بہار نکلا تو بوا ٹرالی پر چائے اور کئی لوازمات سجائے اس کی منتظر تھی۔۔۔۔
ارے واہ بوا جان آپ نے یہ کام اس وقت بہت ثواب کا کیا ھے۔۔۔کاشی بیڈ پر بیٹھ کر ٹرالی اپنی طف کرتے ھوئے بولا۔۔اور بوا نہال ھو گئیں۔۔میرا بچہ اتنی ڈور سے سفر کر کے ایا ھے۔۔۔۔دو سال بعد تمھاری صورت دیکھی۔۔۔۔کیا اپنے پچے کے لیے چائے بی نہ بناتی۔۔۔شکریہ بوا۔۔۔۔پہر کفی دیر بوا سے باتے کرتا راہا۔۔۔وہ چائے پی کر بھار لان میں آگیا اس کے لیے انتظار کی یہ گھڑیاں بہت قیامت کی ثابت ھو رہی تھی۔۔۔۔وہ سگڑیٹ سلگا کر نرم نرم گھاس پر ٹھلنے لگا شام کا وقت تھا۔۔اور پہر اتنا حسین بھیگا بھیگا موسم ہلکی ہلکی پھوار پڑ رہی تھی۔۔۔بے سختہ اس کی نظر سامنے والے بنگلے پر پڑی تو وہ چونک اٹھا سامنے ھی لان میں جو کے ان کے لان سے ایک باڑ سے جڑا ھوا تھا ایک بہت ہی حسین بالوں والی لڑکی بیٹھی اپنی کتابوں پر جھکی پڑ رھی تھی۔۔ھاتھوں میں قلم بھی تھا ۔۔۔کچھ کچھ دیر بعد کچھ لکھ رھی تھی۔۔اس کے لمبے حسین بال کھلے ھوئے تھے جن ھونے اسکا چہرہ چھپا راکھا تھا۔۔۔کاشف کو بڑی حیرت ھوئ کیونکہ جب وہ گیا تھا تو یہ بنگلہ بہت ویران تھا اور نہ جانے کب سے بند تھا۔۔۔۔اور اب ہس بنگلے کی حالت بی کفی بدل چکی تھی۔۔۔اس میں لوگ آباد تھے۔۔۔۔کاشی کو انجانی سی خوشی ھوئ وہ اپنے خیالوں میں گم تھا کے اچانک لڑکی کی کتابوں پر ایک بول آکر پڑی تھی۔۔اور اس کے ساتھ ھی گویا طوفان آگیا تھا۔۔۔
یہ کیا بد تمیزی ہے۔۔۔گڈو ؟؟ کیوں بار بار مجھے تنگ کر رھے ہو۔۔۔سیدھی طرح سے بھاگ جاو ورنہ وہ مار لگو گی کے یاد رکھو گے۔۔اخر کیوں بول مار رہے ہو بار بار۔۔؟؟؟ لڑکی کا چہرہ غضہ سے کچھ اور بھی لال ھو گیا تھا۔۔۔۔۔اور وہ اپنی بڑی بڑی آنکھوں کو اور زیادہ پھیلا کر شایئد بچے پر روب ڈالنا چاہ رہی تھی۔۔۔۔۔کاشی بہت دلچسپی سے زرا سا اور اگے بڑھا۔۔۔۔اور ان دونوں کی نوک جھونک سے مزے لینے لگا۔۔۔کاشی کو یہ سب دیکھ کے بہت مزہ آرہا تھا۔۔۔۔۔۔۔
آپ میرے ساتھ کھیلتی کیوں نہیں ؟؟؟ بس ھر وقت پڑھتی رھتی ہیں۔۔۔اب میں آپ کو نہیں پڑھنے دونگا۔۔۔۔۔پہلے آپ میرے ساتھ کرکٹ کھیلیں۔۔۔۔۔!!!!! پچہ اس کے غضہ سے ڈرے بغیر ضدی لہجے میں بولا۔۔۔۔۔۔
دیکھو گڈو !!! اچھے پچوں کی طرح بات مان لو اور چالے چاو۔۔۔مجھے پڑھنے دو میرے exams ہو رہے ہیں پھر بی تم ضد کر رھے ھو۔۔۔۔اور ہمیشہ تو کھیلتی ھو میں تمھارے ساتھ۔۔اب کچھ دن صبر نہیں کر سکتے۔۔۔۔۔شاباش جاو اور مجھے پڑھنے دو۔۔۔please
اس مرتبہ لڑکی کی آواز میں بےزاری کے ساتھ ساتھ منت بھی تھی۔۔۔مگر وہ بچہ آگے بڑھا اور کتاب چھین کر بھاگ گیا۔۔۔۔۔اور اس کی اس حرکت پر وہ لڑکی چیختی چلاتی ھوئ اسکے پیچھے دوڑی اور اندر گم ھوگئ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کاشی کے لبوں پر دلکش مسکراہٹ تھی۔۔۔آسے یہ بڑی بڑی جھیل جیسی آنکھوں والی ۔۔۔خوبصورت بالو والی گلابی گلابی لڑکی پھلی نظر میں دل کو لگی تھی۔۔۔۔۔۔اور کاشی کو بہت حیرت تھی۔۔۔۔کیوں نکہ ان جناب کا خیال تھا کےدنیا کی کوئ حسین لڑکی اسکو متاثر نہیں کرسکتی۔۔۔اس کی اس بات پر بھابی جل کر کھتی تھی۔۔۔کے تم تو لڑکیوں سے ایسے بھاگتے ھو جیسے وہ بھوت ھو۔۔۔اور شادی کے نام پر ایسے گھبراتے ھع جیسے کسی نے سزائے موت سنا دی ھو۔۔۔۔۔۔وہ ھمیشہ بات کو یہ کھہ کر ٹال دیتا کے بھابی آگر آپ کی کوئ چھوٹی بھن ھوتی تو انکھ بند کر کے کر لیتا۔۔۔۔۔۔۔۔مگر میں کوئ رسک نہیں لینا چاہ تا۔۔۔۔۔۔آپ تو جانتی ہیں آج کل کی لڑکیوں کو۔۔۔۔کیسی ھوتی ھیں۔۔۔۔اسکے لھجے میں ایسی نفرت ھوتی کے بھابی چپ ھو جاتی۔۔۔۔۔۔۔
مگر آج پہلی بار کاشی کو بھابی کے سوا کوئ اور لڑکی اچھی لگی تھی۔۔۔۔اور اس کیفیت پر وہ خود بہت حیران اور شائید خوش بھی تھا۔۔۔۔۔۔۔
وہ حیران اور پریشان سا بھابی کے کمرے میں چلا گیا۔۔۔سامنے بک شلیف سے ایک کتاب نکالی اور کرسی پر بیٹھ کر ٹانگیں بیڈ پر رکھ کے اطمینان سے مطالے مین غرق ھوگیا۔۔۔۔۔۔اس کی دروازے کی طرف پشت تھی۔۔۔۔۔تھوڑی ھی دیر گزری ھوگی۔۔۔کے باھر گاڑی رکنے کی آواز آئ کاشف سمجھ گیا۔۔۔کے بھیا بھابی ھونگے۔۔۔۔مگر وہ اسی طرح بیٹھا رہا۔۔بھیا بھابی ساتھ ساتھ چلتے ھوئے برآمد میں آئے بھیا حسب معمول کمرے میں داخل ھونے سے پھلے ھی لاونج میں سامنے ھی بڑی سی دیوار پر لگی کاشی کی دل کش مسکراھٹ والی تصویر میں کھو سے گئے۔۔۔۔۔۔اور بھابی بیڈ روم میں داخل ھوگئ۔۔اور بری طرح چونک اٹھی اور ڈر کے مارے انکے منہ سے ایک گھٹی گھٹی سی چیخ نکل گئ۔۔۔۔۔کوئ سامنے ھی کرسی پر دروازے کی طرف پیٹھ موڑے بیٹھا تھا۔۔۔بھابی کی چیخ نے بھی اس پر کوئ اثر نہ کیا۔۔۔۔۔۔۔اور وہ سکون سا بیٹھا کرسی ھلاتا رہا۔۔۔۔۔۔۔بھابی کے اعصاب جواب دے گئے تھے
اور کچھ نہ سوجھا تو بھیا کو پکارنے لگئیں۔۔۔
۔آصف !!!! آصف !!!!!
اس لمہے کاشی نے اپنا چہرہ ایک دم بھابی کی طرف موڑا اور کاشی کا چہرہ دیکھ کر بھابی کے چہرے پر ایک سکون کی سی کیفیت طاری ھوگئ۔۔۔۔۔۔۔
ارےےے کاشی تو!!!!!
تو کب آیا ؟؟۔۔
وہ اپنی جگہ پر حیران کھڑی تھی۔۔۔ان کو اپنی انکھوں پر یقین نہیں آرھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔کاشی مسکراتی نظروں سے ان کو دیکھتا رہا۔۔۔۔مگر بولا ایک لفظ بھی نہیں۔۔۔۔۔۔تو بھابی دور کر ایک دم کاشی کے قریب اگئ۔۔۔۔اسکا ہاتھ تھام کر سوالوں کی بوچھاڑ کر دی۔۔۔۔۔
تو بولتا کیوں نہیں کاشی ؟؟؟؟؟؟؟
کب آیا تو؟؟؟؟؟
تو نے آنے کی اطلاع کیون نہ دی؟؟؟؟؟
ھم کب سے تیرے منتظر تھے۔۔۔؟؟؟؟
تو اچانک کیسے آگیا۔۔۔؟؟؟
کب سے آیا ھوا ھے میرا پچہ؟؟؟؟؟
اف اف آصف کھاں رہ گئے ھیئں آپ !!!
آ صف !!!!
آصف !!!!
بھابی اپنی خوشی کا اظہار کس طرح کرے ان کو بلکل سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔۔۔۔بھابی اپنی خوشی سے پاگل ھوئ جا رھی تھی۔۔۔۔۔
دھیرج بھابی جان !!!!
کاشف نے ان کو کندھوں سے تھام کر بڑی محبت سے کرسی پر بیٹھا دیا۔۔۔۔
پھر بہت پیار سے بولا!!!!!
My sweet and beautiful bhabi jan please relaxx !!!!!
آپ نے تو آتے ھی سوالوں کی برسات کر دی۔۔۔۔بھابی۔۔۔۔
کاشی نے مسکرا کر بڑی بےتاب نظروں سے بھابی کے ممتا سے بھرپور چہرے کو تکتے ھوئے کھنا شروع کیا۔۔
میں شام چار بجے آیا ھو۔۔۔۔۔سوچا تھا اچانک نازل ھو کے آپ دونوں کو حیران کر دوں گا جب بیل بجاو گا تو بھائ بھابی دروازہ کھولیں گے اور اس وقت میں اپ دونوں کی کفیت کا اندازہ کر کے مزہ اٹھا راہا تھا۔۔۔اور ادھر میرا سارا کا سارا پیلان خراب ھوگیا۔۔۔۔ویرانی نے میرا استقبال کیا۔۔۔۔اور اتنی دیر سے بوریئت سے دل بھلا رہا ھو۔۔۔
کاشی نے نیچھے بیٹھ کر بھابی کو ساری تفصیل سنا دی اور بھابی جو بہت غور سے سن رھی تھی ایک دم اٹھ کر کاشی کا ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھاتے ھوئے پیار سے بولی۔۔۔
بھلا ھمیں کیا خبر تھی ۔۔۔کے موصوف آج نازل ھونگے بنا کوئ خبر دیئے۔۔۔۔۔۔۔
تم بتا دیتے تو ھم پارٹی میں نہ جاتے بلکے تمھارا شاندار سا welcomeکرتے۔۔۔۔۔۔
نا جانے کیا کیا سوچ رکھا تھا میں نے تمھارے آنے کی خوشی میں یہ کروں گی وہ کروں گی۔۔۔پر آپ کے surprsie کے چکر نے سب خراب کر دیا۔۔۔۔
اچھا ھوا اب سزا ملی نا بغیر بتائے آنے کی۔۔۔بھابی اب واپس اپنی شوخی میں اکر کاشی کی کلاس لے رہی تھی۔۔۔۔
ارے چلیں بھابی !!!
کیا فرق پڑتا ھے۔۔۔آپ کے تو انتیطار میں بھی لطف ھے۔۔اور ابھی تو ڈھیڑھ ماہ پڑھا ھے۔۔۔بلکہ دو ماہ میں ادھر سے جانے والا نہیں ھوں۔۔۔ my dear bhabi jee
میری خدمت کے لیے تیار ھو جایئں۔۔۔۔خوب جی بھر کے اپ سے لاڈ اٹھواں گا۔۔۔۔۔۔اوہ اب جلدی سے بتائے بھیا کہاں ھیں؟؟؟؟
وہ تو راستے میں ھی اٹک گے۔۔۔۔یا اپنا بیڈ روم کا راستہ بھول گئے ھیں۔۔۔۔
کا شی نے شرارت سے پوچھا۔۔۔تو بھابی بھی چونک گئ۔۔۔
ارے ہاں !!
وہ لاونج میں لگئ تمھاری تصویر میں گم ھوگے آتے جاتے اسے دیکھنا اور رات کو باقاعدگی سے تصویر سے باتیں کرنا ان کا معمول ھے۔۔۔۔ان کو اپنی اولاد جیسا پیار ھے تم سے۔۔۔۔۔۔
پوری زندگی میں پہلی مرتبہ جدا ھوئے اور وہ بھی دو سال کے لیے۔۔۔۔
وہ بہت upset رھتے ھیں۔۔۔۔۔
اچھا کاشی نے حیرت سے آنکھیں پھار کے کھا۔۔۔۔تو بھابی بے ساختہ اس کی اس ادا پر حس دی۔۔۔
مجھ پر تو کبھی انوں نے اپنی محبت الفاظ کے زریعے نہیں لٹائی اور اب تصویر سے اظہار ے محبت ھو رہا ہے۔۔۔وہ بھائ کی محبت کا سن کے مغرور ھو رہا تھا۔۔۔۔اور پھر دونوں دیور بھابی لاونج کی طرف بڑھ گئے۔۔۔۔۔۔۔۔
لان کے دروازے پر ہی کاشف رک گیا۔۔اور بھابی کو اشارے سے خاموش رھنے کا اشارہ کر کے لاونج میں داخل ہوا۔۔۔۔۔
بھیا واقع اسکی تصویر کے سامنے کھڑے تھے۔۔۔کاشی چپکےسے دبے قدموں ان کے بالکل پیچھے جاکر رک گیا۔۔۔۔وہ ہولے ہولے بول رہے
“آج پورے دو سال چار دن ہوگئے ہیں۔۔۔۔تجھے اب بی واپسی کا خیال نہیں۔۔۔
اللہ تجھے کامیاب کرے اور تیری حفاظت کرے اور خیر سے اپنے وطن واپس بھیج دے۔۔۔۔۔۔۔
“Ehm ehm ”
بھیج دیا۔۔۔۔۔۔
کاشی نے اچانک بھیا کے کان کے پاس اکر کہا۔۔۔۔۔
اصف بھائ ایک دم سے چونک کر موڑے اور کاشی کو سامنے دیکھ کر حیران سے بے یقینی سے کئ لمحوں تک کاشی کو تکتے رہے۔۔۔۔۔۔جیسے خواب دیکھ رہے ھو۔۔۔۔
کاشی جلدی سے آگے بڑھ کر ان کے گلے لگ گیا۔۔۔۔اور دونوں بھائیوں کی انکھیں نم ھوگئ۔۔۔
بھیا میں آپ کے سامنے ھو۔۔۔یہ کوئ خواب نہیں ھے بھائ۔۔۔۔۔کاشی کا لھجہ بھرا ھوا ےتھا۔۔۔بھیا نے بھی کاشی کو اپنھ سینے سے بھینچ لیا۔۔۔۔
دعائیں اتنی جلدی بھی پوری ہیں “مالک”۔۔۔۔۔۔
شکر اللہ تیرا بہت بہت۔۔۔۔تو نے میری دعا سن لی۔۔۔۔۔
کاشی تو کب آیا ؟؟؟؟
مجھے اطلاع کیوں نہ دی؟؟؟؟
دونوں بھائ جب مل کر علیدہ ھوئے تو ایک دوسرے کی نم انکھوں کو دیکھ کر مسکرا دیے۔۔۔۔۔۔
کاشی تم نے چائے پی یا نہیں ؟؟؟؟
بھابی نے دوپٹے سے اپنی نم آنکھیں خشک کر کے پوچھا۔۔۔
ہاں بوا چائے تو پی مگر شکر کے بغیر ۔۔۔پھیکی۔۔۔
کاشی نے معصومیت سے کہا!!!!
ارے کیا کہہ رے ھو بوا نے تمھیں پھیکی چائے دے دی۔۔۔۔۔
کہاں ہیں بوا؟؟؟
بھابی نے زرا غضہ سے پوچھا۔۔۔۔۔
شخر تو بوا نے ڈالی ھوگی مگر آپ کے ہاتھ کی مٹھاس کہا سے لاتی وہ۔۔۔۔ویسے بی دو سال سے مجھے پھیکی چائے کی عادت ھوگئ ہے!!!!
کاشی نے شرارت سے کہا تو بھابی بھیا بے ساختہ ہنس پڑے۔۔۔۔۔۔۔!!!!!
اگلے دن کاشف اپنی بھرپور نیند پوری کر کے اٹھا تو فریش ھوکے سیدھا کچن کی طرف آگیا۔۔۔۔
کالے کرتے شلوار پر اس کے گیلے بال اس کی شخصیت کو وجی بنا رہے تھے۔۔۔اور اس پر اس کی ہلکی بڑھی بڑھی شیو بہت بھالی لگ رہی تھی۔۔۔۔۔ کچن میں داخل ھوتے ہی کاشف نے بہت فریش انداز میں کہا۔۔۔۔۔
Good morning beautiful ladies….
بھابی اور بوا جو اپنی باتوں میں مگن تھے چونک گئے۔۔۔۔
بھابی پلیز اپنے ہاتھ کی مزے دار چائے تو پلا دیں۔۔۔
دیکھا بوا اپ نے جناب کی فرمایشے شروع اب بھابی نے کاشی کو تنگ کرنے والے اندز میں کہا۔۔۔تبی کہتی ھو جناب اب آپ بی کوئ بھلی سی لڑکی دیکھ کر شادی کر لیں اور چائے کا مگ کاشف کے اگے رکھا۔۔۔۔
شکریہ بھابوو۔۔۔۔اور اس بار بھابی کی اس بات پر کاشف نے ہلکی سی مسکراھٹ کے ساتھ بات بدل دی۔۔۔۔۔
اچھا بھابی یہ برابر والے بنگلے میں کون آگیا ہے۔۔؟؟؟ جب میں گیا تھا تو یہ بنگلا ویران تھا۔
چائے کے سپ لیتے لیتے کاشی نے بھابی سے پوچھا۔۔۔
ہاں رازا صاہب نے اس بنگلے کو اس فمیلی کو بیچ دیا ہے۔۔۔۔تو بھابی وہ لڑکی؟
چاند کی مٹی سے ہوا؟
چاند کی زمین کی طرح کوئی فضا نہیں۔ زمین کی فضا میں کئی گیسیں ہیں جن میں سے ایک آکسیجن...