میں احمد کی فارمیسی میں دو سال سے کام کر رہی تھی۔ احمد عرب تھا لیکن اس کا لب و لہجہ مقامی لوگوں جیسا تھا۔ نہ صرف لب و لہجہ بلکہ رہن سہن، لباس، اٹھنا بیٹھنا، تقریباً سب کچھ۔ کھانے پینے او رکھلانے پلانے کا شوقین۔ پولائٹ، خوش اخلاق، نرم مزاج، دوسروں کی عزت کرنے والا لیکن کام کے دوران ’’یوہیوٹو‘‘ (You have to) والا رویہ اور نوکمپرومائز (No Compromise)۔
گاہکوں کو کسٹمرز کے بجائے مریض یا مریضوں کے کیریکٹر خیال کرتا تھا۔ ان سے ہمیشہ بہت محبت سے پیش آتا اور اپنے اسٹاف کے تمام لوگوں کو بھی ایسا کرنے پر مجبور کرتا تھا۔ دوائیاں دیتے وقت اپنے ہر کسٹمر کو بہت اچھی طرح سمجھاتا تھا، دوائی کس طرح لینی ہے، کیا احتیاط کرنا ہے، اس کے کیا سائیڈ ایفیکٹس ہو سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اکثر بوڑھے لوگ اسے بہت تنگ کرتے، ایک ہی بات کو بار بار پوچھتے مگر کیا مجال جو اس کی تیوری پر بل آجائے۔ وہ مسکراتا رہتا، کبھی کہتا، ’’بے چارے! بڑی تکلیف میں ہوتے ہیں، بڑھاپا— اس کے ساتھ بیماری، پھر حالات—‘‘
احمد سے سب ہی لوگ بہت محبت کرتے تھے، اس کے مریض، فارمیسی کے لوگ اور زیرِتربیت لڑکے اور لڑکیاں۔ البتہ بیوی سے کبھی کبھی اس کی بڑی لڑائی ہوتی تھی۔ بعض اوقات تو فارمیسی آکر بھی وہ اسے خوب سناتی تھی، یہاں تک کہ اسے چھوڑ کر چلے جانے کی بھی دھمکی دیتی تھی۔ اس کی بیوی زینب بھی فارمیسسٹ تھی لیکن جاب نہیں کرتی تھی۔ احمد بھی اسے جاب کرنے کے لیے نہیں کہتا تھا۔
اتوار کا دن تھا۔ فارمیسی مجھے ہی کھولنا تھی، ایک بجے تک میری ڈیوٹی تھی۔ ایک سے دو بجے تک لنچ ٹائم اور دو بجے شیتل کو آنا تھا۔ دو بجے سے چھہ بجے تک شیتل کی ڈیوٹی تھی اور فارمیسی بھی اسے ہی بند کرنا تھی۔
ہمیشہ کی طرح آج بھی فارمیسی میں بہت رش تھا، میں بہت مصروف تھی۔ اچانک مجھے احمد کی آواز سنائی دی، ’’میں کچھ ہیلپ کروں؟‘‘ میں نے مڑ کر دیکھا تو احمد کھڑا تھا۔ اس نے ہلکی سی مسکراہٹ میری جانب پھینکی۔
’’نہیں، میں سنبھال لوں گی، مگر تم کیسے—؟ کیا کوئی ایمرجنسی ہے؟‘‘ میں نے مریض کی دوا بناتے ہوئے اس سے پوچھا۔
وہ میرے قریب آیا اور میرے دائیں کندھے کو ہلکا سا چھوا اور اپنے آفس میں چلا گیا۔
شاید اسے کوئی ’پیپر ورک‘ کرنا ہو میں نے سوچا لیکن اس نے جو میرے کندھے کو ہاتھ لگایا اس کا نوٹس لیے بغیر نہ رہ سکی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ اس نے مجھے چھوا تھا۔ احمد ہمیشہ لیڈیز سے ایک فاصلہ رکھتا تھا۔
لنچ ٹائم پر ہم دنوں نے ایک ساتھ لنچ کیا۔ ’’احمد! آج تم کیسے آگئے، تم تو کبھی بھی سنڈے کو آنا پسند نہیں کرتے ہو۔‘‘ پھر خود ہی میں نے جھجکتے ہوئے کہا، ’’سوری! میں کچھ پرسنل ہو رہی ہوں۔‘‘
’’شیتل نہیں آسکے گی۔ اسے کچھ ضروری کام ہے۔ میں نے سوچا کسی کو اچانک سنڈے کے دن ڈسٹرب کرنا مناسب نہیں ہے۔ اس لیے کوئی متبادل انتظام کرنے کے بجائے خود ہی آگیا۔‘‘
لنچ کے دوران فارمیسی کے بارے میں اور فارمیسی کے چند خاص خاص لیکن مستقل خریداروں پر باتیں کرکے ہم لوگ ہنستے بولتے رہے۔ پتا نہیں کیسے ہماری گفتگو کا رخ بوڑھوں اور بڑھاپے کی جانب مڑ گیا۔ ’’Aging process is terrible‘‘ اس نے اپنی آنکھیں پھاڑ کر کہا۔ ’’میں نے زندگی میں بڑے قابلِ رحم بوڑھے دیکھے ہیں۔ اﷲ رحم کرے— اور ایسے بوڑھے بھی دیکھے ہیں جو نوّے پلس ہونے کے باوجود چاق و چوبند رہتے ہیں۔ لیکن زیادہ تر بوڑھے بہت تکلیف اٹھا رہے ہوتے ہیں۔ کیتھرین کو دیکھو خود اپنا اسکوٹر چلاتی ہوئی آتی ہے۔ گھر میں بھی اکیلی ہوتی ہے۔ کوئی دیکھ بھال کرنے والا نہیں اس کا، ہمت سے زندگی کو چلا رہی ہے۔ رابرٹ جو آرتھرائٹس کا مریض ہے، اس سے تو چلا بھی نہیں جاتا۔ کتنی مشکل سے لاٹھی کے سہارے آہستہ آہستہ چلتا ہے۔ اور بے چاری ماریانا، اس کے ہاتھ چلتے ہیں اور نہ اس کے پائوں کام کرتے ہیں، نجانے کس طرح گاڑی ڈرائیو کرتی ہے۔ اور ایسے ہی بے شمار لوگ ہیں۔‘‘
میں نے احمد کو دیکھا، ’’کیا احمد بوڑھا ہو رہا ہے؟‘‘ میں نے اپنے آپ سے پوچھا، ’’اس کا چہرہ ایک پکی عمر کے مرد کا چہرہ ہے اور دل کش بھی ہے، البتہ اس کی بیوی بوڑھی لگتی ہے۔ احمد تو خاصا ہینڈسم ہے۔ آج پہلی بار میں نے احمد کو اس نظر سے دیکھا تھا۔ اگر اس کی بیوی اسے چھوڑ کر چلی جائے تو میں اسے سنبھال لوں گی۔ اگر میں اس سے عمر میں بہت چھوٹی ہوں تو کیا ہوا، مرد کی عمر کون دیکھتا ہے۔
یہ میں کیا سوچے جا رہی ہوں— وہ کیا بول رہا ہے۔ مجھے اس کی باتوں پر توجہ دینا چاہیے۔ جب میں نے اپنی سماعت کو اس کی آواز پر لگایا تو میں نے سنا، وہ کہہ رہا تھا، ’’جو لوگ ریٹائرمنٹ پلان کر لیتے ہیں aging process سے کم متأثر ہوتے ہیں۔‘‘
یہ ریٹائرمنٹ پلان کی بات کہاں سے نکل آئی؟ میں نے اس کو دیکھ کر سوچا۔
’’کیا مجھے اس عمر میں ریٹائرمنٹ پلان کر لینا چاہیے؟‘‘ میں نے اس سے پوچھا۔
’’تمھاری کون بات کر رہا ہے۔‘‘ اس نے حیرانی سے میر ی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
لنچ ٹائم ختم ہو چکا تھا۔ میں نے اس سے کہا، ’’اگر تم چاہو تو میں تمھاری ہیلپ کر سکتی ہوں۔‘‘ اس نے تکلف نہیں کیا اور بولا ’’جیسی تمھاری مرضی۔‘‘ ہم دونوں کام پر لگ گئے۔ آرام سے فارمیسی بھگتائی اور اپنے اپنے ٹھکانوں پر لوٹ گئے۔ اس سے اگلے دن میں آف ڈیوٹی تھی اور ناشتے کے بعد چھٹی پلان کر رہی تھی کہ میرے فون کی گھنٹی بجی دوسری جانب سے فارمیسی کی ایک ساتھی رتنا سنگھ کی گریہ آمیز آواز آئی، ’’تمھیں خبر مل گئی ہے نا—؟‘‘
’’کیسی خبر؟ رتنا ڈیئر—‘‘ رتنا سنگھ کو ہم سب رتنا ڈیئر کہتے ہیں۔
’’ویری سیڈ نیوز— بوس احمد اس دنیا میں نہیں رہے۔ سڈن ہارٹ اٹیک آفٹر مڈ نائٹ۔‘‘
میرے ہاتھ سے فون گر پڑا، آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ ’’کل سات بجے تک تو وہ میرے ساتھ تھا۔‘‘ میرے ہونٹوں نے لرزش کی۔ میں قریبی کرسی پر بمشکل بیٹھنے میں کامیاب ہوگئی دنیا و مافیہا سے بے خبر۔
احمد بن مناف کی موت کے قریباً دو ہفتے بعد اس کی بیوی نے فارمیسی کا چارج سنبھال لیا۔ فارمیسی سنبھالنے کے بعد جو اس نے پہلا آرڈر سائن کیا وہ میرا ’’لے آف‘‘ تھا۔ میں اس کے آفس کیبن میں گئی اور ایگریسو انداز میں سوال کیا:
’’مسز احمد! مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کو ڈسٹرب کر رہی ہوں لیکن میں سمجھ نہیں سکی کہ یہ کیا ہے؟‘‘
مسز احمد نے اپنی بڑی بڑی آنکھیں اوپر اٹھائیں۔ ان آنکھوں میں سے چنگاریاں نکل رہی تھیں۔ اس نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا، اپنا ہاتھ بڑھا کر میرے ہاتھ میں نوٹس پیریڈ کی تنخواہ کا ڈرافٹ ایک جھٹکے سے تھما دیا۔ ابھی میں اس کو پڑھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ مسز احمد نے ایک ڈائری تھما دی اور ساتھ میں ایک لفافہ بھی۔
’’یہ سب آپ مجھ کو کیوں دے رہی ہیں۔ ان سے میرا کیا تعلق—؟‘‘ میں نے ان سے قدرے چیخ پر قابو پانے والی آواز میں استفسار کیا۔
’’تیرا کیا تعلق—؟‘‘ مسز احمد نے مجھے قہر آلود نظروں سے دیکھا اور بولی، ’’گھر جا اور خود ہی معلوم کر لے اپنا تعلق۔ ڈرٹی بچ!‘‘
میرا غصے سے برا حال تھا۔ مسز احمد کا یہ رویہ میری سمجھ سے باہر تھا۔ میں تیزی سے باہر نکل آئی۔ میرے قدم انڈر گرائونڈ کی طرف بڑھے مگر میں نے اپنا رخ بدل لیا اور پیدل چل کر ایک قریبی ریستوران میں گھس گئی۔ میں جانتی تھی کہ اس وقت میں گاڑی ڈرائیو کرنے کے قابل نہیں ہوں۔ مسز احمد کے ناقابلِ فہم رویے نے جیسے میرے بدن سے ساری توانائی باہر کھینچ لی تھی۔ ریستوران میں بیرے کو خالی واپس کر دیا کہ آرڈر کچھ دیر بعد لے، فی الوقت مجھے کچھ دیر کے لیے تنہا چھوڑ دے۔ اس کے بعد میں نے ڈرتے ڈرتے لفافہ جو کھول دیا گیا تھا، ہاتھ میں لیا اور لفافے کے سارے ملفوفات باہر نکالے تو کیا دیکھتی ہوں کہ یورپ اور دنیا بھر کی چھٹیاں گزارنے کے ریسورٹس (Resorts) وغیرہ کی تفصیل تھی، جہاں احمد نے ریٹائرمنٹ کے بعد جانے کا سوچا تھا۔ اس نے اپنا ریٹائرمنٹ جس کے ساتھ پلان کیا تھا، وہ سارہ افضل یعنی میں تھی۔ اس ریٹائرمنٹ کا تفصیلی جائزہ لینے کی ہمت نہ پا کر میں نے ڈائری کھولی۔ اس کے اندر کبھی کسی ذکر، کبھی کسی خواہش کے ساتھ سارہ یعنی میرا نام لکھا ہوا تھا۔ میں نے لفافے کو بیگ میں رکھا اور ڈائری کو بند کر کے اس پر اپنی ہتھیلی چسپاں کرکے بیٹھ گئی۔ شاید اس طرح بہت وقت گزر گیا تھا، کیوں کہ بیرے کی آواز نے مجھے جیسے خواب سے جگا دیا، ’’آر یو اوکے میڈم—؟‘‘
میں نے چونک کر بیرے کو دیکھا اور اس کو کافی اور سینڈوچ کا آرڈر دیا۔ اس ریستوران کے سینڈوچ بہت پسند کیے جاتے تھے۔ احمد کو بھی ان کا شوق تھا۔
احمد— احمد بن مناف جو ریٹائرمنٹ پلان کر رہا تھا، جس کو اچانک ہارٹ اٹیک آگیا تھا، جو مر چکا تھا— جس نے کبھی سارہ افضل یعنی مجھ کو بھی، یہ نہیں بتایا کہ وہ ڈائری میں اس کے ساتھ اپنی زندگی شیئر کرتا ہے۔ اور ہاں ریٹائرمنٹ پلان میں بھی اس کو اپنے ساتھ لیے گھوم رہا تھا۔ وہی سارہ جس کو کچھ وقت قبل اس کی بیوی— اس کی بیوہ نے ’’ڈرٹی بچ‘‘ کہہ کر اپنے آفس سے نکال دیا تھا۔
احمد— احمد— احمد بن مناف کیا تم مجھ کو اندر ہی اندر چاہتے رہے تھے؟ کیا آج کی دنیا اور مغربی دنیا میں ایسا ہوسکتا ہے۔ یہ اندر ہی اندر محبت کرنا— لیکن ایسا ہوچکا ہے۔ یہ ریٹائرمنٹ پلان اور ڈائری ’’اس ہونے‘‘ کے گواہ ہیں۔ اور ہاں میں یعنی سارہ افضل بھی…..