(Last Updated On: )
دھوپ مدھم تھی
ہوا کی منجمد شاخوں سے سانسیں توڑنا دشوار تھا
اور چوبِ خشک سے لٹکے ہوئے پتے کی آنکھ
اپنے آئینے میں تکتی تھی ہمیں
ہم تہی دستوں نے گلیوں کے خس و خاشاک گھر کے صحن میں جمع کیے
جسم کی دح سے مٹ جانے سے پہلے
خون کے گرتے شرارے سے اگایا
سبز موسم کے الاؤ کا شجر
منظر روپوش کے آثار سے
سب کی آنکھوں کی گزرگاہیں معطر ہو گئیں
اور ہم نے نارسا پیغام بھیجا آسماں کے نام پر
اے خدا!
اب نہ آئے باد زاروں کی ہوا
مشرق و مغرب کے پھیلے فاصلے کی سمت سے
ورنہ ان چنگاریوں کے پھول گلشن کو جلا سکتے بھی ہیں
٭٭٭