اسی کے اسم اعظم سے بڑھی جرات مرے دل کی
کہ میں نے ڈال دی بنیاد ایسے کارِ مشکل کی
تمنا ہے کہ اس دنیا میں کوئی کام کر جاؤں
اگر کچھ ہو سکے تو خدمت اسلام کر جاؤں
مسلمانوں پہ ہے مردہ دلی چھائی ہوئی ہر سو
سکوتِ مرگ نے چادر ہے پھیلائی ہر سو
عزیمیت ہے نہ جرات ہے نہ ہے تاب و تواں باقی
فقط حسرت سے تکنے کے لئے آسماں باقی
نظر آتے ہیں اب وہ صف شکن بازو نا شمشیریں
مقدر کی طرح سوئی پڑی ہیں آج تکبیریں
گئی دنیا ہے آقائی محمد کے غلاموں کی
بھلا بیٹھے ہیں یاد اپنے سلف کے کارناموں کی
ارادہ ہے کہ پھر ان کا لہو اک بار گرماؤں
دلِ سنگیں سخن کے آتشیں تیروں سے برماؤں
سناؤں ان کو ایسے ولولہ انگیز افسانے
کرے تائید جن کی عقل بھی تاریخ بھی مانے
کیا فردوسی مرحوم نے ایران کو زندہ
خدا توفیق دے تو میں کروں ایمان کو زندہ
عجم کا شاہنامہ بس وہ فردوسی کا حصہ تھا
تخیل ہی کا ہنگامہ تھا یعنی ایک قصہ تھا
مگر اس کی زباں اس کا بیاں اعجاز ہے گویا
کہاں کی رستمی وہ خود ہی تیرانداز ہے گویا
تقابل کا کروں دعوٰی یہ طاقت ہے کہاں میری
تخیل میرا ناقص نامکمل ہے زناں میری
زبان پہلوی کی ہمزبانی ہو نہیں سکتی
ابھی اردو میں پیدا وہ روانی ہو نہیں سکتی
نجیف و ناتوں بے علم و بے مقدور ہستی ہوں
غم و اندوہ جس میں بس رہے ہیں میں وہ بستی ہوں
کہاں ہے اب وہ دور غزنوی کی فارغ البالی
غلامی نے دبا رکھی ہے میری ہمتِ عالی
مگر سینے میں دل رکھتا ہوں جس میں جوشِ غیرت ہے
سراسر راکھ ہے لیکن ابھی تک پر حرارت ہے
کیا ہے روح کو زندہ مدینے کی ہواؤں نے
جگایا خواب سے احساس کی غیبی نداؤںنے
نوید صبح بخشی ہے سکوتِ شام نے مجھ کو
مخاطب کر لیا ہے قوتِ الہام نے مجھ کو
بظاہر میں جو تصویر سخن میں رنگ بھرتا ہوں
کسی آواز کے ارشاد کی تعمیل کرتا ہوں