کہاں ہے عشاء ناشتے کی ٹیبل پر کیوں نہیں آئی؟؟؟
سمیر ناشتہ کرتے ہوئے عشاء کی کمی کو بھانپ گیا تھا.
سمیر بھائی بخار ہو رہا ہے اسے چڑھی ہوئی ہے کچھ نہیں کھا رہی کل سے بہت کوشش کی ماما نے میں نے لیکن کچھ بھی کھا کر نہیں دیا اس نے۔۔
دعا نے تفصیلات دیں۔
تو تم یہ مجھے اب بتا رہی ہو کل ہی بتا دیتی حد کرتی ہو دعا۔۔ لاؤ مجھے ناشتہ دو۔
سمیر کو غصہ آیا اور وہ ناشتہ لے کر عشاء کے روم میں چلا گیا۔۔
عشاء!!!
عشاء بنا دوپٹے کے سیدھے آنکھوں پر ہاتھ رکھے لیٹی ہوئی تھی اب وہ بچی نہیں تھی بڑی ہو گئی تھی سمیر کو برا لگا تو منہ پھیر کر عشاء کو آواز دینے لگا.
جی!!
عشاء نے آنکھیں کھول لیں۔
اپنا ڈوپٹہ لو۔۔
سمیر نے منہ پھیرے ہوئے کہا۔
جی لے لیا۔۔
عشاء کو شرمندگی محسوس ہوئی۔۔
اچھا یہ بتاؤ کیا ہوا ہے کل سے کھانا کیوں نہیں کھا رہی ۔۔بخار ہے؟؟ دکھاؤ
سمیر اس کے پاس آکر بیٹھ گیا اور ماتھے پر ہاتھ لگا کر ٹمپریچر چیک کرنے لگا۔۔
کافی تیز بخار ہے تم میری بات نہیں مان رہی نہ اپنا خیال رکھ رہی ہو۔۔
سمیر نے ناراضگی کا اظہار کیا۔
میرا دل نہیں کر رہا تھا۔۔
عشاء نے معصومیت سے جواب دیا۔
تمہارے دل کی تو ایسی کی تیسی چلو منہ کھولو۔
سمیر نے عشاء کو ناشتہ کرانا شروع کیا۔۔
ایک منٹ!!
کچھ نوالے کھلانے کے بعد سمیر کا فون رنگ ہونے لگا دیکھنے پر معلوم ہوا فارس کی کال ہے۔
سمیر نے کال رسیو کر لی۔
ہاں بول ؟؟ سمیر نے سلام دعا کے بعد پوچھا۔
سمیر اکبر اور اس کے ساتھی کی ٹرالر کی نیچے آکر بے دردی سے موت ہو گئ ۔انکی حالت انتہائی خراب ہے کہ وہ لوگ ٹکروں میں سمیٹے گئے ہیں ایک ایک بوڈی پارٹ الگ ہوگیا ہے وہ لوگ کراچی سے فرار ہونے والے تھے لیکن کراچی سے نکلنے سے پہلے ہی وہ جس بائیک کے ذریعے اپنے مقامی جگہ پر پہنچنے والے تھے ایک ٹرالر ان کی بائیک کو ان کے سمیت کچل گیا ان کے باقی ساتھیوں سے پتہ لگا کہ ان کا پلین کراچی سے نکل کر کسی سندھ کے گاؤں میں کچھ عرصے تک قیام کرنے کا تھا۔ ان تینوں کو بھی کل پھانسی کا آرڈر دے دیا گیا ہے کیونکہ انہوں نے خود اعتراف کرلیا کہ یہ عشاء کو ملا کر 60 لڑکیوں کے ساتھ یہی حرکات کر چکے ہیں۔
فارس نے ایک ایک ڈیٹیل سمیر کو دی۔۔
سمیر کے اندر ایک سکون برپا ہوگیا ۔
بے شک اللہ بہترین انصاف کرنے والا ہے۔۔
سمیر نے یہ کہہ کر کال کاٹ دی۔
عشاء جنہوں نے تمہیں ذہنی اور جسمانی درد دیے آج وہ سپرد خاک ہو گئے ہیں اب تمہیں کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔
سمیر نے پیار سے عشاء کی گال تھپتھپایا ..
سچی!!!
عشاء کو وہ درد وہ اذیت یاد آئی جو انہوں نے اسے دی تھی..
ہاں سچّی ابھی فارس کا ہی فون تھا.
سمیر بھائی انہوں نے مجھے مارا تھا مجھے ڈانٹا تھا منہ پر بھی مارا تھا مجھے بہت تکلیف ہوئی تھی آپ نے کہا تھا نہ کہ کوئی مجھے کچھ کہے تو آپ کو بتاؤں پھر میں نے آپ کو دل سے یاد کیا اور آپ آ گئے۔۔
عشاء کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔۔
کاش عشاء مجھ پر بھروسہ کر کے تم مجھے پہلے ہی بتا دیتی۔۔
سمیر یہ کہتا باہر چلا گیا عشاء کا جواب وہ سننا نہیں چاہتا تھا۔۔
عشاء سکتے میں آگئی وہ حیران تھی کہ کیا انہیں سب پتہ ہے کہ میں اس شخص کو جانتی تھی
عشاء شرمندگی کے دلدل میں دھنسنے لگی تھی۔
* * *
ریحانہ فیصلہ تمہارا اور وجدان کا ہی ہوگا میں صرف رائے دے رہا ہوں باقی تمہارا گھر جو بھی حتمی جواب دے گا ہم اس کا پورا احترام کریں گے۔۔۔
دادا نے ریحانہ کو گھر بلا لیا تھا اس روم میں سب بھی موجود تھے سیما، فراز،، ثمرین، خالد ، عارفین وجدان ،سمیر اور رمشاء
دعا سب کے لیے چائے بنا رہی تھی اور عشاء باہر بیٹھی اس سے انجان کہ اندر بیٹھے لوگ اس کے بارے میں ہی باتیں کر رہے ہیں۔۔
ابا جان مجھے کوئی بھی مسئلہ نہیں ہے گھر کی ہی بچی ہے۔
ریحانہ نے حامی بھر لی تھی۔۔
کیسے مسئلہ نہیں ہے امی ہمارا وجدان ایسا بھی گیا گزرا نہیں ہے کہ ایسی لڑکی سے شادی کرا دیں جس کا یہ بھی نہیں پتا کہ اس کی عزت میں کوئی داغ نہ لگ گیا ہو۔۔۔
سمیہ نے اپنی تیز چلتی زبان کے ساتھ وہاں بیٹھے ہر شخص کی سٹی گم کر دی تھی ۔
سمیہ باجی اپنی زبان سنبھال کر بات کریں آپ ہوتی کون ہے میری بہن کی خلاف ایسی بات کرنے والی۔
عارفین غصے سے آگ بگولا ہو گیا تھا اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ سمیہ کا منہ نوچ لے..
سچائی ہمیشہ کڑوی ہوتی ہے عارفین۔۔
سمیہ نے آنکھیں گھما کر کہا
وجدان کیا تم بھی یہی سوچتے ہو؟؟؟؟
دادا نے سیدھا وجدان سے پوچھنا مناسب سمجھا۔۔
وجدان نظر جھکا گیا اور وہ کچھ بھی نہیں کہہ سکا اس سے معنی صاف تھے کہ وہ بھی یہی رائے رکھتا ہے۔
ٹھیک ہے پھر بات ہی ختم! دادا جان ہماری عشاء کو کوئی اچھا سا لڑکا مل جائے گا جو دل سے اپنائے گا آپ کو کسی کی بھی منتیں کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ کوئی زبردستی کا فیصلہ ہوگا۔۔۔۔۔۔
عارفین اپنی بہن کے لیے اسٹینڈ لینا جانتا تھا۔
عشاء سمیر کو بلانے کمرے میں داخل ہونے ہی والی تھی لیکن سمیہ کی آواز پر دروازے پر ہی رک گئی وہ سمجھ گئی تھی کہ وہاں کیا باتیں ہو رہی ہیں پھر وہ وجدان کا جواب بھی وہاں کی باتوں سے سمجھ گئی تھی اسے دکھ نہیں ہوا نہ اسے وجدان پسند تھا اور نہ اس نے ایسا کبھی سوچا تھا لیکن یقیناً اسے سمیہ کے الفاظ چبھے تھے اس کی ذات پاک تھی اور یہ بات چیخ چیخ کر کسی کو نہیں بتا سکتی تھی اور نہ ہی یقین دلا سکتی تھی وہ اپنے آنسو پونچھتے ہوئے دروازے سے ہٹ کر اپنے روم میں چلی گئی۔۔
ریحانہ سمیہ کی وجہ سے اپنے باپ تک کے سامنے شرمندہ ہوئی اس لیے وہ لوگ بھی اپنے گھر چلے گئے ۔۔
* * *
رمشا تم نے دیکھا انہوں نے کیسے میری گڑیا کے بارے میں بولا۔۔
عارفین ابھی تک غصے کی آگ میں تپ رہا تھا۔۔
جی عارفین میں نے سنا انہوں نے کافی غلط کہا لیکن ہم کسی کی زبان کو تالا نہیں لگا سکتے ایسا پتا نہیں کتنے لوگ سوچ رہے ہوں گے لیکن بول نہیں رہے یہ فطری بات ہے۔۔۔ ہماری عشاء بھی کوئی بوجھ نہیں جو ہم گلے سے اتار کر پھینک دیں ۔
رمشا نے عارفین کو تسلی دی۔
ہمممم عارفین کے بھی کچھ بات سمجھ آنے لگی تھی۔۔
اچھا آپ آرام کریں میں ذرا آتی ہوں۔۔۔ رمشا یہ کہتی لائٹ آف کر کے باہر نکل گئی۔۔۔
* * *
کیا سوچ رہے ہیں بھائی؟؟؟
رمشا لان میں بیٹھے سمیر کے پاس آ بیٹھی اس نے روم میں بیٹھے ہوئے سمیر کے تاثرات دیکھے تھے وہ خاموش تھے اور دکھی بھی اس لئے وہ بات کرنے کے ارادے سے یہاں اس کے پاس آ گئی تھی ۔
بس رمشا کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا کہ کیا ہو رہا ہے میں عشاء کے لیے بھی پریشان ہوں جب اپنوں کی یہ سوچ ہے تو باہر کے لوگ تو کیا کیا سوچ رہے ہوں گے کیوں ہمارے گھر میں یہ ہوا اللہ کیوں اتنی آزمائشوں میں ڈال رہا ہے۔
سمیر اداس بیٹھا اس سے یہ سوال پوچھ رہا تھا۔
بھائی میں خود یہی سوچ رہی تھی اس ٹائم تایا ابو تائی امی کے دل پر کیا گزری ہوگی جب ان کی بیٹی کے خلاف یہ الفاظ استعمال ہوئے۔۔
رمشا نے بھی بات آگے بڑھائی۔۔
میں ایک ذہنی ٹینشن سے نکلتا ہوں تو دوسری میرے سر آ جاتی ہے سمیر نے تھک ہار کر کہا ۔
بھائی!
رمشا نے ایک آس سے آواز دی۔
ہاں؟
سمیر نے سر اٹھا کر پوچھا۔۔
آپ عشاء سے شادی کرلیں!
رمشا نے سمیر سے منت بھری نظروں سے کہا.
وہ مجھ سے بہت چھوٹی ہے رمشاء۔
سمیر نے حیرانگی سے جواب دیا
بھائی وہ بھی بالغ ہے اب چھوٹی نہیں اور آپ سے کافی اٹیچ ہے آپ اسے سنبھال سکتے ہیں کیوں نہ آپ اسے نکاح میں لے کر اس کا خیال رکھیں تاکہ کسی کو کچھ بولنے کا موقع نہیں ملے گا۔
رمشا نے بات کو واضح کیا۔
رمشا وہ جانتی ہو گی میں کنزہ سے پیار کرتا تھا۔۔
سمیر نے رمشا کے سامنے بات رکھی۔۔۔
بھائی وہ جانتی ہے یا نہیں میں نہیں جانتی اور یقیناً وہ جانتی ہو گی کیونکہ گھر میں باتیں بہت ہوئی ہیں لیکن مجھے نہیں لگتا وہ منع کرے گی اگر آپ راضی ہیں تو بڑوں سے بات کریں میں عشاء سے خود پوچھ لوں گی۔۔۔
سمیر نے جیسے آگے کے بارے میں سوچ لیا تھا وہ جانتا تھا کہ عشاء کے آگے کا سفر کافی مشکل ہونے والا ہے اور ابھی سمیر کو اپنے علاوہ اس کے بارے میں سوچنا تھا ۔ سمیر نے رمشا کو ہاں میں جواب دے دیا تھا ۔ وہ بہت خوش ہوئی تھی کہ سمیر نے اس کی بات کو اہمیت دی۔۔۔
* * *
عشاء سمیر بھائی تم سے شادی کرنا چاہتے ہیں تو تمہیں منظور ہے۔
رمشا نے اگلی صبح عشاء سے پیار سے یہ سوال پوچھا وہ اس پر کوئی پریشر نہیں ڈالنا چاہتی تھی۔
سمیر بھائی نے خود کہا ہے؟؟؟
عشاء کو حیرانگی ہوئی.
جی وہی چاہتے ہیں اگر تمہیں اعتراض ہے تو منع ہو جائے گا کوئی بھی زبردستی نہیں ہے۔
رمشا نے پیار سے عشاء کے گال پر پیار کیا۔
میں ان سے بات کرنا چاہتی ہوں پہلے ۔
عشاء نے رمشا کے سامنے اپنے دل کی بات رکھی۔
اوکے میں بھائی کو بول دیتی ہوں وہ تم سے بات کر لیں گے۔
* * *
ہاں بولو عشاء؟؟
سمیر عشاء سے بات کرنے لان میں آ گیا تھا۔
سمیر بھائی آپ مجھ پر ترس کھا کر اگر شادی کر رہے ہیں تو پلیز رہنے دیں میں نہیں چاہتی کہ میری وجہ سے آپ کی زندگی خراب ہو آپ میرے لئے بہت عزیز ہیں اور میں یہ بھی جانتی ہوں کہ آپ کو کنزہ آپی کو پسند کرتے تھے تو اب ایک دم مجھ سے شادی یقیناً ہمدردی ہی ہے۔
عشاء اپنے دل کے ڈر اور وسوسے سمیر کے سامنے رکھ رہی تھی۔
نہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہے میں اپنی مرضی سے تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں مجھے پتا لگ گیا ہے تمہیں صرف میں ہی سنبھال سکتا ہوں یہ میرے دل کی رضا ہے کوئی زبردستی نہیں لیکن فیصلہ تمہارا ہوگا عشاء کوئی زور زبردستی نہیں ہوگی۔
سمیر نے اسے پیار سے سمجھایا جیسے ہمیشہ سمجھایا کرتا تھا۔
سمیر بھائی آپ کو پتہ ہے نہ میں نے اس لڑکے سے خود بات کی تھی پھر بھی آپ مجھ سے شادی کیوں کر رہے ہیں میں تو ایک بری لڑکی ہوئی جس نے سب کو دھوکا دیا۔
عشاء کی آنکھیں برسنے لگیں۔
عشاء مجھے سب پتہ ہے یقیناً تم سے غلطی ہوئی ہے لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں کہ تم آئندہ خیال رکھو گی۔
سمیر نے اس کے دل کا ڈر ختم کر دیا تھا۔
سمیر بھائی میں نے سوچا تھا اپنی پاکیزگی کا ثبوت کسی کو نہیں دوں گی جو جو سوچتا ہے سوچے لیکن میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں میں بالکل پاک ہوں میرے ساتھ کچھ بھی نہیں ہوا۔
عشاء نے نظریں جھکا کر وہ کہا جو اس کے لیے کہنا بہت زیادہ مشکل تھا۔
اششش!! خاموش مجھے پتا ہے آئندہ ایسی بات نہ کرنا اور یہ آنسو صاف کرو شاباش ۔
سمیر نے اسے چپ کرا دیا اور اس کی آنکھوں سے گرتے وہ خوبصورت موتی بھی چن لیئے۔
عشاء بھی خاموش ہوگئی۔
اور سنو سمیر بھائی بولنے سے گریز کرو اب۔
سمیر نے مسکرا کر کہا۔
پھر کیا کہوں؟؟؟؟
عشاء ہی شرارتی ہنسی ہنسی.
کچھ بھی جیسے سمیر جی، اجی سنتے ہو اس ٹائم کا کچھ..
سمیر اپنے ہی بات پر قہقہہ مار کر ہنسا.
اور اگر نہ بولوں تو؟؟؟
عشاء اب منہ چڑھا کر بھاگنے لگی۔
پھر پٹوگی بھی بہت۔۔
سمیر نے آنکھیں چڑھائیں ۔۔
آپ مجھے کبھی نہیں مار سکتے!
عشاء نے مان سے کہا۔
او اچھا اتنا مان اور غرور ہے؟؟؟
سمیر نے سوالیہ انداز میں پوچھا..
صرف ایک آپ پر ہی تو مان ہے کہ آپ کبھی دکھ نہیں دیں گے۔
عشاء یہ کہتی چلی گئی اور سمیر کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی ۔
* * *
سمیر نے گھر میں سب سے بات کر لی تھی ہر کوئی سمیر کے فیصلے سے خوش تھا۔ دادا نے سمیر اور عشاء کو خوب دعائیں دیں تھیں سیما، فراز بھی سمیر سے اچھا لڑکا کبھی نہ ڈھونڈ پاتے۔ ہر کوئی ہی خوشی سے نہال تھا گھر میں ڈھول بجنے شروع ہوگئے تھے ہر کوئی غم کو بھلا کر خوشی کو خوش آمدید کہنے کو بے تاب تھا۔۔ عارفین نے بھی سمیر کو خوب گلے لگا کر پیار کیا ان دونوں کا رشتہ ہی بدلنے والا تھا دادا کے کہنے پر کچھ دنوں بعد ہی نیک کام کرنے کا حکم دے دیا گیا تھا۔
اور روشن ستاروں سے چمکتی اس رات کو وہ اپنے خوبصورت ماضی کو دفنا رہا تھا۔ جسے اس نے اس مقام تک لانے کا سوچا بھی نہ تھا ۔۔ وہ ہر ایک کش کے ساتھ ان تمام باتوں کو دھوئیں کے ساتھ ہوا میں اڑا رہا تھا ،ذہن میں ہزاروں سوال اور ان کے جوابات کا منتظر ہو کر وہ نم آنکھوں کو بند کر لیتا ہے اور اگلے صبح کا انتظار کرنے لگتا ہے ۔۔۔
اس شادی میں ہر بندہ ہی خوش تھا دھوم دھام سے شادی کی گئی ہر کسی نے ڈانس کر کے اپنے پورے ارمان نکالے۔ رمشا بھی خوب تیار ہوئی تھی۔۔ عشاء نے بھی شادی میں اپنے سارے ارمان پورے کیے تھے۔۔ سمیر اور عارفین نے شادی کا پورا انتظام کیا۔۔ پھپھو شرمندگی کے مارے شادی میں نہیں آئی تھیں اور کسی نے ان پر زور بھی نہیں دیا جو خوشی سے حصہ بنا سب نے اسے ویلکم کیا۔
اہم اللہ نظر سے بچائے دونوں کو ماشاءاللہ سے بہت ہی پیارے لگ رہے ہیں۔
رمشا نے آ کر دونوں کی دل ھی دل میں نظر اتاری۔
شکریہ بھابھی!
عشاء نے ڈوپٹے کو ٹھیک کرتے ہوئے کہا۔۔
جی جی بالکل میری عشاء بھابھی۔۔
رمشا نے بھی منہ چڑا کر کہا۔۔
کیا ہو رہا ہے؟
عارفین رمشا کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کھڑا ہوگیا۔
کچھ نہیں چھیڑم چھاڑی ہو رہی بس۔
سمیر نے ہنس کر جواب دیا۔
سمیر میں جانتی ہوں کہ کسی کو بھلانا مشکل ہے اور میں یہ نہیں کہتی کہ آپ سب بھلا کر میرے ہو جائیں میں آپ کی بیوی سے پہلے آپ کی دوست بننا چاہتی ہوں جس سے آپ اپنا ہر غم شیئر کرسکیں بول سکیں کہ میں دکھی ہوں مجھے بتا سکیں کی کنزہ یاد آرہی ہے اور آپ کو ضرور آئے گی کیونکہ آپ کی محبت سچی تھی۔ میں ہر دم آپ کا ساتھ دینے کے لئے تیار ہوں خوشی میں بھی غم میں بھی۔۔
عشاء واقعی آج بدل گئی تھی وہ پہلے جیسی نہیں تھی وقت اور حالات نے اسے میچور کر دیا تھا اسے باتیں سمجھ آنے لگی تھی وہ دوسروں کے احساس پہلے بھی کرتی تھی لیکن محبت جیسی فیلنگ کو پہلی بار دل میں جگہ دے رہی تھی۔
سمیر عشاء کو دیکھ کر حیران ہوا اس کی باتیں سمیر کے دل میں اتر گئی تھیں سمیر نے جھک کر اس کے ماتھے پر بوسہ لیا اور ایک نئی زندگی کی شروعات سچائی اور سنت سے شروع کی۔۔۔
رمشا نے ایک پیاری خوبصورت سی بیٹی کو جنم دیا تھا ہر ایک ہی خوشی سے پاگل ہوئے جا رہا تھا فیضان تو چاچو بن کر بے بی کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں تھا رمشا کے کہنے پر اس کا نام حیاء رکھا گیا۔۔ عارفین کو یقین تھا رمشا اس کی بچی کی پرورش اچھے سے کرے گی۔۔
مجھے بھی بالکل ایسی ہی چاہیے!
سمیر نے کوہنی مار کر برابر میں کھڑی عشاء سے کہا جو بے بی کو گود میں لینے کے لیے بے تاب تھی۔
میں ماما سے شکایت کروں گی آپ نے مجھ سے ایسی بات کری۔۔۔
عشاء نے شرماتے ہوئے کہا۔
ویسے کس الو کے پٹھے نے کہا تھا کہ عشاء سدھر گئی ہے میرے سامنے آئے۔۔
سمیر نے با بلند آواز کہا کیونکہ وہاں صرف ینگ لوگ بھی موجود تھے ۔۔۔
بھائی آپ نے ہی کہا تھا جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ہے۔۔
رمشا نے ہنسی روکتے ہوئے کہا۔
اچھا پھر رہنے دو ٹھیک ہی کہا ہوگا۔
سمیر اپنے اوپر آنے پر مسکرا گیا۔
شکریہ رمشا اتنے خوبصورت تحفہ کے لئے نو مہینے تم نے تکلیف جھیل کر میری امانت کی حفاظت کی ہے میں جتنا شکر گزار ہوں کم ہے۔ عارفین نے رمشا کے ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں بھر لیے تھے اور ان پر ایک کے بعد ایک بوسہ دینے لگا وہ آج خوش تھا اگر رمشا اس سے جان بھی مانگ لیتی تو شاید وہ بھی دے دیتا۔
آپ نے بھی میرا بھرپور ساتھ دیا عارفین جو باتیں تکلیف دیں ان کو بھلا دینا ہی اچھا ہے آگے خوبصورت زندگی ہماری منتظر ہے۔
رمشا نے مسکرا کر عارفین کے گالوں کو چھوا۔۔
اچھا اُس ڈائری میں ہر بات سچ ہے کیا؟؟
عارفین نے رمشا کے طوطے اڑا دیے تھے۔۔
کونسی ڈائری؟؟
رمشا نے ہڑبڑھاتے ہوئے پوچھا۔
جس میں میری شرٹ کے کلر سے لے کر میرے آنے جانے کی ٹائمنگ تک بڑی خوبصورتی سے لکھی گئی ہے اگر اتنا پیار تھا تو بول ہی دیتی اور میں بھی اندازہ نہیں لگا پایا کبھی۔
عارفین نے ہنس کر کہا۔
کسی کی ڈائری پڑھنا بری بات ہوتی ہے۔
رمشا اپنے پکڑے جانے پر شرمندہ تھی۔
اوپر دیکھو!!! رمشا آئی لو یو.
عارفین نے اپنے لب رمشا کے گداز گالوں پر رکھ دیے۔۔
آئی لو یو ٹو!!
رمشا بھی اعتراف کر گئی تھی۔
ختم شُد!!!!