(Last Updated On: اگست 31, 2023)
شب ہجراں کی ہوتی ہے سحر آہستہ آہستہ
اندھیروں میں بدلتے ہیں پہر،آہستہ آہستہ
ہزاروں پہر بدلے جب شب ہجراں تو حیرت سے
نگاہیں تکتی رہتی ہیں قمر،آہستہ آہستہ
بہت بے تاب ہو کر جب کبھی بھی راہ تکتا ہوں
کوئی گزرے تو بڑھ جاتا ہے ڈر،آہستہ آہستہ
تغافل میں کروں، یا پھر میں ان کو یاد نہ آؤں؟
یہی رہتا ہے سوچوں کا اثر،آہستہ آہستہ
یہ دل جب ان کی یادوں سے تڑپتا ہے مچلتا ہے
مجیب!وقت ہوتا ہے بسر،آہستہ آہستہ