وہ چونک کر بیدار ہوئ تھی۔
کھڑجیوں پر لٹکے دبیز پردوں کی وجہ سے وقت کا اندازہ لگانا مشکل تھا۔وہ بالوں کو جوڑے کی شکل دیتی کھڑکی کے نزدیک آئی اور اس کے دونوں پٹ وا کردیے۔ٹھنڈی ہوا کا جھونکا اس کے گالوں کو چھو گیا۔شام ڈھلنے کو تھی،پنچھی اپنے اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے۔پیلی پہلی دھوپ نے حویلی کے ستونوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔باہر کا موسم بھی اس کے دل کے موسم کے مانند سوگوار تھا۔
وہ نیچے چلے آئ۔
صحن میں دو اجنبی عورتیں نسیمہ چاچی سے محو گفتگو تھیں۔وہ سلام کرتی کچن کی سمت بڑھ گئ۔
“یہ لڑکی کون ہے؟آپکی رشتہ دار ہے؟
ایک خاتون نے استفسار کیا۔
” کچھ ایسا ہی سمجھ لیں،میری بیٹی جیسی ہے ۔شہر سے آئ ہیں چند ماہ یہیں رہےگی میرے ساتھ۔”
نسیمہ چاچی نے محبت سے کہا ۔
“چلو اچھا ہوا ۔آپکی تنہائی دور ہوگئ۔خیر ہمارے یہاں موجودگی کا مقصد ہے آپ کو اسکول کی خستہ حالی سے آگاہ کرنا۔جگہ جگہ سے چھت ٹپک رہی۔دیواروں کو بھی مرمت کی ضرورت ہے۔ایسی صورت حال میں آپ جیسے لوگ ہی تو کام آتے ہیں۔گذشتہ کئ سالوں سے آپ گاؤں کے اسکولوں کو مالی امداد فراہم کرتی رہی ہیں۔فی الحال اسکول کو ایک ہی مسٔلہ درپیش نہیں ہے۔وہ کہتے ہیں نہ مصیبت اکیلے نہیں آتی۔
انگریزی کی تعلیم دینے والی ٹیچر گاؤں چھوڑ کر شہر چلی گئی۔اس گاؤں میں انگریزی ٹیچر کو ڈھونڈ نکالنا سمندر سے موتی ڈھونڈ نکالنے کے مترادف ہے۔”
نسیمہ چاچی خاندانی رئیس تھیں مختصر تمہید کے بعد خواتین اصل مدعے پر آئ تھیں۔
“ایمن اری۔۔۔ او ایمن۔ ۔۔ زرا میرے گدے کے نیچے رکھی رقم اٹھا لا۔”
وہ با آواز بلند بولیں۔ان کے انداز سے واضح تھا ایمن ان کی وفادار ملازمہ تھی۔
کچن میں کھڑی چائے کے کپ میں چمچ ہلاتا اس کا ہاتھ باہر سے آتی آواز پر رکا۔
“انگریزی ٹیچر کی ضرورت”
اسے ملازمت کی ضرورت تھی۔ آخرکب تک وہ یوں آنسو بہاتی نسیمہ چاچی پر بوجھ بنی رہتی۔زندگی ایسے تو نہیں گزرتی۔پیٹ پالنے کے لیے روزگار کی ضرورت تھی۔
وہ فوراً کچن سے باہر نکل آئ۔
“بہت شکریہ آپ جیسوں کی بدولت اس چھوٹے سے گاؤں میں بچوں کے لیے بہتر ماحول میں تعلیم حاصل کرنا ممکن ہو پاتاہے۔”
کرنسی نوٹوں کو اپنے پرس میں ڈالتی خاتون ممنونیت سے گویا ہوئیں۔
“کیا میں آپ کے اسکول میں انگریزی پڑھا سکتی ہوں؟میری انگریزی اچھی ہے۔”
وہ ان کے نزدیک رک کر بولی۔
خواتین چونکیں جبکہ نسیمہ چاچی کی پیشانی پر شیکنیں نمودار ہوئیں۔
“یہ کیسی بات کر رہی ہو بیٹی ۔چند دن تو ٹک کر میرے پاس بیٹھ جاؤ ۔ابھی تمھیں یہاں آئے دن ہی کتنے ہوئے ہیں۔”
“میں سارا سارا دن بوریت کا شکار ہوتی ہوں چاچی۔اس سے بہتر ہے میں کوئ نوکری کرلوں۔بچوں کے ساتھ من لگا رہےگا۔اور اسکول کے بعد تو اپنا سارا وقت میں نے آپ ہی کو دینا ہے۔”۔
لاڈ سے ان کی گردن میں بازو حمائل کرتی وہ بولی۔
“یہ تو بہت ہی اچھی خبر ہے ہمارے لیے۔ہمیں کسی ایسے ٹیچر کی ضرورت تھی جو انگریزی میں مہارت رکھتا ہو۔'”
بیٹھے بیٹھے ایک مصیبت ٹل گئی تھی دونوں خواتین ہلکی پھلکی ہوگئیں۔وہ دونوں الوداعی کلمات کہتیں رخصت ہوگئیں۔
وہ مسکرا اٹھی ۔زندگی معمول کی طرف لوٹنے لگی تھی۔
***
آفریدی ولا میں زندگی معمول کی طرف لوٹ رہی تھی۔ایک شاہ زر تھا جو یکسر بدل گیا تھا سارا سارا دن وہ آفس میں رہتا دیر رات گھر آتا اور لیپ ٹاپ کھولکر بیٹھجاتا۔چپ کامجسمہ بنا رہتا۔ بلا ضرورت کسی کو مخاطب نہ کرتا ۔راشد صاحب اور باقی گھر والے اس کے لیے ازحد فکر مند تھے۔
ڈائنگ ٹیبل پر پلیٹ سے کانٹے چمچوں کے ٹکرانے کی آواز کے علاؤ کوئ آواز نہیں تھی۔تبھی راشد صاحب نے گلا کھنکار کر گفتگو کا آغاز کیا۔
“زرمین کا یہاں سے چلے جانابے ایک غیر ذمہ دارانہ حرکت تھی۔خیر یہ اس کا بچپنا تھا اسے نظر انداز کرتے ہوئے ہمیں مستقبل کے متعلق سوچنا چاہیے۔وہ ہماری بہو ہے اس گھر کی عزت ہے۔اسے اس گھر میں ہونا چاہیے نہ کہ باہر۔میں نے انسپیکٹر خان سے بات کی تھی۔ وہ گزشتہ چند دنوں سے اس شہر اور اطراف کا چپہ چپہ چھان چکے ہیں ۔ان کی کاوشوں کے نتیجے انھیں اس ایمبولینس اور ڈرائیور کا پتہ چل گیا ہے جس نے زرمین کو اس کے مطلوبہ ایڈرس پر چھوڑا تھا۔ بہت جلد ہمیں۔۔۔۔۔
“ڈیڈ میں آپ سے ایک ریکوسٹ کرنا چاہتا ہوں ۔پلیز آپ زرمین کو تلاش نہ کریں۔ڈھونڈا انھیں جاتا ہے جو کھو جاتے ہیں ۔وہ اپنی مرضی سے اس گھر کو چھوڑ کر گئ۔ہمیں زرمین کے اس فیصلے کا احترام کرنا چاہیے۔یوں بھی مجھے نہیں لگتا آپ اس کی مرضی کے خلاف اسے آفریدی خاندان کی بہو بنا کر رکھنا چاہینگے۔چاہے یہ اس کا بچپنا ہو غیر ذمہ داری کا ثبوت یہ اس کی مرضی ہے۔اور میں اس کی مرضی کے خلاف جاکر کچھ نہیں کرنا چاہتا۔اور میں آپ سب سے بھی یہی امید کرتا ہوں۔”
راشد صاحب کی بات مکمل بھی نہیں ہوپائ تھی کہ وہ اپنی نشست سے کھڑا ہوکر گویا ہوا تھا۔اس کی بات پر راشد صاحب سمیت ڈائنگ ٹیبل پر موجود ہر فرد متحیر تھا۔جس لڑکی کے چلے جانے سے وہ اسقدر صدمہ میں تھا ۔وہ اسی کو تلاش کرنے سے منع کر رہا تھا۔وہ اس لڑکی سے کیسی محبت کرتا تھا یہ کوئ سمجھ نہیں سکا۔
اپنی بات ختم کر وہ باہر نکل گیا۔راشد صاحب نفی میں سر ہلا کر رہ گئے۔مزنی اور دعا ایک دوسرے کو دیکھ کر رہ گئ۔زرمین کے گھر لوٹنے کی آخری امید بھی ختم ہوگئی تھی۔
وہ کار پورچ سے باہر نکال رہا تھا تبھی اس کا فون گنگنا اٹھا۔فون کی اسکرین پر جگمگاتے نمبر کو دیکھ پر امید ہوکر اس نے فون ریسیو کیا۔
“سر ،میں نادر”
“بولو نادر میں سن رہا ہوں۔”
اس نے ٹھنڈی سانس لی ۔
“سر ان کا پتہ چل گیا ہے ۔حیدرآباد سے کئ کلومیٹر دور وہ نظام آباد گاؤں کی ایک حویلی میں رہائش پذیر ہیں۔”
اسپیکر سے آواز ابھری ۔
وہ بے ساختہ مسکرایا۔اسے خبر نہیں ہوئ مگر اس کی آنکھیں نم ہوئ تھیں۔
“تھینک یو سو مچ نادر ،مجھے تم سے یہی امید تھی۔پھر کال کرتا ہوں ۔اللّہ حافظ”
وہ سیٹ کی پشت سے سر ٹکائے آنکھیں مند کر مسکراتا رہا وہ خود کو بہت ہلکا محسوس کر رہا تھا۔
***
وہ تیز رفتاری سے گیٹ کو عبور کر اسکول کے گراؤنڈ میں داخل ہوئی تھی۔نوکری کے پہلے ہی دن وہ لیٹ نہیں ہونا چاہتی تھی۔پرنسپل کی آفس سے باہر نکلنے کے بعد وہ دو اہم باتوں سے واقفیت حاصل کر چکی تھی۔اس کی تنخواہ چار ہزار فی مہینہ تھی۔اور جماعت پنجم سے لیکر جماعت دہم تک کے طلباء کو اسے انگریزی کی تعلیم دینی تھا۔توقع کے عین مطابق پہلا دن بے حد مصروف گزرا تھا۔گاؤں کے بچے شہر کے بچوں سے کسقدر مختلف ہوتے ہیں یہ آج اسے سمجھ آیا تھا۔اسکول کے ختم ہوتے ہوتے اس کا سر دکھ گیا تھا۔وہ پرس اٹھا کر مین گیٹ سے باہر نکل ہی رہی تھی کہ اس کی نگاہ دو بچوں کو گریبان سے پکڑ کر جھکٹا دیتے لڑکے پر پڑی۔بادل نخواستہ وہ ان کے نزدیک آئی تھی۔
“یہ کیا کر رہے تم ؟کیوں پریشان کر رہے ہو انھیں؟”
اسے اپنی سمت آتا دیکھ لڑکے نے دونوں کی گریبان چھوڑدی تھیں۔شہر سے آئ خوبصورت انگریزی کی نئ ٹیچر سے ایک ہی دن میں سارا گاؤں واقفیت حاصل کر چکا تھا ۔
“یہ دونوں بہت شیطان ہیں ٹیچر ،آپ ان کی روتی شکل پر نہ جائیں۔کم بخت میرے پالتو کبوتر کا شکار کر رہے تھے۔”
ان دونوں سے عمر اور جسامت میں بڑے لڑکے نے مدعا سنایا۔
“نہیں ٹیچر یہ جھوٹ بول رہا ہے۔ہم تو تالاب میں پتھر مارنے کا کھیل کھیل رہے تھے کہ دیکھیں کس کا پتھر دور جاتا ہے تبھی اس کا کبوتر بیچ میں آگیا۔میرا اس کو چوٹ پہنچانے کا ارادہ نہیں تھا۔”
بڑےلڑکے
کے الزام پر ان دونوں میں قدرے نحیف نظر آنے والے لڑکے نے تڑپ کر کہا۔
“نہیں ٹیچر جھوٹ میں نہیں یہ بول رہا ہے۔ یہ شاہ زر بہت بڑا شیطان ہے۔اس کی شرارتوں سے سارا گاؤں تنگ ہے۔ہوگئ تیری چاپلوسیاں شروع۔”
بڑے لڑکے نے اس کے کان مڑوڑنے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔
زرمین نے بے ساختہ اس کی کلائی تھام کر اسے روک دیا۔غالباً یہ اس بچے کے نام کا اثر تھا۔
استانی کو اپنا ہاتھ روکتا دیکھ بڑا لڑکا حیران ہوا تھا۔وہ ان شرارتی بچوں کی طرف داری کر رہی تھی۔کیسی استانی تھی وہ۔
“اسے مت مارو ،ممکن ہے یہ سچ کہہ رہا ہو تمھیں غلط فہمی ہوئ ہو۔بعض اوقات کچھ لوگوں کے تعلق سے ہم غلط رائے قائم کر لیتے ہیں۔ان کے بارے وہی سوچتے ہیں جو لوگ کہتے ہیں۔مگر حقیقت مختلف ہوتی ہے۔٬
کسی غیر مرئی نقطے پر نگاہیں مرکوز کیے وہ کھوئے کھوئے انداز میں بولی۔
“تم جاؤ۔شاہ۔۔۔شاہ۔۔ز۔۔۔
چاہ کر بھی وہ اس بچے کا نام نہیں لے پائ۔آزادی کا پروانہ ملتے ہی وہ دونوں بھاگ کھڑی ہوئے تھے۔ان دونوں بچوں کو نئ استانی بھاگئ تھی جبکہ متحیر کھڑے کبوتروں کے مالک کو اس استانی پر غصہ چڑھا تھا۔
“آپ نے انھیں جانے کیوں دیا۔وہ بہت بدمعاش ہیں۔”
وہ جھلایا۔
“میں جانتی ہںوں وہ سچ کہہ رہا تھا۔وہ بہت خاص ہے۔وہ کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔اس کا دل اسے کسی کو تکلیف پہنچائے کی اجازت ہی نہیں دے گا۔”
جانے وہ یہ الفاظ کس شاہ زر کے لیے استعمال کر رہی تھی۔ لڑکے کو وہ اپنے حواسوں میں نہیں لگ رہی تھی۔
پاؤں پٹختا وہ لڑکا اپنے راستے ہولیا۔وہ ٹھنڈی سانس لیتی گھر کی سمت قدم بڑھاتی سوچ رہی تھی کہ اب سے اس بات کا دھیان رکھے گی کہ دوسرے بچے شاہ زر پر الزام لگاکر رعب نہ جما سکیں۔
***
رات کے کھانے کے بعد مزنی اس کے کمرے میں داخل ہوئی تھی۔حسب معمول وہ لیپ ٹاپ می منہ دیے بیٹھا تھا۔
” آپ نے زرمین کے محلے جاکر اس شخص کی پٹائ کی ،سب کے سامنے “۔
بنا تمہید کے مزنی بولی۔
“فیصل قیصر ملک ۔دسویں فیل ہے ۔صدر بازار میں چھوٹی سی دکان چلاتا ہے۔محلے بھر میں اپنی شرافت و ایمانداری کے لیے مشہور ہے۔”
وہ لیپ ٹاپ کی کیس دباتا کسی رپورٹر کے انداز میں گویا ہوا۔
“بھائی آپ نے اس پر Background checkکیا ؟کیوں؟
وہ متحیر تھی۔
“بس میں جاننا چاہتا تھا کہ جس شخص سے میں انتہا سے زیادہ نفرت کرتا ہوں۔وہ کیا چیز ہے۔”
“اوہ تو اس کے بارے میں سب کچھ جان کر آپ سے پیٹنے پہنچ گئے۔آپ جانتے بھی ہیں انکل اس خبر کو سن کر کسقدر فکر مند ہیں ۔انھیں آپ کی ذہنی حالت پر شبہ ہورہا ہے۔”
وہ افسوس ناک لہجے میں بولی۔
“میں اسے پیٹنے نہیں اس کی جان لینے گیا تھا۔”
وہ کمال اطمینان سے بولا۔
“پلیز بھائ behave yourself.زرا سی maturityکا ثبوت دیں۔کیا ہوگیا ہے آپ کو”؟
“میں نے اسے زندہ چھوڑ دیا اس سے زیادہ mature behave میں نہیں کرسکتا۔”
اس نے لیپ ٹاپ بند کردیا۔
“بھائی آپ ایسے کیوں ہو گئے ہیں ؟نہ کسی سے بات کرتے ہیں نہ گھر پر ٹک کر بیٹھتے ہیں۔سارا سارا دن آفس کے کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔آپ خود کو سزا کیوں دے رہے ہیں ۔زرمین نے اپنے خط میں واضح کردیا تھا کہ وہ آپ کو قصوروار نہیں سمجھتی نہ ہی آپ سے نفرت کرتی ہے۔ مجھے پتہ چلا ہے کہ پارٹی میں لزا نے اسے ساری حقیقت بتا دی تھی کہ اس حادثہ کے پیچھے اس کا ہاتھ تھا۔اس حقیقت کا پتہ چلتے ہی وہ ٹوٹ گئی وہ خود کو قصور وار سمجھنے لگی اور اس گھر کو چھوڑ کر چلی گئی۔مگر ہم اسے واپس بھی تو لاسکتے ہیں ۔سب کچھ ٹھیک ہوسکتا ہے ۔آپ اسے بتائیں کہ آپ اس سے ہمدردی نہیں محبت کرتے ہیں ۔پھر وہ آپ کو چھوڑ کر نہیں جاسکےگی۔اسے ہمدردی کی نہیں محبت کی ضرورت ہے۔آپ اسے واپس اس گھر میں لانے کے حق میں کیوں نہیں ہیں۔جب کہ ہم سب واقف ہیں کہ آپ اس محبت کرتے ہیں۔اس کے چلے جانے سے آپ اس حال کو پہنچہے ہیں۔کیسی محبت ہے آپکی بھائی”۔
وہ اس کے نزدیک بیٹھتے ہوئے بولی۔
“وہ مجھ سے نفرت نہیں کرتی یہ کہکر اس نے مجھ سے ہر تعلق ختم کرلیا۔محبت تو یوں بھی وہ مجھ سے کرتی نہیں تھی۔ایک نفرت کا رشتہ تھا وہ بھی ختم ہوگیا۔اسے نے مجھے بلکل ہی اجنبی بنا دیا۔اس سےبہتر تھا وہ مجھ سے نفرت ہی کرلیتی کم از کم اس کے دل میں میرے لیے جذبات تو ہوتے ۔نفرت کے بہانے ہی سہی وہ مجھے یاد تو کرتی خیر یہ سب چھوڑوں۔ جہاں تک سوال اسے یہاں واپس لانے کا ہے تو میں ایسا کبھی نہیں ہونے دونگا۔میں چاہے اس کتنی ہی محبت کرلوں میرے لیے یہ اہم ہے کہ وہ میرے لیے کس قسم کے جذبات رکھتی ہے۔اور اس کے چلے جانے سے واضح ہے کہ وہ میرا ساتھ نہیں چاہتی۔ زور زبردستی سے محبت حاصل نہیں ہوتی ۔اس کا فیصلہ اس کی مرضی سر آنکھوں پر۔
اور تم سب فکر مند کیوں ہو؟کیا ہوا ہے مجھے ؟کیا میں تمھیں دیوداس بنا نظر آرہا ہوں۔شراب کی لت لگالی ہے یا سیگریٹ نوشی کرنے لگا ہوں۔ سڑکوں پر دیوانوں کی مانند گشت لگا رہا ہوں یا اس کے فراق میں آنسو بہا رہا ہوں۔ کچھ بھی تو نہیں ہوا ہے مجھے۔کھا پی رہا ہوں۔آفس جا رہا ہو۔نارمل لائف گزار رہا ہوں۔اور کیا کروں میں تم سب کو خوش کرنے کے لیے۔”
وہ زچ ہوکر بولا تھا۔
“آپ کی منطق اور زندگی جینے کا انداز دونوں ہی نارمل نہیں ہیں۔آپ روبوٹ بن چکے ہیں۔جذبات و احساسات سے عاری۔”
وہ سوچ کر رہ گئ مگرکچھ کہہ نہیں پائ۔
*****
وہ ہسپتال سے لوٹی تھی۔روز کی نسبت سرکاری عملہ کے افراد کافی احترام سے پیش آئے تھے۔اس کے پہنچتے ہی پانی کا گلاس پیش کیا گیا تھا۔ وہ متحیر تھی۔حیران ہونا لازمی تھاپانی پوچھنا تو دور وہ لوگ کسی کو آنکھ اٹھا کر دیکھتے تک نہیں تک تھےان کی نظر میں مفت معلاجہ کے لیے آئے انسان کیڑے مکوڑوں کی حیثیت رکھتے تھے۔۔اتنا ہی نہیں امریکہ سے اسپیشل ڈاکٹرس کی ٹیم اس گاؤں کا دورہ کرنے والی تھی۔تقدیر اچانک اس پر مہربان ہوئ تھی۔دائ ماں کے ٹھیک ہونے کی امید کچھ اور پختہ ہوئ تھی۔وہ مسکراتی ہوئی کچن میں داخل ہوئی۔
سجنا آبھی جا۔۔۔۔۔سجنا آ بھی جا۔۔۔۔۔۔۔
نہیں لگدا تیرے بنا دل میرا۔۔۔۔۔۔۔۔
ایمن با آواز بلند گیت گانے میں مصروف تھی۔اس کا ذہن پھر بھٹکنے لگا۔
“کیا میں چاہتی ہوں وہ مجھے ڈھونڈتا ہوا أئے؟ میرے چلے جانے سےکیا اسے زرا سا بھی دکھ ہوا ہوگا ؟ ۔ محبت نہ سہی عادت کے بہانے ہی سہی میں اسے یاد آتی ہونگی؟نہیں وہ مجھے کیوں تلاش کریے گا میں تو اس پر بوجھ تھی۔ میں اسے تکلیف پہنچاتی رہی ہوں،طعنے دیتی رہی ہوں۔وہ دل کا غنی تھا اس لیے مجھ سے ہمدردی جتا رہا تھا مگر اب جبکہ میں ازخود وہ گھر چھوڑ کر چلی آئی ہوں وہ مجھے تلاش کیوں کریگا میں اغوا تو نہیں ہوئ یہ میری اپنی مرضی تھی۔ وہ خوش ہوگا ۔ایک عرصے بعد اسے سکون کی نیند نصیب ہوئ ہوگی۔زبردستی کی شادی کا بوجھ اس کے کاندھوں سے سرک گیا ہے خوش ہونا تو لازمی ہے۔یہ میں کیا سوچ رہی ہوں اسے دکھ کیوں ہوگا وہ مجھے کیوں تلاش کریے گا۔میں اس کی محبت میں گرفتار ہوں وہ نہیں۔ اسے میری عادت کیوں ہوگی وہ لوگ جو تکلیف کا باعث بنتے ہیں ان کی عادت نہیں ہوتی۔ میں اسے چھوڑ کر چلی آئی تھی کہ وہ آزاد ہو جائے اپنی زندگی پہلے کی طرح جی سکے۔اور اب مجھے یہ سوچیں ستا رہی ہیں۔”
خوشگوار موڈ ایک لمحے میں بگڑا تھا۔
نسیمہ چاچی نے ایک دھموکا جڑ کر اس کے گانے کو بریک لگایا تھا۔
“اے ہے, کیوں گلا پھاڑ رہی ہے ایمن ۔ہمارے اندر اتنی برداشت نہیں کہ تیری سریلی آواز سن سکیں۔جاکر اسی کے کانوں میں رس گھولنا جس کی یاد میں تو گلا پھاڑ رہی ہے۔”
نسیمہ چاچی نے ایمن کو بے نقط سنا ڈالی۔
“یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں بڑی بی۔میں یہ گیت اس کلموہے کے لیے ہرگز نہیں گارہی ۔زہر لگتا ہے وہ مجھے اس کی یاد کیوں آئے گی مجھے۔ہمہ وقت الٹے سیدھے حرکتیں کرتا رہتا ہے جب میں خفا ہوتی ہوں تو کہتا زرا سا مذاق برداشت نہیں ہوتا شوہر ہوں تیرا ،کیا اتنا بھی حق نہیں ہے میرا۔”
ایمن با آواز بلند بولی۔
“تو اس سے لڑتی کیوں ہیں؟کیوں اپنا خون جلاتی ہیں۔شوہر ہے تیرا بجائے لڑنے جھگڑنے کے اس کی خدمت کیا کر “۔
نسیمہ چاچی نے نصیحت کی۔
“اوہو ،بڑی بی شوہر بھی تو جبردستی (زبردستی)بنا ہے نا۔میں راضی نہیں تھی پھر بھی ابا نے میری شادی اس کے ساتھ کرادی۔ابھی میری عمر ہی کیا ہے۔پورے پانچ سال بڑا ہے مجھ سے اور حرکتیں بچوں والی کرتا ہے۔میں تو اسے گھاس نہیں ڈالتی وہی میرے پیچھے پیچھے لگا رہتا ہے۔چند دن قبل طیش میں آکر سارا کوڑے دان میں نے اس پر الٹ دیا تھا۔بجائے خفا ہونے کے وہ کم بخت ہنسنے لگا ۔میں مزید جل گئ۔کہتا ہے مجھ سے محبت ہوگئ ہے۔میں نے پوچھا وہ کیسے؟جواب دیا”
تو ہمہ وقت لڑتی جو رہتی ہے مجھے بڑی سونی لگتی ہے بس ہو گئ محبت۔”
اول درجے کا جھوٹا ہے وہ ۔بھلا بتائیں خود سے ہمہ وقت لڑنے جھگڑنے والی سے محبت کیسے ہو سکتی ہے؟
ایمن مزید چڑ کر بولی۔
“ہٹ پگلی۔ان چھوٹے موٹے لڑائی جھگڑوں سے تو محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔ تم اپنے والدین سے نہیں لڑتی ،بھائ بہنوں سے نہیں لڑتی تو کیا اس کا مطلب ہے تم ان سے نفرت کرتی ہو۔جھگڑا وہیں ہوتا ہے جہاں محبت ہوتی ہے بھروسہ ہوتا ہے توقعات ہوتی ہیں۔جب تک میاں بیوی آپس میں لڑ نہیں لیتے سمجھ لینا چاہیے کہ وہ دونوں ابھی ایک دوسرے سے گھلے ملے نہیں ہیں ۔تو چاہے اس کتنا ہی جھگڑ لے میاں بیوی کے درمیان محبت کا رشتہ پیدا ہو ہی جاتا ہے۔نکاح کے دو بولو میں بڑی طاقت رکھی ہوئ ہے اوپر والے نے۔محبت ،اعتبار،اعتماد ہی اس کے اساس ہوتے ہیں۔تو نہیں جانتی مگر تیرا دل جانتا ہوگا کہ وہ بھی تیرے لیے اہمیت رکھتا ہے۔”
نسیمہ چاچی گرم پانی گلاس میں انڈیل کر کرسی پر براجمان ہوگئیں۔
“آپ نے درست کہا،نکاح کے دو بولو میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔شوہر بیوی کے درمیان لاکھ لڑائیاں ہوں،نفرت کی فصیل ہو مگر جانے کہاں سے محبت کا پودا آگ آتا ہے۔ہمارا نکاح بھی ایک دوسرے کی خوشی سے نہیں ہوا تھا۔ایکدوسرے سے نفرت کے باوجود محبت ہوہی گئ۔مگر دونوں کو نہیں صرف مجھے۔”
وہ سوچ کر رہ گئی۔
“ویسے بڑی بی آپ ٹھیک ہی کہہ رہی ہیں جب سے شہر گیا ہے فکر رہتی ہے مجھے اس کلموہے کی”۔
ایمن نروٹھے پن سے بولی اور وہ دونوں مسکرا دیں۔
****
فجر کی نماز ادا کرکے وہ بستر پر لیٹا تھا۔اب اسے فجر کی نماز کے بعد نیند نہیں آتی تھی ۔اس نے گردن موڑ کر اطراف میں نظر دوڑائی۔وہ جاء نماز پر کھڑی نماز پڑھ رہی تھی،الماری سے قرآن شریف نکال رہی تھی۔صوفے پر لیٹی تھی۔سنگھار میز کے پاس کھڑی تھی۔
اس نے آنکھیں بند کر لیں ایکدم سے اسکا مسکراتا چہرہ ذہن کی پلیٹ پر روشن ہوا ۔ وہ اٹھ بیٹھاکسی طور سے سکون نہ تھا ۔اس کمرے کی ہر شئے ہر کونہ اس کی یاد دلاتے تھے ۔سوچتا کہ اطراف میں نہ دیکھنے سے افاقہ ہوگا اور آنکھیں بند کرلیتا نتیجتاً اس کی اور واضح تصویر سامنے آجاتی ۔مسٔلہ کمرے میں نہیں اس کے ذہن میں تھا۔وہ اس کے ذہن پر سوار رہتی تھی ۔اس سے نجات کا ایک ہی حل نکلتا وہ لیپ ٹاپ کھول کر کام میں من لگانے کی کوشش کرتا۔اور اس نے وہی کیا۔وہ لیپ ٹاپ کی کیز دبانے میں مصروف تھا تبھی نادر کی کال آئ۔
“بولو نادر”
“سر جس اسکول میں میڈم نے ملازمت شروع کی ہے وہاں چار ہزار فی مہینہ تنخواہ ان کے لیے مقرر کی گئی ہے ۔ subjectsکا burden نہیں ہے کیونکہ انہیں محض ایک ہی subjectکی تعلیم دینی ہے۔ حویلی سے چند ہی قدموں کی دوری پر اسکول واقع ہے لہذا آنے جانے میں کوئ دقت پیش نہیں آئےگی میڈم کو۔کھانے پینے کے لئے یہاں کینٹین کی سہولت نہیں ہے سبھی طلباء اور اساتذہ اپنا اپنا ٹفن لیکر اسکول آتے ہیں۔”
وہ پیشہ ورانہ انداز میں بولا۔
“میں نے ڈاکٹر پیٹرسن سے بات کر لی ہے وہ اپنے ٹیم کے ساتھ وہاں پہنچتے ہی ہونگے۔دائ ماں کے ہوش میں آنے کی بہت امید دلائی ہے انہوں نے۔تم بتاؤ اسے ڈاکٹر کی فری ویزٹ کا سنکر شک تو نہیں ہوا ۔”
وہ لیپ ٹاپ کو بستر پر رکھتا گویا ہوا۔
“نہیں انہیں بلکل بھی شک نہیں ہوا ۔یہاں سبھی مریضوں اور ان کے احباب کو یہی بتایا گیا ہے کہ وہ لوگ سرکار کی جانب سے ملک کے تقریباً سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کی مفت علاج کے لیے بھیجے جا رہے ہیں۔”
نادر بولا۔
“اوکے نادر میں تمہیں چند گھنٹوں کے بعد فون کرونگا۔اللّہ حافظ”۔
باہر صبح کی روشنی پھوٹ رہی تھی اس نے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند لیں۔
تبھی اس اپنے سر پر ہاتھ کا دباؤ محسوس ہوا اس نے آنکھیں کھولیں۔راشد صاحب بیڈ کے سرہانے کھڑے اس کے بالوں کو سہلا رہے تھے۔وہ فوراً سیدھا ہوکر بیٹھ گیا۔
“تم ٹھیک تو ہو نا بیٹے۔شاید اس بار مجھ سے غلطی سرزد ہوگئ تمھارے نکاح کے معاملے میں ،میں نے جلد بازی کا مظاہرہ کیا ۔مجھے اس اہم فیصلے کے متعلق اور سوچنا چاہیے تھا۔زرمین کی زندگی سدھارنے اور تمھیں راہ راست پر لانے کے لیے میں خود غرض بن گیا تھا۔وہ بلند حوصلوں والی بےخوف لڑکی مجھے تمھارے لیے بہت پسند آئی تھی۔میں اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتا تھا۔مجھے لگا تھا اس کا ساتھ پاکر تم ذمہ دار بن جاؤگے جینے کا سلیقہ سیکھ جاؤگے۔مگر میں نے ایک دفعہ بھی یہ نہ سوچا کہ زرمین کونسے ارادے لیکر اس گھر میں آئ ہے۔ وہ زندگی بھر کیلئے آفریدی خاندان کا حصہ بنے رہنا چاہتی بھی ہے یا نہیں ۔وہ محض چند دنوں کے لیے مہمانوں کی طرح اس گھر میں رہ کر واپس لوٹ گئ۔شاید اسے پہچاننے میں میں نے غلطی کردی۔وہ بلند حوصلوں والی سچی لڑکی اس رشتے کو لیکر سنجیدہ تھی ہی نہیں۔ورنہ وہ یہ قدم نہ اٹھاتی ۔”
وہ اس نزدیک بیٹھے افسوس ناک لہجے میں گویا ہوئے۔
“اس کے تعلق سے کسی منفی خیال کو اپنے دل میں پیدا نہ ہونے دے ڈیڈ۔آپ نے جیسا سوچا تھا وہ بلکل ویسی ہی ہے۔ بلند حوصلہ ،بےخوف صاف دل رکھنے والی سچی لڑکی ۔ اس کی انہی خصوصیات نے اسے اس گھر کو چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ اسے میری بے گناہی کا پتہ نہ چلتا تو شاید وہ ایسا نہ کرتی اس کے احساس جرم نے اسے یہ قدم اٹھانے پر مجبور کیا۔آپ نےمیرے لیے اس کا انتخاب کرکے کوئ غلطی نہیں کی۔she was the best decision you had ever made for me
اسے دیکھ کر مجھے یہ خیال آتا تھا کہ گر تقدیر اچھی ہو تو بعض اوقات غلطیاں بھی ہمیں انعام سے نوازتی ہیں۔
لہذا آپ خود کو قصوروار نہ سمجھے۔سب ٹھیک ہو جائے گا ۔آپ بس ہم دونوں کے حق میں دعا کریں ۔ہمیں آپ کی دعاؤں کی ضرورت ہے ۔زندگی میں اپس اینڈ ڈاؤنس تو آتے رہتے ہیں ۔وہ یہاں سے چلی گئ ہے لیکن وہ مجھ سے اس گھر سے الگ نہیں ہوئ اور کبھی نہیں ہوگی۔وہ میری بیوی ہے اس گھر کی بہو ہے۔اس کی طرف سے دل میلا نہ کریں پلیز۔”
اس نے راشد صاحب کی ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
“ڈیڈ رمضان کا مبارک مہینہ شروع ہونے کو ہے ۔میں نے فیصلہ لیا ہے کہ اس بار میں عمرہ کرنے کے لیے جاؤنگا۔”
اچانک بات بدل کر جو خبر اس نے انہیں سنائ وہ چونک پڑے۔
“مگر بیٹا یوں اچانک تمھاری ماں اس حال میں تمھیں اتنی دور بھیجنے پر رضامند نہ ہونگی۔”
وہ پریشان ہوئے۔
“میں انہیں منا لونگا آپ فکر نہ کریں”۔
وہ کھڑا ہوتے ہوئے بولا۔
“بلکہ میں ایسا کرتا ہوں، ابھی سب کو یہ خوشخبری سنا دیتا ہوں۔”
اپنی بات ختم کرتا وہ آفریدی ولا کے باقی مکینوں کو حیران کرنے چل دیا۔راشد صاحب بستر پر بیٹھے رہ گئے۔وہ پانچ وقتوں کی نمازیں ادا کرتا۔ بروقت کھانے کی ٹیبل پر موجود ہوتا دوستوں کے ساتھ گھومنا تو اس نے زرمین کی موجودگی میں ہی چھوڑ دیا تھا۔ سارا سارا دن آفس کے کاموں میں لگا رہتا ۔وہ چاہتے تھے وہ سدھر جائے مگر اس انداز میں نہیں ۔
پہلےوہ اپنے جذبات کا اظہار بلا تردد سب کے سامنے کردیا کرتا تھا۔مگر اب وہ ڈھونگ کرنے لگا تھا خوش رہنے کا۔اپنے جذبات سب سے چھپانے لگا تھا ۔ نجانے کس گناہ کی معافی مانگنے کے لیے اب وہ خدا کے گھر جانا چاہتا تھا۔وہ سر ہاتھوں میں دیے بیٹھے رہ گئے۔
“میں عمرہ کے لیے جا رہا ہوں۔”
ڈائنگ ٹیبل کے گرد اپنی اپنی نشست سنبھال رہیں خواتین کے ساتھ ساتھ مرد حضرات بھی متعجب تھے۔
“یہ تم کیا کہہ رہے ہو شاہ زر اچانک یہ کیسے—
عالیہ بیگم بدحواسی سے بولیں۔
‘ممی پلیز منع مت کریں۔ میں نیک کام کرنے جارہا ہوں دوستو کے ساتھ گھومنے نہیں جارہا۔صرف دس دنوں کی تو بات ہے۔ اس سے پہلے بھی تو میں دوستو کے ساتھ ٹورس پر جاتا رہا ہوں تب تو آپ منع نہیں کرتی تھیں۔اور اب خدا کے گھر جانے سے روک رہی ہیں ۔”
وہ جھنجھلایا۔
“اس سے قبل تم دوستوں کے ساتھ تفریح کے لیے جاتے تھے۔مگر اس دفعہ تنہائی پانے کے لیے یہاں سے جارہے ہو۔تم بخوبی واقف ہو کہ اس حال میں جبکہ ہم میں سےکسی کو بھی تمھاری ذہنی حالت ٹھیک نہیں لگ رہی کوئ تمھیں بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں دےگا۔لہٰذا تم نے عمرہ جانے کا فیصلہ کیا تاکہ تمھیں کوئ روک نہ سکیے ۔الّلہ کے گھر جانے سے کون کسی کو روکتا ہے۔تنہائ ملتے ہی جانے تم خود کے ساتھ کیا کروگے۔ تم سے اتنی دور بیٹھے ہم میں سے کسی کو کچھ خبر نہیں ہوگی چاہے تم خود کی جان ہی کیوں نہ لے لو کیا ہم نہیں جانتے کہ تم نے قصداً اپنے ایکسیڈنٹ کو انجام دیا تھا ٰ وہ کوئ حادثہ نہیں تھا تمھاری خودکشی کی کوشش تھی۔”
عالیہ بیگم پھٹ پڑیں ۔
‘ممی کیا کچھ سوچ کر بیٹھی ہیں آپ میرے متعلق۔کیا آپ کو ایسا لگتا ہے کہ میں اپنی جان لے لونگا۔نہیں ممی کبھی نہیں۔میں ایسا نہیں کرسکتا جس روز مجھے میرے گناہ کی سنگینی کا احساس ہوا مجھے لگا میں مر جاؤں۔اپنی جان لے لوں مگر پھر مجھے یاد آیا کہ میں کتنا گنہ گار ہوں۔مجھے خدا کے سامنے کھڑے ہونے سے بہت خوف محسوس ہوا ۔اس لمحے میں نے سوچا مرجانے سے بہتر ہے میں توبہ کے راستے کا انتخاب کروں۔بس اسی لیے میں عمرہ کرنے کے لیے جانا چاہتا ہوں۔آپ جیسا سوچ رہی ہیں ویسا کچھ نہیں ہونے والا۔بہت ساری دعائیں کرنی ہیں میں نے وہاں جاکر”۔
ان کی گردن میں بازو حمائل کرتا وہ انھیں سمجھاتے ہوئے بولا۔
اس کی بات پر سبھی مطمئن ہوئے تھے۔
ناشتے کے بعد اپنے کمرے کے قد آور آئینے کے سامنے کھڑا وہ کہیں اور ہی کھویا ہوا تھا۔اس لمحے اسے پریوں کی مانند خوبصورت اور معصوم لگتی آئینے میں اپنے عکس کو سراہتی زرمین یاد آرہی تھی۔وہ بے ساختہ مسکر دیا۔
“تم مجھے چھوڑ کر چلی گئی۔چلو ٹھیک ہے تم نے میرے لیے یہ سزا مقرر کی ہے تو یہی سہی جب تک تم چاہوگی میں بامشقت یہ سزا کاٹونگا۔مگر مجھے معاف کرنا کہ میں تمھارے پل پل کی خبر رکھ رہا ہوں۔میں دل کے ہاتھوں مجبور ہوں۔جب تک مجھے پتہ نہیں چلا تھا کہ تم کہاں ہو کس حال میں ہو ،یوں محسوس ہورہاتھا تمھاری فکر مجھے مار دیگی۔تمھاری خیریت ملتی ہے تو غم غلط ہو جاتا ہے۔خیر اب خدا کے گھر جانے کا ارادہ ہے بہت کچھ مانگنا ہے۔گناہوں کی معافی،دائ ماں کی زندگی،تمھارا تحفظ ،تمھاری خیریت ،تمھاری محبت،تمھارا ساتھ۔”
وہ تصور میں زرمین سے مخاطب تھا۔
***
رات کے 8 بجے وہ کمرے سے باہر نکلی تھی۔اسکول سے آنے کے بعد وہ سو گئی تھی۔نیند اتنی گہری تھی کہ اذان بھی نہیں سنائ دی تھی قضاء نماز ادا کرکے وہ نیچے چلی آئی۔تبھی اس کی نگاہ صحن میں بچھی کرسی پر براجمان اجنبی پر پڑی۔وہ نسیمہ چاچی سے محو گفتگو تھا۔وہ سر پر دوپٹہ رکھتی کچن کی سمت بڑھ گئی۔
“ارے بیٹیا۔زرا مہمان کی خاطر تواضع کا سامان تو کرلو۔ایمن تو کام نپٹا کر گھر چلی گئی مجھ بوڑھی کی ہڈیوں میں جان ہی نہیں رہی کہ کچھ کام ہی کرلوں اسی لیے تجھے تکلیف دے رہی ہوں۔ یہ رمیز ہے،شہر سے آیا ہے میرا بھانجا ہے۔”
اسے کچن کی سمت جاتا دیکھ نسیمہ چاچی گردن موڑ کر شرمندہ سے انداز میں بولیں۔
“آپ بلا جھجھک مجھے حکم دیا کریں۔بیٹی کہتی ہیں مجھے اور زرا سا کام کہنے سے ہچکچا رہی ہیں ۔میں ابھی کھانے پینے کے لوازمات کے ساتھ حاضر ہوتی ہوں ۔”
وہ مصنوعی خفگی سے کہتی کچن میں چلی آئی۔
فریج سے کباب نکال کر فرائی کیے۔چولھے پر چائے چڑھا دی۔ٹرے میں نمکین اور سوجی کا حلوہ سجادیا۔
دس منٹ بعد وہ ٹرے لیے صحن میں آئ تھی۔
نسیمہ چاچی کے پیر کی تکلیف کا خیال کرتے ہوئے اس نے چائے سرو کردینا درست سمجھا۔
چائے کپ میں انڈیل کر بلاک پینٹ پر سفید شرٹ ان کیے اجنبی سمت کی طرف بڑھایٔ۔مگر ان جناب کا دھیان چائے کے کپ پر نہیں چائے دینے والی پر تھا اور زرمین کی مکمل توجہ کپ پر تھی اس سے قبل کہ اجنبی شخص کپ پکڑتا زرمین نے کپ چھوڑ دیا نتیجتاً کپ گرم چائے سمیت اس شخص کی ٹانگ پر گرا تھا۔شدید جلن نے اس کی محویت کو توڑا۔ وہ اچھل کر کھڑا ہوا۔وہ بھی چونک کر سیدھی ہوئ۔
“ارے سنبھال کر بیٹیا”
نسیمہ چاچیہ ہڑبڑا کر کھڑی ہوگئیں۔
ایکدم سے اس کے ذہن میں ایک منظر روشن ہوا تھا۔
اس کی فائل پر دانستہ چائے گراتی ہوئ وہ، بدحواس سا چیختا ہوا شاہ زر۔۔
Careful
اس کے الفاظ اس کے کانوں میں گونجے۔بےساختہ مسکراہٹ نے اس کے لبوں کو چھوا تھا۔اسے خبر نہیں ہوئ مگر دلفریب مسکراہٹ کے ساتھ ساتھ اس کی آنکھیں بھی نم ہوئ تھیں۔
اس شخص نے اس خوبصورت لڑکی کو مسکراتے دیکھا۔ وہ اس کی مسکراہٹ کا کچھ اور ہی مفہوم اخذ کر بیٹھا ۔
وہ چائے کے کپ کو زمین سے اٹھا کر ایکسکیوز کرتی کچن کی سمت بڑھ گئی ۔چائے صحن کی مٹی میں جذب ہوگئ تھی۔
وہ اس بات سے یکسر بے خبر تھی کہ کسی کی نظروں نے دور تک اس کا پیچھا کیا تھا۔
چائے واپس سرو کرکے وہ اپنے کمرے میں آگئی۔
اپنی بستر پر لیٹ کر وہ دشمن جاں کے خیالوں میں کھو گئی۔
دن تو پھر بھی کام کی نذر ہو جاتا مگر رات آتے ہی وہ اس کے ذہن پر حاوی ہو جاتا۔وہ نہیں جانتی کہ وہ اسے دانستہ یاد کرتی تھی یا نادانستہ وہ اسے یاد آتا تھا۔اس شخص کی یادیں اس کی زندگی کا کل اثاثہ تھیں ۔وہ انھیں کھونا نہیں چاہتی تھی وہ اسے بھولنا نہیں چاہتی تھی۔
تمھارے بعد میرے زخم نارسائی کو
نہ ہو نصیب کوئی چارہ گر دعا کرنا
**
راشد صاحب اخبار کو ہاتھ میں پکڑے سر پکڑ کر بیٹھے تھے۔سبھی مرد حضرات بھی خاموش تھے ۔کچن سے خواتین کی باتوں کی آوازیں آرہی تھیں۔
“دیکھ لو اب یہی دیکھنا رہ گیا تھا۔اس قسم کے داستانیں شائع ہونے لگیں ہیں میرے بیٹے کے تعلق سے۔ اس لڑکی کو یہاں رہنا ہی نہیں تھا تو وہ یہاں آئی ہی کیوں ۔نکاح کے لیے رضامند کیوں ہوئی ۔ پہلے کم ذلیل کیا تھا اس نے ہمیں جو اب اس خبر نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ہمارا نہ سہی شاہ زر کی محبت کا خیال کرلیتی کیا اسے میرے بیٹے کی محبت نظر نہیں آئی۔جانے سے قبل ایک دفعہ بھی نہ سوچا کہ اس کی اس حرکت سے اس کے شوہر کی رسوائی ہوگی۔”
“عالیہ بیگم سخت غصہ میں تھیں۔کچن کی میز کے گرد ساری خواتین اکٹھا تھیں۔اخبار میں شائع ہوئی خبر سبھی کےلیے حیران کن تھی۔اب تک کسی اخبار نے اس تعلق سے خبر شائع کرنے کی ہمت نہیں کی تھی۔عالیہ بیگم کی بات کچن کاؤنٹر پر پیر لٹکائے بیٹھی مزنی کا موڈ مزید خراب ہوگیا۔
“آنٹی پلیز آپ زرمین کو برا بھلا مت کہیں۔ یہاں سے چلے جانے کی پیچھے اس کی اپنی کچھ مجبوریاں تھیں۔اس کا مقصد آفریدی خاندان کو ذلیل کرنا قطعاً نہیں تھا۔اور رہی بات بھائی کی محبت کی تو ہاں وہ نہیں سمجھ پائ ان کی محبت کو۔بچپن سے لیکر جوانی تک اسے نہ تو باپ کی شفقت نصیب ہوئ نہ بھائی کی محبت ۔زندگی میں پہلی دفعہ کسی مردکی محبت اس کے حصے میں آئی تھی۔وہ اس محبت کو سنبھال نہیں پائ۔آپ سب کو خدا کا واسطہ زرمین کے تعلق سے کوئ منفی خیال اپنے دل میں نہ لائیں۔”
وہ منت زدہ لہجے میں بولی۔
وہ ڈائنگ ٹیبل پر سب کو غیر حاضر پاکر کچن میں چلا آیا۔سب کو اکٹھے پریشان دیکھ وہ چونک پڑا۔
“بھائ آپ پلیز تحمل کے ساتھ میری بات سنیے گا۔آج کے اخبار میں آپ کے اور زرمین کے تعلق سے خبر شائع ہوئی ہے۔انکل خود حیران ہے کہ اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہوسکتا ہے۔آپ پلیز غصہ نہ ہوں۔راشد انکل سب ہینڈل کرلینگے۔”
مزنی نے اس کے شانو پر ہاتھ رکھے ہوئے کہا۔وہ تن فن کرتا ہال میں چلا آیا۔میز پر پڑے اخبار کو اٹھایا۔اشعر نے سر پکڑ لیا۔
“صنم بےوفاسےوفا”
ہیڈ لائن کی نیچے تفصیلی خبر میں زرمین کی گمشدگی کا ذکر تھا ۔ شاہ زر کو مکمل طور پر معصوم و بے قصور ثابت کرتے ہوئے زرمین کو بھگوڑی دلہن کے لقب سے نوازا گیا تھا۔ ساتھ ساتھ اس کے کردار پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کی گئی تھی۔
ؤ
وہ اخبار کو ہوا میں اچھالتا آندھی طوفان بنا باہر نکل گیا۔اشعر اس کی پیچھے بھاگا تھا۔
وہ ” سہارا” اخبار کے چیف ایڈیٹر کا گریبان پکڑے دہاڑ رہا تھا۔
“کیا لکھا ہے تم نے اپنے اخبار میں بولوتمھاری جرات کیسے ہوئی میری بیوی کے تعلق سے یہ بکواس لکھنے کی۔
“دیکھیں سر میں نہیں جانتا یہ خبر کیسے شائع ہوگئ۔یقین جانیں یہ کسی کی سازش ہمارے خلاف۔آپ لوگوں کے تعلق سے ایسی خبر شائع کروا کر میں اپنے ہی پیر پر کلہاڑی کیوں مارونگا۔”
چیف ایڈیٹر ہکالاتے ہوئے بولا۔
شاہ زر نے اس کا گریبان چھوڑا تھا۔
“میرے متعلق تمھیں جو لکھنا ہے لکھو، مگر خبردار جو میری بیوی کے تعلق سے ایک لفظ بھی لکھنے کی ہمت کی تم لوگوں نے ۔اگر آئندہ ایسا ہوا نہ تو یہ دفتر بچے گا نہ یہاں کام کرنے والے لوگ۔آگ لگادونگا سبکو”۔
چیف ایڈیٹر کی درگت پر سراسیمہ اپنی اپنی نشست پر کھڑے اسٹاف ممبرز کو انگلی دیکھا کر متنبہ کرتا وہ بجلی کی سرعت سے باہر نکل گیا۔
“ہنگامہ کرنے سے حقیقت بدل تو نہیں جائے گی۔اپنی طاقت کا استعمال کر کے حقیقت کو کب تک چھپا سکیں گے یہ لوگ۔دھواں وہیں اٹھتا ہے جہاں آگ ہوتی ہے۔ راشد صاحب نے بڑے فخر سے اعلان کیا تھا کہ وہ لڑکی ان کی بہو ہے۔اور اب پتہ چل رہا ہے کہ وہ فرار ہو گئ ہے۔وہ لڑکی شریف ہوتی تو اپنے ہی سسرال سے بھاگ کر خاندان کی عزت مٹی میں نہ ملاتی۔بے چارہ یہ لڑکا اس کے گناہ پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔شوہر ہے اسکا ،اسکے بھاگ جانے سے اسے بھی صدمہ پہنچا ہوگی۔”
دفتر میں کرسی پر آرام سے بیٹھی ایک ضعیف عورت با آواز بلند اپنے خیالات کا اظہار کر رہی تھی۔جانے وہ کون تھی اور یہاں کیا کر رہی تھی۔وہ نا تو اس کی گریباں پکڑ سکتا تھا نہ ہی اس پر چلا سکتا تھا۔وہ ایک عورت تھی وہ بھی ضیعف۔اس نے مٹھیاں بھینچ لیں۔
“کس کس کی زبانیں روکونگا میں ۔اس دنیا کا دستور ہے برے کو اچھا اور اچھے کو برا کہنا۔کیسے سمجھاؤں میں انہیں تم قصوروار نہیں ہو۔تم بےوفا نہیں ہو۔”
وہ آسمان کو دیکھ کر رہ گیا۔
آکے اب تسلیم کر لے تو نہیں تو میں سہی
کون مانے گا کہ ہم میں بے وفا کوئی نہیں
****
سر سید اشرافیہ اور اجلافیہ دو قومی نظریہ
یہ حضرت جنگ آزادی کے دوران ایسٹ انڈیا کمپنی کے وفادار رہے۔ سر سید اور ان جیسے قماش کے لوگوں...