دائم نے راہداری سے گزرتے ہوئے رک کر گلاس وال پر ابھرتے اپنے عکس کو دیکھا ۔۔۔
مصنوعی داڑھی ۔۔ اور لبوں پر گھنی مونچھیں ، آنکھوں پر بڑا سا چشمہ سجائے وہ اس حلیے میں اتنا برا بھی نہیں لگ رہا تھا ۔۔۔اس نے دل ہی دل میں سوچا ۔۔۔
سر ؟؟؟؟ کی آواز پر چونک کر سیدھا ہوا ۔۔
آپ کا انتظار کیا جا رہا ہے !
وہ پیغام دے کر آگے بڑھ گیا ۔۔
چلو بھئی تفتیشی افسر ، تمہارے ایکشن کا وقت ہے !
وہ زیر لب خود سے مخاطب ہوا اور دروازہ دھکیل کر اندر داخل ہوگیا ۔۔۔
کمرے میں ملگجہ سا اندھیرا تھا ۔۔
ٹیبل کے ایک طرف قاسم براجمان تھا جس کے ہاتھ سے لگی ہتھ کڑی ٹیبل سے جوائن تھی ۔۔ اور دوسری کرسی خالی تھی ۔۔ والز کے پار دوسرا کمرہ تھا ۔۔ جہاں نایا اور گلشن باآسانی اسے دیکھ اور سن سکتے تھے ۔۔۔
جبکے کمرے میں نفوس اسے نہیں دیکھ سکتے تھے ۔۔۔
انکی گفتگو ریکارڈ کی جارہی تھی ۔۔۔
نام کیا ہے تمہارا ؟؟؟
وہ کرسی کھینچ آرام دہ انداز میں بیٹھ گیا ۔۔۔
قاسم نے ناگوار نظر سر تا پا اس پر ڈالی اور خاموش رہا ۔۔۔
بارڈر پر کیا کر رہے تھے تم؟؟؟
دائم نے اسکے رویے کو نظر انداز کرتے ہوئے دوسرا سوال کیا ۔۔
اسکی اکڑ بدستور قائم تھی ۔۔
والز کے پار وہ دونوں دم سادھے انکی گفتگو سن رہی تھی ۔۔
میں نے پوچھا بارڈر پر کیا کر رہے تھے ؟؟؟
وہ ضبط سے بولا ساتھ ہی کرسی چھوڑ کر اٹھ کھڑا ہوا ۔۔ تبھی پیون چائے کا کپ ٹیبل پر رکھ کر واپس چلا گیا
وہ گھوم کر اسکے سامنے ٹیبل پر ٹک گیا۔۔
ناراض محبوبہ کی طرح مت گھورو ، میرے سوالوں کے جواب دو ! ورنہ مجھے دوسرے طریقے بھی آتے ہیں !
دائم رسان سے سمجھانے لگا ۔۔
آزما کے دیکھ لو !
قاسم کا انداز چیلنجنگ تھا ۔۔
دائمی کا ضبط جواب دینے اس نے طیش میں آکر گرما گرم چائے کا کپ اٹھایا اور اسکے چہرے پر اچھال دیا ۔۔۔
اسکی چیخیں بلند ہونے لگی ۔۔۔
دوسری جانب نایا نے بے چینی سے پہلو بدلا۔۔
تم ایسے نہیں بتائوگے نا؟؟
دائم نے اسکا گریبان دبوچا
نہیں بتائوں گا ! وہ درد سے چیخا ۔۔
نایا فورا سے اپنی جگہ چھوڑ کر وہاں آئی ۔۔
سر پلیز !!! ہمیں کوئی جلدی نہیں ہے ۔۔ اگلوا تو لیں گے ہم، اسے خوش فہمی میں جی لینے دیں دو چار دن !
نایا نے قاسم کو دیکھ کر دانت پیسے ۔۔۔
آر یو شیور آفیسر ؟؟؟
دائم کو اسکی دخل اندازی پسند نہیں آئی تھی
ویری شیور !
وہ انکی عمر کے لحاظ سے مئودبانہ گویا ہوئی ۔۔
ٹھیک ہے ، تمہیں تو میں بعد میں دیکھتا ہوں !
وہ مڑکر قاسم کو باور کرواتا باہرنکل گیا ۔۔
نایا نے ایک زہریلی نگاہ قاسم پر ڈالی اور اپنے پیچھے دروازے بند کردیا ۔۔
اس نے راہداری میں دیکھا تو وہ کہیں نہیں تھا ۔۔
وہ کچھ حیران ہوئی ۔۔
انوسٹیگیشن آفیسر کہاں ہے ؟؟؟
اس نے ریسپشن پر پوچھا ۔۔
ابھی ابھی گئے ہیں ! آپ کہیں تو واپس بلائوں؟
نہیں بس رہنے دو !
وہ منع کرنے کے بعد واپس آگئی
______________________________________
سر مجھے لگتا ہے اسے کچھ بھی معلوم نہیں،
وہ صرف ہمیں الجھائے رکھنا چاہتا ہے انکا اصل مقصد کچھ اور ہے ۔۔
دائم نے فون دوسرے کان پر منتقل کیا ۔۔
اور گاڑی کا دروازہ بند کرکے اسکول کے داخلی دروازے پر ایزی کا انتظار کرنے لگا ۔۔۔۔
جسے وہ اسکول سے پِک کرنے آیا تھا
بلکل ، اگر واقعی اہم ہے تو وہ لوگ اسے بازیاب کروانے ضرور آئیں گے ! ٹھیک ہے جیسے آپ کہیں !
اس نے فون کان سے ہٹا کر جیب میں اڑسا ۔۔
بابا !!! وہ بھاگتی ہوئی اسکی ٹانگوں سے لپٹ گئی ۔۔
میری جان ۔۔۔
وہ اسے اٹھاتے ہوئے گال پر بوسہ دینے لگا ۔۔
آپ نے مجھے سرپرائز کردیا بابا !
وہ کھلکھلائی
ایک اور سرپرائز ابھی باقی ہے !
وہ پراسرار انداز میں کہتا اسکا بیگ تھام کر گاڑی میں بٹھانے لگا ۔۔
وہ کیا؟؟
اس نے بھنویں اچکائیں
ہم آئسکریم کھانے جارہے ہیں !
واقعی !
وہ بے یقینی سے بولی ۔۔
ہاں بلکل ۔۔۔
اس نے گاڑی گھماتے ہوئے مطلوبہ راستے پر ڈال دی
پاپا ہم شفق کو بھی ساتھ لے جاتے ہیں نا!
وہ اسرار کرنے لگی
نہیں بیٹا وہ اپنے کام پر ہوگی ۔۔
اس نے ٹوکا ۔۔ شفق اندرون شہر چھوٹا سا کیفے چلاتی تھی ۔۔
اس نے آئسکریم کا آرڈر دینے کے بعد اطراف کا جائزہ لیا
اور تسلی بخش جگہ تلاش کرنے لگا ۔۔۔اسے سڑک کے پار پارک میں بچے کھیلتے نظر آئے ۔۔
وہ ایزی کو لئے پارک آگیا ۔۔۔
پارک میں خاصا رش تھا بچوں کا مگر یہ محفوظ جگہ تھی ۔۔۔
اب تم یہاں بیٹھو ، پاپا بس ایک کال کرکے آئے !
وہ اسے بنچ پر بٹھائے ہوئے تاکید کرنے لگا ۔۔
مگر یہاں کیوں نہیں ؟
وہ سر اٹھا کر تعجب سے بولی ۔۔
اپنی ماں پر گئی ہو تم بھی ، بہت سوال کرتی ہو !
وہ زیر لب بڑبڑاتا ہوا جھکا ۔۔
کیونکہ بیٹا یہاں بہت شور ہے ! اگر میں نے اپنے باس کی بات ٹھیک سے نہیں سنی تو وہ ناراض ہوجائے گا،
پھر ہوسکتا ہے مجھے نوکری سے ہی نکال دے !
وہ نرمی سے سمجھانے لگا
تو آپ دوسری جاب کرلیں نا ، یہ ویسے بھی اچھی نہیں ہے ! ایزی کے پاس ہر پرابلم کا حل موجود تھا ۔۔
مجھ جیسے آدمی کو اب دوسری نوکری یا چھوکری ملنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے
وہ منمنایا ۔۔
خیر ، تم یہاں سے کہیں جانا مت اوکے ؟؟؟ میں بس ایک کال کرکے آیا !
وہ سختی سے تنبیہ کرنے لگا ۔۔
نہیں جائو گی نا ؟؟؟
وہ اسکی توجہ نہ پاکر اپنی بات دہرانے لگا
تو ایزی نے زوروں سے سر اثبات میں ہلایا ۔۔۔ دائم کو اس پر ڈھیروں پیار آیا ۔۔
گُڈ گرل !
وہ اسکے بالوں میں ہاتھ گھماتا آگے بڑھا ۔۔۔
پارک سے مقابل سڑک کراس کرنے کے بعد وہ سنسان سی گلی کا رخ کرنے لگا ۔۔
اسی لمحے ایک ٹوپی والا شخص اسے دیکھ کر آگے بڑھا اور ایزی سے فاصلہ رکھ کر بیٹھ گیا ۔۔
آآآائییییی۔۔۔کتنی پیاری بچی ہو تم ، نام کیا ہے تمہارا ؟؟ انداز انتہائی مصنوعی تھا ۔۔
ایزی گردن اٹھا کر آنکھیں مٹکائیں اور پیر جھلاتے ہوئے بولی ۔۔۔
الیییزززےےے۔۔
اوہہہہہ ۔۔۔ بہت پیارا نام ہے تمہاری طرح !
وہ شخص اسکا گال چھوتا ہوا بولا ۔۔
اچھا بتائو آئسکریم کھائو گی؟؟
اس شخص کے اگلے سوال پر ایزی کا من للچایا لیکن پاپا نے منع کر رکھا سو اسکا سر کچھ اور تیزی سے نفی میں ہلا ۔۔۔
وہ شخص اٹھا اور کینٹین کی جانب بڑھا جب واپس آیا تو اسکے ہاتھ میں آئس کریم کپ تھا ۔۔
لے لو ؟؟؟
آنہاں ۔۔
ایزی نے بڑی مشکل سے ناں کی ۔۔۔
ارے ۔۔ گھبرائو مت ! میں تمہارے پاپا کا دوست ہوں ، ہم کالج فرینڈ تھے !
وہ استفسار کرنے لگا ۔۔۔
ساتھ ہی زبردستی آئسکریم اسکے ہاتھ میں دی ۔۔
بابا کی فرینڈ صرف شفق ہے !
وہ جھنجھلا کر بولی ۔۔
ہاں ہم تینوں ہی دوست ہیں !
اس شخص نے جان چھڑانے والے انداز میں کہا ۔۔
ویسے کیا کرتے ہیں تمہارے بابا آجکل ؟؟
وہ شخص مدعے کی بات پر آیا ۔۔
یہ پاپا کا اور میرا سیکرٹ ہے ۔۔ انہوں نے کہا تھا کسی سے شیئر مت کرنا !
اس نے دائم کی کہی گئی بات دہرائی ۔۔
دیکھو ۔۔ میں بھی تمہارے پاپا کا دوست ہوں لیکن ہم کافی ٹائم سے ملے نہیں ہیں اسلئے میں اسے سرپرائز دینا چاہتا ہوں اگر تم بتادو وہ کہاں جاب کرتا ہے تو میں اسے وہاں جا کر سرپرائز کر سکوں گا!!
وہ شخص اسے بہلانے لگا
واقعی ؟؟؟
ایزی سوچ میں پڑ گئی ۔۔۔
ہاں نا ! اب تم مجھے بتائو ؟
وہ بے تابی سے بولا ۔۔
لیکن مجھے کچھ نہیں معلوم ۔۔ پاپا نے کہا تھا وہ سیکرٹ جاب کرتے ہیں!
اسکی آنکھیں شان سے چمکیں ۔۔
وائوووو یہ تو بہت اچھی جاب ہے۔ ۔۔
اس شخص کی لبوں پر ہلکا سا تبسم بکھرا ۔۔ ۔۔
اس ڈرائیو میں قاسم اور اسکے ساتھیوں کے متعلق ساری انفارمیشن ہے ۔۔ تم دیکھو گے تو تمہیں پتا چل جائے گا، ہو سکتا یہ لوگ بھی اُس آپریشن سے جڑے ہوں ۔۔ یا پھر ھانی کے لوگوں میں سے ایک ہو !
فون بوتھ میں کھڑے شخص نے ترچھی نگاہ سے اسے دیکھا جو گلی کے نکڑ پر کھڑا تھا ۔۔
اور شزانہ ؟؟؟
دائم نے ڈرائیو انگلیوں میں مسلی ۔۔
کچھ دیر کے لئے دونوں کے درمیان خاموشی چھا گئی ۔۔
شزانہ کی تلاش جاری ہے ۔۔ ہم اپنے تئیں تو اسے ڈھونڈ ہی رہے ہیں مگر ھیرات میں بھی ھانی کے لوگ اسے تلاش کر رہے ہیں ! وہ ابھی تک لاپتا ہے !
کہہ کر وہ شخص فون کریڈل پر رکھ کر مطمئن سا آگے بڑھ گیا ۔۔ اور دائم ہنوز وہیں کھڑا تھا ۔۔
کیا معلوم ھانی نے اسے مار دیا ہو ؟ اور اسکی تلاش کا ڈھونگ رچا رہا ہو ۔۔۔!!
آخر کو اسے پارٹی کے سامنے بھی جوابدہ ہونا تھا !
یا پھر وہ کسی اور مصیبت میں پھنس گئی ہو بیچاری.۔۔ لیث کی بھی تو کچھ خبر نہیں تھی ۔۔
آگ لگنے کے بعد دائم اسے ہاسپٹل میں چھوڑ کر گیا تھا ۔۔
اس کے بعد وہ اسے واپس نہیں ملی
نہ جانے وہ خود سے کہیں گئی تھی یا غائب کروادی گئ تھی ۔۔ انکے آپریشن کا پہلا پڑائو کامیاب رہا تھا ۔۔۔
وہ اغوا شدہ پاکستانیوں کو بازیاب کروا چکے تھے۔۔
جو مختلف فلائٹس کے ذریعے سے دوسرے ملک جا چکے تھے ۔۔۔ وہاں سے آگے پاکستان کا سفر طے کرنا تھا
چونکے افغانستان کی عسکری قیادت نے سرے سے پاکستانیوں پر پابندیاں عائد کر رکھی تھی ۔۔
جنرل بخشی کی تعلیمات پر جب وہ اسے لینے پہنچا تو وہ وہاں نہیں تھی ۔۔۔ جنرل چاہتے تھے اسے بھی اپنے ساتھ پاکستان لے جایا جائے ۔۔۔
جس میں اسکی رضامندی بھی تھی اور اسکے باپ کی وصیت بھی ۔۔مگر وہ غائب تھی ۔۔انہیں واپس آنا پڑا ،
وقت کم تھا مدت ختم ہورہی تھی ۔۔۔
پھر سب پیچھے رہ گیا اور وہ اپنے ملک واپس آگیا ۔۔۔
اسی لمحے انہیں خبر ملی کہ ھانی کے لوگ پاکستان میں موجود اپنے ساتھیوں کو اسلحہ ایسکپورٹ کرنے والے ہیں ۔۔ غیر شناسا نمبر سے کال بھی انہی کی جانب سے کی گئی تھی ۔۔۔ تاکہ وہ لوگ پکڑے جا سکیں ۔۔
جو لوگ پکڑے بھی گئے ۔۔
وہ ایک گاڑی جو واپس چلی گئی تھی وہ انہیں کی تھی ۔۔ جو ایمرجنسی کی صورت میں اسکی حفاظت کے لئے تھی ۔۔۔ افغانستان میں ان کے آپریشن کا دوسرا پڑائو چل رہا اسلئے وہ لوگ واپس مڑ گئے ۔۔۔ مگر وہ انٹرپول کی آفیسر ۔۔
نایا نوید حیسن ۔۔۔
وہ انتہائی تیز نکلی ۔۔وہ اسے دیکھ چکی تھی اسے چار و نہ چار راہگیر بچے کو اعتماد میں لینا پڑا ۔۔
مگر وہ اس سے بھی دو قدم آگے تھی ۔۔۔
ندی کا پانی گہرا نہیں تھا اس لئے وہ نیچے نہیں جا سکا جس کے بعث اسے گولی لگ گئی ۔۔۔ ایک طرح سے اسکے حق میں ہی بہتر ہوا ۔۔۔ بازو پر گولی لگنے سے وہ بچ گیا اور آفیسر کو یقین بھی ہوگیا ۔۔اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ اپنی ظالمانہ گولیوں سے اسکی جان لے چکی ہوتی ۔۔۔
اسے پہلی بار کسی کی قابلیت اور دلیری پر بے جا طائو آیا تھا ۔۔۔
سوچوں کو زہن سے جھٹک کر اس نے ڈرائیو جیب میں ڈالی اور پارک چلا آیا ۔۔
ایزی پیر جھلاتی ہوئی اسی کے انتظار میں تھی ۔۔
اسے دیکھ کر اسکی جانب دوڑ لگائی ۔۔
آہہ آں ؟؟؟ دوسری آئسکریم کہاں سے آئی تمہارے پاس ؟؟؟ وہ فورا سے پہچان گیا ۔۔
اسکی سینسسز عام انسانوں کہیں تیز تھی ۔۔
شاید یہ اسکی جاب کی مہربانی تھی ۔۔
آپ ہی نے تو دلائی تھی !
وہ فورا بولی ۔۔
جھوٹ مت بولو ! اس نے آنکھیں دکھائیں ۔۔
ایک انکل نے آفر کی تو منع نہیں کر پائی پاپا !
وہ معصوم سی صورت بنانے لگی ۔۔
تمہیں منع کیا ہے بیٹا ۔۔۔اجنبیوں سے بات نہیں کرتے ،نہ چیزیں لے کھاتے ہیں ! وہ سختی سے تائید کرنے لگا ۔۔
لیکن آئسکریم تو کھا سکتے ہیں نا بابا !
اس نے کمزور سی دلیل دی
آئسکریم بھی نہیں کھا سکتے !
دائم نے جتا کر کہا اور اسے گاڑی میں بٹھانے لگا ۔۔
اوکے بابا !
ایزی نے خفگی کا اظہار کیا ۔۔
ویسے کون تھا وہ؟؟ جس نے تمہیں آئسکریم دی ؟
وہ گاڑی گھماتا ہوا سرسری سا پوچھنے لگا ۔۔۔
ایزی نے ونڈو کے باہر جھانکا تو وہی انکل مسکراتے ہوئے لبوں پر انگلی رکھ کر اسے خاموش رہنے اشارہ کرنے لگے ۔۔۔
اسے انکل کا سرپرائز نہیں خراب کرنا چائیئے تھا ۔۔۔
پتا نہیں کون تھا !
وہ ونڈو کے باہر جھانکتی مسکرائی ۔۔
اگلی بار ایسا نہ ہو ایزی !
وہ مصروف انداز میں بولا
انکے جاتے ہی اُس شخص نے تیزی سے موبائل پر کوئی نمبر ڈائل کیا ۔۔۔
تمہارا شک سہی تھا ، یہ وہی انٹلیجنس آفیسر ہے جس نے قاسم کو پکڑوایا ۔۔۔ اُسکی بیٹی ہمارے بہت سے کام کروا سکتی ہے ! اور ہاں ؟؟ ایک شفق نامی لڑکی کو بھی تلاش کرو ! وہ بھی کام آ سکتی ہے ہمارے…
وہ چلتا ہوا لوگوں کی بھیڑ میں غائب ہوگیا ۔۔
______________________________________
چیف؟؟؟ چیف؟؟
ہمیں اس شخص کا پتا چل گیا ہے۔۔
کس شخص کا گلشن؟؟؟
اسکے سنسنی خیز انداز پر وہ چونکی اور فائل بند کرکے اسکی جانب متوجہ ہوئی ۔۔
وہی بارڈر والا شخص ، اور جو اس دن آپ کو ٹریفک سگنل پر ملا تھا۔۔
ہاں تو !!! نایا نے بیزاری بھنویں اچکائیں
جو پلیٹ نمبر آپ نے نوٹ کروایا تھا ہم نے اس گاڑی کے اصل مالک کو ڈھونڈ نکالا ہے !
گلشن نے فاتحانہ انداز میں فائل اسکی جانب بڑھائی ۔۔
نایا پرامید نہیں تھی پھر بھی سرسری سی نگاہ فائل سے گزار کر اسے واپس تھمائی ۔۔
ویلڈن گلشن !
وہ فائل اسے تھما کر واپس مڑی ۔۔
کیا مطلب ؟؟؟ ہم اسے حراست میں نہیں لے رہے؟؟ تفتیش نہیں ہوگی اس بارے میں ؟
گلشن الجھ کر سوال کرنے لگی
تفتیش کریں گے گلشن ، لیکن اس وقت نہیں مجھے بہت ضروری کام ہے میں مصروف ہوں !
وہ اسے ٹوکنے لگی ۔۔
لیکن چیف ہوسکتا ہے وہ قاسم کا ساتھی ہو ہمیں اسے فورا گرفتار کرنا چاہیئے !
گلشن استفسار کرنے لگی ۔۔
ٹھیک ہے گلشن ٹھیک ہے ، چلو میں آتی ہوں !
وہ جھلا کر بولی ۔۔
اور ٹیم ؟؟
گلشن جھجک کر پوچھنے لگی ۔۔
کیسی ٹیم گلشن ؟ تم سٹپٹا گئی ہو کیا ! ہم دونوں جائیں گے صرف !
وہ اسے ٹوکتی ہوئی ۔۔اپنی ریوالور سنبھال کر اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔
____________________________________
یہ آگ کبھی اورینج کبھی بلو تو کبھی ریڈ کیوں ہوتی ہے پاپا ؟؟؟
وہ بغور آگ کو گھورتی ہوئی پوچھنے لگی ۔۔
دائم جو سبزیاں چوپ کر رہا تھا مڑ کر اسے دیکھا ۔۔
وہ اکثر و بیشتر انتہائی عجیب سوالات کیا کرتی تھی ۔۔ کبھی کبھی تو وہ بھی لاجواب ہوجاتا ۔۔
مگر اسکی غیر معمولی ذہانت وراثتی تھی۔۔ وہ چیزوں کو بہت باریک سے نوٹ کرتی تھی ۔۔
بتائیں ناااا !
وہ کرسی سے اچھل کر اتری اور نوٹ بک پینسل لے آئی ۔۔۔جہاں اس نے ایسے کئی سوالات کے جواب لکھ رکھے تھے ۔۔۔
وہ اس لئے ۔۔ کیونکہ جب ٹمپریچر بہت لو ہوتا ہے ،تقریبا 60-92 c° کے قریب تو آگ لال ہوجاتی ہے
جب اورینج رنگ کی آگ ہوجائے تو ٹمپریچر نارمل ہوتا ہے لگ بھگ 145-186 c°
جب ٹمپریچر کبھی بڑھے اور کم ہوجائے تو آگ لال ہوجاتی ہے 100-345°c
اسکے ہاتھ تیزی سے کٹنگ بورڈ پر چل رہے تھے ۔۔۔
اور جب بہتتتتتت زیادہ ٹمپریچر ہو تو ؟؟؟
ایزی نے سنسنی انداز میں آنکھیں پھیلاتے ہوئے پوچھا ۔۔۔
تو گرین کلر !
وہ سبزیاں پین میں ڈالنے لگا ۔۔۔
اور ٹمپریچر ؟
اس نے بال جھٹکتے ہوئے پینسل لبوں میں دبائی ۔۔۔
500-700
وہ کہہ کر مصروف نظر آنے لگا ۔۔
ہاہہہہہہہ اتنا زیادہ پاپا!!
اسکا حیرت سے منہ کھل گیا۔۔
اس کے انداز پر دائم نے مسکرا کر سر جھٹکا ۔۔
بلکل جب سورج بہت زیادہ گرم ہوگا تو اسکا رنگ بھی اسی طرح گرین ہوگا !
لیکن میں نے تو کبھی نہیں دیکھا ؟؟؟
وہ شکی نگاہوں سے دیکھنے لگی ۔۔
کیونکہ سورج کو دیکھنے سے آنکھیں چندھیا جاتی ہیں ! ویسے بھی سورج کبھی اتنا گرم ہوا ہی نہیں تو تم کیسے دیکھو گی !
وہ ناک چڑھا کر بولا ۔۔۔
مگر پاپا ۔۔۔۔
اگر مگر کچھ نہیں ایزی ۔۔ چلو … منہ ہاتھ دھو کر آئو اور ڈائننگ میں پاپا کی ہیلپ کرو !
وہ اسے کرسی سے اتار کر کچن کے دروازے پر چھوڑ آیا ۔۔۔
اسکے بعد ہم ڈزنی (disney) مووی دیکھیں گے
ٹھیک ہے نا؟؟
وہ الٹے سیدھے ہاتھ منہ پر مار کر فورا سے آئی ۔۔
ہاں بس یہی کام رہ گیا ہے
! وہ جھنجھلایا ۔۔
پر آپ نے کہا تھا پاپا !
وہ روہانسی ہونے لگی ۔۔۔
دائم کے حرکت کرتے ہاتھ رکے ۔۔
آج نہیں پھر کسی دن مجھے آج کام ہے بیٹا !
اس نے رسان سے سمجھایا ۔۔
پر مجھے آج ہی دیکھنی ہے !
وہ منہ پھلانے لگی ۔۔
دائم نے ضبط سے لب بھینچے ۔۔کبھی کبھی تو وہ بہت اکتا جاتا تھا ۔۔۔ لیکن اس معصوم کا بھی کوئی نہیں قصور تھا ۔۔ایسا نہیں تھا کہ وہ ایزی سے محبت نہیں کرتا تھا ۔۔۔
وہ اسے اپنی جان سے زیادہ چاہتا تھا ۔۔
بے شک ایزی کی پیدائش اسکی آنکھوں کے سامنے نہیں ہوئی تھی ۔۔۔ وہ اس سارے عرصے مشن پر تھا ۔۔
مگر جب اسے معلوم ہوا کہ وہ باپ بننے والا ہے ایک عجب سی سرشاری اسکے جسم میں سرائیت کرگئی ۔۔
اس احساس کو زبان دینا بہت مشکل تھا۔۔
مگر اس کی ازدواجی زندگی میں جو بھی ہوا بہت غلط ہوا۔۔ نہیں ہونا چاہئیے تھا۔۔
میاں بیوی کے رشتے کی بنیاد کی یقین پر قائم ہوتی ہے۔۔
جب یقین ہی نہ رہے تو لاکھ انسان چاہے گھسیٹ لے رشتے کو وہ زیادہ دیر نہیں چل سکتا ۔۔ نوین نے ہاتھ چھڑانا چاہا تو اس نے بھی خاموشی سے چھوڑ دیا ۔۔ اس میں بھی خودداری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔۔
نوین نے دوسری شادی کرلی تھی ۔۔۔ شاید
اور وہ وہیں کا وہی تھا ۔۔۔ لیکن جیسا بھی تھا خوش تھا ۔۔۔وہ اپنی چوائسس کی وجہ سے ‘سنگل فادر’ تھا شادی نہ کرنا اسکی چوائس تھی ۔۔مجبوری نہیں
اور وہ خوش تھا اپنی بیٹی کے ساتھ ۔۔مگر جاب پر ہنڈرڈ پرسنٹ دینے کے بعد اسی انرجی کے ساتھ اپنی بیٹی کو وقت دینا کٹھن ترین مرحلہ تھا ۔۔
یہی وجہ تھی وہ کبھی کبھی جھنجھلا جاتا تھا ۔۔۔
ایزی آنکھوں میں آنسو جھلملاتے دیکھ کر وہ تڑپ اٹھا ۔۔۔
اوہ۔۔!! پرنسس…میں تو مزاق کر رہا تھا ۔۔۔!!
اس نے نرمی سے اسکے گال سہلانے لگا ۔۔
چلو پہلے کھانا کھا لیتے ہیں پھر تمہاری فیورٹ ڈزنی مووی دیکھیں گے ! ٹھیک ہے ؟؟؟
اسے بہلانے کر۔۔۔ کرسی پر بٹھایا اور کھانا صٙرف کرنے لگا ۔۔
کھانا کھلانے کے بعد اسکا ہوم ورک کروایا ۔۔
اور پاپ کارن کا پیالا لیئے صوفے پر آ بیٹھا ۔۔
ڈریگن والی دیکھیں یا راپنزل ؟؟
اسکی خوشی دیدنی تھی ۔۔۔
پتا نہیں ، جو تم کہو !
وہ کندھے اچکا کر کہتا پوپ کارن منہ میں اچھالنے لگا ۔۔۔ وہ یہ فلمیں کوئی ہزاروں دفعہ دیکھ چکے تھے مگر جو اسکی بیٹی کو خوشی دے وہ سب کرنے کو تیار تھا ۔۔۔
ایزی فلم چلانے کرنے کے بعد اسکی جھولی میں آدھمکی !
وہ نرمی سے اسکے بال سہلانے لگا ۔۔
کیا ڈریگن سچ میں ہوتے ہیں پاپا؟؟؟
وہ محویت سے آنکھیں اسکرین پرٹکائے پوچھنے لگی ۔۔
ہاں کیوں نہیں ، لیکن یہاں نہیں ، انڈونیشیا میں ہے اور صرف ایک ہی ہے !
وہ غیر توجہی سے اسکرین کو گھورتا ہوا بولا ۔۔۔
اسکا دماغ کہیں اور الجھا ہوا تھا ۔۔۔
آپ انڈونیشیا ڈریگن دیکھنے گئے تھے؟؟؟
وہ تعجب سے اسکی جانب مڑی ۔۔
اسکے سوال پر دائم ہلکا سا ہنسا !
نہیں ہم مشن پر گئے تھے!
وہ اسکے کان میں رازداری سے بولا ۔۔
مُورڈریگن تھا اسکا نام۔۔۔۔۔بہت بڑی اور خوفناک ڈریگن(چھپکلی) تھی !
ایزی کی آنکھیں ستائشی انداز میں پھیلیں ۔۔
مورڈریگن ۔۔۔
وہ زیرلب بڑبڑاتی ہوئی اسکرین میں محو ہوچکی تھی ۔۔۔دائم نے تکان نے سر صوفے کی پشت ٹکا کر آنکھیں میچ لیں ۔۔۔4/5 روز گزر چکے تھے وہ جب سے واپس آیا تھا
سویا نہیں تھا ۔۔. اب اسکے سر میں درد کی شدید ٹھیسیں اٹھ رہی تھی اور بدن تھکن سے چور تھا ۔۔۔
اس نے سر جھکا کر ایزی پر نظر ڈالی تو وہ سورہی تھی ۔۔۔ آہستگی سے اپنا ہاتھ اسکے نیچے سے نکالا اور اسے اٹھا کر اسکے کمرے میں چھوٹے سائز کے بیڈ پر لٹا آیا ۔۔۔ پیشانی پر ایک محبت بھرا بوسہ دے کر لائٹ بند کی
لائونج میں آکر ٹی وی اسکرین بجھائی اور تکیہ درست کرکے لیٹ گیا ۔۔۔
___________________________________
دائم کی ابھی ٹھیک سے آنکھ لگی بھی نہیں تھی
کہ فون چھنگھاڑنے لگا ۔۔۔
ایک پل کو اسکا دل چاہا اٹھا کر باہر پھینک دے ۔۔۔ مگر ضروری بات ہوسکتی تھی ۔۔۔
فون کان سے لگاتے ہی وہ بری طرح چونک کر اُٹھا ۔۔
کون ؟؟ کونسی آفیسر ؟؟؟
وہ کھڑکی کے پردے ہٹا کر دیکھنے لگا ۔۔۔
جہاں ایک گاڑی کی ہیڈلائٹس ابھی بجھی تھی مطلب وہ لوگ اندر آنے والے تھے۔۔ شکر ہے اسے اطلاع مل گئی ۔۔۔
اس نے ایک نظر ٹیبل پر بکھرے نوٹس اور فائلوں کو دیکھا اور پھر انہیں ۔۔۔ جو بیل پر انگلی دبا رہی تھی ۔۔
مطلولبہ مکان کے باہر گاڑی روک کر اس نے گلشن کو آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ دیا اور گن اٹھا کر کوٹ کے اندرونی حصے میں ڈالی اور مطمئن سا نفس لیکر آگے بڑھی ۔۔۔
چھوٹا مگر خوبصورت سا مکان تھا ۔۔۔
بیل پر انگلی دبا کر وہ بے چینی سے انتظار کرنے لگی ۔۔۔
اس نے دوبارہ ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ دروازہ کھلا اور عام حلیے میں کوئی شخص نمودار ہوا ۔۔۔۔
لمبی قدقامت ، چست شرٹ سے اسکا کسرتی جسم نمایاں تھا۔۔ نایا نے ہلکا سا سر بلند کیا تو ساکت رہ گئی ۔۔۔
وہی سبز رنگ آنکھیں جو اس دن اُس نقاب زدہ شخص کی تھی ۔۔۔ نیند کی خماری کے بعث سرخ پڑی ہوئی تھی وہ شاید سو رہا تھا ۔۔
جی ؟؟؟
وہ سوالیہ گویا ہوا ۔۔ چہرے پر بے زاری واضع تھی ۔۔
نایا اسکا جائزہ لینے میں اتنی محو تھی کہ سن ہی نہیں پائی ۔۔ اور تو اور وہی مرادنہ کلون کی خوشبو اس شخص سے بھی آرہی تھی ۔۔۔
آپ سے مخاطب ہوں ؟؟ محترمہ !
وہ جھنجھلایا
چیف؟؟؟
گلشن نے دبہ دبہ چلاتے ہوئے اسکا کندھا ہلایا ۔۔
نایا نے فورا سے اپنے جذبات سمیٹے اور جیب سے کارڈ نکال کر اسکی نظروں کے سامنے کیا ۔۔۔
اجازت کی زحمت کیئے بغیر وہ اندر کی جانب بڑھی ۔۔
جیسا کہ دائم نے سوچا تھا وہ اپنے شک کی تصدیق کرنے آئی تھی ۔۔۔۔
کون کون رہتا ہے اس گھر میں ؟؟؟
وہ لاپرواہی سے گھر کا جائزہ لیتی ہوئی بولی ۔۔
دائم نے ایک طویل سانس لی اور دروازہ بند کردیا ۔۔
آج سے پہلے وہ بھی لوگوں کے گھر اسی طرح کبھی چوری چھپے تو کبھی دھڑلے سے گھس جایا کرتا تھا ۔۔اور آج اس پر بھی یہ نوبت آگئی تھی ۔۔ وائے رے قسمت !
میں ، اور میری تنہائی
سنجیدگی سے جواب آیا۔۔
اسکے شاعرانہ جواب پر نایا کے لب ستائشی انداز میں پھیلے ۔۔
نام کیا ہے تمہارا ؟؟؟
جب آپ کو سب معلوم ہے آفیسر… تو فارملیٹی کیوں کر رہی ہیں؟ سیدھا مدعے کی بات پر کیوں نہیں آتی؟؟؟
دائم کے لہجے میں بلا کا اعتماد تھا ۔۔
وہ راہداری میں سائیڈ ٹیبل سے ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا ۔۔
وہ دونوں بری طرح سے چونکی ۔۔۔ گلشن کا ہاتھ ریوالور تک جاتے جاتے رکا ۔۔ جو دائم نے بخوبی نوٹ کیا ۔۔
**تاریخ کی رات کو دس بجے کے قریب کہاں تھے تم ؟؟؟
نایا پوری طرح سے اسکی جانب متوجہ ہوئی ۔۔
یہیں ، اپنے گھر اور کہاں ہوسکتا ہوں!
وہ بدستور مطمئن انداز میں بولا
کیا کر رہے تھے ؟
اسے اسکا جواب تسلی بخش نہیں لگا ۔۔وہ لفظوں سے کھیل رہا تھا ۔۔۔اگر وہ انکی آمد کے بارے میں جانتا تھا تو وہ ضرور کچھ نہ کچھ اور بھی جانتا ہوگا ۔۔۔
ڈنر پر تھا **** ریسٹورنٹ میں اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ ! اس نے ہلکا سا جتایا ۔۔۔
نایا کی نظریں مایوس لوٹ آئیں ۔۔۔ وہ یا تو سچ بول رہا تھا یا پھر صفائی سے جھوٹ ۔۔
آئی ڈی کارڈ ؟؟؟
اس نے ہاتھ بڑھایا ۔۔
دائم نے کھڑے کھڑے ہاتھ کو حرکت دے کر دراز کھینچا اور آئی ڈی کارڈ اسکی ہتھیلی پر دھرا ۔۔۔
اسکا کریمینل ریکارڈ چیک کرو ؟
وہ بڑبڑاتی ہوئی گلشن سے مخاطب ہوئی ۔۔
اور دائم کی سبز نگاہیں قدرے اکتا کر بغور اس کا جائزہ لینے لگیں ۔۔۔
وہ خاصی خوبصورت لڑکی تھی ۔۔۔ کھلتی ہوئی گلابی رنگت ، ابھرے ہوئے رخسار بھرے بھرے سے ہونٹ ۔۔چہرے کے نقوش بے حد جاذب نظر تھے ۔۔۔بلو جینز اور وائٹ شرٹ پر اس نے کوٹ پہن رکھا تھا ۔۔ گلے میں اسکارف بھی تھا
دائم کی نظر اسکی گردن پر واضع سرخ لکیر پر ٹھہر سی گئی ۔۔
کوئی جاب وغیرہ کرتے ہو ؟؟؟
اسکے متوجہ ہونے پر دائم نے نگاہیں ہٹالیں ۔۔
میرا ایک چھوٹا سا کیفے ہے !
وہ سرد لہجے میں بولا
نایا نے سر ہلاتے ہوئے اسکی آئی ڈی دوبارہ تھمائی ۔۔۔
دائم نے جان چھڑانے کے سے انداز میں ابرو اچکائے اور واپس رکھ دی ۔۔۔
میری نظر رہے گی تم پر !
حتمی نگاہ ڈال کر باہر کی جانب بڑھی ۔۔۔۔ جسکا مطلب تھا اسکا شک ابھی دور نہیں ہوا تھا ۔۔۔
لڑکیوں کی نظریں اکثر رہتیں ہیں مجھ پر !
نایا چونک کر ہلکا سا مڑی ۔۔ وہ خاموش طبع اور سنجیدہ طبیعت کا شخص واقع ہوا تھا گفتگو کے دوران ۔۔۔اس پر یہ جملے اسے عجیب لگے ۔۔۔
اللہ حافظ آفیسر !
حد درجے اکتاہٹ بھرے انداز میں کہتے ہوئے دائم نے دروازہ بند کردیا ۔۔ وہ الجھی ہوئی نظروں سے بند دروازے کو گھورتی اسکی باتوں کا مفہوم تلاش کرتی گاڑی کی جانب بڑھی ۔۔۔
___________________________________
وہ ڈائری پر جھکی کچھ لکھنے میں محو تھی کہ کب تاشا اسکے پیچھے آکھڑی ہوئی وہ نوٹ ہی نہیں کر پائی ۔۔۔
زرا دیکھوں تو سہی تم کیا لکھ رہی ہو !
تاشا نے ہوشیاری سے ڈائری جھپٹ لی ۔۔۔
لمحے کے ہزاروے حصے میں نوال کا دل کئی بار دھڑک اٹھا ۔۔
ت۔۔۔تتتا شا۔۔۔ تا شا ۔۔۔ واپس کرو میری ڈائری !
وہ حواس باختہ ہونے لگی ۔۔
ارے رکو تو سہی ۔۔ زرا میں بھی تو دیکھوں !
وہ معنی خیزی سے کہتی مسکرائی ۔۔۔ ساتھ ہی ڈائری دوسرے ہاتھ میں منتقل کی
تاشا یار واپس کرو مجھے !
وہ سٹپٹا گئی ۔۔
” اس بات کو آج دوسرا دن ہے اس نے میری طرف دیکھنا تک گوارا نہیں کیا ”
اللہ اللہ ! ایسا کون ہے جس نے تمہیں نظر انداز کردیا ۔۔۔
وہ رک کر محبت بھرے لہجے میں گوہر افشانی کے بعد دوبارہ ڈائری کی طرف متوجہ ہوئی ۔۔۔
تاشا خدارا واپس کرو ڈائری کوئی سن لے گا !!!
وہ غیر محفوظ سی ہوکر باہر جھانکتی ہوئی بولی ۔۔
مگر میں اپنے دل میں اس کو ۔۔۔
تاشاااااااا ۔۔۔
وہ روہانسی ہونے لگی ۔۔
تاشا کی آنکھوں سے چھلکتی شرارت فورا سے اڑن چھو ہوگئی ۔۔۔ اس نے ڈائری بند کی اور اسکے ہاتھ میں تھمائی ۔۔
سوری یار ۔۔۔ مجھے لگا ہم آپس میں ۔۔۔۔
آ ۔۔آئی ایم سوری !
اس نے معذرت کرلی ۔۔
نوال کی آنکھوں میں واضع خفگی تھی ۔۔۔ یوں اپنے دل کی کیفیات عیاں ہونے پر وہ خفت زدہ تھی ۔۔۔
چہرہ سرخی مائل تھا
تمہیں شرم آنی چاہیئے مجھ سے ایسی باتیں چھپاتے ہوئے؟؟
تاشا نے اسے چپ دیکھ کر اپنی حرکت کا زمہ دار اسے ٹھہرایا ۔۔
وہ ڈائری سینے سے لپٹائے بس خاموشی رہی۔۔۔
شششش۔۔ ؟؟؟ نوال !!
بتائو نا یار ؟ کون ہے وہ ؟ فاتح بھائی ہیں کیا ؟؟؟
وہ مسلسل شرارت پر آمادہ تھی ۔۔
نوال کا رنگ فق ہوا۔۔۔
نن ۔۔نہیں تو ! تمہیں ایسا کیوں لگا !
وہ بے وجہ ہی بال کان کے پیچھے اڑستی رخ موڑ گئی ۔۔
مگر سامنے بھی تاشفین تھی ۔۔وہ بندروں کی طرح اچھل کر دوسری طرف ہوئی ۔۔۔
ہے نا ؟؟؟ ہے نا؟؟ فاتح بھائی ہیں نا ؟
وہ شوخی سے کہنی مار کر بولی ۔۔ نوال نے اپنی خجالت مٹانے کی خاطر اس پر کشن کی بھرمار کردی ۔۔۔
ار ۔۔۔رےےے ۔۔۔ مار کیوں رہی ہو ۔۔چلو پتا تو چلا تمہارا دردِ دل ، تمہاری اداسی کی وجہ ، تمہارا یک طرفہ ادھورا عشق ! وہ نان اسٹاپ پھر سے شروع ہوچکی تھی ۔۔
نوال کا سرخ چہرہ اسے اور شرارت پر اکسا رہا تھا ۔۔۔
بد تمیز ! کوئی سن لے گا !
وہ اسکا منہ دبوچنے لگی ۔۔
سنتا ہے تو سن لے ، پیار کیا ہے کوئی چوری نہیں کی ۔۔۔ چھپ چھپ آہیں بھرنا کیا ۔۔۔جب پیار کیا تو ڈرنا کیا۔۔۔
وہ سریلی آواز میں بلند آواز گنگنانے لگی ۔۔.
نوال نے کینہ توز نظروں سے گھورتے ہوئے کشن اسکے منہ پر رکھ کر اسکی آواز دبائی ۔۔۔
وہ بری طرح پچھتا رہی تھی ۔۔۔
کاش وہ کہیں اور جا کر لکھ لیتی ۔۔۔
دور ہٹو ۔۔ مارو گی کیا مجھ معصوم کو !
کشن کے تلے تاشا کی دبی دبی سی چیخیں برآمد ہونے لگیں ۔۔۔
تمہارا دماغ تو نہیں چل گیا نوال ؟یہ کیا کر رہی ہو؟؟ پھپھو کے کمرے میں قدم رکھتے ہی وہ کرنٹ کھا کر دور ہٹی ۔۔
ہم مزاق کر رہے تھے امی !
اس نے اپنا حلیہ درست کیا ۔۔
شکر ہے پھپھو آپ گئیں ۔۔ ورنہ یہ تو مزاق مزاق میں میری جان ہی لے لیتی !
تاشا ہانپتی ہوئی سیدھی ہوئی ۔۔
ہوش کے ناخن لو تم دونوں اب بچی نہیں رہی ۔۔۔ چلو اٹھو دونوں روشن رومیشا کا ہاتھ بٹائو کچن میں آج رات کے کھانے پر کچھ مہمان آرہے ہیں !
وہ تحکمانہ انداز میں کہہ کر چلی گئی ۔۔
اور تاشا کے اندر ابھرتے سوال وہیں دم توڑ گئے ۔۔۔
ایسے کونسے مہمان آرہے ہیں ؟؟
وہ صوفے سے اترتی سنسنی خیز انداز میں بولی ۔۔
نوال نے لا علمی سے کندھے اچکائے ۔۔
آئو زرا پتا تو کریں ۔۔
وہ نئی شرارت پر گامزن ہونے والی تھی ۔۔۔اسے آنکھ دبا کر کہتی کچن کی جانب چلی گئی ۔۔
وہ بھی ڈائری الماری کے کبڈ میں رکھے کپڑوں کے نیچے رکھ کر سکون کی سانس لیتی کچن میں چلی آئی ۔۔.
کون کون سے کھانوں کی تیاری ہورہی ہے لڑکیو؟ اور کونسے رہتے ہیں ؟ میرے لئے کیا کام ہے !
نوال کچن میں داخل ہوتی ہوئی بولی ۔۔
روشن اور رومیشا کھانا بنانے میں مصروف تھیں ۔۔
جبکے تاشا ہمیشہ کی طرح ادھر اُدھر کی ہانکنے میں ۔۔
ویسے کون سے مہمان آرہے ہیں ؟؟؟
تاشا دل میں اٹھتے سوالوں کو روک نہیں پائی ۔۔
مجھے خفیہ اداروں سے پتا چلا ہے کہ بہت خاص مہمان آرہے ہیں ! گیس واٹ؟؟؟
روشن اپنے مخصوص پر تجسس انداز میں بولی ۔۔
واہ روشن تمہیں تو انٹیلیجنس ایجنسی میں ہونا چاہیئے ۔۔کیا جاسوسی کرتی ہو !!جلدی سے بتائو کون آرہا ہے؟؟
تاشا نے بے تابی سے پوچھا ۔۔
اپنی نوال کو دیکھنے کچھ لوگ آرہے ہیں !
اسکے لہجے میں اپنائیت ہی اپنائیت تھی
جبکے بال لپٹتی نوال کی گرفت کمزور پڑی اور بال کندھوں پر بکھرتے چلے گئے ۔۔ اسکے اعصاب کی مانند ۔۔۔
اس نے شاکی نگاہوں سے تاشا کو دیکھا ۔۔
جو اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔۔
اسکی آنکھیں سرخ پڑنے لگیں ۔۔۔رگوں میں خون کی گردش معمول سے زیادہ بڑھ گئی ۔۔ وہ بھاگتی ہوئی کچن سے نکلی ۔۔۔
اسے کیا ہوا ؟؟ روشن کو تعجب ہونے لگا ۔۔
ش۔۔۔شرما گئی ہوگی ۔۔ تاشا بوکھلائی کر رہ گئی
______________________________
نوال کو دیکھنے لوگ آنے والے تھے رات کے کھانے پر پورے گھر اسی تیاریوں جُٹا ہوا تھا ۔۔ کچھ اداس اور کچھ پریشان سی نوال ان سب سے پرے باغات کے قریب بنے اونچے سے ٹِری(tree) ہائوس کی سیڑھیوں پر براجمان پیر جھلاتی خلائوں کو گھور رہی تھی ۔۔۔
تاشا کا دل بھر آیا ۔۔۔
کوئی اور وقت ہوتا تو وہ خوشی سے پورا گھر سر پہ اٹھا لیتی کہ نوال کے لئے رشتہ آیا ہے ۔۔۔
اب جبکہ فاتح والا انکشاف اسکے سامنے ہوا تھا وہ بھی پریشان سی ہوگئی تھی ۔۔۔
فاتح بھائی اسے پسند نہیں کرتے تھے وہ یہ بات بھی جانتی تھی اگر بابا یا ماما کے دل میں نوال کو بہو بنانے کا خیال تھا بھی تو فاتح کسی صورت جذبات اور بلیکملنگ میں آنے والا لڑکا نہیں تھا ۔۔۔
اتنی اداس کیوں بیٹھی ہو یار؟ تمہیں تو خوش ہونا چاہیئے کہ تمہارے لیئے رشتہ آیا ہے ، اور مجھے دیکھو کیا کمی ہے بھلا مجھ میں ؟
مگر مجال ہے کسی کمبخت کا پرپوزل آیا ہو ۔۔ نہ ہی کسی یونیورسٹی فیلو نے کبھی پرپوز کیا ۔۔ سب یہی کہتے پائے جاتے ہیں ، تاشا تم بہت فنی ہو یار ، تاشا تم میری اچھی دوست ہو، تاشا تم سے بات کرکے موڈ فریش ہوجاتا ہے
مجال ہے کسی کمینے نے یہ کہا ہو کہ تاشا تم سے شادی کرکے میری زندگی سنور جائے گی پلیز بی مائے لاِئف پارٹنر !
تاشا نے اسے بولنے پر اکسایا ۔۔
اسکی اتنی لمبی روداد پر وہ اداسی سے ہلکا سا مسکرائی ۔۔
نوال یار بس بھی کرو ، تمہیں پتا بھی ہے اس گھر میں سب عظیم روحیں رہتی ہیں ، کسی کو زرا سا تنگ کیا کردو ۔۔ فورا سے کہتے ‘تاشا انسان بنو ‘ جیسے میں کوئی خلائی مخلوق ہوں !
وہ نڈھال سی ہوکر اسکے قریب بیٹھ گئی ۔۔
ایک تم ہی تو ہو ۔۔ میری دوست ، میری جان ،
اس نے بہت اپنائیت سے کہا تو نوال کی آنکھیں بھرا گئیں ۔۔۔
ارے۔۔۔!!! رو کیوں رہی ہو ؟؟
تاشا بوکھلا کر رہ گئی ۔۔ وہ ایک دم پریشانی سی ہونے لگی
کچھ نہیں بس بابا کی یاد آگئی تھی!
نوال نے فورا اپنی سرخ ہوتی ناک رگڑی ۔۔
یہ کیسی بات کردی تم نے ؟ کیا بابا ماما نصیبہ پھپھو ہم سب تمہارا کم خیال رکھتے ہیں جو تم آنسو بہا رہی ہو !
تاشا نے خفگی سے گھورا
تم نہیں سمجھو گی تاشا ۔۔ کچھ رشتے ایسے ہوتے ہیں جن کمیوں کو کوئی پورا نہیں کر سکتا !
اسکا گلا رندھا ۔۔
نہ جانے کیوں بات بے بات آنسو نکل پڑے تھے ۔۔ شاید فاتح کی بے نیاز نگاہیں ، لاپرواہ انداز کے سبب
مگر وہ تو ہمیشہ سے ہی ایسا تھا ۔۔ پھر یہ سب اسے اب کیوں محسوس ہورہا تھا ۔۔ شاید وہ اس سے شدید محبت کرنے لگی تھی ۔۔ پہلے سے بھی زیادہ
اب جب رشتے کی بات چل پڑی تھی تو دوری کے احساس سے اسکی جان نکل رہی تھی ۔۔ وہ تو تھی بھی حساس اور معصوم سی ۔۔۔
تاشا اسکی بات سے اکتفا کرتی تھی سو خاموش رہی ۔۔۔
اچھا اب بس بھی کرو رونا ۔۔ اللہ بہتر کرے گا ، ابھی تو صرف رشتہ آیا ہے کیا پتا آگے کیا ہو ؟ مما بابا نصیبہ پھپھو۔۔ سب دیکھ بھال کر ہی ہاں کریں گے !
تاشا اسکا دل بہلانے لگی ۔۔
فاتح بھائی کی جانب سے اسے امید دلانا بے وقوفی تھی ۔۔۔ وہ اپنی من مرضی کا مالک تھا ۔۔ اگر اسکا من نہ ہوتا تو کوئی بھی اسے کنوینس نہیں کر سکتا تھا ۔۔۔
اسکی بات پر ایک بار پھر سے نوال کی آنکھوں میں آنسو جھلجھلانے لگے ۔۔۔
چہ ۔۔ رو تو مت یار ! بیکار میں آنسو بہا رہی ہو !
تاشا نے ہاتھ بڑھا اپنائیت سے اسکے آندو پونچھے ۔۔۔
تم لوگ اپنا یہ اموشنل ڈراما کہیں اور جا کر کرلو ،
کمرے میں نیٹ کا ایشو ہے اسلئے مجھے یہاں کچھ کام کرنا ہے !
وہ اپنے مخصوص سرد اور کٹیلے انداز میں بولا ۔۔
اسکی آواز پر وہ دونوں چونک کر مڑی ۔۔۔
وہ لیپ ٹاپ ہاتھ میں لئے انہی کی جانب متوجہ تھا ۔۔۔
فاتح کی نظریں نوال پر ٹھہر سی گئیں ۔۔
پرپل رنگ کے پلین سوٹ میں ملبوس ہم رنگ پھولوں والا دوپٹہ کندھوں پر پھیلائے اسکی خوبصورت رنگت بہت نمایاں تھی۔۔۔ فاتح کو نظریں ہٹانا مشکل لگا ۔۔۔
رنگ حد درجہ سرخ پڑا ہوا ،
اپنے سرخ ہونٹوں کو اضطراری کیفیت میں کچلتی اس کے دل کے تاروں پر عجب طریقے سے ہاتھ مار گئی ۔۔۔
وہ نگاہیں پھیر گیا ۔۔ اسکے آج رشتے والے آرہے تھے فاتح کے کانوں میں بھی یہ بات پڑ چکی تھی ۔۔۔ ویسے بھی وہ اسکی باتیں بھولا نہیں تھا ۔۔۔
جائو بھی اب ۔۔۔ وہ قدرے اکتا کر بولا۔۔
جارہے ہیں بھئی…چلو نوال اس بے مروت کو بیٹھنے دو اکیلے ،،
تاشا ناراضگی کا بر ملا اظہار کرتی تیزی سے سیڑھیاں اترگئی ۔۔۔ نوال بھی اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔
اب تو تمہیں تمہارا پرنس چارمنگ ملنے والا ہے بلکل ویسا ہی جیسا تم نے خوابوں میں دیکھا ہوگا ،
تو یہ مگرمچھ کے آنسو بہانے کا کیا مقصد ہے؟؟؟
وہ اسکے قریب سے گزر رہی تھی جب فاتح کے تنزیہ اور کاٹدار جملے نوال کے کانوں سے ٹکرائے ۔۔
اسکی آنکھوں میں مرچیاں سی بھرنے لگی ۔۔
وہ اسکے کہے گئے جملے اسی پر لوٹا رہا تھا ۔۔ مگر انداز انتہائی زہریلا تھا ۔۔
فاتح کو ایک کمینی سی خوشی محسوس ہوئی
اسکے آنسو دیکھ کر ۔۔۔
نوال غصیلی اور خفگی سے بھرپور نگاہ اس پر ڈالی ۔۔
نوال کا دل کیا اسکا خوبصورت چہرہ نوچ ڈالے ۔۔
فاتح کے اندر اسکے تیور یک دم غصیلے جذبات بھڑکا گئے ۔۔۔ اس نے فورا سے اسکا نازک کلائی پہ انگلیاں پیوست کیں ۔۔ یہ تیور کس کو دکھا رہی ہو ؟؟ ہیں؟
تم ہی نے کہا تھا نا وہ سب نوال بی بی بڑی جلدی بھول گئی؟
اسکا لہجہ انتہائی سفاک تھا ۔۔
نوال کی آنکھوں میں آنسو جھلملائے.۔۔
اسکی گلابی آنکھوں نے فاتح کے دل میں ارتعاش سا پیدا کردیا ۔۔۔
م۔۔میراا ہاتھ ۔۔!!
نوال کا دل بری طرح سے دکھا تھا اسکے انداز پر ۔۔
اس نے صرف مزاق میں ایسا کہا تھا۔۔ اسے کیا معلوم تھا وہ سن لے گا۔۔۔
اسکی گہری نگاہوں پر نوال کی دھڑکنیں منتشر ہونے لگیں ۔۔ میرا ہاتھ چھوڑ دو فاتح پلیز…
اس نے کسمسا کر اپنے کلائی کو حرکت دی ۔۔۔
فاتح نے اپنے جذبات سے گھبرا کر فورا اسکی کلائی چھوڑ دی ۔۔۔ وہ تیزی سے سیڑھیاں اترتی بڑا سا صحن پار کرکے گھر کی راہداریوں کو عبور کرتی اپنے کمرے میں چلی گئی ۔۔
فاتح کی نظروں سے بہت دور تک اسکا پیچھا کیا ۔۔
وہ بھی وہی تھا اور نوال بھی ۔۔
کچھ بھی تو نیا نہیں تھا ۔۔ پھر یہ جذبات ۔۔۔ !!!
اسے پریشانی مبتلا کر گئے۔۔۔
کاوشیں فرہاد احمد فگار کیں
فرہاداحمد فگار کے بارے میں کیا کہوں کہ میں اسے کب سے جانتی ہوں کیوں کہ جاننے کا دعوا مشکل...