(Last Updated On: دسمبر 22, 2022)
یوم اقبال کے موقع پر توشہ خانہ حضور نظام کی طرف سے ، جو صاحب صدر اعظم کے ماتحت ہے ایک ہزار روپے کا چیک بطور تواضع وصول ہونے پر تھا یہ اللہ کا فرماں کہ شکوہ پرویز دو قلندر کو کہ ہیں اس میں ملوکانہ صفات مجھ سے فرمایا کہ لے، اور شہنشاہی کر حسن تدبیر سے دے آنی و فانی کو ثبات میں تو اس بار امانت کو اٹھاتا سر دوش کام درویش میں ہر تلخ ہے مانند نبات غیرت فقر مگر کر نہ سکی اس کو قبول جب کہا اس نے یہ ہے میری خدائی کی زکات! حسین احمد عجم ہنوز نداند رموز دیں، ورنہ ز دیوبند حسین احمد! ایں چہ بوالعجبی است سرود بر سر منبر کہ ملت از وطن است چہ بے خبر ز مقام محمد عربی است بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست اگر بہ او نرسیدی ، تمام بولہبی است حضرت انسان جہاں میں دانش و بینش کی ہے کس درجہ ارزانی کوئی شے چھپ نہیں سکتی کہ یہ عالم ہے نورانی کوئی دیکھے تو ہے باریک فطرت کا حجاب اتنا نمایاں ہیں فرشتوں کے تبسم ہائے پنہانی یہ دنیا دعوت دیدار ہے فرزند آدم کو کہ ہر مستور کو بخشا گیا ہے ذوق عریانی یہی فرزند آدم ہے کہ جس کے اشک خونیں سے کیا ہے حضرت یزداں نے دریاؤں کو طوفانی فلک کو کیا خبر یہ خاکداں کس کا نشیمن ہے غرض انجم سے ہے کس کے شبستاں کی نگہبانی اگر مقصود کل میں ہوں تو مجھ سے ماورا کیا ہے مرے ہنگامہ ہائے نو بہ نو کی انتہا کیا ہے؟